قوس قزح تلے پتن ۔۔ آغاز بلتستان ۔۔ حسین راما


چوتھا دن


سندھ کنارے ۔۔۔ ناقابل فراموش شنگ ۔۔۔۔ قوس قزح تلے پتن

جانے کب سے صبح کی روشنی  میری آنکھوں پر دستک دے رہی تھی۔جب اس دستک نے شدت اختیار کی تو میں نے پپوٹوں کے پٹ کھول دئے۔ کھڑکی سے در آتی روشن صبح میرے سامنے تھی۔ میری نظریں بے اختیارکھڑکی کی جالی کے باہر نظر آتے آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ رات کو گرج گرج کر ہمیں جگانے والوں کا کچھ پتہ نہ تھا۔ میں اٹھ کر دریچے کے پاس گیا۔ ہلکا ہلکا سفید ابردور نظر آتے سرسبز پہاڑوں پر جھکے آسمان تک پھیلا ہوا تھا۔ صبح کے چھ بج رہے تھے۔ مانسہرہ کی طوفانی شب نے ہماری نیند میں بہت خلل ڈالا تھا اور اسی باعث ہم آج یہاں سے علی الصبح نکلنے کےقابل نہ رہے تھے۔ ہم سفر پر ابھی تک نیند کا غلبہ تھا۔ میں نے تھوڑی دیر تک آنے کا کہہ کر پارکنگ سے گاڑی نکالی اور قریبی پٹرولپمپ پہنچ گیا۔ شاہراہ قراقرم کے یہاں سے آگے کے طویل سفر کے دوران گاڑی کے ایندھن کے حصول میں ممکنہ دشواری کے پیش نظر میں نے کراچی سے پٹرول ذخیرہ کرنے کیلئے جو دو خالی کین لئے تھے ان کو بھروالیا۔ گاڑی میں پٹرول بھی ڈلوایا اور قریب ہی موجود ایک گیس اسٹیشن سے سی این جی بھی۔ گاڑی کا تیل پانی اور بریک آئل وغیرہ چیک کیا۔ کسی بھی پمپ کی ٹائر شاپ ابھی تک کھلی نہ تھی سو اس چیکنگ کو مانسہرہ سے روانگی تک موخر کر دیا۔آدھے گھنٹے بعد دوبارہ ہم سفر کے پاس پہنچا تو وہ جاگ چکی تھی۔ صبح کے سات بج رہے تھے جب ہم مانسہرہ کے اس گیسٹ ہائوس سے روانہ ہوئے۔
ایبٹ آباد کی طرح شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ چلنےوالا مانسہرہ کا یہ بازار بھی خاصی طوالت اختیار کر چکا تھا۔ ان علاقوں کے بازار صبح سات بجے ہی کھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ دونوں اطراف واقع زیادہ تر دکانیں کھل چکی تھیں۔ اس بازار کے اختتام کے قریب ہم نے ایک ٹائر شاپ سے پہیوں کی ہوا بھی چیک کرا لی۔ بازار سے نکلے تو مانسہرہ کےمضافاتی علاقوں کی آبادی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اتنی صبح صبح بھی شاہراہ پر ٹریفک ٹھیک ٹھاک تھا۔مضافات کی ان آبادیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہم آگے بڑھے تو شاہراہ قراقرم کے ارد گرد پھیلےہوئے مناظر کا حسن قابل دید تھا۔ اس وقت شاہراہ زیادہ تر کھلی سر سبز وادیوں سے گزر رہی تھی اورباقاعدہ پہاڑی راستوں کا آغاز ابھی نہیں ہوا تھا۔ آسمان پر چھائے ابر کے باعث دھوپ میں بالکل تیزی نہ تھی۔ دونوں اطراف ہرے بھرے کھیتوں اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چھوٹی چھوٹی آبادیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ آٹھ بجے کےبعد ہم ناشتے کی غرض سے سڑک کے کنارے واقع ایک ہوٹل پر رکے۔ یہاں بھی فیمیلیز کے لئے مخصوص ایک چھوٹے سے کمرے کی فرشی نشست پر بیٹھ کر ہم نے ناشتہ کیا۔ہوٹل کے مالک کو غالباً شعروشاعری سے بہت لگائو تھا جس کا اظہار اس نے ہوٹل کے برآمدے کی دیوار پر ترتیب سے اچھے خاصے اشعار لکھوا کر کیا تھا۔ بعض شعر اتنے خوبصورت تھے کہ یادرکھنے کیلئے انہیں نوٹ کرلینے کو دل چاہتا تھا۔ کاغذ قلم گاڑی میں تھا ،سو میں نے کیمرے کا سہارا لیا اور ان خوبصورت اشعار سے مزین برآمدے کی  دیوار کی ایک تصویر بنا لی۔

مانسہرہ کے ہوٹل میں لی گئی کچھ تصویریں ۔۔۔








راستے میں جس ہوٹل پر ٹہر کر ناشتہ کیا ۔۔۔




تقریباً پون گھنٹے بعدہم یہاں سے روانہ ہوئے۔شاہراہ قرقرم آگے بڑھتی رہی۔ ارد گرد پھیلے ہوئے مناظر حسین سے حسین تر ہو تے گئے۔ کبھی سر سبز پہاڑ شاہراہ کے قریب آجاتے تو کہیں دور دور تک پھیلے سبز مخملیں قالینوں جیسےسبزہ زاراس کے دونوں اطراف بچھ جاتے جن کے درمیان شفاف ندیاں گنگناتی تھیں۔بکریوں کےریوڑ اور کہیں گھوڑے ان قدرتی چراگاہوں میں چرتے پھرتے تھے اور ان کے بیچ بہتے شفاف نالوں کا پانی پیتے تھے۔کبھی ہم ان پہاڑوں کے وسیع دامن میں واقع قصبوں سے گزرتے تو کبھی پہاڑوں کے بیچ کسی تنگ وادی میں گھومتی اور بل کھاتی شاہراہ قراقرم کے ساتھ بہتی ندی کے کنارے آباد گھروں کے درمیان سے نکلتے۔ دور سر سبز پہاڑوں پرقطار در قطار درختوں کا سلسلہ بہت خوبصورت دکھائی دیتا تھا۔ کبھی یہ پہاڑ سڑک کے بہت قریب آجاتے توان بلند درختوں کے سلسلے کو بھی ساتھ لے آتے۔ سفر کے دوران پہلی بار ہماری نظراچانک سرسبز پہاڑوں کی چوٹیوں سےپرے بہت دور سے نظر آنے والے برف پوش پہاڑوں پر بھی پڑی۔
ہم چھتر پلین ، پھگوڑا اور چھپر گرام کے خوبصورت قصبوں سے گزرتے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ آسمان پر ہلکےہلکے بادل بھی چھانے لگے تھے جو ان حسین نظاروں کو مزید جلا بخش رہے تھے۔ جوں جوں یہ شاہراہ آگے بڑھتی تھی۔ارد گرد کے پہاڑوں کی بلندی اور تعداد بھی بڑھتی جاتی تھی۔سبزہ زار اب میدانوں کے بجائے ان بلند پہاڑوں کا سبز لباس بنتے جاتے تھے۔ ان پہاڑی سلسلوں کے بیچ اب شاہراہ بل کھاتی کبھی بلندیوں کی طرف اٹھتی تھی تو کبھی نشیب کی طرف پھسلتی تھی۔پہاڑوں کے ساتھ ساتھ موڑ مڑتی ایک وادی سے نکل کر دوسری وادی میں داخل ہو تی۔ شاہراہ قراقرم کےیہ نشیب و فراز اور موڑ بھی شاہراہ کی طرح خوبصورت تھے اور بڑے سلیقے اور مہارت سے بنائے گئے تھے۔تربیلا سے براستہ سری کوٹ حویلیاں اور حویلیاں سے سجی کوٹ جانے والے پہاڑی راستوں کی چڑھائیاں اور اتار زیادہ دشوار اور موڑ خاصے تنگ اور خطرناک تھے، حالانکہ ان راستوں کے پہاڑوں کی بلندیاں شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف موجود پہاڑوں سے خاصی کم تھیں۔ ان سڑکوں اور اس شاہراہ کے نشیب و فرازاور موڑوں کے اس فرق کی وجہ یہ تھی کہ یہ شاہراہ چین اور پاکستان کے درمیان تجارتی سرگرمیوں کیلئےشہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ تجارتی سامان سے لدے ہوئے بھاری بھرکم ٹرکوں اور ٹریلروں کو شاہراہ قراقرم پرموجود آسمان سے باتیں کرتے ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ کے عظیم پہاڑی سلسلوں کی بلندیوں کو جھیلنا اور کئی مقامات پر سیکڑوں فٹ نیچے بہتے دریائوں تک نشیبوں سے نمٹنا تھا جبکہ پہاڑوں کے بیچ مڑتے پر پیچ راستوں کا بھی سامناکرنا تھا۔ شاہراہ کا کشادہ ہونا اس لئے ضروری تھا کہ بھاری ٹریفک کی آمد ورفت میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو،سو ہمارے عظیم دوست ملک چین اور ہمارے ماہر انجینئرز نے مل کر یہ عظیم شاہراہ تعمیر کی جو سفر کے لئےہر لحاظ سے محفوظ اور اس پر رات دن ہمہ وقت ہر قسم کے ٹریفک کی آمدو رفت ممکن ہے۔
ہمارا سفر جاری تھا اور ہم سطح سمندر سے بلند تر ہوتے جاتے تھے۔ قدرت کے جا بجا بکھرے حسین نظاروں کا ایک خزانہ تھا کہ شاہراہ کے دونوں اطراف بکھرا پڑا تھا۔ کہیں دور کسی سرسبز پہاڑ پرپولٹری فارم بنے ہوئے نظر آتےتو کہیں شاہراہ سے متصل کوئی خوبصورت مسجد دکھائی دیتی۔ کبھی کبھی چیڑ کے بلند درختوں کے گھنے جھنڈسڑک کے ساتھ ساتھ سایہ کرتے ہمارے ہمراہ چلتے تھے اور ان دلکش مناظر کومزید خوابناک بناتے تھے۔ ایسے ہی کسی پرکشش منظر کا حسن کبھی ہمیں کچھ لمحات اپنے ساتھ بتانے کی دعوت دیتا تو ہم بلاتامل گاڑی روک کر ان کی دعوت قبول کر تے اور اس خوابناک ماحول کاحصہ بن کر لطف اٹھاتے۔تقریباً 10 بجے ہم مانسہرہ سے 67 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بٹ گرام پہنچ گئے۔ مانسہرہ سے یہاں تک کا فاصلہ ہم نے راستے کے مناظر سے لطف انداوز ہوتے اور رکتے رکاتے 3 گھنٹے میں طے کیا۔ بٹ گرام اچھا خاصا بڑاقصبہ تھا۔ شاہراہ قراقرم بٹ گرام کے بارونق بازار کے درمیان سے گزر رہی تھی۔ ہمیں یہاں کچھ اچھے ہوٹل بھی نظرآئے ۔ اس حسین موسم میں ہمارا دل چائے پینے کے لئے مچل اٹھا سو ہم نے بٹ گرام کے کسی اچھے سے ہوٹل میں چائے کا ایک ایک کپ پینے کا ارادہ کیا اور بازار میں گاڑی روک دی۔


مانسہرہ سے بٹ گرام تک کے سفر کے دوران  ۔۔۔۔






















پونے 11 بجے کے قریب ہم بٹ گرام سے روانہ ہوئے۔
 تھاکوٹ یہاں سے 23 جبکہ بشام53کلومیٹر کی دوری پر تھا۔بٹ گرام سے نکلنے کے بعد شاہراہ قراقرم کو ہم نےاب تک کے سفرکی سب سے بہتر حالت میں دیکھا۔موٹروے جیسی کشادہ سڑک اب مزید بلند وبالا سرسبز پہاڑوں کے ساتھ چڑھتی اترتی آگے بڑھتی تھی۔ ہمارے بائیں طرف شاہراہ کےساتھ ساتھ کافی نشیب میں ایک ندی بہتی تھی۔ بلند سے بلند تر ہوتے ہوئے پہاڑ اور سڑک سے متصل خاصی گہرائی میں بہتی ہوئی ندی ۔ ہمارا سفر اب زیادہ محتاط ڈرائیونگ کا متقاضی تھا ، میں اس پر عمل پیرا بھی تھا لیکن شاہراہ بہترین حالت میں بھی تھی اور کشادہ بھی ۔ ندی والی طرف مضبوط حفاظتی منڈیر اور ہر موڑ اور سڑک کے نشیب وفرازسے آگاہ کرنے والے سائن بورڈز کے باعث سفر میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ تھا۔ایک سائن بورڈ پر لکھی تحریرنے ہمارا دل باغ باغ کر دیا۔ وہ تحریر نہ تھی بلکہ ہمارے دل کی بات تھی جو ہو بہو اس بورڈ پر آویزاں کردی گئی تھی۔ 
جہاں ہم قدم بڑھائیں یہ رستے چلتے جائیں۔
ہمارے قدم بڑھتے جاتے تھے اور رستے چلتے جاتے تھے۔ ایک شعر تھوڑی سی ترمیم پر شاعر سے معذرت کے ساتھ۔
دیکھنا تحریر کی لذت کہ جو اس نے لکھا    ۔۔۔۔۔۔میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا
موسم مزید خوشگوار ہو گیا تھا کہ بادلوں نے اب زیادہ تر آسمان کوڈھک لیا تھا۔ شاندار شاہراہ قراقرم، خوشگوارموسم اورجاندار مناظر نے بٹ گرام سے تھاکوٹ تک کے اس سفر کو یادگار بنا دیا تھا۔

بٹ گرام اور تھاکوٹ کے سفر کے دوران کچھ مناظر ۔۔۔










تقریبا آدھے گھنٹے بعد ہم تھاکوٹ کے قریب پہنچے تو ہمارے بائیں طرف نشیب میں بہنے والی ندی دورنظر آتے دریائے سندھ کے چوڑے پاٹ میں گم ہوتی دکھائی دی۔ تھا کوٹ کے قصبے سے کچھ قبل ایک سڑک شاہراہ قراقرم کے بائیں طرف مڑتی تھی جو بل کھاتی نشیب کی طرف اترتی تھی۔ ندی کا پل عبور کرکے سامنے موجود ایک چھوٹی سی آبادی سے گزر کر ندی کے اس پار موجود پہاڑ کے دامن سے لپٹتی دریائے سندھ کے کنارے کی طرف جا رہی تھی۔ وہیں ندی اور دریا کا حسین ملاپ بھی ہو رہا تھا۔ جہاں سے یہ سڑک مڑتی تھی وہیں شاہراہ کے ساتھ ہی بس اسٹاپ تھا اورمسافروں کے بیٹھنے کے لئے خوبصورت شیڈ تلے کچھ بنچیں موجود تھیں۔ ہم نے اس شیڈ کے قریب گاڑی روک لی۔ شیڈ کے ساتھ ہی نصب ایک بورڈ پر اس مقام کا نام '' پیر سر'' اوراس کا تاریخی پس منظر بھی تحریرتھا۔ کچھ دیراس شیڈ تلے اور اس خوبصورت مقام پر سستانے کے بعد ہم دریائے سندھ کے کنارے نشیب کی طرف جاتی اس سڑک پر مڑ گئے۔

بٹگرام اور تھاکوٹ کے سفر کے دوران کی کچھ اور تصویریں ۔۔۔













ندی کے پل کے اس پار موجود چھوٹی سی آبادی سے گزر نے کے بعد ہم نے سڑک کے کنارے ایک گھنے درخت کی چھائوں تلے گاڑی روک دی۔ یہاں سے سڑک کے دائیں طرف ایک راستہ سفید چمکتی ریت اورچھوٹے بڑے پتھروں کےدرمیان سے ہوتا ہوا تھوڑے فاصلے پر کچھ نشیب میں واقع دریائے سندھ اور ندی کے کنارے تک جاتا تھا۔ ہم اس چاندی کی طرح چمکتی ریت پر چلتے ہوئے دریائے سندھ کے کنارے تک پہنچ گئے۔دریا ایک بے حد چوڑے پاٹ میں ٹھاٹھیں مارتا بہتا تھا۔ ہم دریا کنارے ریت میں دھنسے ایک چٹان نما بڑے سےپتھر کے قریب پہنچے۔ پتھر کی اوپری سطح ایک چھوٹے سے میدان کی مانند تھی جس کے دوسری طرف دریا  کاپانی اس سے ٹکراتا ہوا بہتا تھا۔ پانی کی کچھ ہلکی پھلکی موجیں اس پتھر کے ساتھ ساتھ گھوم کر ہماری طرف آتی تھیں اور ہمارے پیر بھگوتی تھیں۔ ہم دریا کے پانی میں پیر ڈالے پتھر سے ٹیک لگائے کھڑے تھے۔ قریب ہی ندی کا شفاف پانی دریائے سندھ کے  گدلے پانی میں مل کر اپنے رنگ سے ہاتھ دھوتا تھا۔ایک دفعہ اپنے شمال کے  کسی سفر کے دوران بلند پہاڑوں سے اترتی گنگناتی شفاف ندیوں کو نشیب میں بہتے کسی دریاکے گدلےپانی میں گم ہوتے دیکھا تو بےساختہ دل کہہ اٹھا تھا۔
خواہ کتنی   شفاف ہو ندی۔۔۔جاکےگرتی ہےگدلےدریامیں
اسکی شوخی وگنگناہٹ سب ۔۔۔ڈوب جاتی ہے گہرے دریامیں
ایک بار پھر یہی منظر میرے سامنے تھا۔ہم دریا کے عین کنارے موجود اس بڑے سے پتھر کی سپاٹ سطح پر بھی چڑھےجہاں سے چاروں طرف کے خوبصورت مناظرہمارے سامنے تھے اور چوڑے پاٹ میں بہتا دریائے سندھ ہمارےقدموں تلے ٹھاٹھیں مارتا تھا۔جس سمت سے دریا بہتا ہوا آرہا تھا سامنے کچھ دوری پرموجود شاہراہ قراقرم اور تھاکوٹ کی آبادی کی عمارتیں نظر آتی تھیں۔ تھاکوٹ کی آبادی کے ساتھ سے گزرتا ہوا یہ دریا آگے تربیلا کی سمت بہتا چلا جاتا تھا۔ تھا کوٹ کے اس مقام پرپاکستان کے شمالی علاقوں سے نیچےاترتا یہ عظیم دریا پوری آزادی اور بہت جوش سے بہتا تھا لیکن تھاکوٹ سے نکلنےکے بعد اس کی آزادی رفتہ رفتہ عارضی قید میں بدلتی جاتی تھی۔ یہاں سے تربیلا تک پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلوں کی مضبوط چٹانیں اس کی آزادی سلب کرکے اسے اپنے حصار میں لیتی تھیں۔ دریا کے اس ٹھاٹھیں مارتے بہائو کو قید کرتی تھیں اور پانی کے اس بڑے ذخیرے کو تربیلا ڈیم کےمقام پر اللہ کے بے پناہ فضل و کرم سے انسان کے اختیار میں دیتی تھیں کہ وہ اپنی مرضی سے اس پانی کو فصلوں کی آبیاری اور بجلی کی پیداوار کیلئے استعمال کر سکے۔ ہم یہاں اس پتھرپرکھڑے آزادی کے ساتھ بہتے اس دریا کا نظارہ کرتے تھے۔ میں سوچتا تھا کہ ہم اپنی گاڑی میں سفر کرنے کے باعث اس خوبصورت شاہراہ قراقرم اور اس کے ارد گرد پھیلے اور بکھرے ان بے شمار اور یادگار قدرتی مناظر کا بھرپور لطف اٹھاپارہےتھے۔ میں نے دور درخت کی چھائوں تلے کھڑی اپنی مہران کو دیکھا اور دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ جس نے ہمیں بے شمار دیگر نعمتوں کے ساتھ ساتھ یہ نعمت بھی عطا فرمائی۔ سندھ کنارے اس خوبصورت مقام پر ہم نےتقریباً نصف گھنٹے تک یادگار وقت گزارا۔

تھاکوٹ میں دریائے سندھ کے کنارے کچھ یادگار تصویریں ۔۔۔

















دوپہر کے 12 بجے ہم سندھ کنارے کے اس مقام سے روانہ ہوئے۔ بشام یہاں سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلےپر تھا۔ آج  جمعہ تھا اور میرا پروگرام بشام کی کسی مسجد میں نمازجمعہ ادا کرنے کا تھا ۔ وہیں کسی ہوٹل میں لنچ کے بعد اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے غروب آفتاب تک داسو تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔تھاکوٹ کے قصبے کی آبادی سے گزرتے ہوئے ہم آگے بڑھے۔ تھاکوٹ سے نکلتے ہی شاہراہ قراقرم دریائے سندھ کا پل عبور کرتی ہے اور پھر اس عظیم دریا کے پہلو بہ پہلو اس کا یہ طویل سفر شمال کی جانب اسکردو کی طرف مڑنے والی سڑک تک جاری رہتا ہے۔ دس سال قبل شاہراہ قراقرم پر اپنے گزشتہ سفر کے دوران ہم نے دریائےسندھ کو قدیم اور خوبصورت سسپنشن پل کے ذریعے عبور کیا تھا ، اس بار ہم نئے تعمیر کردہ پل پرسے گزرےجو کہ چلاس کے قریب دیامر بھاشا ڈیم کے لئے استعمال ہونے والی بھاری بھرکم تعمیراتی مشینری کو وہاں تک پہنچانے کیلئے خصوصی طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ ہمارے دائیں طرف کچھ ہی فاصلے پر قدیم  خوبصورت پل بھی نظر آرہا تھا۔ دریائے سندھ کا پل عبور کرتے ہی گردو پیش کے مناظر تیزی سے بدلتے چلے گئے۔ پہلے ایک شفاف ندی ہمارے بائیں طرف بہتی تھی اب مٹیالا دریائے سندھ ہمارے دائیں طرف بہتا تھا ۔ پہاڑوں کاسلسلہ اب ہمارے بائیں طرف ساتھ ساتھ چلتا تھا لیکن اس پر ہرے بھرے درختوں اور سرسبز گھاس کا وہ خوبصورت پیراہن نہ تھا جو ہم تھاکوٹ سے پہلے گزرنے والے پہاڑوں کو پہنا دیکھتے آئے تھے۔ ان پہاڑوں پر درختوں کی تعدادبہت کم تھی۔ خوبصورت گھاس کا سر سبز قالین بے ترتیب جھاڑیوں کی صورت اختیار کر گیا تھا۔مناظر کی اس اچانک تبدیلی نے شاہراہ قراقرم کا دل اس طرح توڑا کہ وہ بے چاری خود بھی بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر رہ گئی۔ اس قدر تباہ حال اور برباد شاہراہ قراقرم کا تصور بھی ہمارے دماغ میں نہ تھا۔ کچھ غنیمت اور حوصلہ افزا بات یہ تھی کہ اس کی از سر نو تعمیر کا کام جاری تھا۔ چونکہ یہ شاہراہ کسی طور بھی ٹریفک کی آمدورفت کیلئے بند نہیں کی جا سکتی تھی اس لئے اس کو مرحلہ وار تعمیر کیا جا رہا تھا۔ پہلے مرحلے میں پہاڑسے متصل بائیں طرف والی پٹی پر کام جاری تھا اور وہ بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ تھوڑے تھوڑے فاصلے کے وقفے سے، ورنہ باقی بچ جانے والی دائیں طرف کی ٹوٹی پھوٹی تنگ سڑک پردونوں اطراف سے آنے والے ٹریفک کا ایک ساتھ گزرنا ناممکن ہو جاتا۔ کبھی ہماری طرف سے آنے والی گاڑیوں کے گزرتے وقت سامنے سے آنے والی گاڑیاں رک کر اس تنگ راہ سے ہمارے گزرنے کا انتظار کرتیں تو کبھی ہم ٹہر کر ان کو گزرتا دیکھتے۔ بعض مرحلےایسے بھی آئے کہ بائیں طرف کا یہ تعمیراتی کام درمیان میں کسی وقفے کے بنا ایک چوتھائی یا نصف کلومیٹر تک مسلسل جاری ہوتا۔ ایسی صورت میں سڑک کی تعمیر کرنے والے اہلکار موبائل فون یا واکی ٹاکی کی مدد سے ایک دوسرے سے رابطہ کرکے ٹریفک کو کنٹرول کرتے۔ جب تک ایک سمت سے آنے والا ٹریفک آتا رہتا تو دوسری طرف کے ٹریفک کو روک دیا جاتا۔ اس قسم کی صورتحال میں ہماری انتظارکرنے کی زحمت مزید بڑھ جاتی۔سوچا تھا کہ ایک بجے تک بآسانی بشام پہنچ جائیں گے لیکن ابھی تو آدھا فاصلہ ہی ہوا تھا اور گھڑی ایک بجاچکی تھی۔ گردوپیش کے مناظر اور شاہراہ کی حالت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اب موسم بھی رنگ بدلتا تھا۔ پہاڑوں سے درخت اور سبزہ غائب ہوتا جاتا تھا اور آسمان سے بادل۔ سورج اس تباہ حال شاہراہ کے عین اوپر چمکتا تھااور گرمی بڑھتی جاتی تھی۔ ہمارے سست روی سے چلنے اور بار بار ٹہرنے کے باعث گرمی ہمیں کچھ زیادہ ہی ستاتی تھی۔ ڈیڑھ بجے کے قریب ہم تھاکوٹ سے تقریباً 20 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے شنگ کے چھوٹے سےقصبے تک پہنچے۔ میں نے کچھ مقامی لوگوں کو سڑک کے دائیں طرف واقع ایک مسجد کی طرف تیز تیز قدموں سے جاتے دیکھ کر سڑک کے کنارے گاڑی روک دی اور خود بھی نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے تیزی سے اترکرمسجد کا رخ کیا۔

