حسین ہنزہ ۔۔۔۔ طلسماتی وادی گوجال ۔۔۔۔ خنجراب کے برفزار

 تیرہواں دن

التت و بلتت کریم آباد ۔۔۔ دریائے ہنزہ و نگر کا سنگم

    ناشتہ ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں ہی کیا ، آج کا دن صرف ہنزہ کے نام تھا۔ہوٹل سے باہر نکلے تو کل شام کی طرح آسمان آج بھی بادلوں سے گھرا ہوا تھا۔وقفے وقفے سے انتہائی ننھے منے قطرے بادلوں سے اترکر نسیم سحر کے سحر انگیز جھونکوں کے ساتھ تیرتے آتے اور ہمارے چہروں کو چھو جاتے۔ ہنزہ کی بھیگی بھیگی صبح انتہائی خوشگوار تھی۔ ہم کچھ دیر کے لئے ریسٹ ہائوس کی عمارت میں چلےگئے۔ کل شام تو اپنی پرانی یادوں کے ساتھ ہم صرف چند لمحے ہی بتا پائے تھے۔آج کے دن کا آغاز ہم نے ریسٹ ہائوس سے وابستہ اپنی پرانی یادوں کو تازہ کرنے سے کیا۔ اتوار کا دن اس ضمن میں ہمارے لئے بہت معاون ثابت ہوا کہ ریسٹ ہائوس آج ڈی سی آفس کے چولے سے آزاد سکون اور سکوت سےمرصع وہی لباس زیب تن کئے ہوئے تھا کہ جس میں ہم نے اسے دس سال قبل پہلی بار دیکھا تھا۔دس پندرہ منٹ  ہم نےاس کی معیت میں گزارے۔ جج صاحب غالباً ابھی اپنی خوابگاہ میں ہی تھے اس لئے ان سےملاقات نہ ہوسکی۔
۔۔۔ ہوٹل کے کمرے سے باہر کا منظر ۔۔۔






 ۔۔۔ ریسٹ ہائوس کا وہ کمرہ جہاں 2004 میں ٹہرے تھے ۔۔۔


     ریسٹ ہائوس سے نکلے تو اس کے گیٹ کے بالکل قریب واقع ہوٹل سرینہ کی شاندار عمارت میں داخل ہوگئے۔ پارکنگ ایریا سے ہوتے ہوئے آگے بڑھے تو کمروں کے سامنے پتھروں کے فرش سے بنی خوبصورت راہداری تک جا پہنچے۔دائیں طرف ترتیب سے ہوٹل کے کمرے،بائیں طرف کریم آباد کی بلندیوں سے دور نشیب تک اترتے سبزہ زاروں، درختوں ، باغات اور کھیتوں کا خوبصورت سلسلہ۔اس وسیع و عریض حسین منظر سے نگاہ اوپر اٹھائو تو دور پرے آسمان کی طرف سر اٹھائے  راکا پوشی اوردیران کے سلسلہ کوہ کی برف پوش چوٹیاں کہ جو کل شام سے اب  تک مسلسل بادلوں کے نقاب میں اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھیں۔ہم راہداری کے ساتھ لگی ریلنگ کے پاس کھڑے ہلکی ہلکی پھوار میں ان دلکش مناظر کے حسن سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ایک پختہ زینہ ہرے بھرے درختوں کی ٹہنیوں   اور حسین پودوں کےجلو میں گھومتا پھرتا نیچے کی طرف اترتا جاتا تھا۔ اگر ہم نشیب کی طرف نظر آتے کھیتوں اور باغات تک جانے کا ارادہ کرتے تو  آج کا نصف دن اسی جادونگری میں بیت جاتا، پھر بھی نیچے کی طرف اترتے اس خوبصورت زینے کی کشش نے ہمارے قدموں کو کھینچا۔ تیس چالیس زینے اترنے کے بعد ہم دوبارہ اوپر آگئے۔یہاں سے نکل کر ہمارا ارادہ سب سے پہلے کریم آباد کے مشہور قلعے التت جانے کا تھاکیونکہ 2004 میں تزئین و آرائش کا کام جاری ہونے کی بنا پر اس کی حدود میں داخلہ بند تھا اورہمیں صرف قلعہ بلتت دیکھنے پر ہی اکتفا کرنا پڑا تھا ، اس طرح ہم الف پڑھے بغیر ہی بے پڑھنے پر مجبور ہوگئے تھے، جبکہ اس سے قبل 1984 کے سفر کے دوران اتنے کم سن اور نا سمجھ تھے کہ اس الف بے سے واقف ہی نہ تھے اور اگر کچھ سمجھ بوجھ رکھتے بھی تو ہمارا قیام اتنا مختصر تھا کہ اس الف بے کوسامنے دیکھ کر بھی نہ پڑھ پاتے۔ ویسے بھی 1984 میں ہمیں اپنی ازدواجی زندگی کے قاعدے کی الف بے یادکرنے کی زیادہ فکر تھی۔ریسٹ ہائوس  کی پارکنگ سے گاڑی نکالی، ایک دو جگہ رک کر راہگیروں سے التت کی طرف جانے والے راستے کا پتہ پوچھتے پچھاتے پونے دس بجے ہم قلعہ التت کے دفتر استقبالیہ تک پہنچ گئے۔
۔۔۔ سرینا ہوٹل اور ہوٹل سے دکھائی دیتے خوبصورت مناظر ۔۔۔




 ۔۔۔ قلعہ التت کا دفتر استقبالیہ ۔۔۔
    بلتستان کی قدیم ترین یادگاروں میں شامل قلعہ التت کے دفتر استقبالیہ میں موجود ایک شخص نے ہمیںخوش آمدید کہا۔ہمیں کچھ دیر تک دفتر میں ہی رک کر قلعے کی سیر کرانے والے گائیڈ کا انتظار کرنا پڑا۔چار پانچ منٹ بعد ہی ہم ایک انتہائی خوش لباس و گفتار گائیڈ کے ہمراہ قلعے کی عمارت کی طرف روانہ ہوئے۔دفتر استقبالیہ سے کچھ ہی آگے بڑھے تو التت کے اس چھوٹے سے قصبے کا ماڈل گائوں ہمارے سامنےتھا۔ماڈل گائوں کو سیکڑوں سال قدیم علاقائی طرزتعمیر کے مطابق ہی برقرار رکھا گیا تھا،جہاں اس ماڈل گائوں کی مکین خواتین اور بچے بھی روائتی بلتی لباس زیب تن کئے موجود تھے۔لکڑی کے پرانے طرزکے دروازے،گارے پتھروں اور لکڑیوں سے تعمیر کردہ دیواروں سے بنے گھر اور ان گھروں کے بیچ بڑے بڑےپتھروں کو تراش کر بنائی گئی صاف ستھری گلیوں کو دیکھ کر بالکل ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم بھیصدیوں قبل کے اسی دور میں پہنچ گئے ہوں۔



   یہاں سے آگے بڑھے تو قلعے کی عمارت میں داخل ہونے سےقبل ایک کیفے کی جدید اور خوبصورت عمارت میں داخل ہو گئے۔ قدیم طرز کے ماڈل گائوں سے نکل کراس جدید کیفے میں داخل ہوئے تو ایسا لگا جیسے صدیوں کا سفر لمحوں میں طے کر کے ہم دوبارہ اپنی دنیا میں واپس آ گئے ہوں۔اپنے ہوٹل سے بھرپور ناشتہ کر کے چلے تھے اس لئے ہمیں اس جدید طرز کےکیفے اور اس میں موجود مشروبات و دیگر لوازمات سے زیادہ دلچسپی نہ تھی، سو ہم نے ایک دفعہپھر حال سے ماضی بعید میں چھلانگ لگانا بہتر جانا۔


    کیفے سے نکل کر قلعے کی حدود میں واقع وسیع و عریض ،حسین اور سرسبز و شاداب قدیم شاہی باغ کے احاطے میں جا پہنچے۔باغ کے وسطمیں ایک بڑا سا تالاب تھا جس کے کنارے ایک بڑے سے درخت تلے لکڑی کی شاہی تپائی رکھی تھی۔تالاب کے سامنے خوبصورت درختوں کے جھنڈ میں گھرا سبزہ زار جس میں بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑگھاس چرتا پھرتا تھا۔آسمان بدستور بادلوں سے ڈھکا تھا ۔صبح کے اس خوشگوار موسم میں شاہیباغ کے وسط میں بنا تالاب اور سرسبز میدان میں درختوں کا چھوٹا سے جنگل اور پھر سبزہ زار کیڈھلانوں پر اٹھکیلیاں کرتی اور ممیاتی بھیڑ بکریاں اس پورے منظر کو مزید خوابناک بنا رہی تھیں۔کچھ وقت اس شاہی باغ میں بتا کر ہم گائیڈ کی رہنمائی میں قلعے کی عمارت کی طرف بڑھ دئیے۔






   عمارت کے زیریں حصے کی تعمیرات میں زمانہ قدیم میں وادی ہنزہ پر حملہ آور ہونے والے جنگجوئوںکو گرفتار کرکے قید کرنے کیلئے بنائی گئی کوٹھریاں بنی تھیں۔جبکہ اوپر والی منزل پر ہنزہ کے حکمرانوںکی رہائش گاہ موجود تھی۔ ہمارا گائیڈ ہر کمرے میں موجود انتہائی سلیقے اور نفاست سے رکھی گئی یادگار اشیا کے بارے میں مکمل تاریخی پس منظر کے ساتھ ہمیں آگاہ بھی کرتا جاتا تھا۔ التت کا یہ قلعہدریائے ہنزہ کے بالکل ساتھ تقریباً ایک ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔عمارت کی عقبی سمت میں کمروںکے ساتھ ساتھ بنی تنگ راہداری سے سیکڑوں فٹ نشیب میں بہتا دریائے ہنزہ اور اس کے دوسرے کنارے پربل کھاتی شاہراہ قراقرم دو لکیروں کی صورت دکھائی دیتے تھے۔ گائیڈ قلعے کی سیر کرانے کے ساتھساتھ ہماری تصویریں کھینچنے کا فریضہ بھی انجام دے رہا تھا۔
















    حکمرانوں کے رہائشی کمروںسے نکل کر ہم ایک منزل اور اوپر چڑھ کر واچ ٹاور کے عین سامنے موجود چھوٹے سے کھلے میدان میںپہنچ گئے۔بلندی پر واقع پہاڑکی چوٹی کو تراش کر بنائے گئے اس چھوٹے سے میدان سے پوری وادی ہنزہ کے خوبصورت مناظر ہمارے سامنے تھے۔دور بادلوں میں ڈھکے راکاپوشی کے سلسلہ کوہ کی برفانیچوٹیاں اور قلعے کی عمارت سے بالکل متصل سامنے کی طرف نشیب میں نظر آتے التت گائوں کے کچےمکان مٹی کے چھوٹے چھوٹے خوبصورت گھروندوں کی صورت دکھائی دیتے تھے۔واچ ٹاور کے ساتھ ہیایک چھوٹی سی مسجد بھی موجود تھی۔اس میدان سے نکل کر ہم واچ ٹاور کے عقب کی طرف جانے والی مزید بلندی کی طرف جاتی راہگزر کی طرف روانہ ہوئے۔







