اسکردو کی جنتیں ۔۔ منٹوکھا میں من کھوٹا ۔۔۔ بھیگا بھیگا ہنزہ

دسواں دن
اسکردو کی جنت ۔۔۔ ژوق نالہ ۔۔۔ اپرکچورا جھیل
  صبح ناشتہ کمرے میں ہی کیا۔سوا نو بجے کے بعد جیپ میں شنگریلا کے لئے روانہ ہو گئے۔جیپ اچھی اور آرام دہ تھی۔شنگریلا تک تو خیر سڑک بھی خاصی بہتر تھی۔میں اپنے موبائل کے جی پی ایس پر شنگریلا کی طرف جاتے راستے کو دیکھنے میں منہمک تھا کہ اچانک جیپ رک گئی۔ڈرائیور کے اس طرح اچانک سڑک کنارے جیپ روک دینے پر میں چونک پڑا۔نظریں اٹھائیں تو میدانی علاقے کے درمیان سے گزرتی سڑک کے دونوں اطراف قطاردر قطار خوبصورت درخت لگے تھے۔اریب قریب کوئی ایسا خطرناک پہاڑ یا چٹان نہ تھی کہ کسی بھی قسم کی لینڈ سلائیڈنگ کا کوئی خدشہ ہوتا۔ جیپ کے رکنے کا اصل سبب ہمارے جیپ ڈرائیور کا جذبہ مہمان نوازی تھا۔سڑک کنارے درخت کی چھائوں میں کھڑے ایک چیری فروش سے تازہ اور لذیذ چیریاں خرید کر اس نے ہمارےہاتھوں میں تھما دیں۔ اس کی محبت اور خلوص نے چیریوں کی لذت، تازگی اور مٹھاس کو دو چند کر دیا تھا۔شمالی علاقوں کے دلکش نظاروں کے ساتھ ساتھ یہاں کے باسیوں کی بے لوث محبت اور بےغرض پیارکی روح کی گہرائیوں تک اتر جانے والی ٹھنڈک اور مٹھاس اتنی ناقابل فراموش اور یادگار ہوتی ہے کہ ہمارے شہروں میں روز بروز بڑھتی نفسانفسی اور خود غرضی کے حبس میں جب بھی سانسیں رکنے اور دمگھٹنےکا احساس شدت اختیار کرتا ہے تو یہ علاقے ہمیں پکارتے ہیں ،قدم خود بخود ان کی سمت اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ہمارے ہاتھوں میں موجود یہ سرخ سرخ انمول چیریاں ہمارے احساس پر چھائی گھٹن کو دور اور ہماری بوجھل سانسوں کو بحال کر کے ہمیں تازگی بخشتی تھیں۔صبح کی خوشگوار ٹھنڈک میں حسین راہوں پر سفر کرتے ہم 10بجے کے قریب شنگریلا کی جنت تک پہنچ گئے۔ شنگریلا کا اصل حسن تو قدرت کا عطا کردہ ہے لیکن اس کی اضافی تزئین و آرائش شنگریلا کی انتظامیہ نے بھی کی ہے، زیریں کچورا میں بسنے والی اس حسینہ کے لب و رخسار کو سرخی اور غازہ لگا کر مزید نکھار دیا گیا ہے۔اس اضافی  آرائش اور نکھار کی قیمت ہم  نےاس جنت میں داخلے کی فیس ادا کرکےچکائی۔لیکن یہ چھوٹی سی قیمت بہرحال شنگریلا کے انتہائی دلکش مناظر اور خوبصورتی کے سامنے کچھ نہ ہونے کے برابر تھی۔ جیپ ڈرائیور نے ہمیں کہا کہ وہ پارکنگ ایریا میں ہی رک کر ہمارا انتظار کرے گا۔ اپنے گزشتہ دونوں سفروں کے دوران بھی ہم شنگریلا آ چکے تھے۔ خوبصورتی اورحسن اس چھوٹی سی جنت میں چاروں طرف بکھرا ہوا تھا۔ دبیز قالینوں جیسے سبزہ زار، جن میں جا بجا سجی ہوئی قطار در قطار خوش رنگ پھولوں کی کیاریاں اور خوبصورت وضع قطع کے حامل درخت۔سونے پر سہاگہ کہ چاروں طرف پھیلے سبزہ زاروں کے بیچوں بیچ شفاف آئینے کی مانندپھیلی ہوئی طلسماتی جھیل۔جس کے تین اطراف سیاحوں کے قیام کے لئے بنائے گئے آرام دہ اور حسین کاٹیجز اور ان کے عقب میں نظر آتےبرف پوش پہاڑوں کا عکس جھیل کے آئینے میں اتر کر ٹہرتا نہ تھا ،ہماری نظروں سے ہوتا ہوا سیدھا دل میں گھستا اور روح میں بستا تھا۔دائیں طرف سبزہ زار کے ساتھ جھیل کے کنارے کنارے چلتی خوبصورت روش کے آگے چینی طرز تعمیر کے مطابق بنا شنگریلا کا سرخ چھتوں والا بڑا سا دلکش ڈائننگ ہال۔ہم نے  پارکنگ ایریا کے قریب واقع فش فارم کی طرف جاتے نالے کی چھوٹی سی پلیا سے گزر کر پہلے جھیل کے بائیں طرف موجود سبزہ زاروں کا رخ کیا۔ رنگ برنگے پھولوں سے سجے پودوں اور خوبصورتی سے تراشے گئے درختوں کے ساتھ ساتھ گھومتے پھرتے ہم کاٹیجزکے پاس جا نکلے جن میں سے کچھ میں یہاں سیر کیلئے آنے والی فیمیلیز قیام پذیر تھیں۔

















  کچھ وقت اس حصے میں گزار کر ہم جھیل کے دائیں طرف آگئے۔شنگریلا ہوٹل کی سرخ چھتوں والی خوبصورت عمارتوں سے پرے بلند وبالا پہاڑوں کی برف پوش چوٹیوں پر ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے اور ہم اسکردو کی اس جنت کی خوبصورتی اور مسحور کن حسن میں کھوئے سبزہ زاروں میں گھومتے پھرتے، اپنی پرانی یادوں کو تازہ کرتے اور ان حسین مناظر کو کیمرے کی آنکھ سے بھی محفوظ کرتے جاتے تھے۔ کہیں سرسبز اور گھنی بیلیں کسی عمارت کی دیواروں پر اس طرح چڑھی نظر آتی تھیں کہ گویا یہ خوبصورت بیلیں درختوں کی طرح   بلند ہو کر دیواروں کا روپ دھا ر گئی ہوں۔جھیل کنارے لگی ریلنگ  کے پاس شفاف پانی میں کھڑی خوش رنگ کشتیاں ان نظاروں کو حسین سے حسین تر بناتی تھیں۔ ہوٹل کی خوبصورت مرکزی عمارتوں کے قریب سبزہ زار کے درمیان ہوائی جہازکے ماڈل میں بنائے گئے کیفے کے قریب رکھی کرسیوں پر بیٹھ کر ہم نے کچھ دیر آرام کیا اور پھر قریب ہی کچھ بلندی پر موجود درختوں کے حسین جھنڈ کی طرف بڑھ گئے۔سبزہ زاروں کی ڈھلانوں سے اتر کر قریب ہی موجود ایک خوبصورت سے گوشے میں لگے چیری کے درختوں تک جا پہنچے ۔درختوں میں لگی گلابی اور سرخ چیریاں انتہائی دلکش دکھائی دیتی تھیں۔ در حقیقت شنگریلا کی یہ جنت قدرت کے تخلیق کردہ  ایسے انمول ہیرے کی مانند ہےجس کو اس خوبصورتی اور مہارت سے تراشا گیا ہے کہ اس کی خوبصورتی اور حسن کی چمک دمک سیاح کی آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے اور وہ یہاں کی سیر کے دوران مناظر کی حسن میں ایسا کھو جاتا ہے کہ وقت کے گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ یہی ہمارے ساتھ بھی ہوا ، دو گھنٹے کس طرح پر لگا کر اڑ گئے ، کچھ پتہ ہی نہ چلا۔
   ہم واپسی کے ارادے سے آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے پارکنگ ایریا کی طرف جاتے تھے کہ یہاں قیام پذیر کسی فیملی کے ساتھ آیا ہوا دس بارہ سال کی عمرکا ایک لڑکا دور سے دوڑتا، ہانپتا کانپتا ہمارے پاس پہنچا۔ 
" اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ دونوں کی ایک تصویر لے لوں ؟ "
" کیوں بھئی خیر تو ہے ؟"
میں نے کچھ حیرانی سے مسکراتے ہوئے دریافت کیا۔
"دراصل آپ دونوں یہاں گھومتے پھرتے مجھے بہت کیوٹ لگے، صرف ایک تصویر "
اس کے اصرار میں معصومیت اور التجا تھی۔میں نے اپنا اور ہم سفر کا بغور جائزہ لیا کہ ہم اس کی نظروں میں کیوٹ کیوں قرار پائے۔ کچھ سمجھ نہ آیا کہ ہم میں یہ کیوٹ پن آخر اسے کہاں نظر آ گیا۔ بچہ البتہ بہت کیوٹ تھا ۔ ہم اس کی اس کیوٹ التجا کو ٹھکرانے کی ہمت نہ کر سکے۔ اپنے آئی پیڈ یا ٹیبلٹ سے اس نے ہماری ایک تصویر لی اوربڑی محبت سے ہمارا شکریہ ادا کرکے جس طرح تیزی سے دوڑتا ہم تک پہنچا تھا اسی طرح بھاگتا ہوا واپس چلا گیا۔ سچی بات ہے ہم دل ہی دل میں خوشی سے نہال تھے کہ آج ہمیں اپنے کیوٹ ہونے کا پتہ چل گیا تھا ۔ آج سے قبل اس  چونکا دینے والی خبر سے ہم بے خبر تھے۔ پارکنگ ایریا میں جیپ ڈرائیور ہمارا منتظر تھا۔





















 2004 میں قاسم نسیم کے بھائیوں کے ہمراہ ۔۔
  1988 میں بیٹی اور ہمسفر کے ہمراہ ۔۔



شنگریلا سے نکلے تو ژوق نالے اور اپر کچورا کے لئے دائیں طرف جانے والی سڑک آہستہ آہستہ بلند ہوتی گئی۔ہمارے دائیں طرف نشیب میں شنگریلا کی حسین وادی سڑک کے ساتھ لگے درختوں کی اوٹ میں تھی اورکبھی کبھی سرسبزدرختوں کی لہلہاتی ٹہنیوں کے جھروکوں سے اپنی جھلک دکھلا جاتی تھی۔ دائیں طرف لگے ہوئے  درختوں کے بیچ کا فاصلہ ذرا بڑھ جاتا تو شنگریلا کی خوبصورت جنت کی طرف  دریچہ وا ہوجاتا اور ہم پوری وادی اور جھیل کے دلکش نظارے کا لطف اٹھاتے۔
  جوں جوں سڑک آگے بڑھتی تھی اس کی حالت ابتر ہوتی جاتی تھی۔ راستے میں آنے والے شفاف  اورتیز رفتار پانی کے نالے کا پل عبور کر کے ہم آگے بڑھتے رہے۔ کچھ ہی دیر میں ہم اس مقام پر پہنچے کہ جہاں بائیں طرف کے سرسبز کھیتوں کے درمیان سے گزرنے والی پگڈنڈیاں سیاحوں کو کچھ دوری پر نشیب میں واقع اپر کچورا جھیل تک لے جاتی ہیں۔ ہمیں پہلے ژوق نالے کی طرف جانا تھا اس لئے ہمارا سفر اسی سڑک پر مزید آگے جاری رہا۔ کچی اور پتھریلی سڑک کے دونوں اطراف درختوں اور ہرے بھرے کھیتوں کا سلسلہ ہمارے ساتھ ساتھ تھا۔ راستے میں آنے والی اکا دکاچھوٹی چھوٹی آبادیوں سے گزرتے ہم آگے بڑھتے جاتے تھے۔ گھڑی بارہ کو کراس کر چکی تھی۔ان آبادیوں میں موجود اسکولوں میں غالباً چھٹی کا وقت ہو چلا تھا۔سڑک کے ساتھ ساتھ بچے اوربچیاں بیگ اٹھائے اپنے اپنے گھروں کو جاتے دکھائی دیتے تھے۔ 
   راستے کے دونوں اطراف ہریالی ہی ہریالی تھی۔سڑک کنارے شفاف پانی کے نالے کبھی دائیں تو کبھی بائیں بہتے نظر آتے ، کہیں اس نالے کا پانی اپنے تیز بہائو کے باعث اچھلتا کودتا نالے سے نکل کر ہماری پتھریلی راہ پر بھی آ نکلتا۔ ہم اس اونچی نیچی پتھریلی راہ پر سفر کرتے تھے۔جیپ کی بہترین حالت ، مناسب رفتار اور ڈرائیور کی مہارت کے باعث ہم ایسی راہوں پرسفر کے دوران لگنے والے بے ہنگم جھٹکوں سے محفوظ تھے۔چھوٹی چھوٹی سرسبز وادیوں میں بل کھاتی ،صاف پانی کے نالوں پر موجود خوبصورت پلوں کو عبور کرتی ہماری سڑک آگے بڑھتی جاتی تھی کہ اچانک ایک موڑ مڑنےکے بعد ہماری نظر اپنے بائیں طرف ایک خاصے کشادہ پاٹ کی شفاف ندی پر پڑی جو سڑک کنارے موجود سبزہ زارکے ساتھ ساتھ انتہائی سکون سے بہتی تھی۔سبزہ زار میں کچھ چھوٹے چھوٹے درخت بھی تھے،جہاں گائے بکریوں کا ایک ریوڑ گھاس چرتا دکھائی دیتا تھا۔ہم قدرت کی اس صناعی اور منظر کی دلکشی میں کھوئےہوئے تھے کہ  جیپ پتھریلی سڑک سے اتر کر اس سبزہ زار کی ہموار سطح میں داخل ہو گئی۔
  یہ خوبصورت  ندی ہی دراصل ژوق نالہ تھا۔ میرے ذہن میں ژوق نالے کا تصور شاہراہ قراقرم پر واقع ثمر نالے یا پھر وادی چترال میں گرم چشمے کے مقام پر موجود تیز بہائو والے جھاگ اڑاتے شفاف پانی کے نالے جیسا تھا لیکن جو منظر میری نظروں کے سامنے تھا وہ میرے تصور سے زیادہ حسین تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں بکھرا حسن خالصتاً قدرتی تھا۔ کشادہ پاٹ والی پر سکون ندی سبزہ زار کے ساتھ بہتی چلی جاتی تھی۔ گھاس کے میدان میں موجودایک چھوٹے سے ہوٹل کے قریب ڈرائیور نے جیپ روک دی۔ ندی کے قریب ہی درختوں کے سائے تلے سبزہ زار میں کچھ میز کرسیاں رکھی تھیں۔ ہمارے علاوہ اس خوبصورت مقام پر ایک غیر ملکی جوڑا بھی موجود تھا۔ ہم ندی کنارےسبزہ زار پر گھومتے پھرتے کچھ آگے جا کر کنارے پر موجود پتھروں پر بیٹھ کر ندی کے شفاف پانی کی گنگناہٹ سےلطف اندوز ہوتے رہے۔گائے بکریوں کا ریوڑ اب یہاں موجود نہ تھا۔ دور سڑک پر اسکول کے کچھ بچے بچیاں  پیدل جاتے نظرآتے تھے جنہیں دیکھ کر دلی مسرت ہوتی تھی کہ ان دور دراز علاقوں میں بھی علم کی شمعیں روشن  تھیں ،بلاشبہ ہمارے پیارے  ملک میں جہالت کی ظلمتوں کو چیر کر انسان میں شعوراجاگر کرنے، معاشرے کو سنوارنے اور ترقی و خوشحالی کے سفر کو جاری رکھنےکے لئے علم کی اس روشنی کی بے انتہا ضرورت ہے ۔ یونیفارم پہنے سڑک پر اپنےگھروں کو جاتے یہ  معصوم  طالبان علم مجھے ان علاقوں کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کے بہتر مستقبل کی راہ کیلئے لگائی گئی روشن قندیلوں کی صورت نظر آتے تھے۔ ژوق نالہ بلکہ ژوق ندی کا یہ حسین ترین مقام واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسکردو کی وادی میں ژوق نالے کا یہ پر سکون کناراہم جیسے قدرتی حسن کے متلاشیوں کے لئے یقیناً ایک انتہائی  قیمتی تحفے کی حیثیت رکھتا تھا۔

