تھاکوٹ اور شنگ کے سفر کے دوران  ۔۔۔۔









نماز کے بعد مسجد سے نکلا تو شاہراہ پر دھوپ خاصی تیز تھی۔ کچھ پیاس محسوس ہو ئی تو شنگ کے اس چھوٹے سےبازار میں میری نگاہیں کسی دکان کو تلاش کرتی تھیں کہ پانی کی ایک ٹھنڈی بوتل خرید لی جائے۔ اکا دکانیں نظرآئیں لیکن غالباً وہ جمعے کی نماز کا وقت ہونے کی بنا پر بند تھیں۔ تھاکوٹ سے یہاں تک ڈیڑھ گھنٹے کے اس پر صعوبت سفر نے ہم سفر کو بھی کچھ کوفت اور تکان میں مبتلا کر دیا تھا۔ میں بازار بند دیکھ کر گاڑی کی طرف بڑھا تو سڑک کے بائیں طرف گاڑی کے ساتھ ہی سرکاری صحت مرکز کا بورڈ اور عمارت نظر آئی۔ سوچا کہ یہاں پینے کے لئے پانی تو مل ہی جائے گا، ہو سکتا ہے ہم سفر کو نماز پڑھنے کے لئے کوئی مناسب جگہ بھی مل جائے اور وہ بھی میری طرح وضو کر کے کچھ تازہ دم ہو سکے۔ میں ہمسفر کو ساتھ لے کر بورڈ کے ساتھ ہی کچھ فاصلے پر واقع صحت مرکز کے گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔ گیٹ پر تالا لٹکتا دیکھ کر ہم دونوں کے چہرے بھی کچھ لٹک گئے۔ میں نے ایک دفعہ پھر بازار کا طائرانہ جائزہ لیا کہ شاید کوئی دکاندار جمعے کی نماز ختم ہونے کے بعددکان کھولتا ہو لیکن بے سود۔ ہم شنگ سے خالی ہاتھ ہی بشام کی طرف روانہ ہونے کے لئے گاڑی کی طرف چل دئے۔مسجدسے نمازیوں کے باہر نکلنے کا سلسلہ جاری تھا۔ ابھی ہم گاڑی کے قریب ہی پہنچے تھے کہ ہمیں نماز پڑھ کرباہر نکلنے والے ایک شخص نے سلام کیا۔ شاید وہ مسجد سے نکلنے کے بعد سے ہمارا صحت مرکز تک جانا اوربازار کی طرف اٹھتی ہماری متلاشی نظروں کو دیکھ چکا تھا۔ 
آپ کیا تلاش کر رہے ہیں ؟
اہلیہ کو نماز ادا کرنا تھی ،خیال تھا کہ شاید اس صحت مرکز میں کوئی مناسب جگہ ہو ۔۔۔ لیکن ۔۔۔
جمعے کے دن دوپہر کے وقت یہ بند ہوتا ہے ۔میری بات کاٹ کر اس نے جملہ تو پورا کیا ہی، ساتھ ہی یہ پیشکش بھی کر دی کہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو میرا گھر بالکل نزدیک ہے ،آپ کی اہلیہ نماز بھی ادا کر لیں اورآپ لوگ پانی شانی بھی پی لیں۔پیشکش رسمی نہ تھی بلکہ خلوص کی بھرپور چاشنی لیے ہوئے تھی، سب سے بڑھ کر اس وقت ہماری طلب کےعین مطابق تھی۔ ہماس چھوٹے سے قصبے کے مخلص مکین کے شکر گزار ہوئے اور بلا تکلف پیشکشکوقبول کرتے ہوئے بن بنائے اس میزبان کے ہمراہ سڑک کے دائیں طرف نشیب میں اترتی ہوئی ایک تنگ گلی میں داخل ہو گئے۔ گلی کے دونوں اطراف مکان بنے ہوئے تھے جن کا سلسلہ گلی کے ساتھ ساتھ نشیب میں اترتا تھا۔ہمیں زیادہ دور تک نہیں جانا پڑا لیکن غالباً گلی اور مکانوں کا یہ سلسلہ نیچے بہتے دریائے سندھ کے قریب تک جارہا تھا۔ ہمارے میزبان نے راستے میں دوران گفتگو میرے اس خیال کی تصدیق بھی کر دی۔ بائیں ہاتھ پر واقع ایک گھر کادروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئے اور ہمیں بھی اندر آنے کا اشارہ کیا۔ میں کچھ جھجھکا کہ اندر خواتین بھی موجود ہوں گی لیکن یہ ایک خالی مکان تھا۔ایک بڑا ساکچا صحن جس میں ایک دو درخت بھی موجود تھے۔اس سے متصل پختہ برآمدہ اور برآمدے سے متصل عقب میں ترتیب وار تین کمرے۔
یہ گھر میں نے نیا بنوایا ہے۔ کچن ابھی زیر تعمیر ہے اس لئے اہل خانہ اسی گھرسے متصل میرے دوسرے گھر میں مقیم ہیں۔
ہمارے میزبان نے گھر کے خالی ہونے کی وجہ سے ہمیں آگاہ کیا۔ برآمدے میں رکھے ہوئے ایک پلنگ پر ہم بیٹھ گئے۔برآمدے کے ایک کونے میں صحن کے ساتھ پانی کا ایک ڈرم رکھا تھا۔ میری ہمسفر اس ڈرم کی طرف وضو کرنےاور ہمارے میزبان ہمارے پینے کے لئے پانی شانی لینے اپنے دوسرے گھر چلے گئے۔ ان کی واپسی تک ہم دونوں اس پلنگ پر بیٹھے اپنی نظروں کے سامنے موجود دریائے سندھ کے دوسرے  کنارے پر واقع اس بلند و بالا پہاڑ کو دیکھتے تھے کہ جس کی اونچائی نے آسمان کے بڑے حصے کو ہماری نگاہوں سے اوجھل کررکھا تھا۔شنگ ، بشام اور پھر مزید آگے بڑھتی شاہراہ پر ہمارا واسطہ اسی طرح کے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ بلند پہاڑوں سے پڑنے والا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں صحن میں موجود لکڑی کا دروازہ کھلا اور ہمارے میزبان ٹرے میں پانی کا جگ اور گلاس لئے داخل ہوئے۔قریب پہنچے تو وہ ٹھنڈے پانی کے ساتھ ہمارے لئے ایک مزید پیشکش بھی ساتھ لائے تھے۔
آپ ہمارے گھر سے دوپہر کا کھانا کھا کر جائیں گے۔
ہم دونوں نے بہ یک زبان ان کی اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن ان کی یہ پیشکش پہلے اصرار اور پھراس قدر پرزور اصرار میں بدلی کہ ہمارا بھرپور انکار، پہلے انکار اور پھر اقرار میں بدلنے پر مجبور ہو گیا لیکن اس اقرار کیلئے ہم نے یہ شرط رکھی کہ فوری طور پر جو بھی ماحضر ہو ہم صرف اسی پر اکتفا کریں گے ،کوئی تکلف اور خصوصی اہتمام قطعاً نہ کیا جائے۔ انہوں نے ہماری شرط مان لی۔ہم سفر کیلئے کمرے میں جانماز بچھا کروہ دوبارہ چلے گئے۔ ہم سفر نماز پڑھ کر آئی اور ہم ایک دفعہ پھر سامنے آسمان کو چھوتے پہاڑ کو دیکھتے ہوئے یہ سوچتے تھے کہ اس کی چڑھائی اتنی عمودی اور خطرناک ہے کہ اس پر کسی انسان کا چڑھنا تو بالکل ناممکن نظر آتاہے۔ ہمارے میزبان نے ہمیں زیادہ غورو خوض کا موقع نہیں دیا اور صرف دس منٹ بعد ہی ایک بڑی سی ٹرے میں کھانا لا کر اندر کمرے میں رکھی میز پر سجا دیا۔ تین مختلف ڈشز کے ساتھ ساتھ دہی کی نمکین لسی اور کولڈ ڈرنک۔
اتنا اہتمام اور وہ بھی اتنی جلد۔ ہمارے شنگ کے اس میزبان نے ہمیں دنگ کر دیا۔ دریائے سندھ ان کے گھر کے بالکل قریب بہتا تھا اور یہ یقیناً اس کا اثر تھا ۔ ہمارے میزبان دریا دل بھی تھے اورشنگ میں برق رفتاری سے بہتے دریا کی طرح پھرتیلے بھی۔ ہمیں پوری میز پر سجے کھانے کو دیکھ کر اعتراض تھا کہ وہ ہماری صرف ماحضر والی شرط سے انحراف کے مرتکب ہوئے لیکن ان کا ٹھاٹھیں مارتا خلوص ہمارے اعتراض کو خس و خاشاک کی طرح بہا لےجاتا تھا۔ کھانے کے دوران گفتگو سے اجتناب کرنا چاہئیے لیکن ہمارے اور ہمارے میزبان کے پاس کچھ کہنے اورسننے کے لئے یہی مختصر ساوقت تھا سو ہم دونوں کی طرف سے اس اجتناب کو خاطر میں نہ لایا گیا۔سامنے والے پہاڑ کے بارے میں ہمارے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ اس پر باقاعدہ لوگوں کے گھر موجود ہیں جن کے باسی سردیوں کے دوران دریا میں پانی کی سطح کم ہونے پرفولادی تار کے چرخی والے پل سے ٹرالی کے ذریعے اس پار آتے جاتے ہیں۔ اور گرمیوں کے آغاز سے قبل اشیائے خورد ونوش کا ذخیرہ لے کر اپنے گھروں تک محدود ہو جاتے ہیں اور ان پہاڑوں میں اپنے مال مویشی چرایا کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ باقاعدہ ایک کچی سڑک بھی پہاڑ کے عقب سےآکر چوٹی سے ہوتی ہوئی پہاڑ کے اس طرف کچھ نشیب تک آتی ہےجب کہ شاہراہ قراقرم کی تعمیر میں مصروف چینی انجینئرز کی سیکورٹی کی غرض سے اس پہاڑ پر حفاظتی چوکی بھی موجود ہے۔ تھاکوٹ سے اس طرف شاہراہ کی تباہ حالی کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ 2010 میں ہونےوالی شدید بارشوں کے باعث شاہراہ سے متصل سنگلاخ پہاڑوں سے آنے والے پانی کے طوفانی ریلوں نے ان پہاڑوں کے ساتھ ساتھ بچھی اس شاہراہ کو برباد کر کےرکھ دیا۔ خاص طور پر پہاڑی ندی نالوں میں اس شدت کی طغیانی تھی کی ایک دو دن تک ایک سیلاب تھا جو کہ تھمتا ہی نہ تھا کہ کسی قسم کا ٹریفک ان نالوں کو عبور کر سکے۔ انہوں نے 2010  کی تباہ کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ بشام کی طرف جاتے ہوئےشنگ سے نکلتے ہی ایک پہاڑی نالہ آتا ہے جس میں طغیانی کے باعث ایک بس نالے کے اس طرف شنگ میں رکنےپر مجبور ہو گئی تھی ۔ بس میں موجود شہری علاقوں کی کچھ فیمیلیزان کے اسی مکان میں دو راتوں تک ان کی مہمان بنی تھیں۔ کھانا بہت لذیذ تھا۔ دہی کی نمکین لسی نے پنجاب کے دیہات میں گزرے ہوئے میرے بچپن کی یادیں  تازہ کر دیں کہ جس کے گھر میں بھینسیں ہوتی تھیں اس کے سب اڑوس پڑوس والے اپنے اپنے برتن رات میں ہی ان کے گھررکھوا دیتے تھے اور پھر صبح صبح جب وہ بڑے سے مٹکے میں دہی بلو کر مکھن نکالتے تو مٹکے میں موجود نمکین لسی سے پڑوسیوں کے یہ برتن بھر دیے جاتے۔ ہم ناشتے سے قبل جا کر اپنا برتن اس شان سے لے کر آتے کہ جیسے ان کی بھینسیں دراصل ہماری ہوں اور اس لسی پر ہمارا پورا استحقاق ہو۔ یہ محبت، اپنائیت ، سانجھی خوشیاں اورمل جل کر کھانا پینا ہی دیہات کا اصل سرمایہ تھا۔
کھانے کے بعد ہم کمرے سے نکل کر دوبارہ برآمدے میں آ گئے۔ اسی اثنا میں ایک نوجوان گھر میں داخل ہوا۔نوجوان ہمارے میزبان کا بھانجا تھا۔ ہم نے روانگی کے لئے اجازت طلب کی لیکن ہمارے دریا دل میزبان کی خاطر داری کسی طور ختم ہونے میں نہ آتی تھی۔ پہلے صرف ایک میزبان کی پیشکشیں تھیں ،اب میزبان اوران کا بھانجا مل کر ہمیں اپنے ساتھ چائے پینے کے پر زور اصرار میں جکڑتے تھے سو ہم ایک بار پھر اپنےمیزبانوں کی محبتوں کی زنجیروں میں جکڑے گئے۔ ہماری رضامندی پر دونوں کی خوشی قابل دید تھی۔ چائےغالباً کھانے کے فوراً بعد ہی تیار کر لی گئی تھی اس لئے فوراً   آ بھی گئی۔سہ پہر کے ڈھائی بج چکے تھے جب ہمارے دریا دل میزبان اور ان کے بھانجے نے شاہراہ قراقرم کے کنارےکھڑی ہماری گاڑی تک آ کر ہمیں رخصت کیا۔ اس چھوٹے سے قصبے کے سنسان بازار سے بشام کی طرف روانہ ہوتے وقت ہم خالی ہاتھ نہ تھے، ناقابل فراموش شنگ کی خوشگوار یادیں ہمارے سنگ تھیں۔ میں پلٹ کر پیچھے دیکھتاتھا ،ہمارے دونوں میزبان دور تک ہمیں ہاتھ ہلاتے تھے۔
ہم نے کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ وہ نالہ ہمارے سامنے آگیا جس کا ذکرہمارے میزبان نے کیا تھا۔ نالے کا پانی سڑک پر سے بہتا ہوا گزر رہا تھا لیکن اس کی گہرائی زیادہ نہ تھی۔ اس گرم سہ پہر میں قصبے کے چند نوجوان اورلڑکے سڑک کے بائیں جانب پہاڑ کی بلندی سے اترتے نالے کے چوڑے پاٹ میں موجود چھوٹے بڑے پتھروں کےبیچ بہتے ہوئے ٹھنڈے پانی سے نہا کر لطف اندوز ہو رہے تھے جبکہ سڑک پر بہتی اس گنگا کا بھرپور فائدہ اٹھاتےہوئے ایک شخص اپنی گاڑی دھونے میں مصروف تھا۔ نالے کو عبور کر کے آگے بڑھے تو بائیں طرف پہاڑ کےساتھ بلند ہوتے تہ در تہ درختوں میں گھرے سر سبز کھیتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جن کو نالے کا پانی سیراب کرتا تھا ۔لہلہاتے کھیتوں کی اوپر والی تہوں سے پانی چھوٹی چھوٹی آبشاروں اور نالوں کی صورت بہ کر نشیب والے کھیتوں میں گرتا تھا۔ تھا کوٹ سے شنگ تک کے خشک سفر کے بعد یہ سبزہ اور پانی کی فراوانی آنکھوں کو تراوٹ بخشتی تھی۔ کھیتوں کا یہ سلسلہ کچھ ہی دوری تک ہمارے ساتھ رہا ،جہاں اس نالے کے پانی کی رسائی کا اختتام ہوا وہیں یہ لہلہاتے کھیت بھی ہمارا ساتھ چھوڑ گئے۔ شاہراہ کی پھر وہی کیفیت تھی جو تھاکوٹ سے شنگ کے درمیان تھی۔
تقریباً 3 بجے ہم بشام کی حدود میں داخل ہوئے۔ شاہراہ کے دونوں اطراف آبادی اور درختوں کا سلسلہ شروع ہوا،سڑک کی حالت بھی کچھ بہتر ہوئی۔ دن کی روشنی میں بشام کو دیکھنے کا یہ دوسرا موقع تھا جو ہمیں 30 سال کے طویل عرصے بعد ملا تھا۔ کچھ ہی دیر میں بشام کے پر رونق بازار کے درمیان وہ چوک ہمارے سامنے تھا جہاں سے ایک سڑک مینگورہ کے لئے بائیں طرف مڑ رہی تھی اور شاہراہ قراقرم کی بہ نسبت خاصی بہتر دکھائی دے رہی تھی ۔اس چوک سے پرے دریا کے ساتھ ساتھ جن پہاڑوں کے درمیان سے ہمیں گزرنا تھا وہاں آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔جس ٹوٹی پھوٹی شاہراہ سے ہوتے ہوئے ہم تھا کوٹ سے یہاں تک پہنچے تھےوہ اس سے بھی زیادہ بد تر حالت اختیارکر کے بشام کے اس بازار سے ہوتی ہوئی دائیں سمت جا رہی تھی۔ اس چوک کو دیکھ کر مجھے 1984 کےاگست کا وہ منظر یاد آگیا جب میں اور میری ہمسفر مینگورہ سے براستہ خواص خیلہ گلگت جانے کیلئے سفیدرنگ کی فورڈویگن میں دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے یہاں پہنچے تھے۔ اس وقت میری ہم سفر کو زندگی کی ہم سفر بنے بمشکل پندرہ بیس دن ہوئے تھے۔ وادی سوات میں بحرین ،کالام، مہوڈھنڈ، متیتان اور گبرال کی سیر کرتے ہوئے جب ہم یہاں پہنچے تھے تو بشام کا یہ بازار آج کے شنگ کے بازار سے بھی زیادہ مختصر تھا۔ گلگت جانےکے لئے نیٹکو کی ایک بیڈ فورڈ بس چوک پر واقع ایک چھوٹے سے ہوٹل کے پاس مینگورہ سے آنے والی ہماری ویگن کی آمد کی منتظرتھی تاکہ گلگت جانے    کے لئے کچھ مزید مسافروں کو بھی اپنے ہمراہ لے چلے۔ ہوٹل کے ساتھ ہی موجود نیٹکوکے ایک چھوٹے سے بکنگ آفس سے ٹکٹ خرید کر ہم اس بس میں سوار ہوئے تھے۔ اسی چھوٹے سے ہوٹل سےمیں نےایک روٹی پر بھنڈی کا سالن ڈلوا لیا تھا جسے ہم نے بس میں بیٹھ کر ہی کھایا تھا۔ دوپہر کے ایک بجے ہماری بس یہاں سے روانہ ہوئی تھی۔ 30 سال قبل شاہراہ قراقرم کی حالت اس سڑک سے بہت بہتر تھی جس پرسفر کر کے ہم مینگورہ سے یہاں پہنچے تھے۔ 1984 میں گلگت اور ہنزہ سے ہماری واپسی اور 2004 میں اسکردوگلگت اور ہنزہ کے سفر کے دوران وہاں جانے اور واپسی کے وقت بشام سے ہمارا گزر رات کے مختلف اوقات میں ہوا تھا۔آج کا بشام ایک چھوٹے سے قصبے سے ترقی کر کے چھوٹے سے شہر میں تبدیل ہو گیا تھا۔ دکھ صرف اس بات کا تھاکہ پہلے عمارتیں خستہ حال اور شاہراہ قراقرم پختہ تھی، اب عمارتیں پختہ اور شاہراہ خستہ حال تھی۔ کاش بشام کی عمارتوں کی طرح بشام کے بازار کے درمیان سے گزرتی یہ شاہراہ بھی پختہ ہوتی ۔