    تنگ سی رہگزر کے ساتھ ساتھ پتھروں سے بنائی گئی ایک چوڑی منڈیر تھی جس کے دوسری طرف قلعے کی فصیل سیکڑوں فٹ گہرائی میں بہتے دریائے ہنزہ تک اترتی چلی جاتی تھی۔پتھروں کی منڈیر سے نیچے دریا کی طرف گہری عمودی کھائی  کی طرف دیکھنے سے ہی دل خوف سے لرزتا تھا۔گائیڈ نے ہمیں ایک جگہ ٹہرنے کا اشارہ کیا۔اپنی ایک ٹانگ  اس نے پتھریلی منڈیر کے دوسری طرف گہری کھائی کی طرف لٹکائی ،  اپنا پورا اوپری دھڑ کھائی کی طرف جھکاکر  ہماری تصویر کھینچی تو ہم اس کی دلیری پر انگشت بدنداں رہ گئے، حیرانی اور مسرت کی کیفیت سے زیادہ  ہم عالم خوف میں تھے ،خدا نخواستہ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ پاتا تو ۔۔۔ اس کے آگے سوچنے کی ہمت ہم میں نہ تھی۔


    پہاڑ کی چوٹی کے گرد گھومتی  اس راہگزر پر چلتے ہوئے ہم قلعے کے دوسری طرف التت گائوں کی طرف موجود راہداری میں آنکلے۔یہاں سے نشیب کی طرف پورے التت گائوں کا منظر ہمارے سامنے تھا ۔راہداری سے گزرنے کے دوران  بھی گائیڈ نے راہداری کے ساتھ بنی لکڑی کی ریلنگ سے ٹانگ دوسری طرف نکال کر وہی خطرناک انداز اپناتے ہوئے ہماری مزیدایک دو تصویریں بنا لیں ۔ آگے بڑھتے  ہوئے  پہلے  ہم چھوٹی سی مسجدکے دروازے کے سامنے پہنچے پھر واچ ٹاور کی طرف چلے گئے جو کہ قلعہ التت کا بلند ترین مقام ہے۔


  واچ ٹاور کی چار دیواری میں سامنے کی طرف دیوار پر مارخور کا ایک قدیم چوبی مجسمہ نصب تھا ۔ یہاں سے ہمیں ایک بار پھر واچ ٹاور کے چاروں اطراف پھیلی وادی ہنزہ کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ۔ دور دکھائی دیتی کریم آباد کی آبادی سے کچھ  بلندی کی طرف نگاہ اٹھائی تو ایک پہاڑ پر ایستادہ قلعہ بلتت کی عظیم عمارت چھوٹے سے ماڈل کی طرح نظر  آئی ۔ واچ ٹاور سے نیچے اترتے وقت گائیڈ ہمیں قلعے کی عقبی فصیل کی طرف لے گیا جہاں فصیل سے چند فٹ کی دوری پر ایک قدرتی چٹان ستون کی صورت موجود تھی۔ اس ستون نما چٹان کی بلندی بھی فصیل  کے برابر تھی ،چٹان کی ہموار سطح بمشکل ایک چھوٹی  میز کے برابر تھی جو کہ  فصیل سے صرف چندفٹ  کی دوری پر تھی۔ قلعے کی فصیل اور  ستون نما چٹان کی ہموار سطح کے درمیان سیکڑوں فٹ گہری عمودی کھائی کہ نشیب کی طرف دیکھتے ہی اوسان خطا ہونے لگیں۔ گائیڈنے بتایا کہ زمانہ قدیم میں حکمران اپنی حفاظت کیلئے جو خصوصی  کمانڈوز بھرتی کرتے تھے ان کو اپنی قابلیت اور مہارت کے امتحان کے طور پر قلعے کی فصیل سے اس ستون نما پہاڑی کی  مختصر سی سطح پر چھلانگ لگانا ہو تی تھی اور پھر اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے فوراً پلٹ کر دوبارہ فصیل پر کودنا  پڑتا تھا ۔ کمانڈو زکی قابلیت  کو جانچنے کے اس کڑے امتحان کے تصور سے ہی ہمیں جھرجھری آ گئی کہ امتحان میں ناکام ہونے والوں کی  توپہاڑوں میں گونجتی اور پھر دم توڑتی چیخ ہی سنائی دیتی ہوگی۔ 






   قلعے کی عمارت سے نیچے اترنے کے بعد ہم دوبارہ شاہی باغ میں جا پہنچے جہاں سیاحوں کا ایک اور گروپ غالباً گائیڈ کے انتظار میں ہی کھڑا تھا ۔ گائیڈ ہمیں خدا حافظ کہہ کر اس گروپ کے ساتھ دوبارہ قلعے کی عمارت کی طرف بڑھ گیا ۔ ہم نے کچھ دیرسستانے کیلئے باغ کا رخ کیا اور سبزہ زار پر چہل قدمی کرتے رہے ۔ کچھ درختوں پر سرخ چیریاں لگی تھیں ، خوبانیوں کےبھی کچھ درخت نظر آئے لیکن وہ  ابھی پکی نہیں تھیں ۔ قلعہ التت کے خوبصورت شاہی باغ میں ہماری ملاقات ایک بار پھر کشپ سے بھی ہوئی۔ باغ سے باہر نکلے تو ماڈل گائوں کے سامنے موجود چھوٹی سی دکان سے پانی کی بوتلیں خریدیں ، دکان کےشوکیس میں وادی ہنزہ میں پائے جانے والے خوبصورت پتھر اوران سےتراشیدہ نودرات سجے تھے ۔بلتی زبان میں التت کا لفظ زیریں علاقے جبکہ بلتت بلند مقام کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ التت سےنکل کر ہمارا پروگرام قلعہ بلتت کی طرف جانے کا تھا ۔ تقریباً سوا گیارہ بج رہے تھے جب ہم کریم آباد کے زیریں علاقے میں واقع التت گائوں سے نکل کر کریم آباد کے بلند مقام بلتت کیلئے روانہ ہوتے تھے۔





   کریم آباد کے مرکزی چوک کے قریب بازار میں گاڑی کھڑی کر کے ہم قلعہ بلتت کیلئے بلندی کی طرف جاتے راستے  پر روانہ ہوئے ۔ بادل آہستہ آہستہ چھٹتے جارہے تھے ، نیلے آسمان پر اب صرف زیادہ آوارہ گردبادلوں کے ٹکڑے تیرتے پھرتے تھے  جن کی اس آوارگی کے باعث وادی ہنزہ میں دھوپ چھائوں کا کھیل شروع ہو گیا تھا۔ پتھروں کےفرش سے بنی راہگزر مسلسل اوپر کی طرف چڑھتی جاتی تھی۔ قلعہ التت کی بھر پور سیرکے بعد کچھ تکان بھی محسوس کرتے تھے ۔ چڑھائی اچھی خاصی تھی اس لئے ہماری یہ کچھ تکان تیزی سے زیادہ میں بدلتی تھی ، اچھی بات یہ تھی کہ مسلسل بلندی کو جاتے راستے میں تھوڑےتھوڑے فاصلے پر سستانے کیلئے پتھروں سے بنی بنچیں موجود تھیں ، ہم اس سہولت کا فائدہ اٹھاتے  ، تیزی سے بڑھتی تکان کو کچھ کم کرتے ، سانسوں کو بحال کرتے اور پھرقلعے کی جانب روانہ ہو جاتے ، کریم آباد کے مرکزی چوک سے قلعے کا فاصلہ نصف کلو میٹر سےبھی کم تھا لیکن راستے کی کٹھن چڑھائی نے اسے خاصا مشکل بنا دیا تھا۔ اپنے 2004 کے سفر کے دوران ہم قلعے کی تفصیلی سیر کر چکے تھے اس لئے ہم نے قلعے کی عمارت تک پہنچنے کے بعد تھکن سے چور دہائی دیتی   ٹانگوں  کی رحم کی اپیل  منظور کرکے عمارت کی اندرونی سیر کیلئے نہ جانے کا فیصلہ کیا ۔ 







   2004 میں ہم نے قلعے کی عمارت کے ساتھ ہی نصب قدیم توپ کے ساتھ یادگار تصویر بنوائی تھی ،اسی یاد کو  تازہ کرتے  ہوئے ہم نے اسی مقام پر آج بھی تصویر بنوالی ۔ آج اتوار تھا ، سیاحوں کی  اچھی خاصی تعداد کے باعث قلعہ بلتت پر ٹھیک ٹھاک رونق تھی ۔ یہاں موجود ایک گارڈ کی مونچھیں قلعے کی عمارت کی مانند خاصی عظیم الشان تھیں سو میں نے اس کے ہمراہ بھی ایک یادگار تصویر بنوانا ضروری سمجھا۔ قلعہ التت سے ہمیں یہ قلعہ بلندی پر ایک چھوٹی سی عمارت کی طرح دکھائی دیتا تھا ،یہاں سے دور نشیب میں التت گائوں اور قلعہ التت کو ہم کسی کتاب میں چھپی تصویر کی طرح دیکھتے تھے۔ تقریباً نصف گھنٹہ یہاں گزار کر ہم واپس روانہ ہوئے۔ 


 ۔۔۔  2004 میں قلعہ بلتت کی سیر کے وقت کی 3 تصویریں ۔۔۔












   ہم نے قلعے کی طرف آنے اور اب واپس بازار کی طرف جانے کے دوران راستے میں دلچسپی سے ہماری طرف دیکھتے اوروادی ہنزہ کے ترو تازہ پھلوں کی طرح مہکتے مسکراتے مقامی بچوں کی بھی کچھ تصویریں لیں۔قلعہ التت کی مکمل اور بلتت کی اس ادھوری سیر کے دوران ہم جتنا پیدل چلے تھے شاید اپنے شہر میں مہینے  بھرکے دوران بھی نہ چل پاتے ہوں گے ، خاص طور پر قلعہ بلتت تک  جانے والے راستے نے نہ صرف ہمیں اچھا خاصا تھکا دیا تھا بلکہ صبح سویرے اپنے ہوٹل میں کئے گئے ناشتے کو بھی انتہائی تیزی سے ہضم کر دینے کا کام بھی انجام دے دیا تھا چنانچہ بازار میں پہنچتے ہی  ایک چھوٹے سے خوبصورت کیفے نے ہمارے قدم کھینچ لئے ۔ چکن شاشلک کا آرڈر دیا ، کیفے والوں نےاس کے ساتھ ہنزہ کا روائتی قہوہ تحفتاً  ہمیں پیش کیا ۔ کھانا بہت پر ذائقہ تھا اور قہوہ بھی لاجواب۔عمدہ کھانے اور قہوے کے ساتھ ساتھ کیفے کے پرسکون ماحول  نے ہمیں جلد ہی پھر سے تازہ دم  کر دیا۔












    کریم آباد کے مرکزی چوک کے بازار کی رونق اس وقت عروج پر تھی ۔ سیزن کےباقاعدہ آغاز کے ساتھ ہی کریم آباد میں چہل پہل بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ ہینڈی کرافٹ کی دکانوں کے باہر سلیقے سے سجی خوبصورت رنگ برنگی شالیں، غالیچے اور دیدہ زیب مقامی ملبوسات بازار کی رونق میں مزید رنگ بکھیرتے تھے، ہم کچھ دیر  تک جابجا بکھرے رنگوں میں کھوئے گھومتے پھرتے رہے ۔ دس سال پہلے کے مقابلے میں کریم آباد کا یہ بازار بھی خاصی وسعت اختیار کر گیا تھا ، 2004 میں بازارکی ساری رونق صرف اس مرکزی بازار کی دس بارہ دکانوں تک ہی محدود تھی ، بڑی بیٹی کےحلق میں انفیکشن ہو جانے کی وجہ سے ہم اس چوک سے آگے ویران راہگزر پر واقع  ایک  کلینک تک پیدل گئے تھے ۔ آج بازار کی رونق اس چوک سے نکل کر اسی  راہگزر پر دور تک پھیلی نظر آتی تھی۔ اس دفعہ ہم پھر اس سڑک پر روانہ ہوئے لیکن پیدل  کے بجائے اپنی گاڑی میں۔آگے بڑھے تو راہگزر کی رونق ہمیں کھینچتی چلی گئی۔ اتنا زیادہ دور بھی نہیں گئے تھے کہ جاپان جا پہنچتے لیکن جاپان چوک ضرور پہنچ گئے ۔ وہاں سے کچھ اور آگے بڑھے ، سڑک تھی کہ اپنی رونقوں سمیت آگے پیش قدمی کرتی چلی جاتی تھی ، ہم نے راستے میں آنے والی آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکول کی خوبصورت اورجدید عمارت کے پاس بریک لگائی ، گاڑی واپس موڑی اور اپنے ہوٹل کا رخ کیا۔