ایک بجے کے قریب ہم ژوق نالے سے روانہ ہوئے، دس پندرہ منٹ بعد ہی ہماری جیپ سڑک سے اتر کر اپر کچورا جھیل کی طرف جانے والی پگڈنڈیوں کے قریب گھنے درختوں کی چھائوں تلے بنے پارکنگ ایریا میں داخل ہوگئی۔ جیپ سے اترکر ہم سر سبز کھیتوں کے درمیان سے گزرتی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے جھیل کی طرف روانہ ہوئے۔ کھیتوں کے ساتھ لگےہوئے زیادہ تر درخت سفید اور سیاہ شہتوتوں کے تھے۔ کچھ ہی دیر کے بعد ہم ان کھیتوں کے اختتام پر اس جگہ پہنچ گئے جہاں سے ہمیں درختوں کے جھنڈ کے بیچ سے نیچے اترتی پگڈنڈی سے ہوتے ہوئے خاصی نشیب میں نظرآتی جھیل تک پہنچنا تھا۔ اپنے پچھلے دونوں سفروں کے دوران بھی ہم اسی راستے سے اپر کچورا جھیل تک پہنچے تھے۔ان دونوں سفروں کے وقت نیچے کی طرف اترتی یہ پگڈنڈی بہت تنگ اور کچی تھی۔ اس دفعہ یہ نسبتاً  کشادہ بھی تھی اور اس پر باقاعدہ پتھروں کے قدمچے بنادئےگئے تھے۔ پہلے یہاں آئے تھے تو اس پگڈنڈی سے اترتے وقت پھسلنے سے بچنےکیلئے کبھی ایک دوسرے کے ہاتھ تھامتے تو کبھی پگڈنڈی کے دونوں اطراف موجود درختوں کے تنوں اور شاخوں کو پکڑکر سنبھلتے تھے۔ اس بار ہمیں نیچے اترنے میں زیادہ دقت کا سامنا نہ تھا۔ 
   نشیب کی طرف جاتے اس راستے کے درمیان درختوں کے جھنڈ کے بیچ ہی ایک ہموار جگہ پر چھوٹا سا ہوٹل بنا تھا۔ جیپ ڈرائیور ہمارے ساتھ مزید نیچے جھیل تک جانے کے بجائے اس ہوٹل میں ہی ٹہر گیا۔ ہم یہاں رکے بغیر مسلسل نیچے اترتے گئے۔ کچھ ہی دیر بعد پہاڑوں کے درمیان گھری وسیع وعریض خوبصورت اپر کچورا جھیل ہمارے سامنے تھی۔ جھیل کنارے ذرا بلندی پر ایک کچی سی ہموارجگہ بنی تھی جہاں ایک دو کرسیاں رکھی تھیں۔ ہمارے گزشتہ دونوں سفروں کے وقت اس ہموار جگہ پرایک چھوٹا سا ہوٹل موجود تھا ، یہی ہوٹل غالباً اب اس جھیل تک اترتے راستے کے درمیان منتقل ہو گیا تھا جہاں ہماراجیپ ڈرائیور رک گیا تھا۔ ہم نے اسی ہموار جگہ پر رکھی میز کرسیوں پر بیٹھ کر اپنے پچھلے سفروں کے دوران چائےبھی پی تھی۔ آج یہ جگہ بالکل ویران تھی۔ ویرانی کا ایک بڑا سبب شاید ہمارا ان علاقوں میں سیاحت کے باقاعدہ سیزن سے پہلے وارد ہوجانا بھی تھا۔
   ژو ق نالے کے کنارے سبزہ زار میں نظر آنے والا غیر ملکی جوڑا ہمیں یہاں بھی نظر آیا جو کشتی میں جھیل کی سیر سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ جلد ہی ان کی کشتی کنارے کی طرف پلٹنا شروع ہوگئی۔ ہم اس وقت جہاں تھے وہاں سے ذرا نشیب میں اتر کر عین جھیل کے کنارے کشتی پر چڑھنے اور اترنے کےلئے جگہ بنی تھی۔ جھیل کی سیر کے گزشتہ دونوں مواقع پر ہم نے کشتی کی سیر نہیں کی تھی، بس اسی ہموار جگہ پر کچھ وقت گزار کر اور پہاڑوں کے درمیان واقع بڑی سے کٹورے نما اس خوبصورت نیلگوں جھیل کےدلکش نظارے سے لطف اندوز ہو کر واپس روانہ ہو گئے تھے۔ بچیوں کا ساتھ ہونے کی بنا پر ہم زیادہ محتاط تھے اورکسی بھی قسم کا خطرہ مول لینے کو  دل تیار نہ ہوتا تھا۔ آج بچیوں کا ساتھ نہ تھا تو ہم خود کو نسبتاً زیادہ بےخوف محسوس کرتے تھے۔ اس ہموار جگہ سے نیچے اتر کرہم جھیل کے کنارے پہنچ گئے۔ غیر ملکی جوڑے کو لے کر کشتی ہمارے قریب ہی کنارے پر آلگی۔ ژوق نالے کے بعد ان سے دوسری بارآمنا سامنا ہوا تو ہیلو ہائے کے ساتھ مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی ہوا ۔وہ کشتی سے اترے تو ہم سوار ہوگئے۔ کشتی والے سے معلوم ہوا کہ جھیل کی طرف اترتے راستے میں بنا ہوٹل اسی کا ہے۔وسیع و عریض اپر کچورا جھیل کے نیلگوں پانی میں صرف ہماری کشتی چلتی تھی۔ پرسکون ، خاموش فضا اور پرسکوت ماحول میں کشتی کو آگے کی طرف دھکیلتے چپوئوں کے جھیل کے پانی سے ٹکراتے چھپاکوں کے آوازکے سوا یہاں اور کوئی آواز نہ تھی۔ کشتی آہستہ آہستہ جھیل کے وسط کی طرف بڑھتی جاتی تھی۔ ہمارے چاروں طرف کے مناظر بہت دلکش تھے۔ جھیل کے شفاف پانی کے آئینے میں ارد گرد کے پہاڑوں اور چٹانوں کا عکس بہت حسین دکھائی دیتا تھا۔ کسی سمت دور بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر جمی برف نظر آتی تھی ، کہیں صرف چٹیل پہاڑ توکہیں پہاڑوں کے دامن میں موجود سرسبز درختوں کے جھنڈ نگاہوں کو تراوٹ بخشتے تھے۔ ایک طرف  کچھ فاصلے پر جھیل  کے نسبتاً   کچھ ہموارکنارے  پربنے ایک اور ہوٹل کی عمارت اور اس کے پاس کھڑی چند کشتیاں نظر آرہی تھیں۔ جھیل کے عین درمیان میں پہنچ کر کشتی والے نے چپو چلانا چھوڑ دئے۔ کشتی وہیں ٹہر گئی۔ ایک گہری خاموشی اور مکمل سکوت جو کہ صرف ہماری گفتگو سے ٹوٹتا تھا۔ چپو چھوڑ کر کشتی والے نے ہمارا کیمرہ سنبھال لیا۔ وہ ہماری ایک تصویر کھینچتا، کشتی کارخ تھوڑا تبدیل کرتا اور دوسری تصویر کھینچتا، ہم دونوں کے عقب میں نظر آتا منظر تبدیل ہوتا جاتا اوروہ ایک کے بعد ایک تصویر کھینچتا جاتا۔ کشتی کی انتہائی یادگار اور پر لطف سیر کے بعد کشتی والا ہمیں کنارے پرچھوڑ کر اپنے ہوٹل چلا گیا۔ ہم نے کچھ مزید وقت جھیل کنارے گزارا۔



















  ہم اس پرسکون ماحول سے لطف اندوز ہوتے تھے کہ جھیل کے ارد گرد موجود پہاڑوں میں اچانک ایک آواز گونجناشروع ہوئی۔ ہماری نظروں کے سامنے دور آسمان پرچھائے سفید بادلوں میں خاصی بلندی پر پرواز کرتا ایک ہیلی کاپٹرسیاہ نقطے کی صورت اسی طرف آتا دکھائی دیا۔ کیمرہ میرے ہاتھ میں تھا، میں نے دور سے اس طرف آتے ہیلی کاپٹرکی فلم بندی شروع کر دی۔ ہمارے سروں کے اوپر سے ہوتا ہوا وہ دوسری طرف چلا گیا تو ہم نے بھی جھیل کنارے سےاوپر ہوٹل کی طرف جاتی پگڈنڈی کا رخ کیا۔ ابھی ہم اوپر چڑھ کر ہوٹل کے لائونج میں رکھی میز کرسیوں پر بیٹھےاپنی پھولی ہوئی سانسوں پر قابو ہی پاتے تھے کہ ہمارے مہربان جیپ ڈرائیور نے ایک بڑی سی پلیٹ میں ڈھیر سارےسیاہ شہتوت ہمارے سامنے رکھ دئیے۔ شہتوت انتہائی رسیلے، میٹھے اور لذیذ تھے۔
   جیپ ڈرائیور نے ہمیں بتایا کہ اس نےکشتی کی سیر کے بعد واپس آنے والے غیر ملکی جوڑے کی بھی ان تازہ اور مزیدار شہتوتوں سے خاطر کی تھی اوران کو چائے بھی بنا کر پلائی تھی کیونکہ ہوٹل کا مالک اس وقت ہمیں کشتی کی سیر کرانے میں مصروف تھا۔ جیپ ڈرائیور نے ہمیں بھی بہترین چائے بنا کر پلائی۔ ظہر کی نماز ہم نے یہیں ادا کی۔ اچھے خاصے شہتوت کھانے اور چائے کابھرپور کپ پینے کے بعد ہم اتنی زیادہ بھوک محسوس نہ کرتے تھے کہ دوپہر کا کھانا بھی یہیں کھاتے۔ کشتی اور ہوٹل کے مالک کی خواہش غالباً یہی تھی کہ ہم لنچ یہیں کریں۔ اس نے ڈیپ فریزر سے ٹرائوٹ مچھلیاں نکال کر ہمیں ان کا  دیدار بھی کرایا لیکن ہم نےصرف ان مچھلیوں کی چند تصویریں اپنے کیمرے میں محفوظ کرلینے پر ہی اکتفا کیا اور تین بجے سہ پہر سے قبل ہی یہاں سے واپسی کے لئے روانہ ہو گئے۔
اپر کچورا جھیل پر پرواز کرتا ہیلی کاپٹر ۔۔

2004 کا سفر ۔۔ اپرکچوراجھیل کنارے قاسم نسیم کے بھائیوں کے ہمراہ ۔۔
 2014 کا سفر ۔۔ اپرکچوراجھیل کیلئے اترتی پگڈنڈی ۔۔