شنگ سےبشام تک ۔۔۔ چند تصاویر








بشام سے آگے بھی شاہراہ کی حالت بہت خراب تھی۔ جگہ جگہ سے ادھڑی ہونے کے باعث سڑک پر جا بجا گڑھےتھے اس لئے ہمارا سفر بدستور سست روی سے جاری تھا۔ ہم جوں جوں آگے بڑھتے تھے پہاڑوں سے درختوں اور سبزے کا سلسلہ تیزی سے ختم ہو تا جاتا تھا۔ تھاکوٹ سے بشام کے درمیان کم از کم سڑک کی تعمیر کا کام تو جاری تھا جبکہ اب صرف ایک تباہ حال سڑک تھی جس پر ہم سفر کرتے تھے۔ گاڑیوں کی تعداد بھی برائے نام تھی۔ دریائےسندھ ہمارے دائیں طرف گہرائی میں بہتا تھا ۔ ہم سنگلاخ ،چٹیل اور بلند پہاڑوں میں بل کھاتی شاہراہ پر چڑھتے جاتےتھے اور دریا کی طرف کھائیوں کی گہرائیاں بڑھتی جاتی تھیں۔ غنیمت تھا کہ سڑک خاصی کشادہ تھی اس لئے میں زیادہ مشکل میں پڑے بغیراسٹیرنگ گھما گھما کر ٹائروں کو سڑک کے گڑھوں اور ابھرے ہوئے پتھروں سے بچاتا تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد ہم ضلع بشام کی حدود سے نکل کرکوہستان کی حدود میں داخل ہوئے۔ ہمارے شنگ کےمیزبان نے ہمیں مشورہ دیا تھا کہ  کوہستان  کے علاقے میں داخل ہونے کے بعد کسی راہگیر کے اشارہ کرنے پر گاڑی روکنے یا ازراہ ہمدردی لفٹ دینے سے اجتناب کیا جائے سو ہم زیادہ محتاط تھے۔ ان سنگلاخ پہاڑوں میں جا بجا شفاف پانی کے چشمے اور نالے پہاڑوں کی بلندیوں سے نیچے اترتے تھے۔ زیادہ بڑے نالوں کیلئے تو شاہراہ پر باقاعدہ پل بنا ئے گئے تھے لیکن کہیں یہ چشمے اور چھوٹے نالے خوبصورت آبشاروں کی شکل میں پہاڑوں کی بلندی سے شاہراہ کے ساتھ ہی سڑک پر گرتے تھے توکبھی چپکے سے پہاڑوں سے اترتے کسی نالے سے نکل کر سڑک کے اوپر بہتےہوئے بائیں جانب نشیب میں بہتے دریا کا رخ کرتے ۔ کبھی دریا کے دوسری جانب یہ حسین جھرنے پہاڑوں سے دریا میں گرتے نظر آتے ۔ سڑک کی خستہ حالی کے باعث جب بھی ہم کچھ بوریت یا کوفت کا شکار ہونے لگتے توپہاڑوں کے بیچ بہتے یہ ٹھنڈے چشمے اورپانی کی یہ آبشاریں اور جھرنے ہمارا موڈ پھر سے خوشگوار کر دیتے۔کبھی دریا کے دوسرے پار کا کوئی خوبصورت منظر اور کبھی شاہراہ کے اوپر سے گزرتے کسی حسین چشمے کاصاف شفاف پانی ہمارے آگے بڑھتے قدموں میں زنجیر ڈال دیتا۔
سہ پہر شام میں بدلتی جاتی تھی۔ آسمان پر چھائے بادل گہرے ہوتے جاتے تھے جو اس شام کے سایوں کو مزید گہراکرتے تھے۔ ہمیں بشام سے روانہ ہوئے دو گھنٹے سے زائد ہو چلے تھے لیکن ہماری سست روی تو کبھی کسی پر کشش مقام پر ٹہر کر کچھ وقت گزارنے کے باعث ہم ابھی تک پتن کے قصبے تک نہیں پہنچ پائے تھے۔ فاصلوں کا حساب بتانے والے میل کے پتھر بھی شاید سڑک کے ساتھ ہی ٹوٹ پھوٹ گئے تھے۔ 1984 کے ہمارے سفر کے دوران شاہراہ کی بہتر صورتحال اور بس ڈرائیور کی مہارت کے باعث بشام سے پتن ہوتے ہوئے کومیلا کے بازار تک ہم صرف دو گھنٹے میں پہنچ گئے تھے۔ پتن کب آیا اور کب گزر گیا، 30 سال قبل کے اس سفر کے دوران ہمیں وقت کے گزرنے اور فاصلوں کے سمٹنے کا اندازہ اس لئے بھی نہیں ہو پاتا تھا کہ ہم ایک دوجے کے نئے نویلے ہم سفر تھے،سو بس کی کھڑکیوں سے باہر کم اور ایک دوجے کو زیادہ دیکھتے تھے۔ شام کے پانچ بج چکے تھے ۔ پتن کا ابھی کچھ پتہ نہ تھا۔ سیاہ بادل اب تیزی سے آسمان پر امڈتے آتے تھے۔ ابھی ہم تشویش سے ان سیاہ بادلوں کو دیکھتےہی تھے کہ بوندا باندی شروع ہو گئی۔ شروع شروع میں تو یہ ہلکی ہلکی پھوار ہمیں بہت خوشگوار محسوس ہوئی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ بوندا باندی پہلے بارش اور پھر موسلا دھار بارش میں تبدیل ہو گئی۔ مینگورہ میں بادل گرجتے بہت تھے پر برستے نہ تھے، یہاں گر جتے بالکل نہ تھے، بس برستے تھے اور خوب برستےتھے۔ مینگورہ کے اور یہاں کے بادلوں نے اس محاورے کے بارے میں میری غلط فہمی دور کر کے اسے حرف بہ حرف درست ثابت کر دیا تھا کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں اور جو برستے ہیں وہ گرجتے نہیں۔
پہاڑ سے اترنے والے صاف شفاف چشموں نے نہ صرف رنگ بدلا بلکہ پہاڑوں سے اترکر سڑک تک آنے اورپھر سڑک پر بہنے کا اپنا ڈھنگ بھی بدل لیا۔ مٹیالے بلکہ سرخی مائل مٹیالے رنگ کا یہ پانی اب سکون سےسڑک پربہنے کے بجائے تیز ریلوں کی صورت میں اچھلتا کودتا بہتا تھا۔ مجھے اب سڑک کے گڑھے نظر نہ آتےتھے بلکہ ان سنگلاخ چٹانوں سے اترتے سرخ مٹیالے پانی اور سڑک پرریلوں کی شکل میں بہتے نالوں کا سامناتھا ۔ گاڑی پانی میں چھپے ہوئے ان گڑھوں میں جا کر اچھلتی تھی اور میں اسے اس اچھل کود سے بچانے سےقاصر تھا۔ سڑک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف جانے کیلئےاسٹیرنگ گھماتا تھا ، گڑھوں سےبچنے کے لئے نہیں بلکہ گاڑی کو ریلوں کی صورت بہتے پانی کی گہرائی سے بچاتا تھا۔
ہماری سست روی رینگنے میں بدل گئی تھی۔ ونڈ اسکرین پر بارش برستی نہ تھی بلکہ آبشار کی طرح بہتی تھی۔وائپرز اتنی مدد ضرور کرتے تھے کہ لمحہ بھر کو اس بہتی آبشار کے بہائو کو اتنا کم کردیتے کہ مجھے سامنے کا منظر دیکھنے کا موقع مل جاتا ۔سڑک کے کنارے رک کر بارش کے تھمنے کا انتظار کرنا اس لئے خطرناک تھا کہ تیز سے تیز تر ہو تی اس بارش میں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ہو سکتا تھا۔ میں یہ سوچتا تھا کہ پہاڑوں پر سبزےاور درختوں کا وجود کس قدراہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ وہ بارش کے ان بہتے ریلوں کے آگے بند بھی باندھتے ہیں اوران کی موجودگی پہاڑوں کےساتھ ساتھ چلتی سڑکوں کوتباہ و برباد ہونے سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ ہم ایک موڑ مڑے توآگے سڑک کچھ نشیب کی طرف اتر رہی تھی۔ خیال تھا کہ اس موڑ کے بعد شاید ہمیں پتن کی آبادی نظر آجائے لیکن موسلا دھار بارش میں ونڈ اسکرین سے بہتی آبشار سے مجھےپتن کے بجائےسامنے موجود سڑک نشیب میں بہتے ہوئے مٹیالے پانی کےایک نالے کی صورت نظر آئی۔ ہماری گاڑی اس نالے میں رینگتی آگے بڑھتی تھی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر تھا کہ وہ رینگتی تھی ریلے میں بہتی نہ تھی۔ 

بشام اور پتن کے درمیان  حسین مناظر ۔۔ بارش کا آغاز اور پھر موسلا دھار بارش کے دوران لی گئی کچھ تصویریں ۔۔۔












اس نشیب میں اترتی سڑک پر ابھی ہم کچھ دور تک ہی رینگ پائے تھے کہاپنے دائیں طرف سڑک کے ساتھ  ہی میں نے ایک پختہ عمارت  دیکھی۔ فوری طور پراس عمارت کے سامنے سڑک کے کنارے میں نے گاڑی روک دی۔
عمارت سے متصل ایک چھوٹی سی دکان تھی جو کھلی ہوئی تھی۔ ہم دونوں نے سکون اور اطمینان کا لمبا سانس لیا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ ان بلندو بالا پہاڑوںکے بیچ آسمان سے برستے پانی میں ہم اب اکیلے نہ تھے ہمارے بہت قریب ہم جیسے کچھ اور ذی روح بھی تھے۔ ایک دو منٹ تک تو ہم گاڑی میں بیٹھےبیٹھےیونہی سکون بھری لمبی سانسیں لیتے رہے۔موسلا دھاربارش جاری تھی،میں گاڑی سےاترا اورخود کو بھیگنے سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئےتیزی سے اس کھلی دکان میں داخل ہو گیا۔ ساڑھے پانچ بجنےوالے تھے ۔ دکاندار سے معلوم ہوا کہ یہ عمارت دراصل مسجد ہے جہاں کچھ ہی دیر میں عصر کی نماز کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ یہاں سے پتن کی آبادی کا آغاز بھی ہوتا تھا۔ جو کچھ ہی فاصلے پر واقع تھا۔ اپنی ہم سفر کو یہ خوشخبری سنا کر میں مسجد میں چلا گیا۔ ہم سفر کے لئے گاڑی ہی زیادہ بہتر جائے پناہ تھی۔ مسجد میں اکا دکا ہی نمازی تھے۔باجماعت نماز عصر ادا کرنے کے بعد میں باہر نکلا تو بارش بالکل تھم چکی تھی ۔نگاہوں اور ارد گرد ہیولوں کی صورت دکھائی دیتے بلند پہاڑوں کے  درمیان سے برستے پانی کی چادر ہٹی توگردوپیش کے دلکش مناظر کا حسن عیاں ہوا۔میری نظروں کے  عین سامنےکا نظارہ ناقابل بیان حد تک خوبصورت تھا۔ ایک ساتھ اوپر تلے 2خوبصورت قزح کی قوسیں،دور نظر آتے ایک نسبتاًسرسبز پہاڑ پر چمکتی دھوپ آسمان پر چھائے سیاہ بادلوں کو چیرتی نیچے اترتی تھی۔ اور پھر ان دونوں خوش رنگ قزح کی قوسوں  تلےنظر آتا پتن  کا قصبہ کہ جس تک ہم کسی صورت پہنچ نہیں پارہے تھے۔ جب تک میں گاڑی سے کیمرہ نکال کر اس خوبصورت منظر کو محفوظ کرتا ،زیادہ بلندی پر نظر آتی قوس قزح کے رنگ کچھ ہلکے پڑ گئے لیکن اس کے نیچے والی قوس قزح پتن کی آبادی پر خوبصورت رنگوں سے مرصع روپہلے تاج کی طرح چمکتی تھی۔






 کچھ دیر تک ہم اس بلند جگہ پر کھڑے پتن کے اس حسین منظر کی دلکشی میں کھوئے رہے۔مسجد میں موجود ایک نمازی نے مجھے بتایا تھا کہ پتن سے داسو کے درمیان کچھ ایسے پہاڑی درے آتےہیں جہاں بارش کے دوران لینڈسلائیڈنگ کا بہت خطرہ ہوتا ہے۔ہمارا ارادہ ویسے بھی پتن میں ہی پڑائو ڈالنےکا تھا کیونکہ آسمان کا زیادہ حصہ ابھی تک سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ نشیب میں اترتی اس سڑک پر اب بارش کے ریلے نہیں بہتے تھے، صرف سڑک کے گڑھوں میں بارش کا پانی جمع تھا۔ کچھ ہی آ گے نظر آتے ایک موڑ پرپہاڑ سے اترتےایک برساتی نالے کا سرکش پانی اچھلتا کودتا ٹوٹی پھوٹی شاہراہ قراقرم سےگزر کردورنشیب میں بہتے دریائے سندھ کا رخ کرتا تھا۔ پتن کے باسی دو موٹرسائیکل سوار بڑی احتیاط سے اپنی موٹرسائیکل کو سنبھالے اس نالے کو پار کرتے تھے۔میں اس موڑ کے قریب پہنچ کر رکا، پانی کی گہرائی اور تیزی کا اندازہ لگانے کے بعد نسبتاً محفوظ جگہ سے پہلاگیئر لگا کر تیزی سے نالے کو عبورکیا۔ یہاں سے کچھ ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم شاہراہ قراقرم پر موجود پتن کے چھوٹے سے بازار تک پہنچ گئے۔ بازار سے ذرا پہلے ایک پہاڑی ندی پرموجود پل عبور کر کے ہم پل سےبالکل متصل بائیں طرف موجودایک اچھے اور خاصے بڑے ہوٹل کی پختہ پارکنگ کے گیٹ میں داخل ہو گئے۔



ہوٹل کی دوسری منزل پر ایک کمرہ پسند کیا ،عصر اور مغرب کے درمیانی وقت کی روشنی کا فائدہ اٹھانےکے لئے ہم پتن کے اس چھوٹے سے بازار کی سیر کی غرض سے ہوٹل سے نکل آئے۔ آسمان پر بادل تھے اورسورج بلند پہاڑوں کی اوٹ میں تھا۔بازار میں موجود گنتی کی چند دکانوں میں سے ایک آدھ ہی کھلی تھی۔ پتن میں عصر کے بعد کی یہ ہلکی روشنی تیزی سے غائب  اورسڑک پر چھایا سناٹا بڑھتا گیا،دیکھتے ہی دیکھتے ان پہاڑوں میں بسی پتن کی آبادی کو اندھیرا اپنی لپیٹ میں لیتا گیا۔ رات کا کھانا ہم نے ہوٹل کےخوبصورت ڈائننگ ہال میں کھایا اور کچھ وقت اس پرسکون ماحول میں گزارنے کے بعد اپنے کمرے کا رخ کیا۔میں بستر پر لیٹا تو اس تشویش میں تھا کہ ہمارے ساتھ پتن تک آنے والے یہ خاموش سیاہ بادل بھی ہماری طرح یہاں قیام پذیر نہ ہو گئے ہوں کہ صبح ہماری  آگےروانگی کےسفر کے ساتھ ہی بنا گرجے پھر سے دھواں دار برسنے کا سفرشروع کر دیں۔ 

پتن کے چھوٹے سے بازار اور گردوپیش کے مناظر ۔۔۔


بشام سے پتن تک شاہراہ قراقرم کی کم وبیش یہی حالت تھی ۔۔۔










پانچواں دن 

جھرنے ۔۔۔ آغاز بلتستان ۔۔۔ چڑھتی راہ ، بڑھتا خوف

قدرت ہم پر مہربان تھی۔ پتن کے نیلے آسمان پر اکا دکا سفید آوارہ بادل پھر رہے تھے ۔ صبح 6 بجے کے بعد ہم ہوٹل کی پارکنگ میں گاڑی کے پاس پہنچے تواس خوشگوار صبح کاصاف موسم شاہراہ قراقرم پر اگلی منزلوں تک روانگی کیلئے ہمیں سبز جھنڈی دکھا رہاتھا۔ پتن سے روانہ ہوئے توسڑک کی حالت بھی کل کی نسبت ذرا بہتر محسوس ہوئی۔گڑھوں کی تعداد میں بھی کچھ کمی تھی۔ شام اور رات کے سفر کی نسبت صبح سویرے کا سفر ہمارے لئے ابھی تک زیادہ بہتر ثابت ہوا تھا۔ ہم تازہ دم بھی تھے اور موسم بھی سازگار تھا اس لئے گردوپیش کے مناظر کی دلکشی بھی دوچند ہو گئی تھی۔ پتن سے آگےسنگلاخ پہاڑوں میں بلندی سے گرتے شفاف جھرنوں اور سڑک کے کنارے بہتےخوبصورت چشموں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔اتنی بلندیوں پرجا بجا چٹیل پہاڑوں کے پتھروں سے پھوٹتےچشموں سے جاری صاف شفاف ٹھنڈے پانی کی انتہائی اونچائی سے گرتی آبشاروں اور جھرنوں کے حسن کو ہم باربار رک کراپنی نگاہوں میں سموتے، کبھی سڑک کنارے بہتے چشموں میں ہاتھ بھگوتے تو اس سہانی صبح میں پانی کی خوشگوارٹھنڈک روح کی گہرائیوں تک اترتی محسوس ہوتی۔ کہیں صبح کی چمکیلی دھوپ کسی موڑ پر دریائے سندھ کے مٹیالے پانی پر اس زاویے سے پڑتی کہ دریا کا پانی سورج کے عکس سےجھلملاتا اورہماری نگاہوں کو خیرہ کرتا۔ صبح کے اس سفرکے خوبصورت مناظر نے شاہراہ قراقرم کی خستہ حالی کا دکھ کچھ کم کر دیا تھا۔

صبح سویرے کا سہانا وقت ۔۔ پتن سے کمیلا اور داسو کے سفرکے درمیان  حسین جھرنے ،گنگناتے چشمے،خوبصورت آبشاریں، دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کے دلکش مناظر  ۔۔۔۔




















راستے میں لینڈ سلائیڈنگ کا منظر ۔۔ شکر کہ روڈ بلاک نہیں ہوئی ۔۔











سوا آٹھ بجے کے بعد ہم کمیلا کے چھوٹے سے بازار میں پہنچ گئے۔1984 کے ہمارے سفر کے دوران ہماری بس بشام سے ایک بجے روانہ ہونے کے بعد اسی کمیلا کے بازار میں 3 بجے سہ پہر کو پہنچ گئی تھی۔بازار کے دائیں ہاتھ پر واقع ایک ہوٹل کی چھت پر لگے چھپر تلے بیٹھ کر ہم دونوں نے لنچ کیا تھا۔ چھت پر سے نیچے نشیب میں بہتا دریائے سندھ اور اس میں گرتے صاف پانی کا نالہ ہمیں نظر آتا تھا۔ 1984 کے سفر کی یاد آئی تو دل بے اختیار چاہا کہ پھر وہی ہوٹل ہو ،اور اس کی وہی چھت کہ ہم دریائے سندھ میں گرتے اسی نالے کو30سال بعد پھر دیکھتے ہوں لیکن 30سال کے اس طویل عرصے نے کمیلا کے اس بازار کو بھی خاصی وسعت بخش دی تھی۔ میں نے گاڑی روک کر سڑک کے کنارے موجود ایک راہگیر سے ہوٹل کے بارے میں پوچھا۔ اس نےدریا کا پل عبور کر کے کچھ فاصلے پر واقع کمیلا سے متصل داسو کے قصبے تک جانے کا مشورہ دیا کہ وہاں ہوٹل زیادہ بھی ہیں اور بہتر بھی ۔ کمیلا کے بازار کے درمیان میں واقع دریائے سندھ کا پل عبور کرکے ہم داسوکیلئے روانہ ہو گئے۔ اب پہاڑوں کا سلسلہ ہمارے دائیں ہاتھ کی طرف تھااور دریا  بائیں طرف نشیب میں بہتا تھا۔

کمیلا کا بازار ۔۔۔
کمیلا کے مقام پر دریائے سندھ کا پل ۔۔۔


داسو کا فاصلہ زیادہ نہ تھا۔ بائیں ہاتھ پر سڑک کے ساتھساتھ اچھے خاصے ہوٹل موجود تھے۔ ایک ہوٹل کے باہرچھوٹے سے کچے لان میں درختوں کی چھائوں تلے رکھی میز کرسیاں دیکھ کر ہم نے وہیں ناشتہ  کرنےکا فیصلہ کیا۔ جہاں ہم بیٹھے تھے دوربلند برف پوش پہاڑوں کی حسین چوٹیاں بھی ہمیں نظر آرہی تھیں جو اس جگہ کو مزید پر کشش بنا رہی تھیں۔1984 میں ہم نے دریا کے اس کنارے کمیلا میں لنچ کیا تھا تو آج  2014 میں دریا کے اس پار داسو میں ہم ناشتہ کرتے تھے اور اللہ کا  شکر ادا کرتے تھے جس نے اس عظیم شاہراہ کنارے اسخوبصورت مقام  پرہمیں ناشتہ کرنا نصیب کیا۔