    ایک ڈیڑھ گھنتے تک کمرے میں آرام کرنے کے بعد ہم باہر گیلری میں رکھی کرسیوں پر آ بیٹھے، سامنے ہی دور نشیب میں گینش کے مقام پر بہتا ہوا دریائے ہنزہ اور ہوپر گلیشئر سے نکل کرآنے والے دریائے نگر کے سنگم کا خوبصورت منظر ہماری نظروں کے سامنے تھا۔ چائے ہم نے گیلری میں ہی منگوائی ، بہترین گرم گرم چائے کے بھرپور کپ نے ہمارے آرام اور سکون کو بھی بھرپور کردیا۔ 2004میں ہم کریم آباد سے جیپ بک کروا کر ہوپر نگر تک گئے تھے،جس کا راستہ دریائے نگر کے ساتھ ساتھ ہی بلندی کی طرف چڑھتا چلا جاتا تھا۔ ہوپر کے چھوٹے سے گائوں کی آبادی سے بالکل متصل نشیب میں ہوپر گلیشئر اور اس کی چمکتی برف نظر آتی تھی۔ ہم نشیب کی طرف اترتی ایک پگڈنڈی سے گلیشئر کے درمیان چمکتے برف کے تودوں تک چلے گئے تھے۔
۔۔۔ 2004 میں ہوپر گلیشئر کے درمیان ۔۔۔
 اس بار ہمارا پروگرام ہوپرنگر جانے کا نہ تھا۔ ہوٹل کی گیلری سے سامنے نظر آتے دریائوں کےحسین سنگم نے ہمیں آواز دی اور ہم وادی ہنزہ کی یہ شام اس کے ساتھ بتانے کے لئے روانہ ہوگئے۔




    گینش کے قصبے سے گزرتے ہوئے دریائےہنزہ پر واقع پل عبور کرنے کے فوراً بعد ہم شاہراہ قراقرم سےدائیں طرف ہوپر نگر کو جانے والے راستے کی طرف مڑ گئے اور تھوڑا سا فاصلہ طے کر کے ہوپروالی سڑک سے اتر کر کچھ ہی دوری پر موجود دونوں دریائوں کے حسین سنگم پر پہنچ گئے۔ دریائے نگر پر لکڑی اور آہنی رسوں کے جھولنے والے پل سے گزرتا ہوا ایک راستہ دریا کے دوسری جانب کسی آبادی کو جاتا تھا۔ ہم نے اپنی گاڑی اس پل سے پہلے ہی ایک جگہ کھڑی کردی۔ اور اس پل تک ٹہلتے ہوئے گئے۔ دریائے نگر کے پانی کا رنگ انتہائی مٹیالا جب کہ دریائے ہنزہ خاصا شفاف تھا۔ پل کے نیچے سے نکل کر تیزی سے بہتا دریائے نگر کچھ آگے بڑھ کر ہنزہ کے شفاف پانی میں جاگرتا تھا۔ دونوں دریائوں میں  یخ پانی بہتا تھا ،سہ پہر بھی شام میں ڈھلتی تھی ،اسی بنا پر یہاں تیز خنک ہوائیں چل رہی تھیں ۔  سورج کے مغرب کی سمت سرکنے کے ساتھ ساتھ ہوائیں سرد سے سرد تر ہوتی جاتی تھیں۔ تقریباً ایک گھنٹے تک اس خوبصورت مقام کے چاروں طرف بکھرے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے بعد جب ہم تیزی سے بڑھتی ٹھنڈ سے باقاعدہ ٹھٹھرنا شروع ہوئے تو کچھ دیر تک گاڑی میں شیشے بند کرکے بیٹھ گئے اور پھرواپس ہوٹل کی راہ لی۔
۔۔۔ گینش کے قریب شاہراہ قراقرم پر واقع دریائے ہنزہ  کا پل ۔۔۔







 ۔۔۔دریائوں کے سنگم کے پاس دریائے نگر پر واقع لکڑی کا پل ۔۔۔








    عصر کے بعد میں ہوٹل کے کمرے میں بستر پر لیٹا آرام کرتا تھا۔ کھڑکی سے راکاپوشی کے سلسلہ کوہ کی برف پوش چوٹیوں   اور ان پر چھائے روئی کے گالوں جیسے بادلوں پر ڈھلتی شام کے حسین رنگ بکھرتے تھے،برف کی سفیدی گلابی اور نارنجی رنگوں میں بدلتی تھی۔ دن بھر کی تکان کبھی آنکھوں کو تھپک کر بند کرنے کی کوشش کرتی تو برفانی چوٹیوں پر لمحہ بہ لمحہ بدلتے دلکش رنگوں کی کشش اپنی طرف متوجہ کر کےبند ہوتی پلکوں کے پٹ کھول دیتی۔شام کے رنگ گہرے ہوئے تو بادل راکاپوشی کے پاس سے رخصت ہوئے، ڈوبتے سورج کی سنہری کرنوں نے راکاپوشی کی سفید برفوں کو سونے کے تاج پہنادئے۔سورج وادی ہنزہ کوالوداع کہہ کر رخصت ہوا تو رنگوں کا یہ کھیل بھی اختتام کو پہنچا ، راکاپوشی کی سنہری برف نے چپکے سے سرمئی چادر اوڑھ لی۔


















    پہلے ارادہ تھا مغرب کے بعد ایک بار پھر بازار کی طرف چہل قدمی اور رات کے کھانے کیلئےنکلیں گے لیکن ایک طویل دن کی تکان اور کریم آباد سے سوست کیلئے علی الصبح نکلنے کے پلان نے ہمیں اپنا  ارادہ ملتوی کرنے پر مجبور کر دیا، چنانچہ ہم نے اپنے ہوٹل میں ہی رات کا کھانا کھا کر جلد سوجانے کا فیصلہ کیا۔

چودہواں دن 


تین جھیلوں کاساتھ   ۔۔۔   شاہراہ قراقرم کا آخری قصبہ سوست


   ہوٹل والے کو رات سونے سے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ہم صبح سویرےسوست کیلئے روانہ ہو جائینگے،لہٰذا ممکن ہو تو فجر کے فوراً بعد ہی  ہمارےلئے ناشتے کا بندوبست کردیا جائے۔اتنی صبح ناشتہ کر لینے کی وجہ یہ تھی کہ گینش سے آگے  کی راہیں ہمارے لئےنئی تھیں۔عطاآباد جھیل کو کشتی کے ذریعے پار کرنا تھا۔جھیل پار کرنے میں کتنا وقت لگے ،گلمت کب تک پہنچ پائیں اورپھر وہاں کوئی ہوٹل ہو یا نہ ہو۔ ڈائننگ ہال میں ناشتہ کرنے کے بعد ہم پونے چھ بجے صبح کریم آباد سے روانہ ہوگئے۔
    گینش کے قصبے سے گزرنے کے بعد دریائے ہنزہ پر موجود پل عبور کر کے شاہراہ دریا کے دائیں طرف چلی جاتی ہے۔اس پل سے عطا آباد جھیل 17کلومیٹر دور ہے۔تقریباً 15کلومیٹر تک تو شاہراہ کی حالت  بہترین رہی لیکن اس کے بعد سڑک سے تارکول غائب ہوگیا۔سڑ ک کچی تھی البتہ کشادہ اور ہموار تھی۔سڑک کےبائیں ہاتھ پر بنے ایک ہیلی پیڈکے قریب سے گزرنےکے بعد تھوڑا سا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ ہمیں دور نشیب میں بلند وبالا سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں پرسکون نیلےپانی کا عظیم ذخیرہ دکھائی دیا۔ کچھ مزید آگے بڑھے تو عطاآباد جھیل کا خوبصورت منظر زیادہ واضح ہوا۔جس سڑک پر سفر کرکے یہاں تک پہنچے تھے  جھیل اس سے خاصی نشیب میں نظر آرہی تھی۔دونوں طرف فصیلوں کی مانند ایستادہ فلک شگاف پہاڑ اور ان کے بیچ ایک چھوٹا سا پرسکون نیلگوں سمندر۔بلندی سے نظر آتا جھیل کا یہ نظارہ بیک وقت دلکش ،پراسرار اور مبہوت کر دینے والاتھا۔نیلگوں پانی میں اکا دکا کشتیاں بھی سفر کرتی دکھائی دیں۔انتہائی نشیب میں دکھائی دیتے کنارے پر کچھ ٹرک اور وینز بھی  موجود تھیں۔








   کنارے تک جانے کیلئے ہمارے بائیں طرف سے ایک گھومتا ، بل کھاتا کچاراستہ نشیب کی طرف اترتا تھا۔ اتار بہت زیادہ تھا ، مجھے یہ فکر ستاتی تھی کہ خنجراب سے واپسی میں اس کچے راستے سے ہماری گاڑی اوپر چڑھ بھی پائے گی یا نہیں۔فی الحال تو ہم  اس  گھومتے اوربل کھاتے کچے راستے سے اتر کر پونے سات بجے تک جھیل کنارےپہنچ گئے۔نیچے پہنچے توایسا  محسوس ہواجیسے زمانہ قدیم کی کسی چھوٹی سی بندرگاہ  پر وارد ہو گئے ہوں۔ چین سے درآمد شدہ سامان تجارت  سے لدی پھندی  چندکشتیاں  کنارے پر لنگر انداز تھیں، خشکی پر  جھیل کے عین کنارےدو ٹرک ان کشتیوں کے قریب کھڑے تھے، کشتی سےٹرک تک سامان پہنچانےکیلئےلمبے لمبے لکڑی کے تختے رکھےتھے  ، مزدوربڑی مہارت سےاپنی پیٹھ اور کندھوں پر سامان لادے ان تختوں کے پل سے گزرکر اسےٹرکوں پرلادتے تھے۔جس جگہ سامان کی  یہ نقل وحمل جاری تھی وہ زیادہ کشادہ نہ تھی ، ایک وقت میں بمشکل 2 ٹرکوں میں ہی سامان لاداجاسکتا تھا۔ ہم نےکنارے سے کچھ بلندی پر ایک نسبتاً ہموار جگہ پر گاڑی کھڑی کر دی۔گاڑی سمیت جھیل کے دوسرے کنارے تک جانے کیلئے میں نے ایک کشتی والے سے بات کی۔2 ہزار میں بات طے ہوگئی لیکن جب تک کنارے پر موجود دو ٹرکوں میں سے کوئی ایک وہاں سے روانہ نہ ہوتا ہماری گاڑی کا کشتی میں سوار ہونا ممکن نہ تھا۔