 دائیں طرف جیپ ڈرائیور،، بائیں طرف کشتی اور ہوٹل کا مالک ۔۔

    پھر وہی خوبصورت پگڈنڈیاں اور ہمارے واپسی کی طرف اٹھتے قدم کہ کبھی ہم گھنے درختوں کی ٹھنڈی چھائوں تلےپانی کے بہتے نالے کے ساتھ ، کبھی جوار اور آلو کے کھیتوں کے درمیان تو کبھی شہتوت کے بڑے بڑے درختوں کے پاس سےگزرتی پگڈنڈیوں پرچلتے۔پارکنگ ایریا کےقریب ایک چھوٹی سی دکان میں ہم نے انتہائی معصوم، خوبصورت اورکم سن دو بہن بھائیوں کو اپنی ماں کے ساتھ کھڑے دیکھا۔ماں خریداری میں مصروف تھی۔ دکان کے سامنے سے گزرتا دیکھ کر دونوں بچے ہماری طرف متوجہ ہوگئے۔ بچوں کی معصومیت اور حسن کی کشش نے نہ صرف ہمارے قدم روک دئیےبلکہ میرے ہاتھ میں موجود کیمرے کا رخ بھی بے اختیار ان کی طرف ہو گیا۔اسکردو کی طرف واپسی کے سفر میں درختوں کے جھروکوں اور دریچوں سے جھانکتی شنگریلا کی حسین وادی ہمیں ایک بار پھر دکھائی دی۔
   اسکردو روڈپر پہنچے تو دریائے سندھ ہمارے بائیں طرف آگیا۔کسی صحرا کی طرح دکھائی دیتے دریا کے سفید ریتیلے پاٹ پر دورایک سیدھی قطار کی صورت جاتا بکریوں کا ریوڑ سفید کاغذ پر رنگ برنگے نقطوں سے بنائی گئی لائن کی طرح چلتا نظر آیا۔دریا کے اس پار کی کسی آبادی سے چند چرواہے انہیں ریتیلے پاٹ کے درمیان بہتے دریا کا پانی پلانےکی غرض سے ہانکے چلے آتے تھے۔ہماری جیپ اسکردو کی طرف بڑھتی تھی اور ہمارے بائیں طرف بکریوں کا یہ ریوڑپریڈ کرتا دریا کے پرسکون بہتے پانی سے قریب تر ہوتا جاتا تھا۔بکریوں کی عمودی لائن دریا کے قریب پہنچ کر افقی لائن میں تبدیل ہوئی اور دور سے نقطوں کی صورت نظر آتی بکریاں ایک قطار میں گردن جھکائے اس عظیم دریا کے پانیسے اپنی پیاس بجھانے لگیں۔
   راستے میں ایک جگہ دریا کا پاٹ ایک بڑی سی قوس کی مانند گھومتا سڑک کے قریب آتا تھا۔ جیپ ڈرائیور نے ہمیں بتایا کہ اس مقام پر گول گھوم کر سڑک کے نزدیک آتےدریا کے پانی نے 2010 کی طوفانی بارشوں کے دوران نہ صرف اس سڑک کو نگل لیا تھا بلکہ کچھ آگے دکھائی دیتی آبادی میں موجود بیشترباغات اور زرعی زمینیں بھی سیلابی پانی کےکٹائو کے باعث دریا برد ہو گئی تھیں جبکہ آبادی کے مکینوں کوبھی اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا تھا۔دریا کی طغیانی کے باعث وقوع پذیر ہونے والا زمینوں کا یہ کٹائو اس گول گھومتے ہوئے دریا کے کناروں پر ہمیں صاف نظر آرہا تھا۔ دریا برد ہونے والی زمینوں کی طرف دریا کا چوڑا پاٹ نشیب اختیار کرتا تھا ۔ اس پوری گولائی میں دکھائی دیتی زمینیں پتھریلی بھی نہ تھیں اس لئے بآسانی پانی کے کٹائو کا شکار ہو کر دریا کی نذر ہوتی چلی گئیں۔ دریا نرم مٹی کی ان زمینوں کی بالکل جڑ میں گھومتا ہوا بہتا تھا۔ جیپ ڈرائیور نے بتایا کہ زمینوں کے ان کٹائومیں کمی تو آئی ہے لیکن یہ سلسلہ 2010 کے بعد سے تاحال جاری ہے۔ میں سوچتا تھا کہ طغیانی خواہ بنی اسرائیل کے دور کے فرعون کی ہو یا دور حاضر کے فرعونوں کی وہ کمزوروں اور بے بسوں پر قہر ڈھاتی ہی چلی آئی ہے۔دریا کے پانی کی طرح جب بھی کوئی قوت اپنی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرتی ہے تو وہ اللہ کی زمین پر تباہی اوربربادی ہی پھیلاتی ہے۔ یہاں بھی دریا کی طغیانی کے باعث ہونے والی تباہی کے آثار ہم دیکھتے تھے اور دعا کرتےتھے کہ دریا کا پانی اپنی حد سے باہر نکل کر یہ بربادی نہ پھیلائے۔
  تقریباً چار بجے کے قریب ہم اپنے ہوٹل پہنچے۔ بھوک اب زوروں پر تھی۔ کھانا  ہم نے ڈائننگ ہال میں کھایا۔ کھانے کےبعد ہم کچھ دیر ہال میں ہی بیٹھے رہے، اس دوران ہمارے ہوٹل کے منیجر نے ہمیں اگلے دن صبح بذریعہ جیپ دیوسائی جانےکا مشورہ دیا کہ زمین کی چھت کے نام سے مشہور اس وسیع وعریض میدان میں آجکل برف کا راج ہے اور اس برف زار کو دیکھنے کا ایک الگ ہی لطف ہے۔ جیپ میدان سے ایک دو کلومیٹر پہلے تک ہی جا پاتی ہے جہاں سے میدان تک برف میں چل کر جانا پڑتا ہے۔ ہم راما کی وادی میں بھی ایک برف زار دیکھ چکے تھے جس نے ہمیں راما جھیل تک پہنچنے سے روک دیا تھا۔ ایک دو کلومیٹر تک برف میں چل کر دیوسائی کے برف زار تک پہنچنا ہمارے لئے انتہائی مشکل تھا۔ ہمارا پروگرام کل صبح سویرے منٹوکھا آبشار کی سیر کرتے ہوئے خپلو جانے کا تھا لیکن ہمارے جیپ ڈرائیورنے بتایا کہ خپلو میں صرف ایک قدیم قلعے کے علاوہ اور کوئی خاص جگہ نہیں ، ہوٹل منیجر اور جیپ ڈرائیور سےہونے والی اس گفتگو کے بعد ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ کل صرف منٹوکھا آبشار کی سیر کو جایا جائے اور پھر واپس اسکردو پہنچ کر لمبا آرام کرکے پرسوں صبح فجر کی نماز کے بعد گلگت کے لئے رخت سفر باندھا جائے۔
    عصر تک ہم نے اپنے کمرے میں آرام کیا۔ آج صبح سے دو تین بار فون کر کے میں قاسم نسیم کے بھائی کی طبیعت کےبارے میں دریافت کر چکا تھا جو کہ اللہ کے فضل و کرم سے بہتری کی جانب گامزن تھی۔ آج رات ہم قاسم نسیم کےگھر کھانے پر مدعو تھے۔ عصر کی نماز کے بعد ہم بازار کی طرف نکلے۔ کل سدپارہ جھیل سے واپسی پر جس بیکری پر ہم رکے تھے وہاں سے اپنے میزبانوں کے لئے کیک لیا اور مغرب سے پہلے اپنے ہوٹل واپس آگئے۔قاسم نسیم کا گھر اسی سڑک پر ہمارے ہوٹل سے کچھ ہی دوری پر تھا۔ رات ساڑھے آٹھ بجے کے بعد ہم ان کے گھرپیدل ہی روانہ ہوگئے۔ فاصلہ بمشکل ایک چوتھائی کلومیٹر کا ہی تھا لیکن سڑک پر اسٹریٹ لائیٹس نہ ہونے کے باعث خاصا اندھیرا تھاجس کی وجہ سے کچھ دقت کا سامنا ضرور کرنا پڑا۔ بھائی کی بیماری کے سبب پریشانی کے باوجودجس قدر پر تکلف ڈنر کا اہتمام انہوں نے کر رکھا تھا وہ ہمارے لئے باعث حیرت تو تھا ہی ، دستر خوان پر سجی ڈھیر سی ڈشیں دیکھ کر ہم کچھ تکلیف اور شرم بھی محسوس کرتے تھے۔ ہم مجبور تھے کہ ان کے ساتھ 26سا لہ  دیرینہ تعلق کی بنا پر منع کرنے کے باوجود ان کی جانب سے ہمیں مدعو کرنے کے مسلسل اصرار کو ٹھکرانابھی ہمارے لئے ممکن نہ تھا۔ ان کے گھر ہم نے ایک گھنٹے سے زائد وقت گزارا۔ کھانے کے ساتھ ساتھ پرانی یادوں کو بھی تازہ کیا اور دیگر موضوعات پر بھی گفتگو ہوئی۔ یہ جان کر ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ ان کی اہلیہ خانہ داری کے ساتھ ساتھ مقامی اسکول میں بچوں کو پڑھانے کا فر یضہ بھی انجام دیتی ہیں ۔ رات دس بجے کے بعدہم نے ان سے رخصت چاہی اوراپنے ہوٹل کا رخ کیا۔
اپر کچورا جھیل سے اپنے ہوٹل واپسی کے دوران ۔۔














گیارہواں دن
منٹوکھا کی خاموش آبشار ۔۔۔ حسین آباد کا خوبصورت پارک
   صبح ناشتے سے قبل ہی تقریباً پونے آٹھ بجے ہم منٹوکھا آبشار کے لئے روانہ ہو گئے۔اسکردو سے نکل کر دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ مزید آگے جانے والی سڑک پر ہم 1988 میں بھی شیگر جانے کیلئے سفر کر چکے تھے لیکن شیگر جانےکے لئے اس سڑک پر تقریباً دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے تھورگو قصبے کےسہ راہے سے ایک راستہ بائیں طرف مڑجاتا ہے جہاں سے دریائے سندھ پر موجود پل عبور کرکے شیگر جانا ہوتا ہے۔ یہی راستہ شیگر سے مزید آگے بڑھتا ہوا اسکولے اور پھر کےٹو کے بیس کیمپ تک جانے والی راہ تک چلتا چلا جاتا ہے۔
  1988 میں ہم شیگر کی سیر کے دوران وہاں سے کچھ ہی آگے واقع ہاشوپیر باغ تک گئے تھے۔اگست کا مہینہ ہونے کے باعث پھل پکے ہوئے تھے۔ تازہ،رسیلےاور شیریں آڑوئوں اور سیبوں کا ذائقہ ہم آج تک نہیں بھول پائے۔ آج ہمیں تھورگو کے قصبے کے اس سہ راہے سےبائیں طرف شیگر کے لئے مڑنے کے بجائے دریائے سندھ کے دائیں کنارے کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک پر سفر کرنا تھا۔تھورگو کے قصبے سے آگے یہ سڑک تقریباً 30کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ایک اور سہ راہے پر پہنچتی ہے جو کہ دریائے سندھ اور دریائے شیوک کے سنگم کے قریب واقع ہے۔ اس سہ راہے سے پھر بائیں طرف مڑتی ایک سڑک دریائے سندھ کا پل عبور کر کے دریائے شیوک کے ساتھ ساتھ خپلو کے قصبے کا رخ کرتی ہے جبکہ دریائے سندھ کےدائیں کنارے کے ساتھ ساتھ چلتی سڑک تقریباً 17 کلومیٹر کی دوری پر واقع مادھو پورکے قصبے تک پہنچتی ہے۔منٹو کھا آبشار جانے کے لئے  مادھو پور کے قصبے  میں پہنچ کر  دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتی اس سڑک کو چھوڑ کر دائیں طرف کے پہاڑوں سے اترتے ایک نالے کے ساتھ ساتھ جاتے راستے پر دو سے ڈھائی کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جبکہ دریائے سندھ کے دائیں کنارے کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک مزید آگے بڑھتی ہوئی پاکستان اور بھارت کی متنازع سرحد تک جا پہنچتی ہے۔اس متنازع سرحد کے دوسری طرف کارگل کا قصبہ واقع ہے اور اسی حوالے سے یہ سڑک کارگل اسکردو روڈ بھی کہلاتی ہے۔ دریائے سندھ بھی اسی مقام پر بھارتی حدودمیں واقع لداخ کے علاقے سے نکل کر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔
    تھورگو کے قصبے تک ہمارا سفر تقریباً میدانی علاقے میں ہی جاری رہا۔شیگر کی طرف مڑنے والی سڑک کے سہ راہے پر پہنچ کر ہمارے دل میں 1988 کے سفر کی یاد تازہ ہو گئی اور ہم نے بائیں طرف مڑتی اس سڑک پر قریب ہی واقع دریائے سندھ کے پل تک جانے کا ارادہ کر لیا۔ 1988 میں تھورگو کا یہ قصبہ بہت ہی چھوٹا تھا۔ اس بارتقریباً دریا کے پل تک سڑک کے دونوں اطراف آبادی موجود تھی۔ اسی طرح 1988 میں دریائے سندھ پر آہنی رسوں اور لکڑی کے تختوں سے بنا ایک انتہائی قدیم پل بنا ہوا تھا کہ جو ہماری وین کے گزرتے وقت باقاعدہ جھولتاتھا اور وین کے پہیوں کے نیچے چرمراتے لکڑی کے تختوں کی آواز سن کر ہم کچھ خوفزدہ بھی ہوتے تھے۔ آج اسی مقام پر نیا خوبصورت ،پائیدار اور پختہ پل موجود تھا جبکہ اس نئے پل سے کچھ ہی فاصلے پر وہی قدیم پل بھی ابھی تک قائم تھا۔ ہم نے کچھ دیر اس پل کے پاس رک کر اپنی پرانی یادوں کو تازہ کیا اور پھر واپس اس سہ راہے کا رخ کیا کہ جہاں سے آگے کا سفر ہمارے لئے بالکل نیا تھا۔
   دریائے سندھ سڑک کے بائیں جانب ہمارےساتھ ساتھ بہتا تھا۔ دائیں طرف کچھ فاصلے پر چٹیل پہاڑ تھے ۔ ہم ان پہاڑوں کی کشادہ، پتھریلی اور بنجروادیوں سے گزرتی سڑک پر آگے بڑھتے تھے۔ دریا کبھی کبھی ان بنجر وادیوں سے دوری اختیار کرتا تو اپنے چوڑےریتیلے پاٹ سمیت ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتا۔ کبھی پہاڑوں اور دریا کے درمیان کی وادی کچھ تنگ ہوجاتی تو ہم دوبارہ دریا کی شکل دیکھ پاتے۔ دریا کا پاٹ بدستور خاصا کشادہ اور ریتیلا تھا۔ دریا کے دوسرےکنارے کے پہاڑ کبھی دریا کے کچھ قریب آجاتے تو اس کا سفید ریتیلا پاٹ سکڑ کرکچھ تنگ ہو جاتا۔ تقریباً نو بجےصبح ہم گول اسکردو کے قصبے میں پہنچے جہاں ایک چھوٹے سے ہوٹل کے اندر بنے کمرے کی فرشی نشست پربیٹھ کرہم نے ناشتہ کیا۔


ہمارے ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں آویزاں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے کسی این جی او کی جانب سے شائع کردہ پوسٹرکہ جس میں ٹریکرز اور کوہ پیمائوں کو اپنی مہم کے دوران ان خوبصورت پہاڑی راستوں اور بیس کیمپس کے ارد گردکوڑا کرکٹ پھینکنے کے بجائے اس مقصد کے تحت نصب کی گئی آگ کی بھٹی میں کچرا پھینکنے کی ہدایت کی گئی ہے۔یہ بلاشبہ ایک بہت اچھی کوشش اورانتہائی قابل تحسین اقدام ہے۔

ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں رکھا کھرمنگ کے علاقے سے لایا گیا انتہائی بڑے سائز کا پتھر سے تراشیدہ تاریخی برتن کہ جس میں زمانہ قدیم میں ایک چھوٹے سے قصبے میں رہائش پذیر تمام افراد کیلئے سالن تیار کیا جاتا تھا۔


شیگر کی طرف جانے والی راہ ۔۔ دریائے سندھ پر معلق نیا پختہ پل ۔۔
تھورگو کے مقام پر تعمیر کردہ نئے پل کے پیچھے دکھائی دیتا لکڑی کے تختوں سے بنا قدیم پل جس پر سے ہو کر ہماری وین 1988 میں شیگر گئی تھی۔
تھورگو قصبے کے سہ راہے پر شیگر کی طرف مڑتی سڑک کی طرف اشارہ کرتا اورفاصلوں سے آگاہ کرتا سائن بورڈ