داسو کا ہوٹل جہاں ہم نے ناشتہ کیا اور ارد گرد کے مناظر ۔۔۔








نو بجے کے بعد ہم داسو سے روانہ ہوئے۔ 1984 میں جب ہم ساڑھے تین بجے سہ پہر کو کمیلا سے روانہ ہوئے تھےتو صرف دس پندرہ منٹ کے سفر کے بعد سڑک پر ایک پہاڑی نالے کے ٹوٹے ہوئے پل کے باعث ہمیں رکنا پڑگیا تھا۔ایک دن پہلے ہونے والی تیز بارش کے باعث سیدھے ہاتھ پر موجود بلند پہاڑوں سے اترتے نالے کا طوفانی پانی اس  پل کو مکمل طور پر بہا لے گیا تھا اور سڑک پر اتنی جگہ بھی نہ بچی تھی کہ اسے پیدل ہی عبور کیا جاسکتا۔ہمارے فوجی جوان تندہی سے لوہے کے عارضی پل کی تعمیر میں مصروف تھے۔ میں اپنی ہم سفر کے ہمراہ بس سے اتر کر سڑک کے کنارے پڑے ہوئے پتھروں پر تقریباً 3 گھنٹے تک بیٹھا رہا تھا۔ بائیں طرف نیچے نشیب میں دریائے سندھ بہتا تھا۔ سیدھے ہاتھ پر بلند سنگلاخ پہاڑ ، اکا دکا گاڑیاں ہماری بس کے پیچھے آکر کھڑی ہو گئی تھیں۔عصر کے قریب دوسری سمت سے آنے والی ایک بس اس ٹوٹے ہوئے پل کے دوسری جانب پہنچ کر کھڑی تھی۔فوجی جوان مسلسل کام میں مصروف تھے۔ مغرب سے پہلے پہلےانہوں نے پل کو اس حد تک ٹھیک کر لیا کہ لوگ اسے پیدل عبور کر سکتے تھے۔ ہماری بس کے مسافر پل عبور کر کے دوسری سمت سے آنے والی بس میں سوارہوئے اور گلگت سے آنے والی بس کے ہماری بس میں۔ ہم اس بس میں جا بیٹھے لیکن وہ بشام سے آنے و الی دوسری    بس کے  یہاں پہنچنے تک رکی رہی تاکہ اس کے مسافروں کو بھی ساتھ لے جا سکے کیونکہ اس عارضی پل کی مکمل تعمیر کہ گاڑیاں اور بسیں اسے عبور کر سکیں ، نصف شب سے قبل تک ممکن نہ تھی۔ بشام سے آنے والی بس کا انتطار کرتے کرتے مغرب ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے گرد وپیش کے سب مناظر تاریکی میں ڈوبتے گئے۔ہمارے بہادر فوجی جوان بدستور گاڑیوں کی ہیڈ لائیٹس جلا کر اور ٹارچوں کی روشنی میں پل کی تعمیر میں مصروف تھے۔ ہمارے ساتھ بس میں آنے والے سب مسافر ایک ایک کر کے مختلف گاڑی والوں سے معاملات طے کرنے کے بعدچلا س اور گلگت کو روانہ ہو تے جاتے تھے۔ ساڑھے آٹھ بجے رات کو ہماری بس اندھیری شاہراہ قراقرم پرکھڑی تھی۔ صرف ہم دونوں اس بس میں تھے اور بے بس تھے۔رات نو بجے کے قریب بشام والی بس آئی، جب اس کے پچیس تیس مسافر ہماری بس میں وارد ہوئے تو ہماری بس گلگت کیلئے روانہ ہو سکی۔
آج الحمد للہ ایسا کوئی مسئلہ ہمیں درپیش نہ تھا۔ داسو سے چلے تو سڑک کی حالت کچھ اور بہتر ہوتی گئی۔ اب سڑک کے زیادہ تر گڑھوں کی بھرائی کر دی گئی تھی۔ اور ہم تھاکوٹ کے بعد سے پہلی دفعہ ذرا بہتر رفتارسے سفر کر پا رہے تھے۔ جھرنوں اور چشموں کا جو سلسلہ پتن سے داسو تک ہمارے ساتھ ساتھ رہا تھا وہ اب ختم ہو چکا تھا اس لئے ہم کہیں ٹہرے بغیر مسلسل سفر کر رہے تھے۔ دریا ہمارے دائیں سمت بہتا ہوا کبھی زیادہ نشیب میں چلا جاتا تو کبھی ہماری سڑک کچھ نیچے اتر کر پھر اس کے قریب ہو جاتی۔ کبھی دریا کے اس پارپہاڑ کی وادیاں کچھ کشادہ ہوجاتیں تو وہاں چھوٹی چھوٹی آبادیاں بھی نظر آتی تھیں۔ ان آبادیوں تک جانے کے لئےدریا پر فولادی رسوں سے معلق خوبصورت پل موجود تھے۔ کبھی کبھی شاہراہ قراقرم بھی پہاڑوں کے تنگ دروں سے نکل کر نسبتاً کشادہ وادیوں میں واقع کسی چھوٹی سی آبادی سے گزرتی تو ہم کم پر خطر اور ذرا سیدھی چال چلتی شاہراہ پر اپنی رفتار کچھ تیز کر نے کے قابل ہو جاتے۔ شاہراہ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے ہم اپنے رب کےتخلیق کردہ ان بلندوبالا پہاڑوں ،جھرنوں ،ندی نالوں اور اپنے ساتھ ساتھ بہتے دریائے سندھ کو دیکھتے تھے اور اس عظیم خالق کی حمد بیان کرتے اور ساتھ ہی ساتھ سینیٹر طلحہ محمود کو بھی ہمہ وقت یاد رکھتے تھے بلکہ یاد رکھنے پر مجبور تھے کہ سیکڑوں کلو میٹر طویل اس شاہراہ کا کوئی ایک کلومیٹر بھی ایسا نہ گزرتا تھا کہ سڑک کنارے کسی بڑے سے پتھر یا پہاڑ کے کسی کونے کھدرے پر سینیٹر طلحہ محمود نہ لکھا ہو۔

داسو سے ثمر نالے کے سفر کے دوران ۔۔۔۔












بارسین اورلوٹر کے چھوٹے قصبوں سے گزرتے ہوئے پونے 11 بجے کے قریب ہم ثمر نالے کے پل تک پہنچ گئے۔نالےمیں صاف شفاف پانی پتھروں سے ٹکراتا اچھلتا کودتا بہتا تھا۔ ہم کچھ دیر کیلئے اس خوبصورت نالےکے پاس رک گئے۔ اس سے پہلے کے ہمارے سفروں کے دوران جب بھی اس حسین نالے کے قریب ہماری بس کچھ دیر کیلئے کے رکتی تھی تو وہ رات کا کوئی پہر ہوتا تھا۔ رات کی تاریکی میں ہمیں صرف ایک آدھ چھوٹاساہوٹل نظر آیا تھا یا نالے کے ساتھ بنے ہوئے اونچے چبوتروں پربچھی کچھ چارپائیوں پر سوتے ہوئے لوگ۔ کنڈکٹر سے اجازت لے کر ہم یہاں اتر کر جلدی سے نالے کا ستھرا ٹھنڈا پانی پیتے اور اپنے پاس موجود بوتلوں یا کولر میں بھرتے اورپھرکچھ ہی دیر بعدرات کی تاریکی میں ہماری بس اس خوبصورت شفاف نالے کے پاس سے روانہ ہو جاتی۔ اس بارپہلی دفعہ ہم ثمرنالے کی خوبصورتی اور دلکشی سے دن کی روشنی میں لطف اندوز ہو رہے تھے۔ یہاں اب اچھے خاصے ہوٹل اور چند دکانیں بھی نظر آرہی تھیں۔ ہمیں داسو میں ناشتہ کئے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی اس لئے ہم کسی ہوٹل کا رخ کئے بغیر آگے روانہ ہوگئے۔

خوبصورت ثمر نالے اور گردونواح  کے کچھ مناظر ۔۔۔











ثمر نالے سے شاہراہ قراقرم پر آگے بڑھے تو کچھ فاصلے تک ان تنگ اور بلند پہاڑی دروں کا سلسلہ ہمارےساتھ چلا لیکن پھر سڑک کے دونوں اطراف کے مناظر نے اپنے انداز بد لے ۔ تنگ پہاڑی درے رفتہ رفتہ کشادہ ہوکر نسبتاً کھلی وادیوں کا روپ اختیار کرنے لگے۔   ان کشادہ ہوتی وادیوں کے ساتھ ساتھ شاہراہ قراقرم کےبائیں سمت بہتے دریا کا پاٹ بھی کہیں کہیں خاصا چوڑا ہوتا جاتا ۔ ان وادیوں کے بیچ کوئی نالہ ہمارے  دائیں طرف کے پہاڑوں سے اترتا تو اس کے دونوں اطراف کچھ ہریالی اور کسی چھوٹے سے قصبے کی آبادی موجود ہوتی۔ اسی طرح دریا کے چوڑے پاٹ کے دوسری طرف کے پہاڑوں سے کوئی نالہ بہتا ہوا دریائےسندھ میں داخل ہوتا  تو دریا کے اس پار پہاڑوں کے دامن میں بسی کسی آبادی کے گھر ہمیں کھلونوں کی طرح نظر آتے اور دریا پر ان بستیوں کی طرف جاتے معلق پل بھی ہمیں دکھائی دیتے۔ کبھی کچھ چرواہےگائے بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ شاہراہ پر مٹر گشت کرتے نظر آتے۔اسی طرح کی وادیوں میں واقع سازین اور شتیال کے چھوٹے قصبوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہمارا سفر جاری رہا۔

ثمر نالے سے شتیال تک کے سفر کی کچھ تصویریں ۔۔۔







کہیں یہ وادیاں اتنی وسیع ہو جاتیں کہ دریائے سندھ  شاہراہ سے کافی فاصلے پر چلا جاتا اور دورنشیب میں اس کے کشادہ پاٹ کے ساتھ دریا کے ساحل ہمیں سفید ریتیلے میدانوں کی صورت نظر آتے۔یہ ریتیلے سفیدمیدان کبھی کسی پہاڑی نالے کے پانی سے سیراب ہو کر سبزہ زاروں کی شکل اختیار کر لیتے تو شاہراہ قراقرم کے اس بنجر کوہستانی علاقے میں ریت کے میدانوں کے بیچ یہ سبزہ زارآنکھوں کو بہت بھلے دکھائی دیتے- سنگلاخ پہاڑی سلسلوں کی کشادہ وادیوں کے درمیان ان سبزہ زاروں میں ہمیں کچھ چوپائے گھاس چرتے بھی نظر آجاتے۔ہربن نالے کا پل عبور کر نے کے کچھ دیر بعد ہم ہربن بھاشا پولیس چیک پوسٹ پر پہنچے جو کہ اس کوہستانی علاقےمیں خیبر پختونخوا کی آخری پولیس چوکی تھی۔ساڑھے بارہ بجے کے قریب شاہراہ قراقرم کے کنارے لگے سائن بورڈ نے ہمیں آگاہ کیا کہ بلتستان ہمیں خوش آمدید کہتا ہے۔

شتیال سے آغاز حدود بلتستان تک ۔۔۔۔








بلتستان کی حدود میں داخل ہونے کے بعد شاہراہ کے ارد گرد پھیلی وادیاں مزید کشادہ ہو تی گئیں۔ کہیں کہیں دریائےسندھ ان کشادہ وادیوں میں بل کھاتا ہم سے بہت دور چلا جاتا۔ ہم اب بلند پہاڑی دروں کے بجائے زیادہ تر دریا سےکچھ ہی بلندی پر پھیلی کشادہ وادیوں کے پتھریلے میدانوں سے گزرتے تھے۔ تھور نالے کا پل عبور کرنے سے قبل ہم بلتستان کی حدود میں واقع پہلی پولیس چوکی پر پہنچے۔ چلاس اب صرف 27 کلومیٹر کی دوری پر تھا۔ تھور نالہ عبور کرنے کے بعد سے چلاس تک ہمارا سفر وسیع پتھریلے اور کہیں کہیں ریتیلے میدانوں سے گزرتی شاہراہ پر جاری  رہا۔ کشادہ وادیوں کے بیچ بچھی سیدھی سڑک پر ہماری گاڑی اب خاصی تیررفتاری سے دوڑتی تھی۔ اسی دوران اس علاقے کی بعض اہم شخصیات کی گاڑیوں پر مشتمل کچھ تیزرفتار قافلے ہمارے پاس سے زن کر کے گزرے۔بائیں طرف بہتا دریائے سندھ اب زیادہ تر ہماری نگاہوں سے اوجھل رہنے لگا تھا۔ کیونکہ ہمارا سفر ان پہاڑی وادیوں کے میدانی علاقوں میں جاری تھا اور دریا ہم سے خاصے فاصلے پر بہتا تھا۔
ڈیڑھ بجے کے قریب ہم چلاس کی وسیع وعریض وادی میں داخل ہو گئے۔ مئی کے اس آخری دن کی دوپہر چلاس میں ہماری توقع کے برخلاف زیادہ گرم نہ تھی ۔ ایسا اس لئے تھا کہ بلتستان کی ان وادیوں میں ابھی موسم گرما کا آغاز ہی ہوا تھا۔ جن عظیم پہاڑی سلسلوں میں بلتستان واقع تھا ان کی بلندو بالا چوٹیوں پر موسم سرما میں پڑنےوالی برف کی دبیز تہیں ابھی آہستہ آہستہ پگھلنا شروع ہوئی تھیں۔ موسم کے زیادہ گرم نہ ہونے کی دوسری وجہ یہ کہ آسمان پر ابر اور ہلکے ہلکے بادل موجود تھے کہ جو گردو پیش کے سنگلاخ پہاڑوں پر پڑتی سورج کی تپتی دھوپ اور اس کی بھرپور تمازت کے بیچ حائل تھے۔ ہم دوپہر کے وقت چلاس کی اس وادی کی متوقع گرمی سے اس لئےگھبرائے ہوئے تھے کہ ہم اس سے قبل جب بھی چلاس سے گزرے تو وہ اتفاق سےماہ اگست تھا کہ جب ان علاقوں میں گرمی کا موسم اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ گو کہ ہم اگست کے مہینے میں یہاں سے ہر بار رات میں ہی گزرے تھے لیکن اس وقت بھی یہاں شدید گرمی تھی۔ 2004 کا سفر تو ہم نےراولپنڈی سے اسکردو تک اے سی کوسٹر اور واپسی میں گلگت سے نیٹکو کی اے سی بس میں کیا تھا۔ لیکن اس وقت بھی جب ہماری کوسٹر اور بس یہاں رکی اورہم کچھ کھانے پینے نیچے اترے تھے تو خاصی گرمی تھی۔ لیکن 1984کی وہ شب تو میں اور میری ہم سفر آج تکنہیں بھلا پائے کہ گلگت سے واپسی کے وقت نیٹکو کی بیڈ فورڈ بس جب رات کے بارہ بجے چلاس کی وادی میں داخل ہوئی تو ہم لو کے گرم تھپیڑوں سے بچنے کے لئے کھڑکی کا شیشہ بند کرتے تھے۔ اور پھر جب ہماری بس ایک چھوٹےسے ہوٹل کے پاس رکی اور ہم بس سے اترے تو اس وسیع و عریض وادی میں تاریکی کا راج تھا۔ رات کےاس اندھیرے میں گرم ہوائیں چلتی تھیں جو ہمارے چہروں کو جھلساتی تھیں۔ ہم نے فوراً ہوٹل سے  ایک ساتھ چار کولڈ ڈرنکس خرید لیں ۔ میں اور میری ہم سفر اس سنسان اور تاریک وادی سے گزرتی شاہراہ قراقرم پر ٹہلتے تھے۔ پہاڑی علاقوں میں نصف شب کے وقت اتنی شدید گرمی کے باعث حیرت زدہ ہوتے تھے اور ایک کے بعد دوسری کولڈ ڈرنک پی کر اپنے خشک حلق کو تر کرتے تھے۔
ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ آج اس بھرپور دوپہر کو چلاس گرم نہ تھا۔ دن کے وقت چلاس کو دیکھنے کا بھی یہ پہلا موقع تھا۔ اچھا خاصا بڑا قصبہ جس میں شاہراہ کے ارد گرد دور تک نظر آتا طویل بازار کہ جس میں ہر طرح کی دکانوں کے ساتھ ساتھ ہوٹل بھی خاصی تعداد میں موجود تھے۔ سڑک کے دونوں اطراف چھوٹی چھوٹی مارکیٹیں بھی نظر آتی تھیں جن کے سامنے گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے جگہ بھی تھی۔ میں نے ایسی ہی ایک بارونق مارکیٹ کی پارکنگ میں ایک ہوٹل کے سامنے گاڑی روک دی۔ ہوٹل کی پہلی منزل پر فیمیلیز کےلئے بڑا سا وسیع ہال موجود تھا۔ اسی ہال میں ہم نے لنچ کیا ، نماز ظہر ادا کی اور آخر میں اس ہال سے بازارکے رخ کھلنے والی کھڑکی سے چلاس کے بارونق بازار کا نظارہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے ایک ایک کپ بہترین چائے بھی پی۔ کھڑکی کے ساتھ ہی باہر کی طرف ایک مار خور کھڑا تھا جو اپنے انتہائی لمبے اورنوکیلے سینگوں سے کھڑکی پر لگی کمزور سی جالی پھاڑ کر ہم پر حملہ آور ہو سکتا تھا لیکن اچھی بات یہ تھی کہ وہ بنفس نفیس اپنی کھال میں  موجود نہ تھا ، اس کی کھال میں بھس بھرا تھا ورنہ ہمیں کم از کم کھڑکی کے شیشے تولازماً بند کرنا پڑتے- ہوٹل کےہال کے باہر عقب میں ایک چھوٹا سے خوبصورت کچا لان تھا جس میں لگے چھوٹےچھوٹے درختوں کی چھائوں میں بچھی چارپائیوں پر بیٹھ کر ہم نے تھوڑا سا آرام بھی کیا۔