    صبح کے سات بجے تھے ،سورج آسمان کی طرف بڑھنا چاہتا تھالیکن ابھی آسمان سے باتیں کرتے پہاڑ اس کی راہ میں حائل تھے۔ نیلگوں سمندر کی طرح دکھائی دیتی جھیل کا نصف حصہ اور ہم ابھی تک اپنے بائیں طرف موجود بلندپہاڑ کے سائے میں تھے۔ جھیل کے پانی پر سےسرسراتے ہوئےسرد ہوا کے جھونکے کنارے کی طرف آتے تھے۔ میں کشتی والے سے محو گفتگو  تھا ۔ ہم سفر کبھی گاڑی سے اتر کر جھیل کے مسحور کن نظارے سے محظوظ ہوتی تو کبھی  سرد جھونکوں کی شدت سے گھبرا کر دوبارہ گاڑی میں جا بیٹھتی۔تقریباً پون گھنٹے کے انتظار کے بعدایک ٹرک جھیل کنارے سے روانہ ہوا تو ہماری گاڑی کو کشتی میں چڑھانے کا مرحلہ آیا۔ جو بنا کسی دقت کے بآسانی طے ہو گیا اور ساڑھے سات بجے کے قریب ہم عطاآباد جھیل کے دوسرے کنارے کیلئے روانہ ہو گئے۔


  
    جھیل کا پانی انتہائی پر سکون تھا اس لئے ہماری کشتی بھی سکون اورروانی سے تیرتی چلی جارہی تھی۔قراقرم کے ہیبت ناک بلند پہاڑوں کے درمیان وسیع و عریض  نیلگوں جھیل کے گہرے سکوت میں صرف ہماری کشتی کے انجن کی آواز گونجتی تھی۔ دوسری طرف کوئی کنارہ دکھائی نہ دیتا تھا  ، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم قراقرم کے سلسلہ کوہ کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے پھرتے ہوں۔ ایک پہاڑی درے سے گھومتی ہوئی جھیل دوسرے درے میں داخل ہوئی تو صرف پہاڑوں کی ہیئت میں کچھ  تبدیلی  آئی  ، منظر جوں کا توں رہا ۔ ایک عظیم پہاڑی پیالے سے نکل کر ہم دوسرے پیالے میں آپہنچے۔ چاروں طرف پہاڑ ہی پہاڑ اور درمیان میں صرف پانی،جھیل کے دوسرے کنارے کا کچھ پتہ نہ تھا۔ 






      سورج اب پہاڑوں کی اوٹ  سے نکل آیاتھا  ، پر ہیبت چٹانوں سے بنے دیوہیکل پیالے میں بکھری دھوپ میں سبز مائل نیلگوں پانی  جھلملاتا تھا۔ دائیں طرف دور  دو پہاڑوں کے درمیان جھیل کے کنارے درختوں کا ایک جھنڈ دکھائی دیتا تھا ۔ اس جھیل کے وجود میں آنے سے قبل درختوں کے اس جھنڈ کے ساتھ ہی بیس بائیس گھروں پر مشتمل آئینہ آباد کا چھوٹاسا قصبہ ہوا کرتا تھا۔4جنوری 2010 کو عطاآباد کے قصبے میں واقع پہاڑ کا ایک حصہ ٹوٹ کر دریائے ہنزہ میں آ گرا تھا جس کے باعث  عطاآباد کی مشرقی سمت کی آبادی کے کئی گھر ملبے تلے دب گئے ، 20 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ، عطا آباد کے سامنے سے گزرنے والے دریائے ہنزہ کا راستہ مسدود ہو نے کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں دریا کے پاس سے  گزرتی شاہراہ قراقرم کا  ایک ڈیڑھ کلومیٹر طویل  حصہ بھی اس بڑے پہاڑی ملبے تلے دفن ہو گیا۔ پہاڑی علاقوں میں ایک درے سے نکل کر دوسرے درے میں داخل ہوتی شاہراہ کے ساتھ ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے قصبے آباد ہو تے ہیں۔دریا ئے ہنزہ کا راستہ بند ہوا تو اس پہاڑی ملبے کی مشرقی سمت میں دریا جھیل کی صورت اختیار کرتا چلا گیا اور پہاڑی دروں میں دریا کے کنارے آبادچھوٹے چھوٹےگائوں ، ان کے درمیان سے گزرتی شاہراہ قراقرم  اور اس کے دونوں اطراف موجود علاقوں کےمکینوں کےگھر،زرعی زمینیں  اور باغات اس تیزی سے بلند ہوتی جھیل میں ڈوبتے چلے گئے۔ جون 2010 میں دریا کی بند ہوجانے والی راہگزر میں اسپل وے کی تعمیر تک عطاآباد جھیل سے حسینی گائوں تک آئینہ آباد ،ششکٹ اور گلمت کے قصبوں کی طرف جاتی اور ان کو آپس میں ملاتی شاہراہ قراقرم ڈوبتی چلی جاتی تھی اور مسلسل بلند ہوتی جھیل تباہی و بربادی پھیلاتی ان آبادیوں کی طرف سفر کرتی تھی۔اپر ہنزہ گوجال  کے اس علاقے کے ڈیڑھ سو سے زائد گھر  اور ان کے مکینوں کی قیمتی زرعی زمینیں اور باغات زیرآب آگئے  اور ہزاروں لوگ  اس بڑی ناگہانی آفت کے باعث بے گھر ہوئے۔جون 2010 میں بھی اسپل وے سےپانی کا اخراج صرف اس حد تک ہی ممکن ہو پایا کہ جھیل آہستہ آہستہ  حسینی گائوں سے واپس پلٹی، گلمت کے قصبے سے بھی نکلی اور ششکٹ کی  بلندی پر واقع تقریباً نصف آبادی سے بھی نیچے اترآئی۔ہم اس وقت جس پہاڑی درے کے درمیان سے گزر رہے تھے  وہاں دور پہاڑوں کے ساتھ دکھائی دیتا درختوں کا ایک جھنڈ صرف اتنا پتہ دیتا تھا کہ چند برس قبل یہاں آئینہ آباد کے باسی بستے تھے۔
 جھیل کے ساتھ چٹانوں پر دکھائی دیتے نشانات  سے واضح ہوتا تھا کہ اس مقام پر جھیل کی گہرائی کتنی زیادہ رہی ہوگی۔

    جھیل تھی کہ مشرق کی سمت بڑھتی چلی جاتی تھی۔ جہاں دور پہاڑوں کی بیچ سے گھومتا ہوا جھیل کا پانی ایک اور درے میں داخل ہوتا نظر آتا تھا۔ وہیں دور سیاہ نقطے کی طرح پانی میں تیرتی کوئی شے ہماری طرف آتی تھی، کچھ ہم اس کی طرف بڑھے اور کچھ وہ  ہمارے نزدیک ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ ایک بڑا سا بجرہ ہے جس پر کچھ گاڑیاں اور دو ٹرک لدے تھے۔تھوڑی دیر بعد بجرہ ہمارے سامنے کچھ فاصلے سے گزرکرعطاآباد کی طرف بڑھ گیا اور ہماری کشتی دور سے نظر آتی ایک خوبصورت پہاڑی کے قریب سے ہوتی ہوئی تیسرے درے میں داخل ہونے لگی۔





    صبح سویرے کا وقت تھا،پوری فضا میں ٹھنڈک رچی بسی تھی۔طلسماتی جھیل میں پہاڑوں کےایک  دیوہیکل پیالے سے نکل کر دوسرے میں داخل ہوئے تو یوں لگا کہ  بچپن کے دنوں کی کسی سرد رات میں لحاف میں دبکے لیٹے گھر کے کسی بزرگ سے کوئی دیومالائی کہانی سنتے ہوئے اس میں کھو گئے ہوں۔ چاروں طرف نظر گھماتے تو ایسا لگتا کہ اچانک کسی پہاڑ کے عقب  یا جھیل کے پرسکون پانی میں سے  کوئی بڑا سا دیو نمودار ہو کر یہ نہ کہے کہ ہمارے اس مسکن کے تالابوں میں تم کہاں گھومتے پھرتے ہو۔ہم دم سادھےتیسرے درے میں داخل ہوتے تھے اور سوچتے تھے کہ دیکھتے ہیں یہ دیومالائی کہانی اب کس موڑ پر پہنچتی ہے۔کشتی آگے بڑھتی تھی اور سامنے دکھائی دیتے دو پہاڑوں کے درمیان  نئےدریچے کے پٹ کھلتے تھے۔ اس بار سامنے کامنظر ہیبتناک کے بجائے انتہائی دلکش اور خوابناک تھا۔ کہانی کا نیا موڑ ہمیں دیوں کےمسکن سے نکال کر پریوں کےنگر لے جاتا تھا۔ نیلے آسمان میں تیرتے  سفید بادلوں کے نیچے نہایت قرینے اور خوبصورتی سے سجی پاسو کے پہاڑوں کی نوکیلی اورمخروطی برف پوش چوٹیوں کے حسن کی پہلی  ہی جھلک نے ہمیں  مبہوت کرکے رکھ دیا۔پہاڑوں کا دریچہ وا ہوتا چلا گیا۔جھیل کے جھلملاتے پانی کے پرے ہیبت ناک پہاڑوں کے بجائےدکھائی دیتی ششکٹ اور گلمت کی سرسبز وادیاں ،ان کے عقب میں نیلے آسمان کو چھوتی  اورہلکے ہلکے سفید بادلوں سے آنکھ مچولی کھیلتی پاسو کونز ۔ وادی گوجال کا طلسماتی حسن ہمیں اپنی پلکیں جھپکانے سے بھی باز رکھتا تھا۔ششکٹ کا قصبہ جھیل کے دائیں طرف واقع تھا جبکہ گلمت اس سے کچھ مزید آگے بائیں طرف کے پہاڑوں کے دامن میں۔

















    جوں جوںہم ششکٹ کے قریب  ہوتے جاتے تھے جھیل سکڑتی جاتی تھی۔ ہمیں اپنے بائیں طرف موجود پہاڑ  کے پاس کنارے پر اترنا تھا۔ کنارہ ابھی خاصا دور تھا کہ اچانک ہماری نظر جھیل کے پانی کے بدلتے رنگوں پر پڑی۔ بائیں طرف کے پہاڑ کے ساتھ ساتھ مٹی سے بنایا گیا ایک کچا راستہ جھیل کے دوسرے کنارے تک  آتاتھا۔ اس راستے  سے بالکل متصل  بائیں طرف بلند پہاڑ جبکہ دائیں طرف دریائے ہنزہ جھیل کی طرف بہتا تھا۔ گلمت کی طرف سے آتے ہوئے دریا کا بہائو اب جھیل کے پانی پر بھی اثر انداز ہوتا تھا۔دریا کے بہائو کی سمت بڑھتی کشتی دریا کے پانی کی روانی کے باعث پیدا ہونے والی ہلکی ہلکی لہروں میں ہلکورے لیتی تھی ۔ہمارے دائیں طرف موجود جھیل کا پرسکون پانی سبز رنگ کا تھا جبکہ بائیں طرف سے جھیل میں داخل ہونے والے دریائے ہنزہ کا پانی پہاڑ کے ساتھ بنائی گئی کچی سڑک کی مٹی کے باعث مٹیالا تھا ۔ جھیل میں دو رنگ کے پانیوں کا یہ خوبصورت نظارہ قابل دید تھا۔