گول اسکردو کے قصبے میں ہوٹل کی فرشی نشست پر ناشتہ ۔۔۔


    گول اسکردو سے آگے چلے تو آبادی سے نکلتے ہی پھر سڑک کے اطراف کے وہی مناظر۔سڑک نہ بہت زیادہ خطرناک موڑ مڑتی تھی اور نہ ہمیں پہاڑی دروں کے دشوار نشیب و فراز کا سامنا تھا۔ کہیں کہیں بائیں طرف بہتے دریا کےسفید ریتیلے پاٹ میں درختوں کے چھوٹے چھوٹے جھنڈ نظر آتے جنہیں دیکھ کر ایسا گمان ہوتا کہ جیسے صحرا میں اچانک چھوٹا سا نخلستان نمودار ہو گیا ہو ۔کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ہمیں سڑک دائیں طرف مڑتی دکھائی دی ،بائیں طرف کچھ دوری پر دریائے سندھ دریائے شیوک سے ملتا تھا۔ دریائے سندھ ہمارے داہنی طرف کے پہاڑی دروں سے ہوتا ہوا دو دریائوں کے سنگم کے اس مقام تک پہنچتا تھا۔ دائیں طرف مڑتی اس سڑک پر ایک ڈیڑھ کلومیٹر کافاصلہ طے کر کے ہم اس سہ راہے پر پہنچے جہاں سے ایک سڑک بائیں طرف مڑ کر دریائے سندھ کا پل عبور کر کےخپلو کی طرف جاتی تھی۔ ہم کچھ دیر کے لئے اس سہ راہے پر رکے، پھر دریائے سندھ کے دائیں کنارے کے ساتھ ساتھ جاتی سیدھی سڑک پر آگے کی سمت روانہ ہوگئے۔اب پہاڑی درے کچھ تنگ ہونے کے ساتھ بلندی بھی اختیار کرتےتھے۔ بائیں طرف بہتا دریا بھی خاصا نشیب میں دکھائی دیتا تھا۔ راستے میں ایک موڑ پر سڑک کے بائیں طرف دور سے دکھائی دیتی بلندی پر بنی ایک خوبصورت مسجد کا نظارہ بہت دلکش تھا۔ پہاڑی دروں میں دریا کےساتھ ساتھ گھومتی ،چڑھتی، اترتی سڑک پر سفر کرتے، سرمک ، مہدی آباد اور مادھو پور کے قصبوں سے گزرتےہم منٹوکھا  آبشار کی طرف سے آتے نالے کے پل تک پہنچ گئے۔ پل عبور کر کے ہم دائیں طرف مڑ کر نالے کے ساتھ ساتھ جاتی کچی سڑک پر روانہ ہوئے۔


گول اسکردو کے قصبے سے منٹوکھا  آبشار تک  کے سفر  کے دوران ۔۔












   نالے کے ساتھ ساتھ آبشارکی طرف جاتا راستہ کچا ضرور تھا لیکن خطرناک نہ تھا۔سڑک دائیں طرف بہتے نالےکی سطح سے زیادہ بلند نہ ہوتی تھی۔سڑک کے بائیں طرف مقامی آبادی کے کھیتوں کا سلسلہ بھی ہمارے ساتھ چلتا تھا۔نالے کا پاٹ بھی خاصا کشادہ تھا۔کبھی کبھی سڑک اور نالے کے درمیان بھی کھیت اور درخت حائل ہو جاتے۔ جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے اطراف میں موجود ان کھیتوں کا سلسلہ بھی ختم ہوتا گیا، البتہ نالے کاپاٹ بدستور کشادہ ہی رہا۔ ہمارے کان سجی کوٹ ابشار کی طرح بلندی سے گرتے کسی جھرنے کی مدھر آواز سننے کے لئے بے تاب تھے لیکن ہماری حس سماعت ابھی تک ایسی کسی بھی آواز سے محروم تھی۔راستےمیں چند مقامی لڑکے آگے جاتے نظر آئے جن سے میں نے آبشار کی بابت دریافت کیا ۔انہوں نے بتایا کہ بس کچھ ہی فاصلہ باقی ہے۔ کچھ فاصلہ طے کیا تو دائیں جانب سڑک اور نالے کے درمیان ایک ہموار اور کشادہ میدان میں ایک ہوٹل بنا ہوا تھا۔ اس مقام کے آگے سڑک کچھ بلند ہو کر سامنے نظر آتے نسبتاً تنگ پہاڑی درے میں داخل ہوتی دکھائی دیتی تھی۔ابھی تک بلندی سے پانی گرنے کی نہ کوئی آواز سنائی دیتی تھی اور نہ دور نظر آتےپہاڑوں میں کوئی آبشار دکھائی دیتی تھی۔
   ہوٹل کو پیچھے چھوڑتے ہوئے میں نے اس بلند ہوتی سڑک پر گاڑی بڑھا دی۔آگے سڑک تنگ بھی تھی اورخراب بھی۔ سامنے سے ایک نوجوان آتا دکھائی دیا تو میں نے مزیدآگے جانے کے بجائے گاڑی روک دی۔ نوجوان سے آبشار کے بارے میں سوال کیا تو اس نے نالے کے کنارے بنے اسی ہوٹل کے بالکل سامنے نالے کے دوسری طرف دکھائی دیتے بلند پہاڑ کی طرف اشارہ کر دیا کہ آبشار وہ سامنے ہے۔گاڑی موڑ کر ہم ہوٹل سے متصل میدان میں آ پہنچے۔گاڑی سے نیچے اتر کر ہم حیرت سے سامنے نظر آتے پہاڑ سےگرتی خاموش آبشار کو دیکھتے تھے ۔اس قدر خاموش اور بے آواز کہ اتنی بلندی سے پانی گرنے کی ذرا سی آواز بھی ہمیں سنائی نہ دیتی تھی۔پانی بھی اس قدر صاف، شفاف اور بے رنگ کہ ہمیں نالے کی طرف گرتا دکھائی بھی نہ دیتا تھا۔ سامنے موجود پہاڑ ہم سے زیادہ دور نہ تھا۔ پہاڑکی بلندی سے نیچے گرتا پانی صرف پتھروں پر سفید نشانوں کی صورت نظر آتا تھا۔آبشار کی طرف بغور دیکھتا تھا ،سر گھما کر کان بھی اس طرف موڑتا تھا  لیکن بے سود ،ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اپنی قوت سماعت و بصارت  کے حوالے سے تشویش بڑھتی جاتی تھی۔ کانوں میں انگلیاں گھمائیں، آنکھوں کو ہتھیلیوں سے مسلا لیکن  معاملہ جوں کا توں۔ اسی عالم حیرانی و پریشانی میں ہوٹل کا رخ کیا۔ برآمدے نما بڑے سے ڈائننگ ایریا میں صرف سلیقے سے میز کرسیاں سجی تھیں۔ ہم پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹتے تھے کہ نہ آبشار دکھائی دیتی ہے اور نہ ہوٹل کے ڈائننگ  ایریا میں کوئی آدم زاد۔ہم کہیں کسی طلسم کدے میں تو نہیں آ نکلے۔
   ابھی اسی شش و پنج میں تھے کہ ڈائننگ ایریا سے ملحق کمرے سے ایک شخص بر آمد ہوا۔ ہمیں دیکھتے ہی اس کے چہرے پر ابھرنے والے حیرت و استعجاب کے تاثر نے ہمیں مزیداچھنبے میں مبتلا کر دیا۔
" ہم آبشار دیکھنے آئے ہیں بھائی "
میں نے اس کے چہرے پر چھائی حیرت اور سوالیہ نظروں کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
'' آبشار تو بند ہے ، آٹھ دس دن بعد کھلے گی۔ یہ بات تو اسکردو میں سب ہوٹل والوں کو معلوم ہے۔ " 
ہماری طرف دیکھتی اس کی نگاہوں میں حیرت بدستور برقرار تھی ۔اس کے اس جواب سے اپنی قوت سماعت و بصارت کی جانب سے لاحق ہماری تشویش تو ضروردور ہو گئی لیکن حیرت اس بات پر تھی کہ یہ قدرتی آبشار کس طرح بند ہو گئی ۔ صرف ایک ہی ممکنہ صورت تھی کہ شدیدسردی کے باعث پہاڑ کی بلندی پر بہتا وہ نالہ ،ندی یا دریا ہی نہ جم گیا ہو کہ جس سے نکل کر یہ آبشار نیچےگرتی ہو ۔ کچھ حیرت اس پر بھی تھی کہ ہمارے ہوٹل والوں نے اس بارے میں ہمیں کیوں نہ بتایا۔ آبشار کی بندش کی اطلاع دینے والا شخص اس ہوٹل کا منیجر تھا ۔ اس بندش کی وجہ اس نے یہ بتائی کہ سامنےنظر آتے پہاڑ کی بلندی کی طرف آتا نالہ پیچھے سے کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا ہے۔ آجکل اس نالے کی مرمت کا کام جاری ہے جس کے سبب آبشار تک آنے والے پانی کا راستہ بند ہے۔مرمت کا کام مکمل ہونے میں آٹھ دس دن مزید لگیں گے جس کے بعد یہ آبشار زیادہ زور شور سے  جاری و ساری  ہوجائے گی۔
   آبشار کی محبت میں طویل فاصلہ طے کر کے  یہاں پہنچے تھے، منٹوکھا میں ہمارا من کچھ کھوٹا ہوتا تھا ،کچھ دکھی بھی  تھے کہ آبشارکو نہ دیکھ سکے اور آبشار کے کھلنے کے انتظار میں اسکردو میں آٹھ دس روزتک مزید قیام بھی  ہمارے لئےناممکن تھا۔ زیادہ افسردہ اس لئے نہ تھے کہ نالے کے کنارے کے اس مقام کی خوبصورتی بہرحال اپنی جگہ تھی جبکہ پہلی دفعہ اسکردو سے آگے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ نئی جگہوں کی طرف نیاسفر کرتے یہاں تک پہنچنے کی خوشی  بھی  تھی۔ہوٹل کے ساتھ ہی نالے کے اوپر لکڑی کے تختوں سے بنا چھوٹا سا معلق پل موجود تھا۔ ہم اس پل پر سے ہوتےہوئے نالے کے دوسری طرف گئے۔ پل کے دوسری طرف نالہ ایک تنگ پہاڑی درے سے نیچے کی طرف اترتا تھا۔بڑے بڑے پتھروں کے درمیان سے شفاف دودھیا پانی زور شور سے نیچے کی طرف بہتا تھا۔ ہم نے کچھ وقت وہاں گزارا اور دوبارہ ہوٹل کی طرف آ گئے۔ ہوٹل کی عمارت کے قریب ہی نالے کے ساتھ ایک درخت کے سائےتلے سد پارہ جھیل کنارے کے ہوٹل والےسے خریدی ہوئی کرسی رکھ دی اور اس کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے کچھ دیر آرام کیا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ہم اس نالے کنارے اور خاموش آبشار کے ساتھ گزار کر واپس روانہ ہو گئے۔












   وہ دو رحم دل لکڑہارے تھے جو کسی پہاڑی جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اپنےگدھے کے ہمراہ کچی سڑک کےبیچوں بیچ خراماں خراماں چلے جاتے تھے۔ ان کے دل کی نرمی اس بات سے ثابت ہوتی تھی کہ انہوں نے سب کی سب لکڑیاں اپنے درمیان چلتے گدھے پر نہیں لاد دی تھیں بلکہ اچھی خاصی لکڑیوں کا بوجھ اپنی پیٹھ پر بھی اٹھا رکھا تھا۔ میں گاڑی کی رفتار انتہائی دھیمی کر کے ان کے پیچھے پیچھے چلتا تھا۔ ہارن اس خدشے کے پیش نظر نہ بجاتا تھا کہ کہیں گدھا بدک نہ اٹھے اور وہ دونوں تھکے ہارے لکڑہارے کسی مشکل میں نہ پڑ جائیں۔ اپنے عقب میں گاڑی کے انجن کی آواز سن کر وہ دونوں چونکے، ایک نظر پیچھے دیکھا اورگدھے سمیت سڑک کنارے ہولئے۔ میں نے ایک لمحے کے لئے گاڑی روکی ،دونوں نے پلٹ کر ہمیں کچھ حیرت سےدیکھا کہ راستہ دینے کے باوجود گاڑی پیچھے ہی کیوں رک گئی۔ میں نے اپنی کھڑکی سے کیمرے کارخ ان کی طرف کر دیا، وہ دونوں مسکرا دئےاور ایک انتہائی قیمتی اور یادگار تصویر کیمرے میں محفوظ ہو گئی۔ میں نے بھی ان کی مسکراہٹ کا جواب مسکرا کر دیا۔ ان کے برابر سے گزرتے ہوئےہاتھ ہلایا ۔منٹوکھا کے ان دونوں لکڑہاروں کے مسکراتے چہروں پر مچلتی محبت کی آبشار ہم دیکھ بھی سکتے تھے اور اس کی چاہت بھری دھن ہمیں صاف سنائی بھی دیتی تھی۔
   دونوں اطراف موجود سرسبز کھیتوں اور درختوں کے درمیان اس کچے راستے سے گزر کر ہم کچھ ہی دیر بعداسکردو کی جانب جانے والی سڑک تک پہنچ گئے۔مادھو پور کے قصبے سے ہوتے ہوئے مہدی آباد سے گزرتے تھے کہ ہماری نظر ایک دیوار پر لگی  عبارت پر پڑی کہ حدود مہدی آباد میں اونچی آواز میں موسیقی سننا منع ہے۔ہماری گاڑی میں اونچی آواز نکالنے والا کوئی اسپیکر نصب نہ تھا اس لئے نادانستگی میں بھی ہم سے اس قسم کی کسی غلطی کے سر زد ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ویسے بھی ہم تو قدرت کی دلکش موسیقی سننےکے دلدادہ ہیں ، ان خوبصورت  وادیوں کی نغمگی اورمسحورکن  موسیقی کی کشش ہی تو  ہمیں اپنے شہر کے جھمیلوں سے نکال کرگاہے بہ گاہے یہاں کھینچ لاتی ہے ۔کبھی آبشاروں، جھرنوں اور ندی نالوں سے ابھرتے فضائوں میں بکھرتے مدھرسروں سے محظوظ ہوتے ہیں ، کبھی تیز ہوائوں کےدوش پر رقص کرتے درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ کے پر کشش ساز کی آواز کا لطف اٹھاتے ہیں توکہیں پہاڑوں کے بیچ کسی وادی میں چلتی مست ہوائوں کے جھونکوں کی دل کوچھو لینے والی دھن ہمارے کانوں میں رس گھولنے لگتی ہے۔ یہ دلفریب موسیقی ان حسین وادیوں میں جا بجا گونجتی ہے، ہم تو بس سنتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔



  آج جمعہ تھا ،ارادہ یہ تھا کہ سرمک یا گول اسکردو کے قصبے میں رک کر کسی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرلوں گا۔ سرمک کے قصبے میں پہنچا تو نماز ختم ہو چکی تھی ،سڑک کنارے ایک مسجد سے نمازی نکل کر گھروںکو واپس جا رہے تھے۔ سرمک سے نکل کر ڈیڑھ بجے کے قریب ہم اس مقام پر پہنچے، جہاں دور ہمیں دریائےسندھ اور شیوک کا سنگم نظر آرہا تھا۔ اس مقام سے بائیں طرف مڑتی سڑک کے کنارے میں نے گاڑی روک دی۔ سڑک اور دور دکھائی دیتے دو دریائوں کے اس ملاپ کے بیچ ایک بڑا سا بنجر اور پتھریلا میدان حائل تھا۔ دوپہر کا وقت تھا، گردو پیش کے چٹیل پہاڑوں پر پڑتی تیز اور چمکدار دھوپ کے باعث کچھ گرمی تھی۔ ارادہ تھا کہ ہم سفرکے ہمراہ اس پتھریلے میدان سے گزرتے ہوئے دریائوں کے اس سنگم کا نظارہ ذرا قریب سے کیا جائے۔ لیکن گرمی میں اس ناہموار اور پتھریلے میدان پر پیدل چلنے کی ہمت ہم سفر میں نہ تھی۔ میں کیمرہ لے کر نیچے اترا، بیس پچیس قدم اس مشکل راہ پر چلا۔ چھوٹے بڑے پتھروں سے اٹا یہ میدان آگے جا کر کچھ ڈھلان بھی اختیار کرتاتھا۔ ڈھلان پر اتنی دور تک جانے کی صورت میں سڑک کنارے کھڑی گاڑی کا میری نظروں سے اوجھل ہونایقینی تھا۔ سڑک پر سناٹا تھا اور یہ جگہ بھی بالکل ویران تھی۔ گو کہ یہ علاقے پرامن بھی تھے اور محفوظ بھی لیکن ہم سفر کو اس طرح گاڑی میں تنہا چھوڑ کر اتنی دور تک چلتے چلے جانے کو دل مانتا نہ تھا۔ دورسے ہی دونوں دریائوں کے اس خوبصورت سنگم کا ایک وڈیو کلپ بنایا اور واپس گاڑی کی طرف پلٹ آیا۔
   کچھ ہی دیر میں ہم گول اسکردو کے قصبے میں پہنچ گئے۔ سڑک کنارے ایک ہوٹل دیکھ کر ہم کچھ دیر کےلئے چائے پینے کے ارادے سے رک گئے۔ گول اسکردو سے نکلے تو تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہماری نظرسڑک کے دائیں جانب بنی ایک یادگار پر پڑی۔ ایک بار پھر میں نے گاڑی روک دی۔ یہ یادگار 1948 میں بھارتی تسلط سے گلگت بلتستان کی آزادی کی جدوجہد کے دوران معرکہ تھورگو میں شہید ہونے والے عظیم سپوتوں کی یاد میں تعمیر کی گئی تھی۔ ہم نے کچھ دیر اس یادگار کے پاس ٹہر کر بلتستان کی جنگ آزادی کے ان شہداء کو سلام اور خراج عقیدت پیش کیا۔
دریائے سندھ اور شیوک کا سنگم
دائیں طرف دریائے سندھ ،خپلو کی طرف سےآتا سامنے دکھائی دیتا  دریائے شیوک۔







    تھورگو کو پیچھے چھوڑ کر کچھ آگے بڑھے تو اسکردو شہر کی حدود سے پہلے حسین آباد کے چھوٹے سے قصبےمیں پہنچے۔ یہاں سے گزرتے ہوئے ہم نے سڑک کے ساتھ ہی کچھ موٹرسائیکلیں کھڑی دیکھیں۔ گاڑی کی رفتار آہستہ کی تو سڑک کنارے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اسکردو کیمپس کا بورڈ لگا نظر آیا۔ یونیورسٹی کیمپس کی یہ عمارت دائیں طرف اسکردو کو جاتی اس سڑک کے ساتھ ہی واقع تھی۔ موٹرسائیکلیں یونیورسٹی کے طلبہ کی تھیں۔ ایک راستہ دائیں طرف یونیورسٹی کیمپس اور اس سے کچھ آگے موجود فیملی پارک کی طرف جاتا تھا۔فیملی پارک کا سائن بورڈ دیکھ کر میں نے گاڑی اس راستے پرموڑ دی۔ پارک کچھ نشیب میں اتر کر دائیں طرف واقع تھا۔ پارک کے گیٹ کے پاس گاڑی کھڑی کر کے وہاں موجود ایک شخص سے ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوگئے۔
    خوبصورت پارک کے سرسبز میدان کے چاروں طرف خوش رنگ پھولوں کی کیاریاں اور درخت جبکہ وسط میں پانی کا ایک حوض بنا ہوا تھا۔ پارک سے دور نشیب میں بہتے دریائے سندھ کا نظارہ بھی بہت دلکش تھا۔ایک انتہائی خوشگوار حیرت کا سامنا ہمیں اس وقت ہوا جب ہماری ملاقات اندر موجود ایک خاتون سے ہوئی جواس فیملی پارک کی نگہداشت کا کام انجام دے رہی تھیں۔ گھاس کے میدان میں موجود حوض کے پاس لگےایک نل سے ہم نے وضو کیا۔ پارک کی نگراں خاتون نے ہمیں ایک جانماز لا دی ۔ ایک پرسکون گوشے میں لگے درخت کی چھائوں تلے ہم نے نماز ادا کی۔ ابھی سہ پہر کا وقت تھا اس لئے پارک میں صرف اکا دکا فیمیلیز ہی موجود تھیں۔ پارک کے احاطے میں ہی ایک چھوٹی سی دکان بھی تھی۔ دوپہر کا کھانا ابھی تک نہیں کھایا تھا اس لئے کچھ بھوک محسوس ہونے لگی تھی۔ دکان سے نمکو ،چپس اور کولڈ ڈرنک خریدیں ۔وضو کر کے تازہ دم تو ہو ہی گئے تھے، کچھ کھایا پیا تو توانائی بھی کچھ نہ کچھ بحال ہوئی ۔ کچھ دیر تک پارک میں گھومتے پھرے۔ یہاں سے روانگی کے وقت پارک کی نگراں خاتون نے اندر موجود ایک عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ عجائب گھر ہے۔ پارک میں گھوم پھر کر ہم پھر سے کچھ تکان محسوس کرتے تھے اس لئےعجائب گھر کی سیر کا موڈ نہ بن سکا، چنانچہ پارک سے نکلے اور اسکردو کے لئے روانہ ہو گئے۔
    ہوٹل پہنچ کر جیپ ڈرائیور اور منیجر سے منٹھوکھا آبشار کے بند ہونے کا ذکر کیا۔ حیرت انگیز طور پر وہ دونوں ہی آبشار کی بندش کی خبر سے بے خبر تھے۔ عصر تک اپنے کمرے میں آرام کیا۔ عصر کے بعد چائے اپنے ہوٹل کے بجائےکہیں اور پینے کے ارادے سے باہر نکلے۔ قریب ہی موجود ایک ہوٹل سے چائے پی کر مغرب تک دوبارہ اپنے ہوٹل واپس آگئے۔ مغرب کے بعد کافی دیر تک ڈائننگ ہال میں بیٹھ کر بچوں سے واٹس ایپ پر گپ شپ کرتے رہے۔ دوپہر کا کھانا نہ کھانے کی وجہ سے اب بھوک بھی زوروں پر تھی۔ اسکردو میں ہمارے قیام کی آج آخری شب تھی کیونکہ صبح سویرے فجر کے بعد گلگت کے لئے روانہ ہونا تھا۔ ہم نے ارادہ کیا کہ ایک بار اور بازار کی سیر بھی کریں اور کھانا بھی اپنے ہوٹل کے بجائے کہیں اور کھایاجائے۔ یادگارچوک سے پہلے ہی سڑک کے دائیں طرف موجود چند ہوٹلوں میں گئے لیکن کہیں بیٹھنے کی جگہ نامناسب تھی تو کہیں ڈنر کے لئے تیار کی گئی ڈشز ہمیں پسند نہ آئیں۔ دن بھر کی تکان اوربھوک کی شدت کے باعث بہتر جگہ اور کھانے کی تلاش میں زیادہ دور تک جانے کی ہمت ہم میں نہ تھی چنانچہ جلدہی اپنے ہوٹل کے پرسکون ڈائننگ ہال میں لوٹ آئے۔ ڈنر کے بعد قاسم نسیم کو فون کرکے ان کے بھائی کی خیریت دریافت کی جو کہ الحمدللہ اب بہت بہتر تھے۔ قاسم نسیم حسب معمول اپنی بے پناہ مصروفیات میں گھرے ہوئے تھے۔صبح جلد روانگی کی وجہ سے ہمارا پروگرام اب جلد از جلد سونے کا تھا، اس لئے ان سے فون پر ہی اسکردو سےروانگی کے لئے رخصت چاہی اور انہوں نے بھی فون پر ہی ہمیں الوداع کہا۔








بارہواں دن
سوئے کریم آباد ۔۔۔ راکاپوشی اور میناپن ۔۔ ہنزہ کی حسین راہیں

    ہوٹل منیجر کو رات کو ہی آگاہ کردیا تھا کہ ہم صبح سویرے یہاں سے روانہ ہوجائیں گے، اس لئے ہم جوں ہی صبح فجرکی نماز کے بعد کمرے سے نکل کر ڈائننگ ہال میں آئے تو وہ بھی اپنے کمرے سے باہر نکل آیا۔ جس جاپانی جوڑے کو ہم اسکردو کے اس ہوٹل میں اپنی آمد کے پہلے روز سے دیکھتے آئے تھے اس جوڑے کا مذکر اتنی صبح بھی ڈائننگ ہال میں موجود تھا۔ اپنی جاپان کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے میں نے اسے اوہایو گزائیموس کہہ کر صبح کا سلام کیا۔ اسکردومیں گزارے ہوئے تینوں دنوں کے دوران یہ جاپانی جوڑا ہمیں جب بھی کبھی ڈائننگ ہال میں نظر آیا تو اپنے لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے مصروف کار ہی دکھائی دیا تھا۔ ان تین دنوں کے دوران یہ پہلا اتفاق تھا کہ یہ جاپانی مذکر اپنی ساتھی  مونث کے بنا ڈائننگ ہال میں پایا گیا۔ میرے اوہایو گزائموس کہنے پر وہ مسکرادیا۔ ہال کے بیرونی دروازے پر فرش کے ساتھ بند ہونے والی کنڈی میں ایک چھوٹا سا تالا لگا ہوا تھا۔ اس جاپانی نے منیجر سے چابی لے کر وہ تالا کھولا۔ہوٹل سے رخصت ہوتے وقت منیجر اور جاپانی شخص دونوں باہر نکل کر ہماری گاڑی تک آئے۔ میں نے ہوٹل منیجر کواللہ حافظ اور جاپانی کو سایونارا کہا۔ اس نے بھی جاپان کے مخصوص روایتی انداز میں تھوڑا سا جھک کر ہمیں سایونارا کہا۔
   صبح کی روشنی پھیلنا شروع ہو گئی تھی لیکن اسکردو کی سڑکوں پر ابھی سناٹاتھا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دور نظرآتے یادگار چوک پر الوداعی نظر ڈالی اور گلگت کی طرف اپنے سفر کا آغاز کر دیا۔ فضا میں اچھی خاصی خنکی کے سبب ہم نے گاڑی کے شیشے بند کر رکھے تھے۔ یو ایس بی سے منسلک ہوجانے والا ایک چھوٹا سا اسپیکر ہم راستے میں قرآن کی تلاوت سننے کی غرض سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ ڈیش بورڈ پر رکھ کر ہم نے اسے آن کر دیا۔ گاڑی کے باہرصبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی میں نظر آتے حسین و دلکش قدرتی مناظر۔ ہماری گاڑی کے ڈیش بورڈ پر رکھے چھوٹےسے اسپیکر سے نکل کر گونجتی تلاوت کی دل میں اترتی خوبصورت  آواز نے وادی اسکردو کی خوبصورت راہگزرپرصبح کے اس سفر کا لطف دوبالا کر دیا ۔شمالی علاقوں میں خوش بختی کی علامت سمجھے جانے والے پرندے کشپ کبھی سڑک کے کنارے کسی درخت پرکبھی کسی سرسبز کھیت کے باہر بنی منڈیر پر تو کبھی بجلی کے کھمبوں پر بیٹھے نظر آتے تھے۔ میں کسی طور قریب سے ان کی تصویر کھینچنا چاہتا تھا۔ لیکن جب بھی کہیں گاڑی کی رفتار انتہائی آہستہ کر کے کیمرہ سنبھالتا وہ پھر سے اڑ کر یہ جا وہ جا۔بھرپور کوشش کے باوجود مجھے قریب سے ان کی تصویر لینے میں ناکامی کا سامناہی کرنا پڑا۔ دریائے سندھ پر واقع پل عبور کر کے ہم آگے بڑھتے تھے۔ ایک جگہ دور سامنے سڑک کنارے دریا کے ساتھ ایک چٹان کی کگر پر کووں کا ایک غول بیٹھا دکھائی دیا تو ہم سفر نے ان کی تصویر کھینچنے کا ارادہ کیا۔ لیکن جوں ہی گاڑی ان کے قریب پہنچی، انہوں نے وہاں سے اڑان بھرنے میں چنداں دیر نہیں لگائی۔
    گردوپیش کے پہاڑوں اور دورنظر آتی برف پوش چوٹیوں پر اب دھوپ چمکتی دکھائی دیتی تھی۔ جوں جوں یہ دھوپ ان پہاڑی دروں میں اترتی تھی، ان دروں کے بیچ بل کھاتی راہوں پر دوڑتی ہماری گاڑی کے شیشے بھی اترتے تھے ۔سڑک پر ٹریفک نہ ہونےکے برابر تھا۔ جن قصبوں کے بیچ سے گزر تے ہوئے ہم اسکردو پہنچے تھے اب ان کو پیچھے چھوڑتے ہم شاہراہ قراقرم کی طرف بڑھتے جاتے تھے۔ اسکردو کی طرف آتے ہوئے ہم نے اس سڑک پر بھرپور دوپہر کے وقت سفر کیا تھا اس لئےان سنگلاخ پہاڑوں کے تپنے کی وجہ سے ہمیں کہیں کہیں کچھ گرمی بھی ستاتی تھی۔ واپسی کے اس سفر میں صبح ابھی تک دوپہر میں نہیں بدلی تھی اس لئے کھڑکیوں سے در آتی ہوا بدستور خوشگوار تھی اور سفر انتہائی خوش اسلوبی سے طے ہورہا تھا۔ اسکردو آنے کے دوران اس سڑک کے بیشتر خوبصورت مقامات پر ہم رکتے رکاتے آئے تھےاس لئے اس بار ہم بغیر رکے سفر کرتے تھے۔
۔۔۔کشپ کی تصویر لینے کی کوششیں ۔۔۔