آغازبلتستان سے چلاس تک کے سفر اور چلاس کے ہوٹل کی کچھ تصاویر ۔۔















چلاس کے ہوٹل میں ہم نے تقریباً ایک گھنٹہ گزارا۔ اس ایک گھنٹے کے دوران جہاں ہم نے کھانا کھایا ،نماز پڑھی،چائے پی اور کچھ آرام بھی کیا، وہیں میرے  ذہن میں چپکے چپکے چلاس کے حوالے سے ماضی کے دریچے بھی وا  ہوتے چلے گئے۔چلاس کا نام میرے ذہن کےپردے  پرآج سے38سال قبل 1976سے نقش ہےکہ جب آتش جوان تھا بلکہ نوجوان تھااور کاغان اور ناران کے سفر پر پہلی بار اور اکیلا نکلا تھا،تب مجھے پہلی بار چلاس کےبارے میں پتہ چلا تھا کہ ناران سے آگے کی طرف جاتا کچا راستہ انتہائی بلند و بالا درہ بابوسر سے ہوتا ہوا چلاس تک جاتا ہے اور یہ چلاس نامی قصبہ پاکستان کو چین سے ملانے کے لئے بنائی جانے والی سڑک پر واقع ہے۔اس وقت یہ عظیم شاہراہ قراقرم زیر تعمیر تھی۔اس طرح چلاس کا نام خواب وخیال کی دنیا کے ایک طلسماتی شہرکی صورت میرے ذہن پر نقش ہو گیا۔اس دور میں ناران اور جھیل سیف الملوک تک پہنچنا  ہی انتہائی دشوارہوا کرتا تھا کجا کہ درہ بابوسر اور پھر وہاں سے ہوتے ہوئے چلاس جانا۔سو چلاس اور بابوسر میرے ذہن میں صرف ایک خواب کی حیثیت رکھتے تھے۔1978میں دوسری بار میں ناران اور جھیل سیف الملوک تک گیا،اس بار بھی میں ان دل فریب وادیوں کے سفر پر  تنہا ہی نکلا تھا۔شاہراہ قراقرم ہنوز زیر تعمیر تھی اور ان وادیوں تک پہنچنے کے راستے بھی بدستور خطرناک اور دشوارگزار۔بابوسر اور چلاس خواب تھے ، خواب ہی رہے۔وادی کاغان کا تیسرا سفر میں نے 1982میں کیا لیکن اس بار میں اکیلا نہ تھا، میرا چھوٹا بھائی اور دو دوست ہمراہ تھے۔ کراچی سے ہمارے ساتھ ہی ہماری دو موٹرسائیکلیں بھی ٹرین میں لاہور تک گئی تھیں لیکن لاہورسے روانہ ہو کرہمارا سفر ناران کے بجائے کاغان پر ہی اختتام کو پہنچا کہ مارچ کا مہینہ تھا اور کاغان سے آگےصرف برف کا راج تھا۔ ناران تک پیدل جانا بھی ممکن نہ تھا۔سو اس سفر کے دوران تو بابوسر اور چلاس کا تصور ہی محال تھا۔1978 سے1982 کے درمیانی عرصے کی بڑی خبر یہ تھی کہ 1979میں شاہراہ قراقرم کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی اور اس کے علاوہ ایک اچھی خبر یہ بھی ملتی تھی کہگرمیوں کے دو تین مہینوں کے دوران جب موسم صاف اور سازگار ہو  تو بذریعہ جیپ ناران سے چلاس تک آمدو رفت ممکن ہوسکتی ہے۔
جولائی 1984 کےآخری ہفتے میں جب مجھے زندگی بھر کے لئے ایک ہم سفر مل گیا تو میں نے سوات کی سیر کے ساتھ ساتھ شاہراہ قراقرم پر گلگت اور ہنزہ تک جانے کا بھی پروگرام بنا لیا  اور اگست کے دوسرے ہفتے میں ہی ہم روانہ ہو گئے۔ ہمارے اس سفر کےدوران میں نے اپنے خواب و خیال میں بسے چلاس کو پہلی باردیکھا لیکن وہ ٹھیک سے نظر نہ آتا تھا کہ رات کی تاریکی میں گم تھا۔چلاس تک کے اس سفر کے دوران میری ملاقات بس میں سوار چلاس کے ایک باسی سے ہو ئی تھی جس سے میں نے دوران سفر چلاس سےبابوسر کے راستے ناران جانے والی سڑک کے بارے میں دریافت کیا ۔معلوم ہوا کہ اس راستے پر صرف جیپ جاتی ہے لیکن وہ بھی صرف اس وقت کہ آسمان صاف ہو اور بارش کا کوئی امکان نہ ہو کیونکہ خراب موسم اور بارش کی صورت میں اس سڑک پر سفر کرنا انتہائی خطرناک ہو جاتا ہے۔یہ بھی پتہ چلا کہ جیپ والےاس راستے کا انتخاب کرنے والوں سے ٹھیک ٹھاک کرایہ وصول کرتے ہیں اس لئے پانچ یا چھ مسافر مل کرہی ناران تک جانے کے لئے کوئی جیپ بک کرانے کے قابل ہوتے ہیں۔ دل میں گلگت اور ہنزہ سے واپسی پر چلاس سے براستہ بابوسر ناران جانے کی جو ایک خواہش اٹھتی تھی وہ چلاس کے اس مکین سے ملنے  والی دلشکن معلومات کے بعد دم توڑ گئی اور یہ خواب ایک دفعہ پھر خواب ہی رہا۔
کاغان اور ناران کی وادی کا اگلا سفر ہم نے 1988 میں کیا کہ جبہم  ہوائی جہاز سے اپنی 3سال کی بیٹی کو ساتھ لے کر پہلےاسلام آباد سے اسکردو اور پھر واپس اسلام آباد پہنچنے کے بعد ناران جا پہنچے۔اس سفر میں ہم نے کوشش کی کہ کم از کم ناران سے بابوسر تک جاتی اس سڑک پر لالہ زار تک ہی ہو آ ئیں لیکن لینڈ سلائیڈنگ کے باعث راستہ مسدود ہو جانے کی وجہ سے ہم اس راہ پر قدم نہ بڑھا سکے۔میں نے ایک بار پھر حسرت سے ناران سے آگے جاتی اس سڑک کو دیکھا اور ہم ناران اور جھیل سیف الملوک سے ہی واپس پلٹ آئے۔
2004 میں اسکردو، دیوسائی ، گلگت اور ہنزہ کے سفرکے دوران ہماری تینوں بیٹیاںہمارےساتھ تھیں چنانچہ گلگت سے واپسی میں بچیوں کے ہمراہ چلاس سے ناران تک جیپ کا دشوار گزار اورخطرناک سفر ناممکن تھا سو اس سفر کے دوران بھی واپسی میں رات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں لپٹاچلاس کا شہر خاموشی سے گزر گیا۔ میں ایک بار پھر حسرت سے بس کی کھڑکی کے باہر دور تاریکی میں مشرق کی سمت پہاڑوں کے ان سیاہ ہیولوں کو دیکھتا تھا کہ جن کے بیچ سے ہو کر ایک راستہ بابوسرکی طرف جاتا تھا۔2004کے اس سفر میں گلگت سے واپسی پر ہم مانسہرہ اتر گئے اور ناران جا پہنچے۔ایک بار پھر ہم نے لالہ زار جانے کا ارادہ کیا اور لینڈسلائیڈنگ پھر ہماری راہ میں حائل ہو گئی۔ میں ناران کے پی ٹی ڈی سی موٹل کے ساتھ بہتے دریائے کنہار کے ریتیلے ساحل پر اپنی ہمسفر اور بچیوں کے ساتھ ٹہلتا تھا اور دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ بلندیوں کی طرف جاتی اس سڑک کو دیکھتا تھا جو بابوسر اورچلاس جاتی تھی۔سوچتا تھا کہ کبھی میں اس سڑک کے مشرقی قصبے ناران میں ہوتا ہوں تو کبھی اس سڑک کے مغربی سرے پر واقع چلاس کے قصبے سےگزرتا ہوں۔ آخر یہ سڑک مجھ پراتنی نامہربان کیوں ہے کہ اس پر سفر کرنے سے ابھی تک محروم ہوں۔
آج میرے خواب و خیال میں بسنے والا چلاس کا شہر تاریکی کی سیاہ چادر اتار کر میری نظروں کے سامنےتھا۔ چلاس اور بابوسر کے حوالے سے میرے خواب کو تعبیر ملی بھی تو ادھوری۔ اس سفر کا ابتدائی منصوبہ جو میں نے بنایا تھا اس پر عمل کر کے میں اپنے خواب کی مکمل تعبیر پا سکتا تھا۔ اس منصوبےکے مطابق استور جانے کے لئے مجھے براستہ ناران اور بابوسر چلاس پہنچنا تھا لیکن اس راستے کی تازہ ترین صورتحال کے مطابق مئی کے آخری ہفتے میں برف سے ڈھکےدرہ بابوسر کا راستہ کھلنے کا کوئی امکان ہی نہ تھا۔اگر پروگرام میں ایک دو دنوں کا ردو بدل کرتا اور اتفاقاً راستہ کھل بھی جاتا تو ناران کی طرف سےگلیشئرز کی بھرمار اور اس کے ساتھ بابوسر تک کی چڑھائی مہران کے بس کی بات نہ ہوتی سو وہ منصوبہ ناقابل عمل قرار پایا، مجبوراً یہ پروگرام بنایا کہ استور، اسکردو، ہنزہ، خنجراب اور گلگت سےواپسی کے وقت چلاس سے درہ بابوسر عبور کرکے ناران پہنچا جائے کہ اس وقت تک نصف ماہ جون گزر جانے کے بعد راستہ زیادہ بہتر طور پر کھل چکا ہو گا لیکن عقل و خرد یہ کہتی تھی کہ بے شک راستہ کھل ہی کیوں نہ گیا ہو اور چلاس سے بابوسر پہنچنا قدرے سہل ہی کیوں نہ ہو اپنی ہمسفر کے ہمراہ مہران میں درہ بابوسر کے راستے ناران جانے کا خطرہ مول نہ لیا جائے ۔ سو جب اس سفرکی منصوبہ بندی مکمل ہوئی تو درہ بابوسر کا راستہ اختیار کرنے کا خیال بالکل ترک ہی کر دیا گیا۔دماغ میں بابوسر کے حوالے سے حسرت بھری یادیں چلاس کے اس ہوٹل سے نکلتے وقت  مجھےکچھ بے چین اور مضطرب کرتی تھیں۔
گھڑی کی سوئیاں ڈھائی کو کراس کر چکی تھیں۔ آنے والی رات کے پڑائو کے حوالے سے میرے ذہن میں صرف رائے کوٹ ہی تھا کیونکہ رائے کوٹ کے آگے شاہراہ قراقرم چھوڑ کر استور جانے والے راستے اور اس سڑک کی حالت سے ہم ناواقف تھے۔ ہم سفر کو گاڑی میں بیٹھنے کا کہہ کرمیں رائے کوٹ میں رات گزارنےکے حوالے سے کچھ معلومات حاصل کرنے کے لئے ہوٹل کے کاؤنٹر پر موجود شخص کی طرف بڑھ گیا۔
’’کیا رائے کوٹ میں رات گزارنے کے لئے شنگریلا کے علاوہ کوئی اور ہوٹل بھی ہے ؟‘‘
’’نہیں جناب صرف شنگریلا ہی ہے۔‘‘
’’اس ہوٹل کا کوئی فون نمبر آپ کے پاس ہو تو ہم وہاں پہنچنے سے پہلے معلوم کر لیں کہ ہمیں کمرہ مل سکے گا یا نہیں ؟‘‘
میں نے اس ضمن میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
’’اسی سڑک پر جدھر سے آپ آئے ہیں کچھ ہی فاصلے پر چلاس کا شنگریلا ہوٹل ہے۔ اس سلسلے میں آپ وہاں سے معلوم کر لیں۔‘‘
اگلا سوال میں نے نہیں کیا۔ میرے دل نے کیا۔ زبان میری تھی بات دل کی تھی۔
’’کیا ناران جانے کے لئے بابو سر والا راستہ کھلا ہوا ہے ؟‘‘
’’نہیں جناب۔ویسے تو اسے کل یکم جون سے کھلنا تھا لیکن ابھی بابوسر پر برف پگھلی نہیں۔ سنا ہےابھی ایک ہفتہ اور لگے گا۔‘‘
دل پہ جوگزری وہ دل ہی نےجانا،میں نے فقط ایک لمبی سی ٹھنڈی سانس بھرلی۔
اس مارکیٹ کی پارکنگ سے نکلے تو کچھ ہی دوری پر واقع شنگریلا ہوٹل کی خوبصورت عمارت کی پارکنگ میں جا پہنچے۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ رائے کوٹ والے شنگریلا سے چلاس والے شنگریلا ہوٹل والوں کا کوئی تعلق نہیںاور نہ ہی یہاں سے کسی طور ان سے رابطے کی کوئی صورت ممکن ہے۔ مجھے کچھ حیرت تو ہوئی لیکن زیادہ نہیں۔ہمارے ہاں لوگوں کو بےوقوف بنانے کیلئے کسی بھی مشہور نام کو ہتھیا کراپنا کاروبار چمکانا عام سی بات ہو گئی ہے۔ شمالی علاقوں کے ہوٹلوں میں شنگریلا یقیناً ایک بڑا نام ہے۔ اب  نہ جانے چلاس کا یہ شنگریلا جعلی تھا یا رائے کوٹ کا ؟  میں نے ابھی اس سلسلے میں زیادہ دماغ کھپانامناسب نہ جانا کیونکہ یہ عقدہ رائے کوٹ کے شنگریلا پہنچ کر بھی حل ہو سکتا تھا۔ بظاہر تو چلاس کےاس ہوٹل کی خوبصورتی اور عمدہ طرز تعمیر اسی کے اصلی ہونے کا پتہ دیتاتھا۔
چلاس کے بازار سے نکلنے سے پہلے ایک ٹائر شاپ سے پہیوں کی ہوا چیک کرائی ،گاڑی کا تیل پانی چیک کیا اور سہ پہرتین بجے سے پہلے ہی ہم چلاس کے طویل بازار کو پیچھے چھوڑتے ہوئے رائے کوٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ سڑک کی حالت بہتر تھی۔ قصبے کی آبادی سے نکلنے کے کچھ ہی دیر بعد دریائے سندھ شاہراہ کی بائیں طرف ہم سے قریب آ گیا۔سڑک دریا سے زیادہ بلند نہیں  تھی۔ کچھ فاصلہ طے کر کے ہم ایک سہ راہے پر پہنچے یہاں سے ایک سڑک دائیں ہاتھ کی طرف مڑتی تھی جو تھک نالے کے ساتھ ساتھ بلند ہوتی بابوسر کی طرف جاتی تھی۔اچھی خاصی چوڑی سڑک تھی اور شاہراہ قراقرم سے زیادہ بہتر حالت میں دکھائی دیتی تھی۔ میں نے بہت محبت بھری نظروں سے اسے دیکھا کہ شاید اس کی نامہربانی کبھی مہربانی میں بدل جائے۔ہم  بائیں طرف مڑتی شاہراہ قراقرم پر رواں دواں رہے۔قریب ہی موجود تھک نالے کا پل عبور کیا۔  پل کے بعد تھوڑا سا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ شاہراہ ایک نسبتاً کشادہ وادی میں داخل ہو گئی۔ دریا پھر ہم سے کچھ فاصلے پر چلا گیا۔دائیں ہاتھ پر موجود ایک پٹرول پمپ پر میں نے گاڑی روک دی۔پٹرولپمپ والے کے استفسار پرہم نے اسے بتایا کہ ہم کراچی سے آ رہے ہیں۔اس نے ہمیں اور ہماری گاڑیکوبغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’کس راستے سے آئے ہیں؟‘‘
’’شاہراہ قراقرم سے۔‘‘
’’اوہو،بہت لمبا سفر کیا آپ نے۔ واپسی پر بابوسر والے راستے سے جانا، یہ چھوٹا راستہ ہے۔‘‘
اس نے اپنے قیمتی مشورے سے ہمیں آگاہ کیا۔
’’کیا گاڑیاں اس راستے سے آتی جاتی ہیں ؟ سڑک کیسی ہے ؟‘‘
دل بے تاب کے سوالات پھر شروع ہو گئے۔
’’سڑک اچھی ہے ، کافی گاڑیاں اس راستے سے آتی جاتی ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے ۔انشاءاللہ واپسی پر دیکھیں گے ۔ ابھی تو یہ راستہ کھلا ہی نہیںہے۔‘‘
میں نے اسے جواب دینے کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو بھی تسلی دی۔
ہمارا سفر جاری رہا۔ شاہراہ کبھی دریا کے قریب آجاتی تو کبھی دریا پھر شاہراہ سے دور چلاجاتا۔کبھی دونوں اطراف کے پہاڑوں کی گھاٹیاں کچھ تنگ ہو جاتیں تو کہیں پھر اتنی کشادہ کہ دریا کا پاٹ انتہائی چوڑا ہو جاتا۔ دریا سڑک سے زیادہ نشیب میں نہ تھا اس لئے اس کے کشادہ پاٹ کے ساتھ موجود ریتیلے میدان کبھی کبھی ہمارے بہت قریب آجاتے ۔ ان وادیوں میں چلتی ہوا دریا کے پانی پر سرسراتی اور ریتیلے میدانوں سے لہراتی ہماری طرف آتی ، کبھی زیادہ تیزی سے چلتی توریت کے بگولے بھی اپنے ساتھ لاتی۔ ہم سفر ان ریتیلے ہوا کے جھونکوں سے گھبراکر کھڑکی کا شیشہ چڑھاتی تھی۔چھوٹے چھوٹے قصبوں سے گزرتے ،مختلف نالوں کے پل عبور کرتے ہم آگے بڑھتے تھے۔ ادھر پہاڑ خاموشی سےاپنی ہیئت تبدیل کرتے تھے ۔ پتھروں کے ساتھ اب ان میں مٹی کی مقدار بڑھتی جاتی تھی۔ ان پہاڑوں میں موجود پتھروں کی ساخت بھی بدلنا شروع ہو گئی۔ یہ پتھر اب پہاڑی ندی نالوں میں پائے جانے والے پانی کے تیز بہائو سے تراشے گئے گول گول پتھروں کی شکل اختیارکرتے جاتے تھے۔ کہیں ایسا دکھائی دیتا کہ یہ پہاڑ مٹی کے ہیں اور ان میں یہ گول پتھر تہوں کی صورت موجود ہیں تو کہیں مٹی اور ایسے ہی گول پتھروں والی چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں زمین پر رکھے بڑےبڑے ڈھیروں کی شکل میں نظر آتیں۔ اس علاقے سے گزرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ پوراعلاقہ زمانہ قدیم میں کبھی کوئی عظیم آبی گزرگاہ رہا ہو اور بعد ازاں کسی بڑی ماحولیاتی  یا ارضی تبدیلی کے باعث یہ آبی گزرگاہ ختم ہو گئی ہو اور یہ پہاڑ نمودار ہوگئے ہوں۔ ایسی عظیم  ارضی تبدیلی کی تازہ ترین مثال شمالی علاقوں میں چند سال پہلے ہی وجود میں آنے والی عطاآباد جھیل ہے۔جس طرح قدرت نے وہ جھیل تخلیق کی ہے اسی طرح ایک طویل مدت بعد قدرت کبھی اس جھیل کا خاتمہ کر دے تو دس پندرہ کلومیٹر کا وہ علاقہ بالکل مختلف شکل میں نمودار ہو سکتا ہے۔بہرحال اس علاقے سے گزرتے ہوئے یہ میرے محسوسات تھے۔ اس بارے میں ماہرین علم ارضیات زیادہ بہتر جانتے ہوں گے۔ ضروری نہیں کہ میرا قیاس حقیقت ہو۔
سہ پہر شام میں بدلنا شروع ہو گئی تھی۔ ساڑھے چار بجے کے قریب ہم انہی مٹی اور پتھروں کے پہاڑوں میں سفر کرتے تتا پانی کے علاقے میں پہنچ گئے۔ ہمارے ملک میں بولی جانی والی کچھ زبانوں میں تتا  کا لفظ گرم کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ علاقہ گرم پانی کہلاتا ہے۔اس علاقے میں گندھک کی آمیزش والے گرم پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں اور غالباً گرم پانی کے یہ چشمے ہی تتا پانی کی وجہ تسمیہ رہے ہوں گے۔ اس علاقے میں ہونے والی تیز بارشوں نے مٹی کے ان پہاڑوں پر پرنالوں کی شکل میں اوپر سے نیچے تک لمبی لمبی دراڑیں بنا دی تھیں جوبڑی آرٹسٹک دکھائی دیتی تھیں۔ ان مٹی کے پہاڑوں کے بیچ سے گزرتی شاہراہ خود بھی کہیں کہیں مٹی کی چادر اوڑھ کر بالکل ایک کچی  راہگزر کی طرح نظر آنے لگتی تھی۔ 2004 کے سفر کے دوران جب ہم اس علاقے سے گزرے تھے تو گندھک کی آمیزش والی اس ہوا  سے ہونے والی الرجی کے باعث میری چھوٹی بیٹی کی آنکھوں سے پانی بہتا تھا اور جلد کی حساسیت کی وجہ سے چہرے پر کچھ سوجن بھی آ گئی تھی جبکہ ہم بھی گندھک کی ہلکی سی بو اور آنکھوں میں کچھ جلن محسوس کرتے تھے۔ آج ہم نے ایسا کچھ محسوس نہیں کیا ، ممکن ہے موسم کی تبدیلی اس کی وجہ رہی ہو۔تتا پانی کے علاقے سے نکلنے کے کچھ ہی دیر بعد ان مٹی کے پہاڑوں کا سلسلہ ختم ہو گیا ۔ابھی تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا ہوگا کہ شاہراہ کے ایک موڑ سے ہمیں دور دریائے سندھ پر بنا رائے کوٹ کا پل نظر آگیا۔

چلاس سے رائے کوٹ تک کے سفر کی کچھ تصویریں ۔۔۔



ہمسفر دریائےسندھ کی تصویر لیتے ہوئے








شام کے پونے پانچ بجنے کو تھے جب ہم رائے کوٹ پل کے ساتھ ہی بائیں ہاتھ پر بنی ہوئی چیک پوسٹ کی چھوٹی سی کوٹھری کے پاس رکے۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ جس شاہراہ قراقرم پر ہم تھاکوٹ سے اتناطویل سفر کرکے یہاں تک پہنچے تھے وہ اس پل تک پہنچتے ہی اچانک ختم ہو جائے گی۔میں نے اپنی دونوں آنکھوں کو ملا، سر کو جھٹکا کہ کہیں یہ میری نظر کا دھوکا نہ ہو، اگر خود کو ذرہ بھر بھی عالم غنودگی میں محسوس کرتا تو اپنی ایک چٹکی بھی ضرور لیتا۔یہ خیال بھی آیا کہ نظر کا یہ فریب پہاڑوں میں گھری اس جادونگری کے کسی طلسم کے باعث نہ ہو ورنہ یہ کیسےممکن تھا کہ ہم مسلسل جس شاہراہ پر سفر کرتے آئے ہوں وہ یوں یکدم ہمارا ساتھ چھوڑ جائے۔
’’ اتنی بہترین سڑک  ‘‘
میں ابھی سکتے کی کیفیت میں ہی تھا کہ ہم سفر کی حیرت و مسرت بھری  آواز نے مجھے چونکا دیا۔
 رائے کوٹ کا انتہائی چوڑا اور شاندار پل ہماری نظروں کے سامنے تھا اوراس پل کے آگے جہاں تک ہماری نظر جاتی تھی بالکل اسی پل کی طرح چوڑا گہرا سرمئی قالین ایک سڑک کی صورت بچھا چلا جاتا تھا۔ ہم دونوں ہکا بکا سامنے والے منظر کو دیکھتے تھے۔شاہراہ قراقرم نے رائے کوٹ پہنچتے ہی اپنے پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑے اتار پھینکے تھے اور دریائےسندھ کے اس پار جانے کے لئے انتہائی عمدہ اور ریشمی پوشاک زیب تن کر لی تھی۔گو کہ اس شاہراہ کو شاہراہ ریشم کہنے کہ وجہ تسمیہ کچھ اور رہی ہے لیکن  آج اس کی یہ سج دھج دیکھ کر مجھے یہ شاہراہ حقیقی معنوں میں شاہراہ ریشم دکھائی دی۔
پل کے داہنی طرف شنگریلا ہوٹل شاید کچھ بلندی پر واقع تھا اس لئے ہمیں پل کے قریب سے نظرنہیں آرہا تھا۔ میں نے چوکی پر موجود شخص سے شنگریلا ہوٹل میں رات گزارنے کی بابت دریافت کیا۔جب اسے پتہ چلا کہ ہمیں استور جانا ہے تو اس نے ہمیں مشورہ دیا کہ رات یہاں رکنے کےبجائے آپ استور کی طرف اپنا سفر جاری رکھیں، مغرب سے پہلے ہی آپ بآسانی استور پہنچ جائیں گے۔ میں نے اپنے ذہن میں فوراً فاصلوں کا حساب لگایا۔ یہاں سے 12 کلومیٹر تک تو ہمیں اس قالین کی طرح بچھی شاہراہ ریشم پر سفر کرنا تھا۔ اور پھر وہاں سے دائیں طرف مڑنےوالی سڑک پر استور تک کا فاصلہ بمشکل 48 کلو میٹر ہو گا۔ اس طرح یہاں سے استور تک ہمیں کل 60 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا تھا۔ میں نے استور تک جانے والی سڑک کی حالت کے متعلق معلوم کیا۔ جب اس نے ہمیں اس سڑک کی حالت کے بہتر ہونے کی خوشخبری بھی سنا دی تومیں نے شنگریلا ہوٹل کی طرف جانے کےبجائے ہمیں اپنی طرف پیار سے بلاتی بلکہ کھینچتی شاہراہ ریشم پر گاڑی بڑھادی۔
 فاصلوں کا حساب تو میں کر چکا تھا اب ذہن وقت کا حساب کتاب لگا رہا تھا۔ مغرب سوا سات سے پہلے تو ہوتی نہیں ،ابھی پونے پانچ بجے ہیں ،گویا ہمارےپاس یہ 60 کلو میٹر طے کرنے کے لئے ڈھائی گھنٹے ہیں۔ اگر لاہور اور اسلام آباد والی موٹروےکا سفر ہوتا تو آسانی سے صرف 45 منٹ میں طے ہو جاتا۔ ابھی جس شاہراہ ریشم پر ہم سفرکر رہے تھے وہ بھی کسی طور موٹروے سے کم نہ تھی۔ لیکن اس موٹر وے پر تو ہمیں صرف12 کلومیٹر طے کرنا تھے۔ مغرب سے پہلے استور پہنچنے کا سارا دارومدار استور جانے والی سڑک کی کیفییت پر منحصر تھا۔رائے کوٹ کا پل عبور کر کے شاہراہ اب ہمارے دائیں طرف بہتے دریائے سندھ کو تیزی کے ساتھ نشیب میں چھوڑتی ہوئی اس سے متصل پہاڑ کے پہلو بہ پہلو بلند ہوتی چلی گئی۔ رائے کوٹ کا پل عبور کرنے کے بعد سب کچھ اتنی تیزی سے تبدیل ہوا کہ جیسے پوری کایا ہی پلٹ گئی ہو ۔تھاکوٹ سے یہاں تک 25 ,20 کلومیٹر فی گھنٹہ کی اوسط رفتار سے سفر کرتی ہماری گاڑی اب 75 , 70 کی رفتار سے فراٹے بھرتی تھی۔ سڑک اس قدر شاندار اور ہموار کہ گاڑی اتنی  پر سکون اور بے آواز دوڑتی تھی کہ کوئی چھوٹا کنکر بھی ٹائر کے نیچے آتا تو ہمیں پتہ چل جاتا۔ پہاڑوں کی ساخت میں اب مٹی کم اور پتھریلی چٹانیں بڑھتی جاتی تھیں۔ بارش کےپانی کو سڑک پر آنے سے روکنے کے لئے بائیں ہاتھ پر سڑک کے ساتھ ساتھ ایک پختہ نالہ ہمارےہمراہ چلتا تھا جبکہ دائیں طرف مسلسل گہری ہوتی کھائی میں بہتے دریائے سندھ کی جانب لوہے کی مضبوط ریلنگ کا سلسلہ ساتھ چلتا تھا۔ سڑک کے موڑوں اور اتار چڑھائو سے آگاہ کرنے والے جو سائن بورڈ زتھا کوٹ کے بعد سے  لاپتہ تھے ،دوبارہ لوٹ آئے تھے۔ شاہراہ ریشم پر12کلومیٹر کے اس مختصر سے سفر میں ہمیں بہت زیادہ نشیب و فراز کا سامنا نہیں کرناپڑا اور صرف دس منٹ بعد ہی ہمیں سڑک کے بائیں ہاتھ استور کے لئے دائیں طرف مڑنے اورہنزہ کیلئے اسی شاہراہ پر سیدھا جانے کا اشارہ دیتا نیلے رنگ کا سائن بورڈ نظر آ گیا۔