     سامنے سے آتے دریا کے پانی کا بہائو تیز ہوتا جاتا تھا اور ہماری کشتی کو آگے بڑھنے سے روکتا تھا۔ کشتی والے نے انتہائی مہارت سے انجن کی رفتار بڑھاکر ایک بڑا سا چکر لیتے ہوئے دریا کے بہائو کے ساتھ ساتھ بائیں طرف موجود کنارے کارخ کیا۔ کشتیوں کی ایک بڑی تعداد گلمت اورگوجال کے دوسرے علاقوں سے ہنزہ اور گلگت جانے والے مسافروں اور چین سے ٹرکوں کے ذریعے یہاں تک آنے والے سامان کو دوسری جانب لے جانے کیلئے  موجود تھی۔ کشتیوں کے رش اور دریا کے بہائو کے باعث ہمیں کنارے تک پہنچنے میں کچھ دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ دریا کے تیز بہائو کے باعث کشتی کو اس کنارے پر لنگر انداز کرنا بھی خاصامشکل تھا ۔کشتیاں بمشکل اس بہتے پانی میں ٹہر پاتی تھیں ،غالباًاسی بنا پر  کنارے پر موجود کشتی والے ہماری کشتی کو راستہ دینے کیلئے تیار نہ تھے ،ویسے بھی اتنی صبح سویرےاس پار سے ہماری کشتی کا یہاں پہنچنا ان کیلئے انتہائی غیر متوقع تھا۔ کنارے پر چند ٹرک بھی کھڑے تھے ۔ بالاۤخرکشتی میں ہمسفر کی موجودگی  نے کام دکھایا ، بڑی مشکل سےہمارے لئے جگہ بنائی گئی ،اس طرح عطا آباد جھیل کے سوا گھنٹے کے انتہائی یادگار ،خوشگوار اور ناقابل فراموش سفر کے بعد ہم جھیل کے دوسرے  کنارے  لگ پائے۔








    کچی سڑ ک بائیں طرف موجود بلند پہاڑ کے ساتھ ساتھ گلمت کی طرف بڑھتی  تھی۔ دائیں طرف دریائے ہنزہ سڑک سے بمشکل چند انچ نیچے  ہی سامنے سے بہتا چلا آتاتھا۔ جھیل کے گہرے پانی تک رسائی اور دریا کے بہائو میں کشتیوں کے لنگر انداز نہ ہوسکنے کے باعث جھیل کے عین کنارے تک  پہنچنے کیلئےاس  کچی سڑک کی تعمیر ضروری تھی۔ تقریباً نصف کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ہم کچھ بلندی پر  چڑھے تو دریا سڑک سے کچھ دور  ہوکر نشیب میں ہوتا چلا گیا۔ ششکٹ کا قصبہ دریا کےدائیں کنارے پر واقع تھا  جبکہ ہم دریا کے بائیں طرف  بنی کچی سڑک کے ذریعے  گلمت  کا رخ کرتے  تھے۔ گینش کے قریب دریا  کا پل عبور کرنے کے بعد سے عطاآباد جھیل تک ہم دریا کے دائیں کنارے پر سفر کرتے آئے تھے۔ جھیل کے وجود میں آنے سے قبل شاہراہ قراقرم عطاآباد سے ششکٹ تک دریائے ہنزہ کے دائیں کنارے پر ہی موجود تھی اور ششکٹ کے قصبے سے نکلنے کے بعد دریا ئے ہنزہ پر موجود ایک پل پار کر کے گلمت میں داخل ہوتی تھی۔جس علاقے سے ہم اس وقت گزر رہے تھے  وہ جھیل کے پھیلائو کے دنوں میں مکمل طور پر زیرآب تھا ۔ اسپل وے بننے کے بعد جھیل کا پانی گو کہ ان علاقوں سے اتر چکا تھا لیکن ا  س وقت تک یہاں کے مکینوں کے گھروں،کھیتوں اور باغات کے ساتھ ساتھ ان قصبوں کے درمیان سے گزرتی شاہراہ قراقرم اور دریا پر واقع متعدد  پل تباہ  و برباد ہو چکے تھے۔ ششکٹ کو گلمت سے ملانے والا پل بھی جھیل کی نذر ہو گیا تھا۔ گلمت سے ہوتی ہوئی حسینی گائوں تک جانے والی جس گھومتی پھرتی، ٹوٹی پھوٹی  اورکچی سڑک  پر ہم سفر کرتے تھے یہ کچھ عرصہ قبل  اس گہری جھیل کی تہ ہو اکرتی تھی۔پونے دس بجے کے قریب ہم گلمت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے حسینی گائوں کے قریب پہنچ گئے۔یہاں سے سڑک  کچھ بلند ہونا شروع ہوئی   اور اچانک سرمئی قالین جیسی بہترین شاہراہ قراقرم ہمارے قدموں میں لوٹ آئی جو حسینی گائوں کے  قریب پہنچ کر  گھومتی ہوئی دریا سے  مزید دور ہونے کے ساتھ ساتھ خاصی بلندی بھی اختیار کر گئی۔ ابھی اس شاندار شاہراہ پر ہم نے بمشکل  ایک ڈیڑھ کلومیٹر کا فاصلہ ہی طے کیا تھاکہ سڑک کے بائیں طرف لگے ایک  بورڈ  نے مجھے  گاڑی روکنے پر مجبور کردیا۔ ایک کچی اور پتھریلی سڑک بائیں طرف موجود پہاڑی کی طرف مڑتی ہو ئی بلندی کا رخ کرتی تھی ۔ سائن بورڈ اسی سڑک کی طرف اشارہ کرتا تھا کہ بورت جھیل جانا ہے تو اس راستے پر مڑجائو۔ اونچے نیچے ،ٹوٹے پھوٹے ،کچے راستوں پر تقریباً ایک گھنٹے تک سفر کرنے کے بعد ہم نے ہموار ،پختہ اور بہترین شاہراہ پر پرسکون سفرشروع ہی کیا تھا کہ ہمیں اس کچی ،پتھریلی اور بلندی کو جاتی تنگ  راہگزر کی طرف سے بورت جھیل کی پکار سنائی  دی۔نظروں کے بالکل سامنے بچھی شاندار شاہراہ قراقرم ہمیں حیرانی سےتکتی تھی کہ ان مسافروں کو کیا ہوا  جو  ان کے بڑھتے قدم رک گئے۔ جو جنون ہمیں اتنے طویل سفر پر یہاں تک لایا تھا وہ ہمیں ہموارقالین کے بجائے  اونچی  نیچی پتھریلی راہ کی طرف  دھکیلتاتھا۔


    جھیل کا فاصلہ تو یہاں سے صرف  ایک کلومیٹر تھا لیکن اس راستے کے بارے میں کچھ اندازہ  نہ تھا کہ جھیل تک کتنی چڑھائی ہے اور گھومتی ہوئی بلندی کی طرف جاتی یہ  سڑک  آگے کس حالت میں موجود ہے۔ شاہراہ قراقرم کے دائیں طرف حسینی گائوں کے گھر  قریب ہی اس طرح نشیب میں بنے ہوئے تھے کہ شاہراہ سے اتر کر تھوڑا  سا کچا  راستہ طے کر کے ان کی چھتوں تک پہنچا جاسکتا تھا۔ میں نے دائیں طرف موجود اس راستے اور گھروں کی چھتوں کی طرف نظر دوڑائی کہ کوئی مقامی شخص دکھائی دے جس سے بورت  جھیل کو جاتی اس سڑک کی کیفیت کے بارے میں معلوم کر سکوں ۔ بالائی ہنزہ کےعلاقے گوجال کے اس مقام پر ایسا لگتا تھا کہ ہم کسی اور ہی دنیا میں نکل آئے ہوں ۔ قدرت کے حسین نظاروں کا یہ کینوس یہاں بہت وسعت اختیار کر گیا تھا۔ چاروں طرف موجود انتہائی بلند وبالا پہاڑوں کی طرح ان کے بیچ پھیلی ہوئی وادیاں بھی انتہائی وسیع وعریض تھیں ۔ گلمت سے نکلنے کے بعد آبادیاں سکڑتی تھیں اور وادیاں کشادہ ہوتی تھیں ۔ مناظر کا حسن بڑھتا تھا  جبکہ وادیوں  میں بستے انسانوں کی تعداد گھٹتی تھی۔ یہ ایک خاموش  اورپرسکوت دنیا تھی جس  کو دور نظر آتی پاسو کےبلند پہاڑوں کی نوکیلی  برف پوش چوٹیاںمزید طلسماتی بناتی تھیں۔پاسو کونز ہی درحقیقت وادی گوجال کی وہ حسین و جمیل پریاں تھیں کہ جو عطاآباد جھیل کے آخری درے میں داخل ہوتے ہی ہمیں دکھائی دے گئی تھیں اور ہم ٹکٹکی باندھے انہیں تکتے تھے۔میری نظریں اس جادو نگری میں  کسی انسان کو تلاش کرتی تھیں ۔ بالآخر مجھے شاہراہ سے کچھ ہی دوری پر ایک گھر کی کچی چھت پر کھڑا ایک شخص نظر آ ہی گیا۔اس  کی پیٹھ میری طرف تھی ۔ میں گاڑی سے اترا اور شاہراہ کی دوسری طرف  اس کے قریب تک چلتا چلاگیا۔ ہمارے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہ تھا ۔ میں نے خاصی بلند آواز میں اسے پکارا لیکن میری آواز شاید اس تک نہ پہنچ پائی ۔ اس نے پلٹ کر دیکھاتک نہیں ۔ میں سڑک سے اس کچی راہ پر اترگیا جو اس کے گھر کی چھت تک جاتی تھی۔ مسلسل آوازوں پر آوازیں دیں، ہمارے بیچ فاصلہ  بھی کم سے کم ہو تا گیالیکن حسینی گائوں کےگھر کی چھت پر کھڑے اس شخص کے کانوں تک میری آواز کا نہ پہنچ پانا مجھے سخت حیرت میں مبتلا کرتاتھا- میری صدا چاروں طرف چھائے گہرے سکوت کو  چیرتی تھی لیکن اس حسین وادی میں صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی تھی۔ میں اسے پکارتے پکارتے گھر کی چھت پر جا پہنچا ۔ فاصلہ اب چند قدم کا تھا لیکن نہ وہ کچھ سنتا تھا، نہ میری طرف پلٹتا تھا۔ بالآخر اس کے بالکل قریب پہنچ کر میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔وہ  چونک کر میری طرف مڑا۔ وہ ایک جوان شخص تھا۔اس نے کچھ بولنے کی کوشش  توکی لیکن  صرف کچھ غیر مبہم  اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ۔مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ قوت سماعت اور گویائی سے محروم ہے۔ میرے اس خیال کی اس نے اپنے ہاتھ کے اشاروں سے تصدیق بھی کر دی۔ میں نے وہیں چھت پر کھڑے کھڑے ارد گرد کا جائزہ لیا کہ شاید گائوں کا کوئی اور باسی دکھائی دے جائے۔ کچھ فاصلے پر شاہراہ سے نیچے اترتے کچے راستے پر 2مقامی خواتین نظر آئیں۔ میں جس کچے راستے سے اس گھر کی چھت پر آیا تھا وہ اسی راہ سے مزید نشیب کی طرف اتر کر  گائوں کےگھروں کی طرف جارہی تھیں۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے ان سے بورت جھیل کے راستے  کے متعلق پوچھ لیا۔ 
"ہر قسم کا گاڑی آرام سے ادھر جاتا ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے"
خاتون کا کہنا بالکل درست تھا۔ راستہ پتھریلا ضرور تھا ، کچھ چڑھائی بھی تھی لیکن خطرناک بالکل نہ تھا۔ ٹھیک10 بجے ہم بورت جھیل کے کنارے پر بنے قدیم اور اکلوتے بورت لیک ہوٹل تک پہنچ چکے تھے۔