 ۔۔۔باہمت محنت کش صبح صبح اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے ۔۔۔
  ۔۔۔ہمسفر کی پتھر کی کگر پر بیٹھے کووں کی تصویر لینے کی ناکام کوشش  ۔۔۔
    کوشش یہی تھی کہ گرمی کی شدت بڑھنے سے پہلے پہلے ہم شاہراہ قراقرم کے نزدیک تر پہنچ جائیں، لیکن بہرحال ناشتے کیلئے تو کہیں رکنا ہی تھا۔ شنگس گزرگیا اور شاٹوٹ بھی۔ پونے گیارہ کے قریب بالآخر ہم سسی کے قصبے کے اسی چھوٹے سے ہوٹل کے پاس رکے جہاں اسکردو آتے وقت ہم نے چائےپی تھی۔ہم  ناشتے  کا اصل وقت گنوا چکے تھے، اس لئے پراٹھوں سے محروم رہے۔ بھنڈی کی ترکاری تیاری کے آخری مراحل میں تھی، چنانچہ ہم نے بھنڈی روٹی کھائی۔ بعد میں چائے پی کر دل کو کسی حد تک بہلایا  پھسلایا کہ ہم نے  دوپہر کا کھانا نہیں کیا  ،ناشتہ ہی کیا ہے۔ ہمارا سفر اسکردو روڈ پر جاری تھا۔ دوپہر کا وقت ہو چلا تھا ،دھوپ کی تیزی رفتہ رفتہ بڑھنا شروع ہوگئی تھی۔ راستے میں سڑک کنارے ایک مقامی بچے سے تازہ خوبانیاں خریدیں۔ بچے کے بھولے بھالے اور شگفتہ چہرے سے بھی میٹھی اور رسیلی خوبانیوں کی طرح معصومیت کا رس ٹپکتا تھا۔ ہم نے اس کی ایک تصویر کیمرےمیں محفوظ کر لی۔ پون بجے کے قریب ہم دریائے گلگت پر واقع عالم پل تک پہنچ گئے جس کو پار کر کے ہمیں دریا کے دوسری طرف کچھ بلندی پر دکھائی دیتی شاہراہ قراقرم پر پہنچنا تھا۔
  ۔۔۔رسیلی خوبانیاں فروخت کرنے والی شگفتہ خوبانی ۔۔۔

    عالم پل پہنچ کر ہمیں رکنا پڑا۔ پل کے دوسری جانب سے گاڑیاں ایک ایک کر کے اس طرف آ رہی تھیں۔ہماری طرف بھی پہلے سے چھ سات گاڑیاں موجود تھِں جو دوسری جانب سے آنے والےٹریفک کے رکنے کے انتظار پر مجبور تھیں ہم بھی ان مجبوروں کی صف میں کھڑے ہو گئے۔بھرپور دوپہر کے باعث سنگلاخ چٹانوں میں دھوپ کی تمازت بڑھتی جاتی تھی۔ پل کے دوسری طرف دیکھتے تھے تو ٹرکوں اور گاڑیوں کی لمبی قطار کہ جس میں ایک تسلسل کے ساتھ چپکے چپکے اضافہ بھی ہوتا جاتا تھا۔ پندرہ بیس منٹ بعد دوسری طرف سے آنے والی گاڑیوں کو روک کر ہمیں پل عبورکرنے کی اجازت ملی۔ ہم نے اللہ کاشکر ادا کیا کہ برستی دھوپ میں ہمیں بہت زیادہ دیر کھڑا نہ رہنا پڑا ۔ آہستگی سےپل عبور کیا ۔ کچھ ہی دیر بعد ہماری گاڑی پل کے دوسری طرف بلند ہوتی سڑک سے ہوکر بہترین شاہراہ قراقرم پر فراٹےبھرنے لگی۔
    شاہراہ قراقرم پر پہنچتے ہی موسم کے انداز کچھ بدلے۔نیلے آسمان پر منڈلاتے بادلوں میں اضافہ ہوتا گیا۔بادلوں کی ٹولیاں ترنگ میں آئیں تو شاہراہ قراقرم پر دھوپ چھائوں کا کھیل شروع ہو گیا۔ سورج کی تپش ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ۔ جوں جوں گاڑی کی رفتار بڑھتی، کھڑکیوں سے ہوا فراٹے بھرتی اندر آتی ، ہمارے حواس پر چھائی اسکردو سے واپسی کے طویل سفر کی کلفتوں کو اڑا کر رگ وپے میں ایک نئی تازگی اور فرحت بھرتی چلی جاتی۔دریائے گلگت ہمارے دائیں ہاتھ پر بہتا تھا۔ ڈیڑھ بجے کے بعد ہم گلگت کے قریب دنیور چوک پر پہنچ گئے۔یہاں سے دائیں طرف مڑکر ہم نے اپنا یہ خوشگوار سفر شاہراہ قراقرم پر جاری رکھا۔دریائے گلگت کے طویل اور شاندار پل پر سے نظر آنے والا سامنے کا منظر انتہائی دلکش تھا۔دور نظر آتے سر سبز درختوں کا رخ کرتی بہترین سڑک، آسمان پر چھائے خوبصورت بادل اور بادلوں تلے دکھائی دیتے پہاڑ اور برف پوش چوٹیاں۔ پل عبور کر کے ہم دنیور کے سرسبز قصبے کےدرمیان سے گزرے۔ شاہراہ کے دونوں اطراف ہرے بھرے کھیتوں اور آبادی کا سلسلہ ہمارے ساتھ ساتھ تھا۔
    اسکردوروڈ پر سرسبز قصبے خال خال ہی ملتے تھے اور ہمارا واسطہ چٹیل پہاڑوں کے بیچ بل کھاتی طویل خستہ حال سڑک سے زیادہ پڑتا تھا۔اب معاملہ اس کے بر عکس تھا۔ ہم ہرے بھرے کھیتوں اور نسبتاً گنجان آبادیوں کے بیچ سے گزرتی شاندار شاہراہ پر سفر کرتے تھے۔دنیور اور سلطان آباد کے قصبوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہم آگے بڑھتے جاتے تھے۔ گلگت کی وادی کے ساتھ ساتھ ہم دریائے گلگت کو بھی پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ شاہراہ قراقرم کے بائیں طرف اب دریائے ہنزہ بہتاتھا۔ دو بجے کے قریب ہم جوتل کے سرسبز قصبے سے گزرے۔ خوبصورت راہوں پر ہمارا سفر اتنا خوشگوار تھا کہ ہم نہ بھوک محسوس کرتے تھے نہ پیاس۔دل مصر تھا کہ گاڑی دوڑتی رہے اور ہم گردوپیش کے دلکش نظاروں کو اپنی نگاہوں میں سمیٹتے رہیں۔جوتل سے کچھ آگے بڑھے تو یکے بعد دیگرے شاہراہ پر بنی دو سرنگوں میں سے گزرے۔شاہراہ قراقرم یوں تو رائے کوٹ سے ہی ایک بہترین موٹروے میں تبدیل ہو گئی تھی لیکن گلگت سے ہنزہ کا رخ کرنےکے بعد زیادہ بہتر دکھائی دی۔بہترین دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی کے انتظام نے شاہراہ کی خوبصورتی کو چارچاند لگا دئے تھے۔
    کچھ ہی دیر میں ہم اس مقام پر پہنچ گئے کہ جہاں سے بائیں طرف ایک سڑک دریائے ہنزہ کے دوسری طرف واقع نومل کے قصبے کیلئے مڑتی ہے۔ 2004 کے سفر کے دوران ہم گلگت سے نلتر جھیل جانے کے کیلئے نکلےتھے تو ہمارا سفر اسی نومل کے قصبے تک پہنچ کر ختم ہو گیا تھا کیونکہ نومل سے نلتر جانے والا راستہ لینڈ سلائیڈنگ  کی وجہ سے بند تھا ۔ گلگت سے نومل اور نلتر جانے کیلئے شاہراہ قراقرم پر سفر کرنا ضروری نہیں کیونکہ گلگت سے ہی ایک اور سڑک دریائے ہنزہ کے دوسرے کنارے کے ساتھ ساتھ چلتی نومل اور پھر نومل سے آگے بائیں طرف مڑ کر نلترجھیل کو جاتی ہے۔ ہم نے 2004 کے سفر کے دوران اسی سڑک پر سفر کیا تھا۔ شاہراہ قراقرم دریا سے کچھ بلندی پر واقع تھی اس لئے دریا کے دوسری طرف نظر آتی نومل کی سرسبز وادی کا نظارہ انتہائی حسین دکھائی دیتا تھا۔ ہم ان دلکش مناظر سے لطف اٹھاتے آگے بڑھتے چلے جاتے تھے۔ ڈھائی بجے کے قریب سڑک کے بائیں طرف موجود ایک خوبصورت پٹرولپمپ پر میں نے گاڑی روک دی۔ پٹرولپمپ کے احاطے میں ہی ایک چھوٹی سی مسجد بھی بنی تھی۔ گاڑی میں پٹرول ڈلوایا، خوبصورت راہوں پر انتہائی خوشگوار سفر کے باعث ہم تازہ دم تو پہلے ہی تھے، وضو کرکے مزید تروتازہ ہوئے ، پٹرولپمپ کے احاطے میں کچھ چہل قدمی کی اور نماز ظہر بھی ادا کی۔


۔۔۔گلگت کے قریب دنیور پل ۔۔۔






 ۔۔۔ نومل کی طرف جاتی سڑک ۔۔۔ 
 ۔۔۔ ج پر زبر والا جگلوٹ رائے کوٹ اور گلگت کے درمیان آیا تھا ، ج پر پیش والا جگلوٹ گلگت اور ہنزہ کے درمیان نظر آیا ۔۔۔ 

    پٹرولپمپ سے روانہ ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد ہم ایک بار پھر دو سرنگوں کے بیچ سے گزرے۔ اب تک آنے والی چاروں سرنگیں سڑک  کی راہ میں آجانے والے کسی پہاڑ کے درمیان سے اس کو تراش کر نہیں بنائی گئی تھیں بلکہ شدید بارشوں کے دوران شاہراہ قراقرم کے دائیں طرف واقع راکا پوشی کے برف پوش پہاڑوں سےاترتے برساتی نالوں کے پانی کی تباہ کاریوں اور دہشت گردی سے شاہراہ کو محفوظ رکھنے کے لئے تعمیر کی گئی تھیں۔ اس بار جس پہلی سرنگ سے ہم گزرے اس کی بائیں دیوار پر ترتیب سے گول دائروں کی صورت جھروکےبنے ہوئے تھے اور سرنگ ٹرین کے کسی ڈبے کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ کچھ مزید فاصلہ طے کر کے ہم نومل کی طرح ہی دریا کے دوسری جانب واقع چلت نگر کے پاس سے گزرے، پھر تھول کے سرسبز قصبے کو بھی پیچھے چھوڑکر آگے بڑھتے گئے۔ریشم جیسی شاہراہ پر ہماری گاڑی پھسلتی جاتی تھی۔گلگت سے ہنزہ کے درمیان شاہراہ کے ساتھ ساتھ بسے ان قصبوں کے بیچ زیادہ فاصلہ نہ ہونے کے باعث ہم گھنٹوں کے بجائے چند منٹوں میں ایک قصبے سے نکل کر دوسرے کی حدود میں جا پہنچتے تھے۔



    تھول کے قصبے سے نکلتے ہی شاہراہ کے ایک موڑ پر ہم راکاپوشی کے سلسلہ کوہ کے گلیشئروں سے نیچے کی طرف آتے ایک نالے کے پل تک پہنچ گئے۔ پل کے ساتھ ہی نالے کے پاس ایک دوچھوٹے کیبن نما ہوٹل بنے ہوئے تھے۔ کچھ گاڑیاں بھی پل کے پاس کھڑی دکھائی دیں۔شاہراہ قراقرم پر واقع راکاپوشی کا معروف ویو پوائنٹ بھی ایسے ہی ایک نالے کے پل کے ساتھ واقع ہے، فوری طور پر ذہن میں آیا کہ شایدیہی وہ مقام ہے کہ جہاں 2004 کے سفر کے دوران ہماری وین کچھ دیر کے لئے ٹہری تھی۔ ویو پوانٹ پر نالے کی رہگزر کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کی طرف نظریں بلند کرتے چلے جائیں تودور آسمان تلے راکا پوشی کی چاندی کی طرح چمکتی برف پوش چوٹیاں نظر آجاتی ہیں ۔ سفید بادلوں تلے چھپی برفیلی چوٹیاں یہاں سے بھی نظر آتی تھیں لیکن 2004 میں جس مقام پر ہماری وین رکی تھی وہاں سڑک کے ساتھ چند دکانیں بھی تھیں اور اچھی خاصی رونق اور چہل پہل تھی۔ گاڑی سے اتر کر ہم نالے کے ساتھ بنے ایک ہوٹل کے پاس پہنچے۔ گھڑی سوا تین کو کراس کر چکی تھی۔ ہوٹل میں ایک بڑےسے توے پر قیمہ بھرے پراٹھے تلے جا رہے تھے جن سے اٹھنے والی مہک نے ہماری بھوک کی خوابیدہ خواہش کو بیدارکرنا شروع کر دیا۔ بھوک تھوڑا کسمسائی ضرور لیکن پوری طرح جاگ نہ پانے کے باعث اتنی قوی نہ ہو سکی کہ ہم پرطاری ارد گرد کے مناظر کی دلکشی اور شاہراہ قراقرم کے ریشمی حسن کے سحر کا توڑ کر پاتی۔ میرے استفسارپر ہوٹل والے نے بتایا کہ راکا پوشی ویو پوائنٹ یہاں سے کچھ ہی دوری پر ہے۔ آسمان آہستہ آہستہ بادلوں سے ڈھکتاجا رہا تھا۔گردو پیش کے خوبصورت نظاروں پر دھوپ کے بجائے  اب بادلوں کے سائے راج کرتے تھے اور ہمارے حسین سفر کی اس سہ پہر کو مزید خوشگوار بناتے تھے۔سامنے پہاڑوں سے نیچے کی طرف آتے نالے کا پانی راکا پوشی کی برفیلی چوٹیوں کے یخ سندیسے ساتھ لئے نیچے اترتا تھا۔ پانی کی ٹھنڈک چپکے چپکے نالے کی رہگزر سے اٹھتی تھی اور وادی کی پوری فضا میں رچتی، بستی اور گھلتی چلی جاتی تھی۔موسم کی خوبصورتی اور دلکش نظاروں کے حسن کی مہک ہوٹل کے توے سے اٹھتی گرم گرم پراٹھوں کی مہک پر حاوی تھی سو ہم توے کی قربت کو چھوڑ کر اپنی گاڑی کی طرف پلٹ آئے۔