رائے کوٹ کے پل سے استور روڈ کے موڑ تک شاہراہ قراقرم کی کچھ تصویریں ۔۔





شاہراہ ریشم اور استور کی طرف جانے والی اس سڑک کے سہ راہے سے دائیں طرف مڑتے ہی فاصلوں سے آگاہ کرنے والا ایک بورڈ ہمیں استور کی وادی میں داخلے کیلئے خوش آمدید کہتا تھا۔ سڑک کی حالت بہتر نظر آرہی تھی لیکن ظاہر ہے شاہراہ ریشم سے اس کا کوئی مقابلہ نہ تھا ۔ ہم نے گلگت اورہنزہ کی طرف جاتی اس شاہراہ کو اللہ حافظ کہا اور دور نشیب میں نظر آتے دریائے سندھ پر واقع تھیلیچی پل کی طرف اترتے چلے گئے۔ پل پختہ اور بہت اچھا تعمیر کردہ تھا اور پل کے آگے کی سڑک زیادہ کشادہ نہ ہونے کے باوجود خاصی بہتر تھی۔ پل عبور کرنے کے بعد کچھ فاصلے تک دریائے سندھ ہمارے بائیں ہاتھ پر ساتھ ساتھ رہا لیکن پھر ہماری سڑک رفتہ رفتہ دائیں طرف مڑتی چلی گئی اوردریائے سندھ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ سڑک کا ساتھ اب بائیں طرف بہتا دریائے استور دے رہاتھا۔ سڑک کے دونوں طرف کے پہاڑ سنگلاخ اور چٹیل چٹانوں کا روپ دھارتے جا تے تھے۔ اور ان کی بلندیاں بھی بڑھتی جاتی تھیں۔ ہم دریائے استور کے دائیں طرف کے پہاڑ کو تراش کر بنائی گئی سڑک پر سفر کر رہے تھے جو مسلسل بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی تھی۔ دریا کے دوسری طرف کے پہاڑ بھی بہت بلند تھے اور جوں جوں ہم آگے بڑھتے تھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ بھی ہماری سڑک کی طرف سرکتے آتے ہوں۔ دونوں طرف بلند وبالا پہاڑوں کے درمیان کی یہ گھاٹی مسلسل تنگ ہوتی جارہی تھی۔ گھاٹی کے تنگ ہونے کے ساتھ ساتھ سڑک بھی کچھ تنگ ہوتی جاتی تھی اور اس کی حالت بھی زیادہ بہتر نہ رہی۔ تاحد نگاہ مسلسل بلندی کی طرف جاتی سڑک اور دو بلندپہاڑوں کے بیچ تنگ ہوتی ہوئی گھاٹی۔
 دریائے استور ہمارے بائیں طرف کہیں سیکڑوں فٹ گہرائی میں بہتا تھا۔ دونوں طرف کے بلند پہاڑ ایک دوسرے کے اس قدر قریب آ گئے تھے کہ ایسا گمان ہوتاتھا کہ ہم چٹان کی کسی دراڑ میں سفر کرتے آسمان کا رخ کرتے ہوں۔ جو منظر ہماری نظروں کےسامنے تھا اس میں اب آسمان کم اور دائیں بائیں کے یہ پہاڑ زیادہ دکھائی دیتے تھے اور اسی بنا پر اس تنگ پہاڑی درے میں شام کے سائے نہایت تیزی سے گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ موٹروے کے نمک کے پہاڑوں کے درے سے لے کر اب تک کے پہاڑی راستوں کے سفر کے دوران ہم متعدد پہاڑی دروں سے گزرے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی اتنا تنگ تھا اور نہ مسلسل اتنی بلندی پر چڑھتا چلاجاتا تھا۔ اسی اثنا میں ایک مسافر وین ہمیں سامنے سے آتی دکھائی دی جس کو راستہ دینےکے لئے ہم سڑک کے کنارے ایک نسبتاً  کشادہ جگہ پر ٹہر گئے۔ سفر کرتےہوئے ہمیں تقریباً آدھا گھنٹہ ہونے والا تھا لیکن ابھی دور دور تک ہمیں پہاڑوں کے بیچ مسلسل چڑھتے اس تنگ درےکے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہ آتے تھے۔
 ادھر موسم کے تیور بھی کچھ ٹھیک دکھائی نہ دیتےتھے۔ دو بلند پہاڑوں کے بیچ نظر آنے والا مختصر آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکتا جارہا تھا۔ سڑک پر تارکول کی سطح نہ ہونے کے برابر تھی اور ایسے میں کبھی کبھی چڑھائی یکدم اتنی بڑھ جاتی کہ مجھے پہلا گیئر لگانا پڑتا۔ بارش کی کچھ قطرے اب ونڈ اسکرین پر پڑنا شروع ہو گئےتھے۔ میدانی علاقوں کا سفر ہوتا تو یہ قطرے دیکھ کر دل بہت خوش ہوتا اس خطرناک پہاڑی درے میں یہ قطرے دل خوش نہ کرتے تھے ،خون خشک کرتے تھے۔ کل بشام سے پتن آتے وقت تقریباً یہی وقت تھا جب موسم نے اچانک اپنا رنگ بدلا تھا اور ہم موسلا دھار بارش میں بمشکل سفر کر تے تھے جبکہ شاہراہ قراقرم اتنی تنگ تھی اور نہ ایسی سخت چڑھائیاں چڑھتی تھی۔اس سڑک پر اگر تیز بارش شروع ہو گئی تو ہمارے پاس سوائے کسی ہموار جگہ رکنے کے کوئی اور صورت نظر نہ آتی تھی جبکہ لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بھی بدرجہ اتم موجود تھا۔ کراچی سے یہاں تک کے طویل سفر کے دوران میں نے پہلی دفعہ ان سب خدشات کے باعث اپنے ذہن میں چپکے چپکے سرایت کرتے خوف کو کم کرنے کے لئے ہمسفر سے چیونگم کا مطالبہ کیا۔
 ہم آسمان کی طرف دیکھتے تھے اور دل ہی دل میں بارش کے نہ ہونے اور اس درے کے جلد از جلد ختم ہونے کی دعائیں مانگتے تھے۔ تنگ پہاڑی گھاٹی میں آسمان پر چھائے سیاہ بادلوں تلے، گہری سرمئی شام کے سناٹے میں صرف ہماری گاڑی بلند وبالا سنگلاخ پہاڑ کے ساتھ ساتھ دور تک نظر آتی طویل راہ کی چڑھائیوں پر رینگتی چلی جاتی تھی۔ بارش کی بوندیں کبھی ونڈ اسکرین پر پڑتیں تو کبھی تھم جاتیں ۔ جوں جوں یہ تنگ راہ بلند ہوتی جاتی ہمارا خوف بڑھتا جاتا۔ ہمارے اس صبر آزما سفر کو پون گھنٹے سے زیادہ بیت گیا تھا اور ہم اب تک بمشکل دس کلومیٹر کا فاصلہ ہی طے کر پائے تھے۔ میں سوچتا تھا کہ میرا فاصلوں اور وقت کا لگایاگیا سب حساب کتاب دھرا رہ گیا۔ سڑک کی یہی کیفیت رہی اور یہ درہ یونہی طوالت اختیارکرتا گیا تو مغرب تو کیا ہم عشاء تک بھی استور نہ پہنچ پائیں گے۔ نہ کوئی گاڑی آگے سے آتی تھی نہ ہمارے عقب سے اور اس تنگ گھاٹی میں کسی آبادی کا پایا جانا تو بالکل ناممکن تھا۔ اگر مجبوراً کہیں رکنا پڑ گیا تو کیا ہوگا ؟ 
خدشات تھے کے بڑھتے جاتے تھے اور بری طرح ذہن میں کلبلاتے تھے۔ مجھے اپنی خاموش ،گم سم، ڈری سہمی اور کچھ گھبرائی سی ہمسفر سے ایک اور چیونگم طلب کرنا پڑی۔ گاڑی آہستہ آہستہ رینگتی تھی کہ اچانک ہماری نظر سامنے سڑک پر لگے بیریئر پر پڑی۔ خوشی سے ہمارے چہرے کھل اٹھے۔ خوشی بیریئر کے نظر آنے کی نہ تھی بلکہ وہاں کسی آدم زاد کی موجودگی کی تھی کہ بیریئربند ہے تو یقیناً کوئی اسے کھولنے والا تو ہوگا۔ قریب پہنچے تو پتہ چلا کہ یہ ایک چیک پوسٹ ہے۔ دائیں ہاتھ پر ایک چھوٹی سی کوٹھری بنی ہوئی تھی جس میں دو تین سیکورٹی اہلکار موجود تھے۔


استور موڑ کے چوک ، تھیلیچی پل اور استور روڈ کی ابتدا کی کچھ تصاویر۔۔۔


  ۔۔بعد میں تو اس خوفناک پہاڑی درے نے میری فوٹوگرافر ہمسفر کو ایسا گم سم کیا اور مجھ ڈرائیور کو رات ہوجانےکے خوف نے مسلسل ڈرائیونگ پر مجبور کئے رکھا کہ کہیں گاڑی روک کر تصویریں لینے کا موقع نہ مل سکا ۔۔۔۔۔





’’کیا استور تک یہ سڑک اسی طرح چلتی جائے گی؟‘‘
ان اہلکاروں کے پاس چوکی میں رکھے ایک رجسٹر میں اپنے شناختی  کارڈز کا اندراج کراتے ہوئے میں نےانتہائی تشویش بھرے لہجے میں دریافت کیا۔ میرے چہرے پر گھبراہٹ اور لہجے میں اس قدرتشویش دیکھ انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھے تسلی دی۔
’’آپ شاید پہلی دفعہ استور جا رہے ہیں۔ جو مشکل سفر تھا ،آپ گزار آئے ہیں، آگے راستہ آسان ہے۔‘‘
میری جان میں جان آئی ، کچھ سکون کا سانس لیا۔ بے اختیار آگے جاتی سڑک پر ایک نظر ڈالی جو واقعی اب کچھ بہتر دکھائی دیتی تھی اور سب سے بڑی بات یہ کہ مزید بلندی کی طرف جانےکے بجائے کچھ نشیب میں اترتی تھی، لیکن میری تشویش ابھی پوری طرح رفع نہیں ہوئی تھی۔
’’اگر راستے میں بارش ہو گئی یا رات ہو جانے کی وجہ سے ہم سفر جاری نہ رکھ سکے تو کیاکوئی  ایسی آبادی آئے گی جہاں ہم رات گزارسکیں؟‘‘
’’ایک دو چھوٹی آبادیاں تو ملیں گی لیکن بہتر یہی ہے کہ آپ وہاں نہ رکیں۔ مغرب تک آپ استورپہنچ سکتے ہیں۔‘‘
میں نے گھڑی دیکھی ، چھ بجنے والے تھے۔ گاڑی میں بیٹھ کر ہمسفر کو بھی تسلی دی کہ اپنے اس سفرکا مشکل حصہ ہم طے کر آئے ہیں۔ آگے نشیب میں اترتی سڑک قدرے پہتر تھی اور یہ تنگ گھاٹی بھی کچھ کشادہ ہوتی جاتی تھی۔ دائیں اور بائیں کے پہاڑ ایک دوجے سے کچھ دور ہوئے تو آسمان بھی پھر سے وسیع ہوا، بادلوں کی سیاہی بھی ذرا کم محسوس ہوئی ، روشنی کے ساتھ ساتھ ہماری گاڑی کی رفتار بھی کچھ بڑھی۔ نماز عصر ادا کرنے کے لئے ہماری نظریں سڑک کے ارد گرد کسی آبادی کو تلاش کرتی تھیں۔سڑک کنارے اکا دکا چھوٹی عمارتیں نظر آتیں لیکن جب ہم قریب پہنچتے تو وہاں کسی ذی روح کی موجودگی کا کوئی احساس نہ ہوتا۔ ایک جگہ سڑک کے دائیں کنارےدو چھوٹی سی دکانیں دکھائی دیں ، ایک بند تھی جبکہ دوسری ایک بالکل خالی کمرےکی مانند تھی جس کے فرش پرایک شخص سر پررومال لپیٹے آری سے لکڑی کا بڑا سا شہتیرکاٹتا نظر آیا۔ دل اس سناٹے میں رکنے پر آمادہ نہ ہوا۔ 
کچھ فاصلہ مزید طے کیا تو سڑک دریائے استورکا پل عبور کر کے دوسری طرف کے پہاڑ سے چپک کر چلنا شروع ہو گئی۔ اب دریا ہمارے دائیں ہاتھ کی طرف آ گیا۔ کشادہ وادی پھر سے سکڑنا شروع ہو گئی۔ دونوں پہاڑوں  کے  بیچ کا یہ درہ اور اس کےبیچ پھر سےکچھ بلندی کو جاتی سڑک دوبارہ تنگ ہوناشروع ہو گئی۔ کہیں کہیں اکا دکا نظر آنے والی ان عمارتوں کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ اب ہم دریا کے بائیں طرف ایک تنگ درے میں سفر کرتے تھے۔ آسمان کی طرف رخ کرتے ایک تنگ درے سے بمشکل نکل کر آئے تھے کہ آسمان سےگرے کھجور میں اٹکے کے مصداق اب دریا کی دوسری جانب اس تنگ درے میں آ پھنسے تھے۔ ہمارےاس سفر میں یہ دوسرا محاورہ تھا کہ حرف بحرف درست ثابت ہو اتھا ۔ بادل بدستور چھائے ہوئے تھے ، غنیمت تھا کہ برستے نہ تھے۔ کھجور چونکہ آسمان جتنی بلند نہیں ہوتی اس لئےیہ درہ اتنی سخت اور خوفناک چڑھائیاں نہیں چڑھتا تھا۔ سڑک کی تنگی اور تارکول کی سطح پھر سے ناپید ہو جانے کی وجہ سے ہم کچھ سست رفتار ہو گئے تھے۔ شام کی روشنی مدھم سےمدھم ہوتی جاتی تھی اور عصر کا وقت نکلتا جا رہا تھا۔ ہمارا خوف جو آسمان سے گرنے کے بعدکچھ کم ہوا تھا وہ کھجور میں اٹکنے کے بعد پھر سر ابھارتا تھا کہ جانے ہمیں کتنی دیر تک مزید اٹکے بلکہ لٹکے رہنا ہے۔ دونوں طرف پھر وہی بلند پہاڑ،چار سو پھیلا سناٹا، تنگ اور ناہموار سڑک،ہم اور ہمارا پھر سے بڑھتا خوف۔ 
اچانک دور سامنے سے ہلکی ہلکی دھول اڑاتی ایک گاڑی آتی دکھائی دی، جب ہمارے قریب سے گزری تو ہم پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اس طرح اچانک ایک اورمحاورے کے درست ثابت ہونے کا اتنی جلد کوئی امکان نہ تھا۔ بہرحال اب تو یہ حیرت کے پہاڑ ہم پرٹوٹ ہی پڑے تھے سو ہماری آنکھیں بھی حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ حیرت کے حوالے سےاستعمال کئے جانے والے یہ دونوں محاورے صحیح ثابت ہو چکے تھے۔ ہمارے برابر سے دھول اڑاتی اورخاصی تیزرفتاری سے گزرنے والی گاڑی میں ڈرائیور سمیت سب خواتین سوار تھیں۔ ایسی دشوار گزارراہ، گاڑی میں صرف خواتین مسافر، اور تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرتی ایک خاتون۔ حیرت تو جوہوئی سو ہوئی ، اپنے اس قدر مبتلائے خوف ہونے پر کچھ شرمندگی بھی محسوس ہوئی۔ ایک خاتون کو اتنی دلیری سے گاڑی چلاتا دیکھ کر میرے اندر خوف کے کمبل میں لپٹا ہوا مرد کمبل ایک طرف پھینک کر باہر آگیا ۔ مجھ میں آنے والی اس تبدیلی میں مرد کی مخصوص فطرت اور جبلت کا بھی بڑاعمل دخل تھا۔ ہمسفر کے حواس پر چھایا خوف بھی اب چھٹنا شروع ہو گیا تھا ۔وہ خواتین اگر دلیر تھیں تومیری ہمسفر بھی اتنی بزدل نہ تھی ۔
قدرت نے ہماری مدد کی تھی اور اس مشکل راہ پر یہ گاڑی بھیج کرہمارے پست ہوتے حوصلوں کو یکدم انتہائی تقویت فراہم کر دی تھی۔یہاں یہ بھی ثابت ہوا کہ سب کھیل نفسیات کا ہوتا ہے۔ ذہن پر چھاتے خدشات کا خوف جب ایک دفعہ انسان کو اپنی گرفت میں لینا شروع کر دے تو ہمت اور حوصلوں پر حاوی ہوتا چلا جاتا ہے۔دل و دماغ پر چھائے اس خوف سے چھٹکارا ملا تو یہ تنگ گھاٹی کشادگی اختیار کرتی اور سڑک کی حالت بھی بہتر ہوتی محسوس ہوئی۔ فاصلے بھی کچھ تیزی سے سمٹنا شروع ہوئے۔ درحقیقت یہ درہ دشوار گزار ضرور تھا لیکن اتنا خطرناک نہ تھا جتنا ہمارے حواس پر چھائے خوف نے اسےہمارے لئے بنا دیا تھا۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد سڑک آہستہ آہستہ نشیب میں اترتی گئی اوردریائے استور بھی کچھ بلند ہوتا گیا۔ گھاٹی بھی کچھ کشادہ ہوئی اور ہم ایک دفعہ پھر دریا پربنے ایک پل کے پاس پہنچ گئے۔ قریب پہنچے تو نظر آیا کہ اس پل سے کچھ ہی آگے ایک اور پل بھی موجود ہے جو کہ نیا تعمیر شدہ دکھائی دیتا تھا۔ پل کے قریب سڑک بھی خاصی کشادہ ہو گئی تھی۔ پہلے والے پل سے ذرا قبل بائیں طرف سڑک کے کنارے ایک چھوٹی سی عمارت تھی جس کے اکلوتے کمرے کے باہر مختصر سی کھلی برآمدے نما جگہ پر دو آدم زاد کھڑے ہمیں دیکھتے تھے۔شام کے ساڑھے چھ بجنے والے تھے۔ ہمیں نماز عصر ادا کرنے کے لئے یہ جگہ مناسب معلوم ہوئی۔
ایک کمرے پر مشتمل وہ عمارتدراصل ان دونوں پلوں کی حفاظت کے لئے قائم کی گئی چوکی کے ساتھساتھ وہاں موجود حفاظت پر مامور ان دونوں افراد  کی عارضی رہائش گاہ بھی تھی۔ ان میں سے ایک سیکورٹیاہلکار وادی استور کے مقامی جبکہ دوسرے کراچی سے تعلق رکھنے والے فوجی افسر تھے ۔اپنے ہی  شہر کےباسی دو مسافروں سے مل کر ان کی خوشی قابل دید تھی۔ہم دونوں نے جلدی سے نماز عصر ادا کی۔چھوٹے سے برآمدے سے متصل ایک مختصر سا کچن بھی موجود تھا۔ہمارے کراچی والے فوجی افسر مصرتھے کہ ہم ان کے ہاں سے چائے پی کر جائیںکیونکہ ان کے بقول استور یہاں سے بآسانی بیس پچیس منٹمیں پہنچا جا سکتا تھا اور آگے کا راستہ بھی اتنا کٹھن نہیں تھا لیکن آسمان پر ایک دفعہ پھر گہرےہوتے بادل اور اس گھاٹی میں تیزی سے کم ہوتی روشنی کو دیکھتے ہوئے میں جلد از جلد یہاں سے چل دینا ہی بہتر سمجھتا تھا چنانچہ میں نے ان کی اس پر خلوص پیشکش کو قبول کرنے سے انتہائی معذرت چاہی اور پونے سات بجے سے قبل ہی ہم یہاں سے روانہ ہو گئے۔ دریائے استور کا پل عبور کر کے ہم پھر سےاس کے داہنی طرف چلے گئے۔
 میں سوچتا تھا کہ اس سڑک پر واقع پہلا پل عبور کر کے ہم آسمان سے گرکر کھجور میں اٹکے تھے اب دوسرا پل عبور کر کے ہم کھجور سے اتر کر زمین پر آ پاتے ہیں یا نہیں۔ پل عبور کر کے آگے روانہ ہوئے تو اندازہ ہوا کہ ہمارے قدم زمین پر ٹک چکے ہیں۔ سڑک بہتر اورکچھ کشادہ بھی تھی اور نہ ہی دریا کو بہت زیادہ نشیب میں چھوڑ کر زیادہ اوپر چڑھتی تھی۔ میں احتیاط کی حدود کے اندر رہتے ہوئے خاصی بہتر رفتار سےگاڑی چلا رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ہم ہرچو کے چھوٹےسے قصبے سے گزرے۔ شاہراہ قراقرم سے مڑنے کے بعد ہمیں پہلی بار کسی آبادی کے بیچ سے گزرنے کااحساس ہوا۔ آبادی تو تھی لیکن قصبے کے اکا دکا مکین ہی بمشکل سڑک پر دکھائی دئے۔ ہرچو کا مختصر ساقصبہ سڑک اور دریا کے درمیان واقع تھا اس لئے اس خاموش آبادی کے کچھ گھروں اور کھیتوں کےدرمیان سے گزرتے ہوئے دریا سڑک سے کچھ دوری پر چلا گیا۔ جس کابھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اپنی رفتار کچھ اور بڑھا دی۔ قصبے کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہم نے ابھی کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ ہلکی بوندا باندی کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ اچھی بات یہ تھی کہ تیز نہ ہوتی تھی بلکہ تھم جاتی تھی۔سڑک بدستور بہتر تھی اور گھاٹی بھی تنگ نہ تھی، بس آسمان پر چھائی سیاہ گھٹا کچھ باعث تشویش تھی۔ روشنی اتنی مدھم ہو چکی تھی کہ لگتا تھا مغرب کا وقت ہو چلا ہے۔استور کی سڑک پر مڑنے کے فوراً بعد آنے والے دشوار گزار درے کی چڑھائیوں،اجنبی سڑک کی خراب حالت ،سر پر منڈلاتی سیاہ گھٹا اور اس کے برسنے سے پہلے استور پہنچ پانے کی گھبراہٹ نے میری ہمسفر فوٹوگرافر کوکیمرے کی طرف دیکھنے کی بھی مہلت نہیں دی تھی۔میری مکمل توجہ ڈرائیونگ پر تھی اس لئے میں بھی ایک لمحے کیلئے کیمرہ سنبھال نہ پایا تھا۔  
 گھڑی سات کو کراس کر چکی تھی اور ہم کسی طور استور نہیں پہنچ پا رہے تھے۔ ابھی ہماری تشویش میں اضافہ ہونا شروع ہوا ہی تھا کہ ہم سڑک کی بائیں طرف بنی ایک چیک پوسٹ کے پاس پہنچے۔ یہاں سے آگے یہ سڑک دوراہے میں تبدیل ہو رہی تھی۔ ایک راستہ بائیں طرف دریاکے ساتھ ساتھ گوری کوٹکے قصبے کی طرف جاتا تھا جبکہ ہمیں استور کے لئے دائیں سمت جاتی ہوئی سڑک پر جانا تھا جواب زیادہ سے زیادہ ایک کلو میٹر کی دوری پر تھا۔ چیک پوسٹ کے پاس دو لڑکے کھڑے ہوئے تھےجن میں سے ایک کے ہاتھ میں موبائل فون بھی تھا۔ میں نے گاڑی روک کر ان سے کسی نزدیک ترین ہوٹل کے بارےمیں پوچھا۔ انہوں نے دائیں طرف جاتی اسی سڑک کی طرف اشارہ کر دیا کہ آپ اسی راستے پر چلتےجائیں،ہم فون پر اطلاع کر دینگے۔ استور کے پہلے چوک پر ہی ہوٹل کا بندہ آپ کو مل جائے گا۔ دائیں طرف مڑتی ہوئی اس سڑک پر پہلے تو ہمیں اچھی خاصی چڑھائی کا سامنا کرنا پڑا ، پھر یہ سڑک آہستہ آہستہ نشیب میں اترتی ہوئی مزید داہنی طرف گھوم کراستور کی آبادی کی حدود میں داخل ہو گئی۔ استور میں داخل ہوتے ہی سڑک کی حالت بہت خراب ہو گئی۔ 
میرے ذہن میں استور کا جوتصور تھا ویسا نظر نہ آتا تھا۔ ایک بارونق شہر کے بجائے یہ ایک ویران قصبہ زیادہ دکھائی دیتا تھا۔جلد ہی ہم استور کی آبادی کے پہلے چوک پر پہنچ گئے جہاں مکمل سناٹے کا راج تھا۔ بادل بھی شایدہمارے استور تک پہنچنے کے ہی منتظر تھے۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی تھی جو اب لگاتارجاری تھی۔ چوک سے ایک راستہ سامنے بلندی کی طرف جارہا تھا جبکہ ایک راستہ بائیں طرف نشیب میں اتر تا تھا۔ نہ ارد گرد کوئی دکان نہ کوئی شخص کہ کسی سے ہوٹل کا پتہ معلوم کیا جائے۔سیدھا جائیں یا بائیں مڑیں؟ نہ جانے استور کے مکین کہاں غائب تھے۔ موسم کے تیور بے شک کچھ خراب تھے لیکن اتنے زیادہ بھی نہ تھے کہ اس سے خوفزدہ ہو کر سب اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے ہوں۔ گاڑی کو  بیچ چوک میں ہی کھڑی کر کے میں نیچے اترا کہ پہلے تو یہاں کے کسی مکین کا پتہ کروں تاکہ اس کی مدد سے پھر ہمیں کسی ہوٹل کا پتہ معلوم ہو سکے۔
چوک پر کھڑا ہلکی ہلکی بوندا باندی میں بھیگتا چاروں طرف نظریں گھماتا تھا کہ سامنے اوپر جاتے راستے سے ایک نوجوان نشیب میں اترتاہوا نظر آیا۔ ہمارے قریب پہنچا تو میں نے اس سے ہوٹل کے بارے میں پوچھا۔ اس نے نشیب کی طرف جاتی سڑک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’وہ جو کچھ فاصلے پر ایک دو اونچی عمارتیں نظر آرہی ہیں وہ ہوٹل ہیں جن کے داخلی دروازے دوسری طرف ہیں۔یہ سڑک گھومتی ہوئی اسی طرف جاتی ہے۔‘‘
جس طرح کے اونچے نیچے پہاڑی دروں سے ہو کر ہم یہاں پہنچے تھے استور کے اس قصبے کی آبادی میں موجود یہ راستے بھی ان دروں کی طرح ہی گھومتے، بل کھاتے اور چڑھتے اترتے تھے۔ پہلے یہ سڑک نشیب میں اترتی بائیں طرف گھومی پھر گھومنے کے ساتھ ہی سڑک کے بائیں طرف واقع ان ہوٹلوں کی عمارتوں کے عقب سے چڑھائی چڑھتے ہوئے یو ٹرن لیا اور ان ہوٹلوں کے سامنے پہنچ گئی۔ آگے کی طرف دور سیدھی جاتی یہ سڑک بازار میں بدلتی دکھائی دیتی تھی کیونکہ سڑک کےدونوں اطراف دکانوں کا سلسلہ نظر آرہا تھا۔ ہم اس سڑک کی بالکل ابتدا میں ہی دو چھوٹے سےہوٹلوں کے سائن بورڈز اور دروازے  دیکھ کر رک گئے۔ جیسے ہی گاڑی روک کر میں نیچے اترا، ہوٹل کاایک نوجوان ملازم ہماری طرف لپکا ۔ ہلکی بوندا باندی اب تیزی اختیار کرتی تھی۔ میں اس ملازم کے ساتھ بالکل سامنے والے ہوٹل کے کائونٹر پر موجود لمبی سیاہ داڑھی والے منیجر کے پاس پہنچا۔اسی دوران دور کسی مسجد سے مغرب کی اذان کی صدا بلند ہوئی۔ باہر اب باقاعدہ بارش شروع ہو چکی تھی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ جس نے ہمیں بالکل صحیح وقت پر بخیرو عافیت اپنی منزل پر پہنچا دیا تھا۔ ہمسفر گاڑی میں ہی بیٹھی تھی جب منیجر مجھے ہوٹل کے کمرے دکھا رہا تھا۔پہلی منزل کے کمرے مجھے پسند نہ آئے۔دوسری منزل کے کمرے نئے بنے ہوئے تھے اور اس میں موجود فرنیچر اور بستر سمیت ہر چیز بالکل نئی اور بہتر تھی البتہ دوسری منزل تک جانے  والے زینےخاصے اونچے ہونے کے باعث کچھ تکلیف دہ تھے۔ ایک بہتر اور نسبتاً آرام دہ رہائش کےلئے اتنی تکلیف تو ہمیں برداشت کرنا ہی تھی۔
مغرب کی نماز کے بعد بارش تھم گئی۔ دوسری منزل سے لکڑی کا زینہ ہوٹل کی کھلی چھت پر جاتا تھا۔ میں ہمسفر کے ہمراہ ہوٹل کی چھت پر پہنچ گیا۔ ابھی اتنی روشنی تھی کہ ہمیں اپنے چاروں طرف بکھری استور کی خوبصورت وادی اور پہاڑوں سے اٹھکیلیاں کرتے بادل صاف نظر آ رہے تھے۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی میں استورکے بھیگے بھیگے دلکش مناظر نے ہمیں تر وتازہ کر دیا۔ بوندا باندی میں دوبارہ کچھ تیزی آئی تو ہم کمرے میں واپس آگئے۔ میں وادی استور کے تفریحی مقامات راما جھیل، ترشنگ، شیوسر جھیل اورمنی مرگ وغیرہ کی سیرکے لئے معلومات حاصل کرنے کی غرض سے ہوٹل کے منیجر کے پاس جا پہنچا۔اس نے اپنے کسی واقف کار جیپ والے سے موبائل فون پر رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ عشاء کے بعدیہیں آ جائے گا، آپ اس سے معاملات طے کر لیجئے گا۔ میں نے گاڑی سے بیگز اور سوٹ کیس وغیرہ نکلوا کردوسری منزل کو جانےوالے کٹھن درے نما  زینوں سے کمرے تک پہنچانے میں ہوٹل کے ملازم کی مدد کی۔ہوٹل کے ملازم نے مجھے بتایا کہ استور پہنچ کر ہر سیاح کے لئے تھانے میں اپنی آمد کا اندراج کرانا ضروری ہوتا ہے۔مجھے حیرت ہوئی کہ استور پاکستان کا شہر ہے بھارت کا تو نہیں، لیکن آج کل کے حالات کے پیش نظر یہ کوئی غیر معمولی بات نہ تھی۔ ان جنت نظیر علاقوں میں قدرت تو اپنا حسن ازل سے یونہی لٹاتی چلی آئی ہے ، یہ تو ہم انسان ہیں جو اپنی حرص ، ہوس ،جہالت اور انتہاپسندی کے باعث رفتہ رفتہ محبتوں کو نفرتوں اور دہشتوں میں بدلتے چلےجا رہے ہیں۔ آسمان پر اڑتی امن کی خوبصورت فاختائوں کے بجائے جب بدامنی کے مکروہ گدھ دہشت کی فضائوں میں منڈلانے لگیں تو استور کے تھانے میں جا کرسیاحوں کے لئے اپنی آمد کا اندراج کرانا ضروری ہو جاتا ہے۔
ملازم نے بتایا کہ تھانہ زیادہ دور نہیں ہے اور وہ میرے ہمراہ ابھی چل کر یہ کام کروا سکتا ہے۔ ہمسفرکمرے میں آرام کررہی تھی جب میں ہوٹل کے ملازم کے ہمراہ گاڑی میں تھانے کے لئے روانہ ہو گیا۔ سڑک پر اندھیرا تھا۔ استور کے بازار سے گزرتی سڑک کے اطراف کی زیادہ تر دکانیں بند تھیں۔ چند کھلی ہوئی دکانوں کے باہر بلب روشن تھے۔ بازار کی ٹوٹی پھوٹی سڑک کچھ ہی آگے جا کر ایسی کٹھن چڑھائی چڑھتی تھی کہ مجھے پہلے تو گاڑی دوسرے گیئر میں ڈالنی پڑی ، اسی چڑھائی پر واقع ایک چوک سے ہمیں سیدھا جانے کے بجائے تھانے کے لئے یو ٹرن لیتے ہوئے اس سے بھی مشکل چڑھائی چڑھ کر فوراً ہی اگلے چوک سے بائیں طرف جاتے راستے پر مڑنا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ یوٹرن لیتے ہی سڑک پر ایک بڑا سا گڑھا بھی تھا جسے میں بالکل نہ دیکھ پایا کیونکہ میری پوری توجہ اس پر پیچ ،اندھیرے اورکٹھن چڑھائی والے راستے پر آگے بائیں طرف مڑتی سڑک پر تھی کہ جو مزید بلندی کی طرف جاتی تھی۔ یکے بعد دیگرے میری طرف کے دونوں ٹائروں نے زوردار آواز اور جھٹکوں کے ساتھ اس گڑھے سےباقاعدہ معانقہ کیا ۔ گڑھے نے مہربانی کی کہ دونوں ٹائروں کو گلے لگا کر چھوڑ دیا ،چمٹائے نہ رکھا۔
شاہراہ قراقرم سے وادی استور تک ساتھ ساتھ آنے والے یہ پہاڑی درے استور کے بازاروں میں بھی میراپیچھا نہ چھوڑتے تھے۔ ان اونچے نیچے ،گھومتے ،بل کھاتے راستوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ استور شاید کسی ناہموار پہاڑ پر ہی آباد ہے۔ ہوٹل سے تھانہ بمشکل نصف کلومیٹر کی دوری پر تھا لیکن یہ معمولی سا فاصلہ طے کرنے میں مجھے خاصی دقت پیش آئی۔ خدا خدا کر کے تھانے کا چھوٹا ساگیٹ نظر آیا۔ گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی بائیں طرف گیٹ سے متصل لاک اپ میں ایک انتہائی معصوم صورت کا نوجوان قیدی لاک اپ کی جالیاں پکڑے اکڑوں بیٹھا ہمیں گیٹ سے گزر کر اندر جاتا دیکھتاتھا۔ تھانے کی عمارت کے کھلے صحن میں دائیں طرف نشیب میں کچھ کمرے قطار سے بنے نظر آرہے تھے۔ صحن میں ایک صاحب سادہ کپڑوں میں ٹہل رہے تھے۔ میں نے انہیں اپنا تعارف کرایا البتہ ان کا تعارف مجھ سے نہ ہو سکا اور جو کچھ انہوں نے مجھے کہا اس کے بعد میں نے ان کے بارے میں جاننا ضروری بھی نہ سمجھا۔اندراج کی کوئی ضرورت نہیں ،آپ لمبے سفر سے آئے ہیں جائیں آرام کریں۔تھانے سے نکلنے لگے تو میں نے ہوٹل کے ملازم سے اس معصوم شکل والے قیدی کی بابت دریافت کیا۔
’’اس کی معصوم صورت پر نہ جائیں ، یہ اس علاقے کا بہت چالاک اور بدنام چور ہے۔‘‘
’’ چلو پھر تو اچھی بات ہے کہ یہ قید ہے ،آزاد ہوتا تو ہوٹل کے باہر کھڑی میری گاڑی خطرے میں ہوتی۔‘‘
’’نہیں جی۔ایسی بات نہیں،آپ کی گاڑی کی حفاظت تو ہماری ذمے داری ہے۔‘‘
اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
رات کا کھانا ہم نے اپنے کمرے میں کھایا۔ ہوٹل کے کمرے کی طرح کھانا بھی اچھا تھا۔ عشاء کے بعدملازم نے اطلاع دی کہ جیپ والا آگیا ہے۔ میں ایک دفعہ پھر ان مشکل زینوں سے نیچے اترا۔معلوم ہواکہ شیوسر جھیل تک جانے والا راستہ تو برف کی وجہ سے تا حال نہیں کھلا ہے۔ جیپیں زیادہ سے زیادہ جھیل سے دو کلومیٹر پہلے تک جاپاتی ہیں۔ آگے جھیل تک جانے کے لئے برف پر پیدل جانا پڑتاہے۔دراصل ہم شمالی علاقہ جات میں سیزن کے باقاعدہ آغاز سے کم از کم پندرہ دن قبل ہی وارد ہو گئے تھے۔ڈرائیور کے ساتھ اس کا جوان بھتیجا بھی تھا اس نےکہا کہ شیوسر جھیل تک وہ ہمیں اپنے ساتھ لےجائے گا۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ اگر ہم شیوسر جھیل نہ جا پائے تو واپسی میں منی مرگ کی سیرکرتے آئیں گے۔جیپ ڈرائیور نے بتایا کہ منی مرگ جانے کیلئےپاک فوج سے اجازت نامہ درکار ہوتا ہے،جو ہم کل فوجی چھائونی سے حاصل کر لیں گے۔ تفصیلی گفتگو کے بعد یہ طے پایا کہ کل صبح راما جھیل ،دوپہر کے کھانے کے بعد وہاںواپسی کے دوران منی مرگ جانے کیلئے استور کی فوجی چھائونی سے اجازت نامہ لیتے ہوئے ہوٹل لوٹ آئیں گے۔ اگلے دن ترشنگ کی سیر اور تیسرے دن شیوسر یا منی مرگ ۔اس طرح استور میں تین دن اور چار راتوں کے لئے ہمارا قیام طے پا گیا۔استور تک آتے دشوار گزار پہاڑی دروں کی تھکن، پھر تین چار بار دوسری منزل کی طرف جاتےان مشکل زینوں کے اترنے چڑھنے کی تھکن۔ استور کی اس وادی میں بستر پر لیٹنے کے کچھ ہی دیربعد میں نیند کی پرسکون وادی میں جا پہنچا ۔