    بورت جھیل ہوٹل کی چھوٹی سی عمارت اور اس سے ملحق ایک دو گھروں کے عقب میں چھپی ہو ئی تھی۔ہوٹل کی عمارت کے سامنے کی طرف آئے تو جھیل کا دیدار ہمیں نصیب ہوسکا جو اس جگہ سے خاصی نشیب میں تھی۔ بڑے بڑے پتھروں کی سلیبوں سے بنایا گیا ایک زینہ جھیل کنارے جانے کیلئے نیچے اترتا تھا۔ ہمارے بالکل کچھ نیچے درختوں کے جھنڈ تلے گھاس کا ایک  چھوٹا سالان تھا ۔اس لان کے کچھ اورنیچے کی طرف ایک اورلان بھی دکھائی دیتا تھا۔سامنے موجود لان میں لگے درختوں کے باعث اس بلندی سے جھیل کا مکمل نظارہ ممکن نہ تھا۔ ہم پتھروں کے ان زینوں سے کچھ نیچے اتر کر پہلے والےلان میں جا پہنچے  جہاں درختوں کی چھائوں تلے کچھ میز کرسیاں رکھی تھیں۔ یہاں بھی جھیل کے مکمل نظارے اور ہمارے درمیان کچھ درخت حائل تھے ،چنانچہ ہم مزید نیچے اتر کر جھیل کے کنارے  بنے دوسرے لان میں پہنچ گئے۔ یہاں  بھی ایک دو کرسیاں رکھی تھیں  جبکہ جھیل کے کنارے کے ساتھ ساتھ پتھروں سے جوڑ کر بنائی گئی چندبنچیں   بھی موجود تھیں۔ ہمارے دائیں ، بائیں  اور سامنے کی طرف پھیلی مکمل بورت جھیل ہماری نظروں کے سامنے تھی۔ماحول پر سکوت طاری تھا ۔جھیل کا سیاہی مائل گہرا سبز پانی اتنا پرسکون تھا کہ گویا  خاموشی پانی کی صورت میں ڈھل کر اس جھیل میں بس گئی ہو۔ انتہائی پر سکون پانی کی سطح پر گردوپیش کے پہاڑوں کا عکس اتنا واضح تھا کہ جیسے اس خاموش جھیل کی سطح پر صاف شفاف آئینہ رکھا ہو۔ جھیل  اس لان سے کچھ ہی نشیب میں واقع تھی لیکن اس کے کنارے پر اگی لمبی لمبی خودرو گھاس اور جھاڑیوں کی موجودگی کے باعث ہم اس کے پانی کو نہیں چھو سکتے تھے۔لان  کے بائیں طرف اگی جھاڑیوں اورچھوٹے چھوٹے درختوں کے پرے دور پتھروں  سے تعمیر کردہ  چند گھر کھلونوں کی مانند دکھائی دیتے تھے جن کا عکس جھیل کے شفاف آئینے میں بہت دلکش نظر آتا تھا۔پتھروں کی سلیب سے بنی ان بنچوں پر بیٹھ کر ہم پہاڑوں کی گود میں لیٹی بورت جھیل کی گہری خاموشی کا ایک حصہ بن گئے۔نیلا آسمان ، سفید بادل ،پہاڑ اور ان  کےدرمیان چٹانوں  کے بیچ دور سے نظر آتے کسی سبزہ زار کی پتلی پتلی تہیں ، یہ سب حسین مناظر ہو بہو جھیل کے شفاف آئینے میں عکس بن کر اتر آتے تھے۔ہم جھیل کی سطح پر پھیلے اس عکس کی خوبصورتی میں کھوئے ہوئے تھے کہ ہوٹل کا بوڑھا مالک اوپر سے اتر کرہمارے پاس آ گیا۔ ہم نے اسے اپنے لئے چائے لانے کا کہہ دیا ۔ وہ دوبارہ  اوپر چلا گیا ۔ بورت جھیل اپنی سطح پر بچھےآئینے میں گردوپیش کے خوبصورت مناظر کے حسین عکس کھینچتی رہی ، ہم اس کے کھینچے گئے  خوبصورت عکسوں کو  کیمرےکے عدسے سےمحفوظ کرتے رہے۔ 











    "جھیل کے ساتھ بھابھی کی بہت اچھی تصویریں بنانا ۔۔۔ بہترین "
اوپر سے ہوٹل کے مالک کی آواز سنائی دی ۔ ہم دونوں مسکرا دئیے۔ میں سوچتا تھا جھیل اور ہم سفردونوں ہی خوب ہیں تو تصویریں تو اچھی آئیں گی ہی۔کچھ ہی دیر بعد پھر آواز آئی۔
"چائے کیا نیچے ہی لے کر آجائوں ؟"
" اوپر والے لان میں رکھ دینا" میں نے جواب دیا۔
ہم ابھی بورت جھیل کے حسن بلاخیز میں ہی گم تھے کہ پھر ایک آواز گونجی۔
"چائے میز پر رکھ دی ہے"
ہم چند زینے چڑھ کر اوپر والے لان میں پہنچے۔ صبح سویرے کریم آباد سے نکل کر یہاں تک پہنچنے کی ساری تکان تو جھیل کی پہلی جھلک نے ہی اتار دی تھی ۔ چائے کے مزیدار ،گرماگرم اور بھرپور کپ نے ہم میں پھر سے نئی توانائیاں بھر دیں۔ کچھ دیر یہاں وقت گزار کر ہم مزید زینے طے کر کے اوپر جاپہنچے۔ ہوٹل کی عمارت کے سامنے ایک کونے میں رکھے چھوٹی سی چٹان نما پتھر پرکسی جانور سے مشابہ ایک پتھر رکھا تھا۔ قدرتی طور پر اس کی تراش ایسی تھی کہ باقاعدہ چاروں ٹانگیں ، گردن اور چہرہ  بنا  ہواتھا۔ ہوٹل کے مالک نے بتایا کہ جھیل کے ساتھ ساتھ جانے والی یہ سڑک تقریباً 2کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پاسو گلیشئر کے ویو پوائنٹ تک جاتی ہے۔ سڑک کی حالت بھی زیادہ خراب نہیں جہاں ہم بآسانی  اپنی گاڑی میں بھی جا سکتے ہیں۔ میرا جنون ایک بار پھرانگڑائی لے کر بیدار ہو گیا۔ ہمسفر یہاں سے آگے مزید دو کلومیٹر طویل کچے اور پتھریلے راستے پر سفر کے حوالے سے کچھ متذبذب تھی ، لیکن میرے جذبے اور جنون کے آگے اس نے ہتھیار ڈال دئیے۔
"وہاں سے واپسی پر آپ کا کیا پروگرام ہے " ہوٹل کے بوڑھے مالک نے ہم سے پوچھا۔
میں نے اسے بتایا کہ ہم وہاں سے واپسی پر سیدھے سوست نکل جائینگے کیونکہ کل صبح ہمارا ارادہ خنجراب جانے کا ہے۔ "سوست میں رات کو رک کر کیا کریں گے، وہاں آپ لوگ بور ہوجائیں گے۔ بے شک چکر مکر لگا کر رات ادھر میرے پاس ہی آجانا ، صبح ادھر سے ہی خنجراب چلے جانا۔ جھیل پررات گزارنے کا مزا ہی اور ہے "
ہوٹل  کےمالک کی خواہش اپنی جگہ لیکن ہمارے لئے آگے سوست تک کی راہیں بالکل نئی اور انجان تھیں۔ہمارا ارادہ سوست سے یہاں واپسی کا قطعاً نہ تھا لیکن اس کی محبت بھری پیشکش کو یکدم انکار سے ٹھکرا دینے کی ہمت ہم میں بھی نہ تھی۔ 
"اگر سوست تک پہنچتے پہنچتے زیادہ دیر نہ ہوگئی اور ہمارادل وہاں نہ لگا تو ہم ضرور آپ کے پاس لوٹ آئیں گے"
جھیل کے دائیں کنارے کے ساتھ جاتی کچی سڑک پر ہم پاسو گلیشئر کے ویو پوائنٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔









    راستہ زیادہ خراب نہیں تھا۔ جھیل کے اختتام کے بعد تھوڑے سے فاصلے پر سڑک کے بائیں طرف پتھروں سے تعمیر کردہ بیس پچیس گھروں پرمشتمل شاہ پور کا چھوٹا سا گائوں اور اس سے ملحق چند کھیت نظر آئے۔ پتھر کے مکان تو تھے لیکن مکینوں کا کوئی پتہ نہ تھا۔ مزید کچھ فاصلہ طے کر نے کے بعد سڑک تھوڑا  بلند ہوتی ہوئی ایک مقام پر ختم ہو گئی۔ گاڑی  کا انجن بند کیا۔ انجن کی آواز تھمی تو ایسا لگا پورا منظر ہی تھم گیا ہو۔نیچے اترکر چاروں طرف نظریں گھمائیں ،نہ دور دور تک کوئی گھر دکھائی دیتا تھا، نہ آدم نہ آدم زاد۔ گہرے سکوت میں کہیں سے ہلکی ہلکی جلترنگ سنائی دیتی تھی۔ ہمارے قدم بےاختیار اس جلترنگ کی آواز کی طرف بڑھ گئے۔ سڑک سے ایک پتھریلی پگڈنڈی کچھ بلندی کی طرف جاتی تھی۔ یہ جلترنگ وہیں کہیں بجتی تھی۔ تھوڑا سا اوپر چڑھے تو ہمارے بائیں طرف ایک پہاڑی کی اوٹ سے شفاف پانی کا چھوٹا سا چشمہ پتھروں کے بیچ سر بکھیرتا بہتا چلا آتا تھا۔دائیں طرف ایک اور پگڈنڈی مزید کچھ بلندی پر واقع دوپہاڑیوں کے درمیان بنے جھروکے تک جاتی تھی۔ جھروکے کے اس پا ر کہیں دور سے پاسو کی پریاں اس طرف جھانکتی تھیں۔ میں سمجھ گیا کہ جس طرح ترشنگ میں پہاڑی کی بلندی پر چڑھ کر میں نے ترشنگ اور روپال کے درمیان ناناگا پربت سے آنے والے گلیشئر کا نظارہ کیا تھا، یقیناً  پاسو گلیشئر کو دیکھنے کیلئے ہمیں اس جھروکے  تک پہنچنا ہوگا۔




     دو پہاڑیوں کی چوٹیوں کے درمیان واقع اس جھروکے کی بلندی زیادہ نہ تھی اور نہ ہی راستہ زیادہ دشوار گزار تھا۔ ترشنگ کے ساتھ واقع پہاڑی زیادہ بلند تھی اور راہ بھی کچھ مشکل،ہمسفر نے اسی لئے وہاں پہاڑی پر نہ چڑھنے کافیصلہ کیا تھا۔ یہاں صورتحال مختلف تھی۔ ہم دونوں بآسانی اس جھروکے تک جاپہنچے۔ پاسو گلیشئر پتھروں اور برف کے ایک چوڑے دریا کی صورت دوسری جانب انتہائی گہرائی میں محو استراحت تھا۔ دوسری جانب کے نشیب کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ہم اس جھروکے پر واقع دو پہاڑی چوٹیوں کے بیچ کتنی بلندی پر کھڑے اس منظر سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ کچھ دیر تک اس خوبصورت اور ناقابل فراموش نظارے سے محظوظ ہونے کے بعد ہم نے واپسی کی راہ لی۔ 