    دس منٹ بعد ہی ہم غلمت نگر میں واقع راکا پوشی ویو پوائنٹ پر پہنچ گئے۔اس مقام کی رونق 2004 کے مقابلے میں اب دو چند تھی۔ دکانوں کی تعداد میں بھی کچھ اضافہ ہو گیا تھا۔ اچھی خاصی چہل پہل تھی اور پل کے پاس چار پانچ گاڑیاں بھی موجود تھیں۔ یہاں بھی چندہوٹل بنے تھے، نالے کے ساتھ ہی چھوٹے سے ہموار میدان میں پلاسٹک کی میز کرسیوں کے ساتھ ساتھ دھوپ اوربارش سے بچائو کے لئے لگائی گئی رنگ برنگی چھتریاں لگی تھیں۔ اچانک ہماری نظر اس چھوٹےسے باغیچے نما میدان میں نالے کی طرف لگی لکڑی کی ریلنگ پر بیٹھے خوبصورت کشپ پر پڑی۔ ہنزہ کی رنگین اور سرسبز وادی کی طرح ریلنگ پر بیٹھا یہ کشپ بھی کچھ زیادہ خوش رنگ دکھائی دیتا تھا۔ کیمرہ میرے ہاتھ میں ہی تھا، میں نے اس کے اڑنچھو ہونے سے پہلے ہی جھٹ سے ایک دو تصویریں بنا لیں۔اس مقام سے راکا پوشی کا نظارہ بھی زیادہ بہتر اور صاف تھا۔ جس گلیشئر سے پگھل کر اس نالے کا پانی نیچے اترتا تھا وہ بھی دور چمکتا دکھائی دیتا تھا لیکن راکاپوشی نے بھی اپنا حسین چہرہ ترشنگ میں دکھائی دیتی نانگا پربت کی چوٹی کی طرح سفید بادلوں کے نقاب میں چھپا رکھا تھا۔ سہ پہر رفتہ رفتہ شام میں ڈھلتی تھی ، آسمان پر بادلوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا جس کے باعث فضا میں ٹھنڈک بڑھتی جاتی تھی۔ استور سے روانہ ہوتے وقت میں اپنی گرم ٹوپی وہیں بھول آیا تھا۔ بڑھتی ہوئی خنکی نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھا تو اس بھولی بچھڑی ٹوپی کی بہت یاد آئی۔ جس چھوٹے سے باغیچے میں کھڑے ہم راکا پوشی کی نقاب پوش چوٹیوں کا نظارہ کر تے تھے اس سے متصل ہی ہینڈی کرافٹ کی دکان پر مجھے ویسی ہی گرم اونی ٹوپیاں نظر آگئیں جن میں سے ایک کچھ ہی دیر بعد میرے سر پر تھی۔





    پونےچاربجے ہم راکاپوشی ویوپوائنٹ سےروانہ ہوئے۔ 2004 میں جب ہم گلگت کے ایک گیسٹ ہائوس میں ٹہرے تھےتو وہاں اپنے ہنی مون ٹرپ پر آئے ہوئے ایک جوڑے نے ہمیں میناپن نگر کے بارے میں بتایا تھا کہ راکا پوشی ویوپوائنٹ کے قریب سے ہی ایک راستہ اس چھوٹے سے خوبصورت قصبے کی طرف جاتا ہے جو کہ شاہراہ قراقرم سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہی واقع ہے ۔راکا پوشی ویو پوائنٹ سے تقریباً 2 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کےبعد ہمیں دائیں طرف میناپن نگر کی طرف مڑنے والی سڑک نظر آگئی۔میں نے سڑک کےساتھ لگے بورڈ کے پاس گاڑی روکی۔ مینا پن  کا رخ کرتی یہ سڑک کافی بہتر دکھائی دیتی تھی۔بورڈ پر لکھی تحریر سے پتہ چلا کہ اس پختہ سڑک کی تعمیر ٹھیک ایک ماہ قبل یعنی 7 مئی کو مکمل ہوئی تھی۔گھڑی پر نظر ڈالی تو ابھی چار بجنے میں بھی دس منٹ باقی تھے۔یہاں سے ہنزہ بھی زیادہ  دور نہ تھا چنانچہ ہم شاہراہ قراقرم چھوڑ کر میناپن کے قصبے کی طرف جاتی راہ پر روانہ ہوگئے۔
    سڑک آہستہ آہستہ بلند ہوتی آگے بڑھتی تھی۔بلندی سے دور بائیں طرف دریائے ہنزہ اور اس کے ساتھ ساتھ سیاہ لکیر کی صورت پہاڑ کے دامن سے لپٹی شاہراہ قراقرم نظر آتی تھی۔راستے میں ایک نالے کا پل عبور کرکے ہم آٹھ دس منٹ بعد ہی میناپن کے چھوٹے سے قصبے کی آبادی تک پہنچ گئے۔ سڑک آبادی کے درمیان سے گزرتی ہوئی آگے بڑھتی چلی گئی اور ہم بھی اس کے ساتھ ساتھ ہی آبادی کو چھوڑ کر آگے بڑھتے گئے۔تقریباً نصف کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اچانک اس عمدہ اور پختہ سڑک کا اختتام ہو گیا۔ میں نے گاڑی روک دی ۔مزید آگے کی طرف جانے والی سڑک کچی تھی اور بتدریج تنگ بھی ہوتی چلی جاتی تھی ، میں نے مزید آگے جانے کےبجائے دوبارہ مینا پن کے قصبے کی طرف جانے کے لئے گاڑی موڑ لی۔کچھ دیرکےلئے گاڑی سے اترکرہم  نےمیناپن نگر کے اطراف بکھرےدلکش مناظر سے قلب و نظر کی آبیاری کی۔آسمان پر چھائے بادل رفتہ رفتہ سفیدسے سرمئی رنگت اختیار کرتے جاتے تھے۔دوبارہ میناپن کے قصبے کی حدود میں داخل ہوئے تو سڑک کے بائیں طرف دیران گیسٹ ہائوس کی خوبصورت عمارت نظر آئی۔ دیران گلگت بلتستان کی حدود میں واقع قراقرم کے پہاڑی سلسلے کی ایک معروف چوٹی کا نام ہے جس کی طرف جانےکیلئے ایک راستہ میناپن کے قصبے سے ہو کر ہی گزرتا ہے۔دیران کی چوٹی راکاپوشی سے مشرق کی طرف واقع ہے اور ان دونوں کا شمار اس علاقے کی مشہور چوٹیوں میں ہوتا ہے۔


   میناپن کے چھوٹےسے قصبے میں سیاحوں کے قیام کے لئے واحد پر آسائش قیام گاہ دیران گیسٹ ہائوس ہی ہے۔ میں نے گیسٹ ہائوس کے گیٹ کے اندر بنی پارکنگ میں گاڑی روک دی۔عمارت کے سامنے والے حصے میں وسیع وعریض گھاس کا میدان تھا۔سرسبز میدان میں موجود خوش رنگ پھولوں کے پودوں سے سجی کیاریوں اورسرخ سرخ چیریوں کے درختوں کے حسین باغیچے نے دیران گیسٹ ہائوس میں ہمارا استقبال کیا۔صبح سویرے اسکردو  سے نکلے تھے ، سہ پہر شام میں ڈھل   چکی تھی ،کچھ تکان جسم و جاں میں اترتی تھی، لیکن میناپن کے قصبے کی خوبصورت شام اور گیسٹ ہائوس میں بکھرے  خوبصورت مناظر نے ہمیں  یکدم تروتازہ کر دیا۔چیریوں سے لدے درختوں کے باغیچے کے ایک گوشے میں بیٹھے گیسٹ ہائوس کے کچھ ملازم ان رسیلی اور تازہ چیریوں کو گتے کے خوبصورت ڈبوں میں پیک کر رہے تھے۔ہم کچھ دیر تک باغیچے اور پھولوں کی کیاریوں کے درمیاں گھومتے پھرے۔





گیسٹ ہائوس کی  اندرونی عمارت میں داخل ہوئے تو لابی میں مقامی ہینڈی کرافٹس، علاقائی ثقافت کے نمونوں اور تاریخی نوادرات کی حسین اور پرکشش سجاوٹ نے ہمارے قدم روک لئے۔انتہائی خوبصورتی سے مزین کائونٹر کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی گفٹ شاپ بھی تھی۔ لابی میں ہم دونوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا، کائونٹر خالی اور گفٹ شاپ بھی بند تھی۔ ہم دونوں گلگت بلتستان کی تہذیب و ثقافت سے سجی لابی کے خوابناک ماحول میں کچھ دیر کیلئے کھو سے گئے۔لابی کے ساتھ ہی موجود ڈائننگ ہال کا رخ کیا تو وہاں بھی کوئی نہ تھا۔ وسیع و عریض ہال کی آرائش بھی قابل دید تھی۔ ڈائننگ ہال کو دیکھ کرہماری بھوک  پھر سےکچھ جاگ اٹھی۔ کچھ دیر میں ایک بھولا بھٹکا ویٹر اس طرف آنکلا ،معلوم ہوا کہ کھانےمیں تو اس وقت کچھ بھی تیار نہیں، چنانچہ ہم نے اسے فرنچ فرائیز اور چائے کا آرڈر دے دیا۔ابھی ہم ہال کے وسط میں کھڑے اس کے  سجے ہوئے درودیوار اور ستونوں سے محظوظ ہی ہورہے تھے کہ ہوٹل کا ایک ملازم تازہ ،رسیلی اور سرخ سرخ چیریوں سے بھرا ایک بڑا سا پیالہ ہمیں تھما گیا۔ یہ ڈھیر ساری تازہ چیریاں گیسٹ ہائوس والوں کی طرف سے ان کی محبت اور خلوص بھری سوغات تھی۔ بھوک جاگ اٹھی ہو اور سامنے تازہ چیریوں سے بھرا پیالہ دھرا ہوتو ہاتھ بھلا کیونکر رک سکتے تھے ،کچھ ہی دیر میں ہم نے لذت سے بھرپور تمام چیریاں ہڑپ کر لیں اور ڈائننگ ہال سے نکل کر باہر لان میں آ گئے۔







    آسمان پر چھائے بادلوں کا سرمئی رنگ گہرا ہوتا جاتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی۔ہم ایک گھنے درخت کی پھیلی ہوئی شاخوں کے سائبان تلے رکھی میز کرسیوں پر بیٹھ کر فرنچ فرائز اورچائے کا انتطار کرنے لگے۔ ہلکی ہلکی پھوار ، نظروں کے سامنے خوبصورت سبزہ زار، مہکی مہکی خنک  اور حسین شام میں دیران گیسٹ ہائوس کے باغیچے  میں بیٹھ کر فرنچ فرائز اور چائے کی آمد کا یہ انتظار ناگوار کے بجائے انتہائی خوشگوارمحسوس ہو تا تھا۔اس سفر کے دوران گزرنے والی شاموں کی طرح آج کی شام بھی اپنے تیور بدلتی تھی لیکن آج اس کے یہ بدلتے تیور ہمیں ڈراتے نہ تھے کہ ہم ایک محفوظ مقام پر تھے۔ ہنزہ بھی یہاں سے زیادہ دور نہ تھا اور راہیں بھی پر خطر نہ تھیں۔ کچھ ہی دیر بعد گرماگرم چائے اور فرنچ فرائز ہمارے سامنےتھے۔فرنچ فرائز کا سائز دیکھ کر اندازہ ہوا کہ گردوپیش کے پہاڑوں کی عظمت  ان پر بھی اثر کر گئی تھی یا  ممکن ہے کہ آلو ہی پہاڑی قدوقامت کے حامل ہوں کہ فرنچ فرائز کی معمول کی جسامت  کے مطابق ان کی تراش خراش  کرنا مشکل ہوتا ہو، دیکھنے میں بھی وہ فرنچ کے بجائے مقامی وضع قطع کے حامل نظر آتے تھے،بہرحال ان عظیم الجثہ فرنچ فرائز نے ہماری بھوک مٹانے کا کام  نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا  جبکہ ہلکی ہلکی پھوار میں گرم گرم چائے پینے کا تو لطف ہی کچھ اور تھا۔ بوندا باندی کا سلسلہ کبھی تھمتا اورکبھی دوبارہ شروع ہوجاتا۔ دور پہاڑوں کی بلند چوٹیاں گہرے سرمئی بادلوں میں ڈھکتی جاتی تھیں جب ہم اس خوبصورت دیران گیسٹ ہائوس کی پارکنگ سے ہنزہ کی طرف روانگی کیلئے باہر نکل رہے تھے۔




    شاہراہ قراقرم پر پہنچنے کے تقریباً ایک کلو میٹر بعد ایک پل سے گزر کر ہم دریائے ہنزہ کے دوسری جانب چلے گئے۔ دریا اب ہمارے دائیں طرف آگیا تھا۔ موسم اور گردوپیش کے مناظر انتہائی خوبصورت ہوتے چلےجاتے تھے۔ ہلکی ہلکی پھوار پوری فضا کو خوشگوار کرتی تھی۔ کبھی کبھی شاندار شاہراہ کے کنارے لگےقطاردر قطار لمبے لمبے درخت بھی ہمارے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ ایک دو چھوٹے چھوٹے قصبوں سےگزرتے ہوئے ہم علی آباد کی حدود میں داخل ہو گئے۔ 2004 کی بہ نسبت آج یہ قصبہ چھوٹے سے شہرکا روپ دھار چکا تھا جس کے درمیان سے گزرتی ہوئی شاہراہ قراقرم اس کی رونق میں مزید اضافہ کرتی تھی۔ ہمارا سفر خاصی تیز رفتاری سے جاری تھا ۔ کچھ ہی دیر میں ہم علی آباد کو پیچھےچھوڑتے ہوئے گنیش کے قریب پہنچ گئے جہاں سے ایک راستہ ہنزہ کریم آباد جانے کیلئے بائیں طرف مڑتاتھا۔ کریم آباد کی طرف جانے والی سڑک بھی بہترین حالت میں تھی ، چونکہ کریم آباد کی آبادی شاہراہ قراقرم کے ساتھ واقع گنیش کے قصبے سے خاصی بلندی پر واقع ہے اس لئے سڑک آہستہ آہستہ گھومتی ہوئی اوپر چڑھتی تھی۔ گھڑی شام کے تقریباًپونے چھ بجے بجارہی تھی جب ہماری نظروں کے سامنے ایک چوک پر موجود ہوٹل کے ساتھ لگےبورڈ نے ہنزہ کریم آباد میں ہمیں خوش آمدید کہا۔