 ہوٹل کے کمرے ،چھت سے بادلوں تلے دکھائی دیتے پہاڑوں اور استورکے قصبے کے کچھ بھیگے بھیگے مناظر ۔۔۔ 










  چھٹا دن
راما،جنت ارضی ۔۔۔۔ تشنگی ۔۔۔۔ استور کی شام
   استور کی صبح بہت خوشگوار تھی۔ بادل بدستور چھائے ہوئے تھے۔ نیلا آسماں خال خال ہی دکھائی دیتا تھا۔ ناشتہ ہم نےاپنے کمرے میں ہی کیا۔ راما جھیل کنارے سہ پہر تک رکنے کا پروگرام تھا اس لئے تھرماس میں چائے بھروانے کےساتھ ساتھ ہوٹل والوں سے دوپہر کا کھانا بھی پیک کر والیا۔ سوا نو بجے کے قریب ہم جیپ میں راما جھیل کے لئےروانہ ہو گئے۔ استور کے اونچے نیچے بازاروں کے درمیان سے گزرتے ہوئے جیپ نے جلد ہی استور کی آبادی کوپیچھے چھوڑ دیا۔ راما جانے والی سڑک کی حالت زیادہ بہتر نہ تھی۔ ہمارا سفر ایک پہاڑ کے ساتھ ساتھ بلندی کی طرف شروع ہو گیا البتہ یہ پہاڑ اب بنجر اور چٹیل نہ تھے، سر سبز تھے اور ان پردرخت بھی نظر آتے تھے۔سڑک کے ساتھ ساتھ استور کے مضافات کی چھوٹی آبادیوں اور ان سے ملحق کھیتوں کا سلسلہ کچھ دیرتک جاری رہا۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایک شفاف پانی کے نالے کے پل پر سے گزرے۔ نالے کے ساتھ کچھ ہی بلندی پر  نالے کے تیز بہتے پانی کی مدد سے چلنے والی چھوٹی سی پن چکی بنی ہوئی تھی۔
   مزید کچھ فاصلہ طے کیا تو منظر یکدم تبدیل ہوگیا اورسڑک سرسبز اور کشادہ وادی میں داخل ہو گئی۔ دونوں اطراف پھیلے ہوئے ہرے بھرے میدان ، دور نظر آتے برف پوش پہاڑ اور برف پوش چوٹیوں سےنیچے گہرے سبز ،گھنے اور اونچے اونچے قطار در قطار لگے درختوں کا حسین سلسلہ۔ ان سرسبز میدانوں میں پتھروں اور لکڑیوں سے تعمیر کردہ اکا دکا گھر بھی دکھائی دیتے تھے۔ سر سبز وادی سے گزرتی ہوئی یہ سڑک دور نظر آتے برف پوش پہاڑوں کی طرف رواں دواں تھی۔ کچھ دیر بعد سڑک پھر ایک پہاڑ کے ساتھ بل کھاتی ہوئی بلندیوں کا رخ کرنے لگی، برفیلی چوٹیاں اورپہاڑوں پر موجود درختوں کے جھنڈ اب ہمیں زیادہ واضح طور پرنظر آنے لگے تھے۔ بلندی سے گزرنے والے اس درے پر ہم اتنی اونچائی پر پہنچ گئے کہ دورنظر آتے پہاڑوں سے اترتے گلیشیئر ہمیں اپنی نظروں کے سامنے دکھائی دینے لگے بلکہ ہماری سڑک کی نسبت یہ گلیشیئر کچھ نشیب میں نظر آتے تھے۔ 
   اس درے سے اترے تو راما کی کشادہ،حسین اورسرسبز وادی ہماری نظروں کے سامنے تھی۔لمبےلمبے گہرے سبز درخت چپکے چپکے اس خوبصورت وادی کے سرسبز میدانوں میں اتر نا شروع ہو گئے تھے۔ کچھ آگے بڑھے تو سڑک کے بائیں طرف ہمیں راما کے پی ٹی  ڈی سی موٹل کا چھوٹا سا بورڈ دکھائی دیا۔ دائیں طرف سڑک کے ساتھ ساتھ ایک ہموار اور ہرا بھرا وسیع وعریض میدان کسی دبیز سبز قالین کی طرح بچھا تھا۔صاف شفاف پانی کاایک نالہ اس دبیز سبز قالین کےدرمیان بل کھاتا بہتا تھا۔ ارد گرد نظر آتی برف پوش چوٹیاں، چوٹیوں تلے نظر آتے سرسبز پہاڑوں پر دکھائی دیتے درختوں کے گھنے جھنڈ،بادلوں سے ڈھکا آسمان اورحسین وادی میں مسلسل بڑھتی ہوئی خنکی۔ وادی کا سحر انگیز ماحول انتہائی پر کشش تھا۔راما کی دلکش وادی میں تا حد نظر حسن بکھرا پڑا تھا۔

استور سے راما کے سرسبز میدان  تک کے سفر کے دوران ۔۔۔











جیپ اس خوبصورت راہ پر آگے بڑھتی رہی۔ جوں جوں ہم آگے بڑھتے تھے برف سے ڈھکے یہ پہاڑ ہم سے قریب ہوتےجاتے تھے۔ سرسبز وادی میں سے گزرتی ہوئی سڑک ان پہاڑوں سے اترتے ایک نالے کے قریب پہنچ گئی۔ نالے میں دور نظرآتے گلیشئرز کا دودھیا سفید پانی بہتا تھا۔ نالے پر موجود پل عبور کرتے ہی ڈرائیور نے جیپ روک دی۔
’’بس جی آگے راستہ نہیں ہے ‘‘
’’کیا مطلب ؟ کیا ہم جھیل تک نہیں جائیں گے ؟‘‘
میں اس کے یوں اچانک رک جانے پر حیران و پریشان تھا۔
’’نہیں جی ، وہ سامنے سڑک پر گلیشئر موجود ہے ۔ جیپ اس سے آگے نہیں جاتی۔‘‘
سڑک پر کچھ ہی آگے ایک بڑا سا گلیشئرلیٹا ہوا تھا۔ اسی مقام پر ایک اور جیپ بھی موجود تھی جس کے مسافر غائب تھے، غالباً وہ پیدل ہی جھیل کی طرف چلے گئے تھے۔
’’جھیل یہاں سے کتنی دور ہے ؟ کیا ہم وہاں تک پیدل جا سکتے ہیں ؟‘‘
’’کم از کم 3 کلومیٹر کا فاصلہ ہے، راستے میں کئی گلیشئرز پر سے گزرنا ہو گا۔‘‘
میں نے اس گلیشئر کے آگے دور بلندی کی طرف جاتی سڑک کو دیکھا، ایک نظر اپنی ہم سفر پرڈالی، آسمان پر چھائےبادلوں کا جائزہ لیا اور لمحہ بھر کو اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ ہم سفر کے ساتھ ایسے موسم میں گلیشئر در گلیشئر3کلو میٹر تک کا پیدل سفر ناممکن تھا۔ یہ تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ استور سے صرف 13 کلومیٹر کی دوری پرواقع راما جھیل تک بھی ہم نہیں پہنچ پائیں گے۔ رات کو ہوٹل منیجر اور اسی جیپ ڈرائیور نے مجھے اشارتاً بھی اس بات سے آگاہ نہیں کیا تھا کہ راما جھیل تک جانے والا راستہ بھی بند ہے۔ ان کی اس حرکت پر مجھے حیرت بھی تھی اور غصہ بھی۔
 ’’رات کوجب تم نے مجھے شیوسر جھیل کا راستہ بند ہونے کا بتایا تھا تو اس جھیل تک بھی نہ پہنچ سکنے کے بارے میں کیوں نہیں بتایا ؟‘‘
’’لوگ جھیل تک نہیں بھی جا سکتے تو راما تک تو  آتے ہی ہیں ، میں یہی سمجھا کہ آپ بھی راما تک تو جائیں  گےہی۔‘‘
جس حساب سے اس نے مجھ سے راما جھیل تک لانے کا معاوضہ لیا تھا ، میں اس کے اس جواب پر قطعاً مطمئن نہیں تھا، اسی لئے مجھے اس کے جواب میں معصومیت بالکل نظر نہ آئی - ہم جس سڑک پر سفر کرتے ہوئے استور سےصرف دس کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے یہاں تک پہنچے تھے وہ اتنی دشوار گزار نہ تھی جتنا ہم نے اس جیپ کا کرایہ طے کیاتھا۔ میری دانست میں یہ اس کی چالاکی اور صریح بد دیانتی تھی ۔ مجھے جھیل تک نہ پہنچ پانے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی دکھ تھا۔
’’یہ تو بعد کی بات ہے کہ ہم راما آتے یا نہ آتے لیکن تمہیں یہ بات ہمیں وہیں بتانی چاہئے تھی۔‘‘
ڈرائیور کے پاس میری اس بات کا کوئی جواب نہ تھا لیکن اس کے چہرے پر شرمندگی کا کوئی شائبہ مجھے نظر نہ آیا۔ جیپ سے اترے کہ کچھ وقت تو اب ہمیں یہاں گزارنا ہی تھا۔ دھوپ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں اچھی خاصی سردی تھی۔ آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا، ارد گرد دکھائی دیتی برف پوش پہاڑوں کی چوٹیاں، دور نظر آتی سڑک کے ساتھ ساتھ بلندی کو جاتا چوڑاپتھریلا  میدان کہ جس کے درمیان گلیشئرز کے یخ ،سفید دودھیا پانی کو لے کر اترتا نالہ بہ رہا تھا۔ برف سےڈھکی ان چوٹیوں کے ساتھ خوبصورت درختوں کا سلسلہ اور کہیں کہیں کسی پہاڑ پردور سے دکھائی دیتے  گہرے سبزدرختوں کے گھنے جھنڈ۔ سفید برف پوش پہاڑوں اور ان سبز درختوں کا یہ خوبصورت امتزاج راما کی وادی کے حسن کو دوبالا کرتا تھا۔ میں ان خوبصورت مناظر کے سحر میں گرفتار سوچتا تھا کہ جیپ ڈرائیور کی چالاکی اپنی جگہ، لیکن وہ کہتا بالکل ٹھیک تھا کہ لوگ جھیل تک نہیں بھی جاسکتے تو راما تو آتے ہی ہیں۔ ہمارے چاروں طرف بکھرے مناظر اتنے پر کشش اور حسین تھے کہ ہم ان کی دلکشی میں کھو گئے۔ راما کی وادی ایسی ہی تھی کہ جیسے جنت زمین پر اتر آئی ہو ۔ ہم سڑک پر موجود اس گلیشئر تک گئے کہ جس نے جھیل تک جانے کی راہ مسدودکر رکھی تھی۔ ایک موٹرسائیکل سوار کسی طور پتھروں سے ہوتا ہوا اس گلیشئر کو پار کرکے آگے جانے کے لئے کوشاں تھا لیکن ناکام ہو کر واپس روانہ ہوگیا۔ ہم سڑک سے کچھ ہی نشیب میں بہتے نالے کے کنارے تک گئے۔ خنکی مسلسل بڑھتی جاتی تھی۔ انتہائی سرد ہو ا کے جھونکےراما کی  کشادہ وادی میں برف پوش چوٹیوں سے اتر تے ، گلیشئرز کےیخ پانی کےبہتے نالے کے ساتھ ساتھ اٹھلاتےہوئے آتے ، ہم سے لپٹ کر ہمارا حال پوچھتے، کبھی فرط محبت میں ہمیں زورسے لپٹا لیتےتو ہم باقاعدہ کپکپانے لگتے۔ دل کسی طور اس خوبصورت مقام سے جانے پر آمادہ نہ ہوتا تھا لیکن جب ان سردجھونکوں کا عشق اس حد تک بڑھاکہ ہماری رگ و پے میں سرایت کرنے لگا تو ہم مٹی سے بنے انسانوں کو ان سے بے وفائی پر مجبور ہونا پڑا ۔خود میں ان یخ بستہ ہوائوں  میں ٹھٹھرنے کی مزید تاب نہ پا کرہم جلدی سے جیپ میں بیٹھ کر پی ٹی ڈی سی موٹل کی طرف روانہ ہو گئے۔