    شاہ پور کی پتھریلی بستی میں پھر کوئی ذی روح ہمیں دکھائی نہ دیا۔ ہم ان  خاموش ،پر اسرار ،سنسان وادیوں  اور بورت جھیل کے ساتھ ساتھ گزرکربورت لیک ہوٹل کو پیچھے چھوڑتے ہوئے شاہراہ قراقرم کا رخ کرتے تھے۔ پہاڑ ی کی بلندی سے اترتے ہوئے حسینی گائوں کے زینہ بہ زینہ بنے ہوئے سرسبز کھیتوں کا نظارہ انتہائی دلکش تھا۔ پونے بارہ بجے کے قریب ہم شاہراہ قراقرم پر پہنچ چکے تھے۔ ہمارے بالکل سامنے بچھی  خوبصورت شاہراہ کے آگے دریائے ہنزہ کا انتہائی چوڑا پاٹ کہ جس میں دریا کا شفاف پانی ڈیلٹا بناتا ہو ابہتا تھا۔ دریا کے اس حسین منظر کے پرے پاسو کی مخروطی برف پوش چوٹیاں  اور انتہائی کشادہ وادی کے دونوں اطراف بلند پہاڑ ۔ اس جادو نگری میں حسینی گائوں سے نکل کر ہماری گاڑی پاسو کے قصبے کی طرف پھسلتی جاتی تھی۔




    گلگت سے وادی نگر اور ہنزہ کیلئے شمال کی طرف سفر کا آغاز کریں تو شاہراہ قراقرم چلت نگر کے مقام پر ایک پہاڑ کے گرد گول گھومتی ہوئی پہلے تھوڑا سا جنوب کی طرف مڑ کر مشرق کی طرف رواں دواں ہو جاتی ہے۔ سکندرآباد،جعفر آباد اور قاسم آباد سے گزر کر شاہراہ جب غلمت نگر کے پاس پہنچتی ہے تو اس مقام پر قراقرم کے پہاڑی سلسلوں کی معروف خوبصورت چوٹی راکا پوشی شاہراہ کے جنوب کی سمت دکھائی دیتی ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں سے وادی نگر، ہنزہ اور پھر بالائی ہنزہ گوجال میں بتورا گلیشئر تک  پھیلی ان بلندوبالا برف پوش چوٹیوں اور گلیشئروں کی سلطنت کا آغاز ہوتاہے۔سلطنت کے آغاز میں دریائے ہنزہ اور شاہراہ قراقرم کے جنوب میں وادی نگر کے قصبوں ،پسان اور مینا پن میں راکاپوشی  اور راکاپوشی کے مشرق میں دیران کی برف پوش چوٹیوں سے اترتے گلیشئرز راج کرتے ہیں۔پھر میناپن اور پسان کی طرف جانے والی سڑک کو پیچھے چھوڑتے ہوئے شاہراہ دریائے ہنزہ کو عبور کرکےشمال مشرق کی سمت رخ کرتی وادی ہنزہ میں علی آباد اور کریم آباد جا پہنچتی ہے۔ اس مقام پر قراقرم کی برف پوش چوٹیوں کی سلطنت مزید وسعت اختیار کرتی ہے۔یہاں سے دریائے ہنزہ کے جنوب میں راکاپوشی،دیران ،پھپارش،میار اور اسپنتک کی بلند چوٹیاں اور ان سے نکلتے ہوپر اور ہسپر گلیشئر بستے ہیں تو کریم آباد کے شمال میں ہنزہ،التر،شسپر ،پَسو سر اور بتورا سر کی فلک برفانی بوس چوٹیاں واقع ہیں۔کریم آباد کے جنوب میں واقع گینش کے قصبے سے عطاآباد جھیل اور جھیل کے پانی میں ڈوبے آئینہ آباد کے قصبے تک شاہراہ مشرق کی طرف ہی اپنا سفر جاری رکھتی ہے اور پھر آئینہ آباد کے مقام سے یہ دوبارہ شمال کا رخ کرتی ہوئی بالائی ہنزہ گوجال کی حدود میں داخل ہوتی ہے۔شمال کے اس سفر کے دوران کریم آباد کے شمال میں واقع التر،شسپر، پَسو سر اور بتورا سر کی چوٹیاں اب یکے بعد دیگرے شاہراہ کے مغربی سمت سرکتی چلی جاتی ہیں۔ ان عظیم برف پوش چوٹیوں سے اترتےگلمت اور غلکن گلیشئرز گلمت اور حسینی گائوں کے درمیان مغربی سمت سے نیچے اترتے ہیں۔بورت جھیل حسینی گائوں کے مغرب میں واقع ایک پہاڑ کے عقب میں پہاڑی درے کے بیچ اس طرح لیٹی ہے کہ اس کے جنوب میں غلکن اور شمال میں پاسوگلیشئر واقع ہیں ۔ ہم بورت جھیل سے شمال کی طرف جانے والی کچی سڑک پر سفر کرکے ہی پاسو گلیشئر کے ویو پوائنٹ تک گئے تھے۔اب بورت جھیل سے واپس شاہراہ قراقرم پہنچ کر ہم دوبارہ شمال کی سمت  پاسو کے قصبے کی طرف رواں دواں تھے۔ابھی تھوڑا سا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ شاہراہ پر ایک موڑ مڑتے ہی ہمیں دور سامنے نظرآتے پہاڑ پرلکھی "ویلکم ٹو  پاسو "کی بڑی سی عبارت نظر آئی۔یہاں سے سڑک تھوڑا سا مغرب کی طرف گھومی تو ایک شاندار منظرہمارے سامنے تھا، مغرب کی طرف دور پہاڑی درے کے درمیان  پاسو گلیشئر کی برف چمکتی تھی۔ہمارے بالکل سامنے شمال کی طرف دکھائی دیتے پہاڑ پر ویلکم ٹو  پاسو لکھا تھا ۔ شاہراہ مغرب کی سمت سے انگریزی کے حرف یو کی طرح گھومتی ہوئی اسی پہاڑ کے ساتھ ساتھ چلتی نظر آرہی تھی جس  پرہمیں خوش آمدید کہتی عبارت تحریر تھی۔
   ہم شمال کی طرف نظر آتے اس پہاڑ کے ساتھ ساتھ گھومتی اور بل کھاتی شاہراہ سے ہوتے  ہوئےپاسو کی وسیع وعریض وادی اور اس میں واقع پاسوکے قصبے کے درمیان سے گزرے۔پاسو کی مخروطی اور نوکیلی چوٹیوں والےخوبصورت پہاڑ دریائے گوجال کی دوسری طرف شمال کی جانب دکھائی دے رہے تھے جبکہ پاسوگلیشئر شاہراہ کے بائیں طرف مغرب میں واقع تھا ۔پاسوکے قصبے کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہم مزید کچھ فاصلہ طے کرکے مغرب کی سمت سے دکھائی دیتے معروف بتورا گلیشئر کے قدموں میں جا پہنچے۔ 57کلومیٹر طویل بتورا گلیشئر کو گلیشئروں کی اس سلطنت کے شہنشاہ کا لقب دینا بے جا نہ ہوگا۔ قطب شمالی اور جنوبی کے برف زاروں کے بڑے بڑے گلیشئروں کے بعد یہ دنیا  بھر میں پائے جانے والے گلیشئروں میں سب سے طویل اور عظیم گلیشئر ہے۔بتورا سر کے پہاڑ سے یہاں وادی گوجال میں شاہراہ قراقرم تک پھیلےہوئے  اس طویل گلیشئرکے اختتام پر شاہراہ قراقرم سے بالکل متصل اس گلیشئر سے پگھل کر آنے والے شفاف  اورنکھرے ہوئے فیروزی رنگت کےپانی کی چھوٹی سی حسین جھیل موجود تھی۔نگر کی وادی میں واقع راکاپوشی سے شروع ہونے والی گلیشئروں کی اس عظیم سلطنت  کا وادی گوجال میں بتورا گلیشئر کی اس چھوٹی سی جھیل کے پاس اختتام ہو جاتا ہے۔
    یہاں سے آگے کا سفر شروع  ہوا  تو گردوپیش کی وسیع وادیاں رفتہ رفتہ سکڑنا شروع ہوئیں ۔کشادہ پاٹ والادریائے گوجال بھی آہستہ آہستہ تنگ ہوکر ایک نالے کی صورت اختیا ر کرتا گیا ۔کچھ ہی دیر بعد ہم خیبر کے سرسبزقصبے سے گزرے۔ یہاں سے تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد شاہراہ ایک پل عبور کر کے دریا کے دائیں کنارے کی طرف چلی گئی۔غلپن اورجمال آباد سے گزر کر ہم آگے بڑھتے رہے۔ گرچا کے مقام کے بعد وادیاں ایک بار  پھر کشادہ ہوتی گئیں ۔ناظم آباد کا قصبہ آیا  اور اس کے آگے کچھ ہی فاصلہ طے کر کے ہم ایک بجے سے قبل ہی سوست کی کشادہ وادی تک پہنچ گئے۔ 