    اپنے 2004 کے سفر کے دوران ہم نے ہنزہ کے سرکاری ریسٹ ہائوس میں قیام کیا تھا۔ ریسٹ ہائوس سےسامنے نظر آتی وادی ہنزہ کا نظارہ انتہائی دلکش اور یادگار تھا۔ ریسٹ ہائوس سے دور نشیب میں بہتا دریائے ہنزہ اور کے ذرا دائیں طرف نظریں اٹھاتے چلے جائو تو دیران اور راکاپوشی کی برف پوش چوٹیاں۔چوک پر موجود لوگوں سے ریسٹ ہائوس کی طرف جانے والے راستے کا پتہ کیا اور ہمکچھ ہی دیر کے بعد ریسٹ ہائوس کے گیٹ کے باہر پہنچ گئے۔ میں نے گاڑی کھلے ہوئے گیٹ سے اندر لےکرپارکنگ میں کھڑی کر دی۔ریسٹ ہائوس کے اندر موجود ملازم سے معلوم ہوا کہ ریسٹ ہائوس اب ڈپٹی کمشنر آفس میں تبدیل ہو چکا ہے۔میں ابھی اسی شش و پنج میں تھا کہ اب ہوٹل کی تلاش میں کس طرف نکلا جائے کہ میری نظر اچانک ڈی سی آفس کی چھت کی ریلنگ  کے ساتھ کھڑےایک صاحب پر پڑی جو ہماری طرف حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے استفسار پر میں نے بتایا کہ ہم کراچی سے وارد ہوئے ہیں اور آج سے دس سال قبل اسی ریسٹ ہائوس میں ٹہرے تھے۔ انہوں نےہمیں مشورہ دیا کہ آپ کو ہوٹل کی تلاش میں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ،گاڑی یہیں پارکنگ میں کھڑی رہنے دیں ، ڈی سی ہائوس سے متصل ہی ایک عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ بھی ایک ہوٹل ہے ،آپ اسی میں ٹہر جائیں۔ ہم ان کا شکریہ ادا کر کے اس عمارت کی طرف بڑھ گئے۔
    ہوٹل کا مالک انتہائی سادہ سا اور ضعیف شخص تھا۔ ہوٹل کی عمارت بھی اپنے مالک کی طرح بہت سادہ تھی ، تعمیر کو غالباً زیادہ طویل عرصہ نہیں ہوا تھا اس لئے ضعیف نہ تھی۔پہلی منزل پر اس نے ہمیں ایک کمرہ دکھایا جوزیادہ پرآسائش تو نہ تھا لیکن کمرے کی کھڑکیوں سے ہی دورراکاپوشی اور دیران کی بادلوں میں ڈھکی برف پوش چوٹیاں دکھائی دیتی تھیں۔کمرے کے عین سامنے گیلری میں کھڑے ہوں تو بائیں طرف ڈی سی آفس کی عمارت اور بالکل سامنے وادی ہنزہ کا ہو بہو وہی شاندار نظارہ جس سے ہم  دس سال قبل ہم اپنی بچیوں کے ساتھ ریسٹ ہائوس کی راہداری میں کھڑے ہو کر لطف اندوزہوتے تھے ۔ہم نے اپنی پرانی اور ناقابل فراموش یادوں کو تازہ کرنے اوراپنی نظروں کے سامنے بکھرے ان حسین مناظر کے خزانےکو کمرے میں موجود سہولتوں اور آسائش پر ترجیح دینابہتر سمجھا۔ عصر کی نماز کمرے میں پڑھنے کے بعد ہم گاڑی سے سامان نکالنے کی غرض سے نیچےاتر آئے۔ ٹیرس پر وہ صاحب ابھی بھی موجود تھے۔ہمیں اپنے مشورے  پر عمل کرتا دیکھ کراس ہوٹل میں ہمارے قیام کے فیصلے پر وہ بہت خوش دکھائی دیتے تھے ،غالباً  اسی جذبہ مسرت کی سرشاری میں انہوں نے ہمیں اپنے ساتھ چائے پینے کی دعوت دے ڈالی۔ ہم نے بھی دس سال پرانی یادیں تازہ کرنے کا یہ سنہری موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا ۔ نیچے موجود ایک ملازم کی رہنمائی میں ہم عمارت میں داخل ہوئے۔                                                                          
    ریسٹ ہائوس ڈی سی آفس میں بدل گیا تھا لیکن عمارت نے اپنا چولا نہیں بدلا تھا۔ وہی کمرے ، درودیوار  اور بڑی سی کھلی راہداری، جس کی سامنے والی دیوار پر شیشوں کے فریم والی بڑی بڑی کھڑکیاں، ملازم نسبتاً تیز قدموں سے چلتا تھا جبکہ پرانی یادیں اور ذہن میں پھر سےتازہ ہوجانے والے یادگار پل ہمارے قدم روکتے تھے، جس کمرے میں 10سال پہلے ہم مقیم تھے اس کے مقفل دروازے نے چند لمحوں کے لئے ہمارے قدم جکڑ لئے۔ ملازم بھی ٹہر گیا، وہ ہم کو دیکھتا تھا،ہمسفر اور میں کبھی کمرے کے دروازے کو تو کبھی ایک دوجے کو دیکھتے تھے۔
     ایک دو منٹ  بعد یادوں کے سحر سے نکلے اورریسٹ ہائوس کےکھلے ٹیرس پر جا پہنچے۔تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ ہمیں چائے پر مدعو کرنے والےمیز بان ہنزہ میں سیشن جج  ہیں۔ اسکردو کے رہائشی ہیں اورحال ہی میں یہاں تعینات ہوئے ہیں ، ابھی تک  کسی رہائش  گاہ کا بندوبست نہ ہو سکنے کی بنا پر عارضی طور پر ڈی سی آفس میں قیام پذیر ہیں۔ انہیں جب معلوم ہوا کہ ہم بھی اسکردو سے ہی آرہے ہیں تو ان کی خوشی دو چند ہو گئی۔ہم تقریباً آدھا گھنٹہ ان کے پاس بیٹھے۔ابھی عصر کا وقت تھا لیکن آسمان پر چھائے بادلوں کے باعث لگتا تھا کہ شام رات میں ڈھلا چاہتی ہے۔کبھی کبھی بادلوں سے اترتی انتہائی ننھی بوندیں وادی میں چلتی ہلکی ہلکی خنک ہوائوں کے دوش پر تیرتی ہمارے چہروں کو چھوتیں تو ان کے معصوم لمس کا خوشگوار احساس روح کی گہرائیوں تک اترتا محسوس ہوتا۔آج کی اس حسین شام میں کھلے آسمان تلے وادی ہنزہ کی جادو بھری فضائوں میں  جج صاحب سے ہماری گفتگو کا سلسلہ  توجاری تھا ہی  لیکن اس گفتگو کےساتھ ساتھ ہمارے ذہنوں میں ریسٹ ہائوس سے جڑی  حسین یادیں بھی سرگوشیاں کرتی تھیں۔
    ایسی ہی خوبصورت شام جب ہم راہداری میں پڑی دو کرسیاں اٹھا کر  نیچے کی طرف بنے ہوئے کمروں کی کھلی چھت پر رکھ دیتے تھے۔ ہمسفراور میں کرسیوں پر بیٹھے دور نشیب میں لکیر کی طرح  دکھائی دیتے دریائے ہنزہ اور ان سے دور پرے بلندیوں میں غروب ہوتے سورج کے باعث  زرد سے نارنجی رنگت اختیارکرتی راکاپوشی اور دیران کی برف پوش چوٹیوں کو تکتے تھے۔ ہماری  تینوں بچیاں کھلی چھت پر ٹہلتی پھرتی تھیں ، وادی میں مدھم ہوتی روشنی خاموشی سے رات کی تاریکی میں بدلنے لگتی  تو وہ ہمارے قریب آکر بیٹھ جاتیں ۔ کچھ ہی دیرمیں آسمان پر ستاروں کے دیےٹمٹمانے لگتے،  جوں جوں اندھیرا بڑھتا ،سیاہ آسمان پر  کہکشاں جگمگا اٹھتی۔
    چائےپینے کے بعدہم نے یادوں کی اس جگمگاتی کہکشاں کے ساتھ جج صاحب سے اجازت چاہی  اورپارکنگ میں کھڑی گاڑی سے مطلوبہ سامان نکال کر اپنے ہوٹل کا رخ کیا۔ 
 کچھ تازہ دم ہوئے اور مغرب کی نماز پڑھ کر ایک بار پھر نیچے اتر آئے۔ ڈی سی آفس سے کریم آباد کے بازار تک ایک سڑک آہستہ آہستہ بلند ہوتی اور تھوڑا گھومتی پھرتی کریم آباد کے مین بازار تک جاتی ہے۔ 2004 میں ہم رات کو اسی سڑک پر چہل قدمی کرتے ہوئے بازار تک جاتے تھے۔ آج ہم پھر اسی سڑک پرپیدل بازار کا رخ کرتے تھے۔ سڑک پر کچھ نئے ہوٹلوں کا اضافہ ہو چکا تھا، بازار تک پہنچے تواندازہ ہوا کہ دکانوں کی تعداد بھی خاصی بڑھ چکی ہے۔  ہماری نگاہیں بعض دکانوں کے باہر لگی کون آئسکریم کی ان مشینوں کو تلاش کرتی تھیں کہ جن سےدس سال قبل ہم اپنی بچیوں کے ہمراہ  آئسکریم لے کر کھاتے تھے۔ 2004 میں ہم بھرپور سیزن میں ہنزہ آئے تھے جبکہ اس بار ہم سیزن سے کچھ پہلے ہی وارد ہو گئے تھے ،غالباً یہی وجہ تھی کہ آج بازار میں نہ تو ویسی گہما گہمی تھی اور نہ ہی وہ آئسکریم مشینیں موجود تھیں۔ ہینڈی کرافٹ کی ایک دکان میں داخل ہوئے تو مجھے ہو بہو استور میں گم ہوجانے والی اپنی پسندیدہ ٹوپی جیسی گرم ٹوپیاں نظر آگئیں۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا کہ استور میں گم ہوجانے والی اپنی پسندیدہ ٹوپی میں ہنزہ میں ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
 آسمان بدستور بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑنے اور تھمنے کا جو سلسلہ میناپن سے شروع ہوا تھاوہ ابھی تک جاری تھا۔ اسکردو سے ہنزہ تک کا طویل سفر اور پھر یہ اچھی خاصی لمبی چہل قدمی ، تکان آہستہ آہستہ بڑھتی تھی ، بھوک بھی  رفتہ رفتہ جاگتی تھی، چنانچہ ہم نے بازار کی مختصر سی سیر کے بعد اپنے ہوٹل کی راہ لی۔ رات کا کھانا اپنے ہوٹل میں ہی کھایا۔بستر کی آغوش میں گیا تو ایک بار پھر ذہن میں ماضی کی یادیں در آئیں اورذہن ان میں ایسا کھویاکہ 2004  کو پیچھے چھوڑتا ہوا 1984 کے ہنی مون ٹرپ کے وقت کی وادی ہنزہ میں جا پہنچا کہ جب ہم گلگت سے نکل کر عصر سے کچھ قبل بذیعہ وین کریم آباد کے چھوٹے سے قصبے میں پہنچے تھے۔ وین کے اندر ہی ہمارے نیچے اترنے سے قبل کسی مقامی مسافر نے ڈھیر سارے سیب ہمیں تحفتا  ً تھما دئے تھے ۔ 1984 کےکریم آباد کی کوئی دکان میری یاد داشت میں نہیں ، صرف ایک دوچھوٹے سے کچے ہوٹل ضرور موجود تھے جن میں مقامی سیاحوں سے زیادہ یورپی ممالک کے سیاح قیام پذیر تھے۔ زگ زیگ کی صورت سڑک گنیش کے قصبے سے مسلسل سخت چڑھائی چڑھ کر اوپر ہوٹلوں تک پہنچتی تھی۔ ہمارے پاس صرف اگلی صبح سویرے تک کا وقت تھا۔ ایک ہوٹل میں کمرہ بک کر کے ہم اس طویل ز گ زیگ سڑک کے بجائے کھیتوں کے درمیان سے اترتی کچی پگڈنڈیوں کاشارٹ کٹ اختیار کر کے گنیش تک پیدل اترتے چلے گئے تھے۔ اترتے وقت ہمیں اسی کچےراستے پرٹی وی فنکار  نثار قادری بھی دکھائی دئے تھے۔ گنیش سے واپسی کے وقت اسی راستے سےاوپر چڑھتے وقت انتہائی مشکل چڑھائی نے ہمارے ہوش اڑا دئیے تھے ،ہم تھکن سے چور ہوگئےتھے۔ راستے میں پی ٹی سی ایل کی چھوٹی سی عمارت میں کچھ دیر ٹہر کر ہم نے اپنی سانسیں بحال کرنے کے ساتھ ساتھ گھر والوں کو فون پر اپنی خیریت کی اطلاع بھی دی تھی۔رات کا کھانا ہم نے اپنے ہوٹل سے متصل ایک دوسرے ہوٹل کے کچے سے لیکن صاف ستھرےڈائننگ ہال میں کھایا تھا۔ ہال کے کچے فرش کی ایک سمت سے ٹھنڈے پانی کا ایک نالہ ہال میں داخل ہوتا تھا اور درمیان سے بہتا ہوا دوسری طرف سے باہر نکل جاتا تھا جس کے یخ پانی میں کولڈ ڈرنکس کے چند کریٹ رکھے تھے ۔ ہوٹل کے ملازم قدرت کے اس  ریفریجریٹر سے کولڈ ڈرنکس نکال کرڈائننگ ہال کی میزوں پر بیٹھے غیرملکی سیاحوں کو پیش کرتے تھے، ہم سردی میں کپکپاتے تھےاس لئے کولڈ ڈرنکس کے بجائے کھانے کے بعد گرم گرم چائے کی چسکیاں لیتے تھے۔ کھانے اور چائےکے بعد ہم جلدی سے اپنے ہوٹل کے کمرےمیں جا گھسے تھے کہ باہر ہو کا عالم، سناٹے اور تاریکی کا راج تھا۔ویگن ڈرائیورکو کل شام اترتےوقت ہی کہہ دیا تھا کہ صبح پہلی ویگن کی روانگی کے وقت ہمیں ہوٹل سے بلا لے۔ صبح کے سات بجے ہی ویگن ڈرائیور نے ہمارے کمرے کے لکڑی کے دروازے پر دستک دے دی تھی اور ہم وادی ہنزہ کی اپنی پہلی سیر کے موقع پر اتنے مختصر سے قیام کے بعد واپس روانہ ہو گئے تھے۔ میں 1984 کی ان یادوں میں محوتھا کہ 30سال بعد اسی حسین وادی میں نہ جانےکب چپکے سے نیند نے مجھے اپنی باہوں میں لے لیا۔


۔۔۔ دائیں طرف راکاپوشی اور بائیں طرف دکھائی دیتی دیران کی برف پوش چوٹیاں ۔۔۔

یہ تصویر میری کھینچی ہوئی نہیں بلکہ قارئین کو دونوں چوٹیوں کے محل وقوع سے آگاہ کرنے کیلئے انٹرنیٹ سے لے کر یہاں پوسٹ کی ہے۔







No comments:

Post a Comment