راما جھیل کو جانے والی مسدود راہ  کے ارد گرد خوبصورت مناظر ۔۔۔ 





















راما کی جنت نظیر برفیلی وادی سے پی ٹی ڈی سی موٹل کی طرف روانہ ہونے کے بعد تھوڑا سا فاصلہ طے کیا تھا کہ ہمیں دور سے ہی چیڑ کے لمبے لمبےدرختوں میں گھری سرسبز وادی دکھائی دینے لگی ۔ درختوں کےبیچ سے ہوتی ہوئی سڑک جلد ہی اس وسیع و عریض سرسبز میدان کے پاس پہنچ گئی کہ جس کا حسن اپنی مثال آپ تھا۔یہاں سردی کی شدت میں کچھ کمی تھی۔ہم جیپ سے اتر کران خوبصورت درختوں کے جھنڈ میں گھرے پی ٹی ڈی سی موٹل کے احاطے میں داخل ہو گئے۔ ہوٹل کی عمارت بہت خوبصورت تھی۔ لکڑی اور خوبصورتی سےتراشیدہ پتھروں سےتعمیر کردہ ترتیب وار کمرے اور ان کمروں کے باہر بنی پتھر کی منڈیریں بہت حسین دکھائی دے رہی تھیں۔ ابھی تک سیزن کا باقاعدہ آغاز نہ ہونے کی بنا پر موٹل میں سناٹے کا راج تھا ۔ نہ کوئی سیاح نہ عملے کا کوئی فرد۔ہم نے ہوٹل کےعملے سے رابطہ کرنے کے بجائے چار سو پھیلی اس خاموشی اور خوابناک ماحول میں ہی گھومنے پھرنے کو ترجیح دی۔نہ ہم کسی کو پریشان کرتے تھے ، نہ کوئی ہماری تنہائی میں مخل ہوتا تھا۔ آسمان پر چھائے بادل، ہلکی ہلکی بوندا باندی،موٹل کے خوبصورت کمروں کے ساتھ ساتھ چیڑ کے درخت۔ پی ٹی ڈی سی موٹل کی یہ عمارت ایک خواب نگر کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ ماحول کا حسن تھا ،تنہائی تھی ، میں ، میری ہم سفراورپتھروں کی منڈیر پر رکھاچائے کا تھرماس ۔چار سو پھیلی خنکی ہمیں ٹھٹھراتی تھی ،ہم گرم گرم چائے کی چسکیوں سے اس کا توڑ کرتے تھے۔
 ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
دل مچلتا تھا کہ اس خواب نگر میں موٹل کا کوئی خوبصورت کمرہ ہمارا گھر بن جائےاور ہم اس خواب نگر کے باسی۔اپنے ارمانوں کے خزانے میں ایک اور ارمان کا اضافہ کر کے اس خواب نگر سے نکل کر ہم نے سڑک کی دوسری جانب دبیز سبز قالین کی طرح بکھرےہرے بھرے میدان کا رخ کیا۔











درختوں کے جھنڈ میں گھرے خواب نگر سے نکلے تو اس وسیع و عریض سرسبز میدان نے ہمیں اپنا اسیر بنا لیا۔میدان میں جا بجا لگے ہوئے چیڑ کے درخت اس کی دلکشی کو مزید بڑھاتے تھے۔ ہم دبیز سبز قالین پر گھومتےپھرتے تھے ،سبزہ زار کے درمیان سےبل کھاتے گزرتے نالے کے شفاف پانی میں اترتے تھے۔ نظریں تھیں کہ چاروں طرف گھومتی تھیں جس منظر کو تکتی تھیں اس کی خوبصورتی میں جمتی اور حسن میں کھوتی تھیں۔آسمان پر نظر ڈالتے تو روئی کے گالوں اورسفید دھند کی طرح چھائے بادل دور افق تک پھیلتے جاتے تھے۔ جس طرح کسی صاف دن سمندر کنارے نیلگوں آسمان دور نیلے سمندرمیں گھل مل جاتا ہے اسی طرح دور افق میں دنیا و مافیہاسے بے نیاز برف پوش چوٹیاں اور یہ سفید بادل ایک دوجے میں گم ہوتے تھے۔ بادلوں کی دھندسے نکل کر نظر برف پوش چوٹیوں پر ٹکتی تھی ،چٹانوں کی برف سے پھسلتی تو سرسبز پہاڑوں پر قطار درقطار لگے چیڑ کے درختوں میں اٹکتی، بمشکل وہاں سے ہٹتی تو سبز میدان کے بیچ بہتے نالے کے شفاف پانی کی جھلملاہٹ میں  آپھنستی ۔ آج اتوارتھا ،چھٹی کے دن کی وجہ سے استور اور اس کے مضافات کے کچھ مکین بھی تفریح کی غرض سے یہاں آئے ہوئے تھے۔ دور میدان کے ایک سرے پر کچھ نوجوان کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے۔ نظر ان پر سے گھومتی ہوئی دائیں طرف  بڑھی تو ہم سے خاصے فاصلے پر واقع میدان کے دوسری سمت بنےریسٹ ہائوس کی سبز چھت اور سفید عمارت خوبصورت کھلونے کے گھرکی طرح دکھائی دی۔ بادلوں کا رنگ رفتہ رفتہ سفید کے بجائے سرمئی ہوتا جاتا تھا۔ ہلکی ہلکی پھوار کبھی تیز ہوتی اور کبھی تھمتی۔ جس برفیلی وادی میں وقت گزار کر ہم آئے تھے وہاں کی سرد ہوا کے جھونکے ہمیں تلاش کرتے اس میدان میں آ پہنچے تھے۔جوں جوں آسمان پر چھائے بادلوں کا رنگ گہرا ہوتا تھا ،سرسبز وادی کو لپیٹ میں لیتی خنکی بھی بڑھتی تھی۔ ہم نے اس حسین وادی میں گنگناتی خنک اور شفاف ہوا کو گہرے سانسوں کے ساتھ روح کی گہرائیوں تک اتارا،ہلکی ہلکی پھوار کے موتی جیسے قطروں کی ٹھنڈک اپنی رگ و پے میں سمیٹی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتےجیپ کی طرف بڑھ گئے۔

راما کے جنت نظیر سبزہ زار کے کچھ مناظر ۔۔۔










    استور سے نکلتے وقت اندازہ نہ تھا کہ صرف دس بارہ کلومیٹر کی دوری پر واقع راما میں یخ بستہ ہوائوں کا راج ہو گا۔جوگرز ،جرابوں اور جیکٹس کے ساتھ ساتھ سردی سے بچائو کے دیگر لوازمات بھی ہم گھر سے ساتھ لے کر چلے تھےلیکن راما کی اس قدر برفیلی وادی اور اتنی شدت کی سردی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ ابھی صرف سواگیارہ بجے تھے اور ہم استور کی طرف واپسی کے لئے مجبور ہوتے تھے۔ جھیل تک نہ پہنچ پانے اور راما کی حسین وادی میں اتنا مختصر وقت گزارنے کی تشنگی ساتھ لئے ہم یہاں سے روانہ ہوئے۔ راما کے آسمان پر چھائے سرمئی بادلوں کارنگ مزید گہرا ہوتا جاتا تھا۔ میں اس سحر انگیز وادی کو الوداع کہنے کے ساتھ ساتھ اس سے عہد و پیماں بھی کرتا تھا کہ جسم سے سانسوں کا رشتہ برقرار رہا اور اللہ کی مرضی شامل حال رہی تو دوبارہ تمہارے پاس آئوں گا ،ہوسکا توایک شب بھی تمہارے ساتھ بتائوں گا اور اس موسم میں آئوں گا جب تمہاری آغوش میں چھپی جھیل برفوں کےحصار سے نکل کر آزاد ہوگی ، بے نقاب ہوکر اپنے حسن کے جلوے بکھیرتی ہوگی۔
    واپسی کا سفر بلندیوں سے نشیب کی طرف تھا۔ پہاڑوں کے ساتھ ساتھ بل کھاتی، سبزہ زاروں میں گھومتی پھرتی سڑک استور کی طرف اترتی جاتی تھی۔ بوندا باندی کا سلسلہ بھی چلتا اور تھمتا رہا۔ استور کے مضافات تک پہنچتے پہنچتے موسم بدلتا گیا۔ بادل دوبارہ سفید رنگت اختیار کرتے جاتے تھے اور ان کے بیچ کہیں کہیں نیلا آسمان بھی جھلکتا تھا۔ بوندا باندی تھم چکی تھی۔راستے میں ہم اس شفاف نالے کے پاس کچھ دیر کے لئے رکے جس کے ساتھ ہی ذرا بلندی پر ایک چھوٹی سی  پن چکی بنی ہوئی تھی۔ کچھ لوگ اپنی گندم پسوانے کے لئے چکی کے پاس موجود تھے۔ ہم بھی جیپ سے اتر کر چکی تک گئے۔ چکی کے عقب میں درخت کے تنوں سے بنائی گئی نالیوں کی مدد سے اس تیزی سے اترتے پانی کو چکی کی طرف لایا گیا تھا۔ پانی کے تیز بہائو سےچکی میں نصب پتھر کے بھاری پاٹ گھومتے تھے اور گندم کےدانوں کو آٹے میں بدلتے تھے۔ چکی کی چھوٹی سی کوٹھری میں موجود ایک خاتون گندم کی پسائی کا یہ کام انجام دے رہی تھیں۔ جیپ ڈرائیور نے بتایا کہ گندم پسوانے والے رقم کے بجائے اپنی گندم میں سے کچھ حصہ بطورمعاوضہ چکی مالک کوادا کرتے ہیں۔ پانی کی قدرتی توانائی سے چلتی چکی کو دیکھ کر دل بے اختیار فبای آلاء ربکما تکذبان پکار اٹھا ۔ بے شک اللہ کی عظیم نعمتوں کا کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ اس خالق کائنات کی ہرجاندار مخلوق کے لئےبکھرا پڑا ہے۔
   ڈرائیور نے راستے میں ایک جگہ جیپ روک کر سڑک کے ساتھ پہاڑ پر اگی ہوئی ایک جڑی بوٹی توڑ کرہمیں دکھائی جس کی خوشبو بالکل وکس بام سے ملتی جلتی تھی اور ان علاقوں میں چھوٹے بچوں کے پیٹ کی جملہ بیماریوں کے لئے استعمال کی جاتی تھی۔ ایک دو پہاڑی دروں سے گزرنے کے بعد ہمیں دور نشیب میں استورکی آبادی سر سبز پہاڑوں کے بیچ نظر آنا شروع ہو گئی۔ ایک پہاڑی درے کے بلند موڑ پر ہم نے جیپ رکوائی، اس بلندی سے برف پوش چوٹیوں اور سرسبز پہاڑوں کے دامن میں کم بلند پہاڑیوں پر واقع استور کی آبادی کا نظارہ بہت دلکش تھا۔ کچھ دیر تک ان خوبصورت نظاروں کا لطف اٹھانے کے بعد ہم ان پہاڑوں کے ساتھ ساتھ گھومتی سڑک پر نشیب میں اترتے ہوئے ساڑھے بارہ بجے کے قریب اپنے ہوٹل پہنچ گئے۔ کل رات کے طے شدہ پروگرام کے تحت راماسے واپسی پر ہمیں استور چھائونی سے منی مرگ کی سیر کیلئے اجازت نامہ حاصل کر نا تھا لیکن جیپ ڈرائیور کےمطابق اتوار کی چھٹی کی بنا پر آج اس اجازت نامے کا حصول ممکن نہ تھا۔ نہ جانے اس نے کل رات ہمیں اس بات سے آگاہ کرنا کیوں مناسب نہ سمجھا۔ بہرحال انسان خطا کا پتلا ہے ، بھول چوک تو ہم سے ہوتی ہی رہتی ہے۔ دوپہرکا کھانا ہم نے ہوٹل میں ہی کھایا۔

راما سے استور واپسی تک کے سفر کے دوران ۔۔۔



















  کراچی میں اپنے دفترکے کام کے سلسلے میں ایک ضروری  ای میل کرنی تھی ،لیپ ٹاپ تو میں ساتھ لایا تھا لیکن ہوٹل میں انٹر نیٹ کی سہولت نہ تھی۔ معلوم ہوا کہ بازار میں کچھ آگے جا کر تھانے کے پاس ایک ہوٹل کی عمارت میں نیٹ کیفے موجود ہے۔سہ پہر کو ہم اپنی گاڑی میں اس ہوٹل پرجا پہنچے، نیٹ کیفے تو تھا پر بجلی ندارد۔ بتایا گیا کہ آدھے گھنٹے تک آ جائےگی۔ ہم نے یہ وقت ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں بیٹھ کر چائے پینے میں گزارا، آدھے گھنٹے سے زائد گزرنے کے باوجود بجلی نہ آئی تو واپسی کی راہ لی۔میں ہوٹل کے کمرے میں بیٹھا سوچتا تھا کہ راما جھیل پہنچ نہ پائے ،شیو سر جھیل تک پہنچنا بھی ناممکن نظر آتا ہے تو بلاوجہ اتنے لمبے اور مہنگے سفر کا کوئی فائدہ نہیں۔ چنانچہ ہم نے شیوسر اور منی مرگ جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ ہوٹل منیجر اور جیپ ڈرائیور کو اپنے فیصلے سے آگاہ کرنے میں ان کے پاس پہنچ گیا۔جیپ ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ اسے ہمارے راما جھیل تک نہ پہنچ پانے کا بہت افسوس ہے اور وہ کل ترشنگ سے واپسی پر ہمیں کسی اور مقام پر کوئی اور جھیل دکھانے لے جائے گا لیکن اپنی ان خدمات کے عوض جو معاوضہ وہ طلب کررہا تھا اس پر میرا دل ٹھکتا نہ تھا۔ جوتھوڑا بہت ایمان دل میں تھا اس کے باعث ایک سوراخ سے دوسری بار ڈسےجانے کا خوف بھی مجھے لرزاتا تھا، سو استور میں میسر آنے والے فرصت کے ان لمحات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں ترشنگ کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے بازار کی طرف نکل گیا۔
   بازار میں کوئی اور جیپ دکھائی نہ دی، ایک دکاندار سےبات کی تو پتہ چلا کہ کل صبح اسی بازار سے ترشنگ کے لئے بآسانی جیپ بک کرائی جا سکتی ہے۔ دکاندار کے مطابق ترشنگ کیلئے جیپ والوں کا عمومی کرایہ ہمارے جیپ ڈرائیور کی جانب سے طلب کئے جانے والے کرائے سے خاصا کم تھا۔ ذہن میں یہ بات آئی کہ ہمارا جیپ ڈرائیور ترشنگ سے واپسی میں جس نامعلوم جھیل کی سیرکے لئے ہمیں لے جانے کی بات کر رہا ہے ،ہوسکتا ہے اس بنا پر زیادہ پیسے مانگ رہا ہو۔ میں نے دوبارہ ہوٹل آکر اس سے صرف ترشنگ آنے جانے کی صورت میں کرائے کی بابت دریافت کیا لیکن اس کے بتائے گئے ریٹ پھر بھی زیادہ تھے۔اب یہ بات بالکل واضح تھی کہ وہ ہم سے معمول سے زیادہ کرایہ طلب کر رہا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ ترشنگ جانے یا نہ جانے کے متعلق میں اسے رات کو ہی بتا پائوں گا۔ میرا ارادہ کچھ دیر بعد دوبارہ بازار کی طرف جا کر اس ضمن میں مزید معلومات حاصل کر نے کے بعد اپنے جیپ ڈرائیور سےحتمی بات کرنے کا تھا۔
  استور کی سہ پہر شام میں ڈھل رہی تھی جب میں اور میری ہم سفر دوسری منزل پر واقع ہوٹل کی بالکونی میں رکھی دو کرسیوں پر بیٹھے بازار کا نظارہ کرتے تھے۔ شام ہوتے ہی تیز ہوائوں کے جھکڑ چلنا شروع ہو گئے۔ کمروں کےباہر کی راہداری ہوٹل کے عقب میں موجود بالکونی کی طرف بھی جاتی تھی جہاں سے ہوٹل کے پیچھے واقع استورکی وادی کا نظارہ زیادہ دلکش تھا۔ ہوٹل کے عقب میں کچھ ہی فاصلے پر چند بڑے بڑے درخت موجود تھے جو ان تیزہوائوں کے باعث لہرا لہرا کر جھومتے تھے۔ ہم ہوٹل کی اس عقبی بالکونی  میں کھڑے استور کی اس خوشگوار شام سے لطف اندوز ہو تے تھے۔ تیز ہوائوں میں رقص کرتے درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ ماحول میں ایک نغمگی بکھیرتی تھی۔ پہاڑی علاقوں کے مکمل طور پر سیاہ کووں کا ایک غول ان درختوں کے ارد گرد طواف کرتا کبھی آسمان کی بلندیوں کی طرف پرواز کرتا تو کبھی ان بلندیوں سے غوطہ زن ہوتا ہوا دوبارہ نیچے کی طرف آتا،درخت اس قدرشدت سے جھومتے تھے کہ کوے درخت پر بیٹھ نہ پاتے تھے۔ ہم ان کے ان کرتبوں سے محظوظ ہوتے رہے۔جوں جوں شام ڈھلتی تھی ہوا میں خنکی بڑھتی جاتی تھی اور تیز ہوائوں کے یہ جھکڑ سرد سے سرد تر ہوتے جاتے تھے۔عقبی بالکونی میں چلنے والی تیز ہوائوں کی ٹھنڈک نے ہمیں اپنے کمرے میں جانے پرمجبور کر دیا لیکن ہم وادی استورکے اس ہوٹل کے کمرے میں وقت گزارنے تو نہیں آئے تھے، سو ان سرد ہوائوں سے بچنے کے لئے میں نےجیکٹ اور گرم ٹوپی پہنی ،ہم سفر نے خود کو شال میں لپیٹا اور ہم ایک بار پھر سامنے والی بالکونی میں رکھی کرسیوں پر براجمان ہو گئے۔ ہوا یہاں بھی چلتی تھی لیکن اس میں زیادہ شدت نہ تھی۔ مغرب کا وقت قریب آنے کے ساتھ ساتھ بازار میں جو تھوڑی بہت رونق تھی وہ بھی ماند پڑتی جاتی تھی۔ تیز ہوائوں نے آسمان پر چھائے کچھ نہ کچھ بادلوں کو استور کی وادی سے چلتا کر دیا تھا۔ ہم مغرب تک اسی بالکونی میں بیٹھے آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی خنکی کا لطف اٹھاتےرہے۔
  مغرب کی نماز کے بعد میں نے ایک بار پھر بازار کا رخ کیا۔ایک مقامی شخص سے سلام دعا ہوئی۔ اس نے بھی مجھے یہی بتایا کہ اسی بازار میں صبح صبح جیپیں آنا شروع ہوجاتی ہیں اورمجھے ترشنگ جانے کے لئے کسی جیپ کے حصول میں دشواری پیش نہیں آئے گی۔ جیپ والوں کےجو ریٹ اس نے مجھے بتائے وہ بھی ہمارے جیپ ڈرائیور کے ریٹ سے بہت کم تھے۔ اس ضمن میں میری پریشانی کودیکھتے ہوئے اس نے مجھے یہ پیشکش بھی کر دی کہ وہ کسی بھی جیپ والے سے کم سے کم ریٹ میں بات طےکر کے صبح سات بجے اس کے ہمراہ ہمارے ہوٹل پہنچ جائے گا۔ اس شخص سے بات چیت کے دوران یہ بھی پتہ چلا کہ راما کے پی ٹی ڈی سی موٹل جانے تک کا معاوضہ بھی ہم نے زیادہ ادا کیا ہے۔ میں سوچتا تھا کہ وادی استورکا یہ اجنبی شخص اتنا مہربان اور ہمارے ہوٹل والے اتنے نامہربان۔ میں نے ہوٹل پہنچ کراپنے جیپ ڈرائیور کا پتہ کیا تاکہ اس کو ترشنگ جانے کے لئے منع کر سکوں۔ معلوم ہوا کہ وہ عشاء کے بعد آئے گا۔ رات کا کھانا ہم نے ہوٹل میں ہی کھایا۔ عشاء کے بعد میں دوبارہ نیچے اترا۔ کچھ ہی دیر بعد جیپ ڈرائیور بھی آ گیا۔ اس سے تفصیلی گفتگوکے دوران میں نے اسے بتایا کہ بازار سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق راما تک جانے کا معاوضہ بھی اس نے ہم سے زائد وصول کیا اور ترشنگ کیلئے بھی وہ زیادہ پیسے طلب کررہا ہے لیکن نہ تو اس نے اپنی غلطی تسلیم کی اورنہ ہی وہ ترشنگ کے لئے کرائے میں ذرا بھی کمی پر آمادہ ہوا۔ مجھے دکھ تھا کہ ہم جس ہوٹل میں مقیم تھے اس کے منیجر کا یہ واقف کار ڈرائیور آخر ہمارے ساتھ یہ زیادتی کیوں کر رہا تھا۔ مجبوراً میں اس کے ہمراہ ترشنگ جانے سے انکار کر کے اپنے کمرے میں واپس آ گیا۔ بستر پر لیٹا تو اپنے جیپ ڈرائیور سے کرائے کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے نہ ہوسکنے پر افسردہ تھا۔

استور کی سہ پہر اور شام کے وقت کی کچھ تصویریں ۔۔۔









                                 

No comments:

Post a Comment