    سوست کے قصبے میں دور سے ہی ہمیں شاہراہ کے دائیں طرف ایک پٹرول پمپ دکھائی دیا۔ مزید آگے بڑھے توہمارے بائیں جانب بڑی بڑی چاردیواریوں کے بیچ بنے ہوٹل بھی نظر آئے اور پھر شاہراہ کے دونوں اطراف چھوٹے سے پررونق بازار کا آغاز ہو گیا۔ وادی ہنزہ میں علی آباد کے درمیان سے گزرنے کے بعد سے شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف پھیلے طویل سناٹے نے سوست کے اس بازار میں پہنچ کر دم توڑا۔بازار کی چہل پہل اور دونوں اطراف کھڑی گاڑیوں کی اچھی خاصی تعداد ،گویاجنگل میں منگل تھا۔دکانیں، چھوٹی چھوٹی مارکیٹیں،تندور،چائے خانے ،ورکشاپس اور ہوٹل ،سبھی کچھ موجود تھا۔سوست چین کی طرف جاتے ہوئے پاکستان کا آخری اور چین سے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد ہمارا پہلا قصبہ ہے۔شاہراہ کے بائیں طرف دریائے گوجال سوست کے بازار سے خاصی دوری پر بہتا ہےجبکہ شاہراہ کے دائیں جانب ایک پہاڑی پر موجودوسیع میدان میں واقع ڈرائی پورٹ کے لئے ایک  کشادہ سڑک گھومتی ہوئی اوپر چڑھتی چلی جاتی ہے۔پڑوسی ملک چین سے تجارتی لین دین کی غرض سے تعمیر کردہ اس ڈرائی پورٹ نے سوست کی اہمیت اور رونق کو مزید بڑھا دیا ہے۔گلگت اور بلتستان سمیت ملک بھر کے تجارت پیشہ افراد کی یہاں آمدورفت کے باعث ان کے قیام و طعام  کیلئے اس چھوٹے سے قصبے میں ہوٹل بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں ۔ پھر سیرو تفریح کی غرض سے پاک چین سرحد پر واقع درہ خنجراب تک کے طویل سفر پر نکلنے والے ہم جیسے سیاح اپنے سفر کے اس اختتامی مرحلے میں سوست میں ٹہر کر کچھ آرام بھی کر سکتے ہیں۔
بازار میں گاڑی کھڑی کر کے ہم نے بھی اپنے قیام و طعام  اور آرام کیلئے ایک مناسب ہوٹل کا پتہ کیا۔ قصبے کے مقامی افراد جس سرسری انداز سے ہمیں دیکھتے تھے اس سے اندازہ ہوتاتھا کہ ان کی نظریں سوست کے بازار میں اجنبی سیاحوں کو دیکھنے کی عادی  ہیں۔سو ہم بھی بازار میں ٹہلتے ہوئے زیادہ سکون اور اطمینان محسوس کرتے تھے۔ہوٹل بازار کے ساتھ ہی کچھ فاصلے  پر واقع تھا۔گاڑی کی پارکنگ کی سہولت بھی موجود تھی۔ سوست کے چھوٹے سے قصبے کے لحاظ سے ہوٹل بہت غنیمت اور کمرہ بھی بہترین تھا۔ صبح سویرے ناشتہ کر لینے کی وجہ سے بھوک زوروں پرتھی  چنانچہ کمرے میں پہنچنے کے ساتھ ہی  سب سے پہلے ہم نے کھانا منگوایا۔ تقریباً دو ڈھائی گھنٹے کے آرام ،کھانے اور تازہ دم ہونے کے بعد ہم نے بازار کا رخ کیا۔ ہمارے موبائل فونز کی سمیں یہاں کار آمد نہ تھیں ۔بچوں سے رابطے کیلئے بازار سے اس علاقے میں چلنے والے نیٹ ورک کی  ایک سم خریدی۔ کچھ دیر تک بازار کی مارکیٹوں اور دکانوں کا جائزہ لیا۔ عطا آباد جھیل بننے کے بعد سےمال بردار ٹرکوں اور ٹریلروں کی گلگت اور ملک کے دیگر شہروں تک براہ راست رسائی نہ ہونے سے چین اور پاکستان کے درمیان تجارتی سرگرمیاں بھی خاصی حد تک ماند پڑ چکی ہیں ۔ سوست کے بازار کی دکانیں  اور مارکیٹیں  بھی اس کساد بازاری کا شکار نظر آتی تھیں۔ مارکیٹوں میں موجود دکاندار بھی زیادہ تر آرام کرتے یا ایک دوسرے سے گپیں ہانکتے  دکھائی دئیے۔بازار سے نکلے تو گاڑی میں ڈرائی پورٹ کیلئے بلندی کی طرف جاتی سڑک پر روانہ ہوگئے۔کچھ ہی بلندی پر واقع ایک بڑے میدان میں بنائی گئی ڈرائی پورٹ کے احاطے میں داخلے کیلئے وہاں موجود سرکاری اہلکار سے اجازت لینے کے بعد   اس کی معیت میں ڈرائی پورٹ کی سیر کی۔ چین سے آئے ہوئے چند بڑے بڑے ٹریلر اندر موجود تھے۔ ایک طرف مزدور گوداموں سے سامان نکال کر پاکستانی ٹرکوں پر لاد رہے تھے۔ شاہراہ کی بندش کا اثر یہاں بھی جھلکتا تھا۔ سامان تجارت کی نقل وحمل کا کام برائے نام ہی  ہورہاتھا۔میں سوست کے اس وسیع و عریض اور خوبصورت ڈرائی پورٹ کے پختہ میدان میں کھڑا سوچتا تھا کہ عطا آباد  جھیل کے ساتھ ساتھ موجود بلند وبالا پہاڑوں کا سینہ چیر کر ان کے درمیان طویل سرنگیں بنانے اورعطاآباد اور  ششکٹ کے درمیان شاہراہ قراقرم کی نئے سرے سے تعمیر کا کام زور شور سے جاری ہے، اگلے سال یعنی 2015 میں اس کی تعمیر مکمل ہو جانے اور پھر مستقبل میں پاکستان کی بندرگاہ گوادر تک بنائی جانے والی اقتصادی راہداری کے مجوزہ منصوبےکی تکمیل کے بعد دونوں ملکوں کے مابین ماند پڑتی یہ تجارتی سرگرمیاں ایک بار پھر تیزی اختیار کریں گی۔سوست کے اس چھوٹے سے قصبے  کی دم توڑتی رونق اور مقامی دکانداروں کے چہروں کی بجھتی ہوئی تازگی دوبارہ بحال ہوگی۔بازار مزید طوالت اختیار کرے گا،نئی مارکیٹیں اور ہوٹل تعمیر ہونگے، تاجروں کے ساتھ ساتھ سیاحوں کی آمد ورفت بڑھے گی ،سوست ترقی کرے گا،علاقے کی خوشحالی میں اضافہ ہو گا تو ایک دن  سوست چھوٹے سے قصبے کے بجائے شہر کا روپ دھارلےگا۔کچھ وقت یہاں گزار کر ہم یہاں سے نکلے ، میں نے ڈرائی پورٹ کی سیر کرانے والے سرکاری اہلکار کا شکریہ ادا کیا۔ بلندی سے بازار کی طرف اترتے ہوئے سوست کی پوری آبادی کے حسین نظارے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے  ہم کچھ  ہی دیر میں دوبارہ اپنے ہوٹل واپس آگئے۔







    شام کے سائے گہرے ہوئے تو وادی گوجال کے چھوٹے سے قصبے سوست میں رات بہت تیزی سے اتر آئی۔ رات کا کھانا اپنے ہوٹل ہی  میں کھانے کےبعد ہم ایک بار پھر چہل قدمی کیلئے بازار میں نکل آئے۔کچھ دیر کیلئےسڑک کنارے موجودایک چھوٹے سے چائے خانے میں آبیٹھے۔رات کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بازار کی رونق کم ہوتی جاتی تھی۔ چائے پی کر نکلے تو پورا بازار بند ہو چکا تھا۔ فضا میں خنکی بڑھتی تھی ۔ آسمان پر چاند چمکتا تھا جس کی روشنی میں وادی کے اطراف پہاڑوں کے ہیولے اور شاہراہ قراقرم کا گہرا سناٹا دور دور تک دکھائی دیتا تھا۔ بعض دکانوں کے سامنے لگےاکا دکا بلب اور ٹیوب لائیٹس روشن تھیں ۔سوست کے سنسان بازار کے درمیان سے گزرتی شاہراہ قراقرم پر بکھری ٹھنڈی چاندنی اورکہیں کہیں دکانوں کے باہر جلتی بتیوں کی دھیمی روشنی میں ٹہلتےہوئے ہم اپنے ہوٹل کا رخ کرتے تھے۔
۔۔۔ چائے خانے کی دیوار پر لگی پینٹنگ ۔۔۔۔   

   پندہرواں  دن  ۔۔

سکوت اور سکون  ۔۔۔ برف کی دنیا ۔۔۔ خنجراب

    ناشتہ اسی چائے خانے میں کیا جہاں رات کو کچھ وقت گزارا تھا۔ساڑھے آٹھ بجے صبح ہم سست سے خنجراب کیلئے روانہ ہو گئے۔سوست کے بازار سے نکل کر شمال کا رخ کریں تو شاہراہ کے بائیں طرف کچھ دوری پرشمال سے آنے والا دریائے خنجراب مغرب کی سمت سے آنے والے دریائے چپورسن سے مل کر دریائے گوجال یا ہنزہ میں بدل جاتا ہے۔سوست کی وادی سے نکل کر پہاڑی درے پھر تنگ ہوتے جاتے ہیں۔قصبے کی حدودختم ہونے کے تقریباًایک کلومیٹر بعد شاہراہ دریائے خنجراب کو عبور کر کے اس کے بائیں طرف چلی جاتی ہے جبکہ پل عبور کرنے کے فوراً بعدایک سڑک وادی چپورسن کےلئےالٹے ہاتھ کی طرف مڑ جاتی ہے۔خنجراب کیلئےہمارا سفر شمال کی سمت جاری تھا۔صبح کا وقت تھا ،تنگ پہاڑی دروں میں چلنے والی ہواخاصی سرد تھی۔جہاں جہاں تک سامنے نگاہ جاتی یا عقبی منظر دکھانے والے شیشے کو دیکھتے ،سڑک بالکل سنسان نظر آتی تھی۔چند کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک اور پتھریلی سڑک بائیں طرف موجود پہاڑ کے ساتھ لپٹی مسگر کی طرف جاتی دکھائی دی۔
    بعض مقامات پرہم شاہراہ کو لینڈ سلائیڈنگ سے محفوظ رکھنے کیلئے بنائی گئی سرنگوں میں سے بھی  گزرے۔سڑک ساتھ بہتے دریائے خنجراب سے زیادہ بلندی اختیار نہیں کرتی تھی بلکہ دریا کے ساتھ ساتھ ہی گھومتی اور بل کھاتی ایک درے سے دوسرے میں داخل ہوجاتی تھی۔نہ زیادہ پیچیدہ موڑ تھے اور نہ ہی خطرناک چڑھائیاں۔تقریباً 30 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر نے کے بعدہم خنجراب نیشنل پارک کی حدود میں داخل ہوگئے۔سوست سے نکلنے کے بعدپہلی بار بنجر اور چٹیل پہاڑوں کے درمیان ایک نسبتاً   کشادہ وادی میں شاہراہ کے اطراف درختوں کی صورت کچھ سبز رنگ بکھرا نظر آیا۔یہاں موجود یکے بعد دیگرے دو چیک پوسٹوں پر اپنے کوائف کے اندراج کے بعد ہم آگے روانہ ہوئے۔








      ان چیک پوسٹوں کے بعدتقریباً سترہ اٹھارہ کلومیٹر کا مزید فاصلہ طے کر کے بڑا کھن نامی نالے کے پل پر پہنچیں تو حسن ابدال سے یہاں تک پہنچنے والی طویل شاہراہ قراقرم  کےشمال کی طرف سفر کا اختتام ہو جاتا ہے۔ شاہراہ یہاں سے جنوب مشرق کا رخ کرتی ہوئی درہ خنجراب کی طرف بڑھتی ہے جو کہ اس مقام سے تقریباً 46 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ خنجراب تک پہنچنے کیلئے  شاہراہ پہلے زیادہ تر جنوب مشرق کی طرف اور پھر تھوڑا سا شمال مشرق کی طرف بڑھ کر خنجراب پہنچتی ہے۔شاہراہ کے دائیں طرف بہتے دریا کے کنارے پر پڑی سفید برف ہمیں پہلی بار شمال کی طرف اپنے سفر کی اس انتہا  کے قریب ہی نظر آئی۔



   شاندار شاہراہ قراقرم پر صرف ہماری گاڑی درہ خنجراب کی جانب رواں دواں تھی۔ایک جگہ یہ خوبصورت شاہراہ سیدھی آگے بڑھتی دکھائی دی تو دور سڑک کی سیدھ میں ہمیں خنجراب کی برف پوش چوٹیاں نظر آئیں۔بجلی کی طرح ایک خیال ذہن میں کوندا کہ یہاں تک کے طویل سفر کے دوران ان سفید برفوں نے درہ بابوسر کی راہ کو تاحال مسدود کر رکھا تھا،استور پہنچے تو راما اور شیوسر جھیل تک بھی رسائی ممکن نہ تھی،اسکردو میں قیام کے دوران ان برفوں نے ہمیں دیوسائی کے میدان تک بھی پہنچنے نہ دیاتھا۔کہیں ایسا نہ ہو ہم خنجراب کے قریب پہنچیں تو ایک بار پھر یہ ہمارا راستہ روکے کھڑی ہوں۔دوسری طرف ہماری رہنمائی کرتی صاف ستھری ،کشادہ اورعظیم شاہراہ قراقرم دل کو اطمینان دلاتی تھی کہ تمہیں منزل تک پہنچانا میرا کام ہے۔سوست میں کسی شخص  نے اور نہ ہی راستے میں آنے والی چیک پوسٹس کے عملے میں سے کسی نے بھی خنجراب کی راہ میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ یا ممکنہ مشکل کا ہم سے ذکر کیا تھا ، سو جس تیزی سے یہ خیال ذہن میں کوندا تھا اسی برق رفتاری سے رفع بھی ہو گیا۔

   ہمارے دائیں طرف بہتا دریائے خنجراب اب دریا کے بجائے ایک اچھلتے کودتے نالے کی صورت اختیار کرتا جاتا تھا۔کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد شاہراہ قراقرم اور خنجراب کی بلندیوں سے اترتے اس نالے کا ساتھ ختم ہو گیا۔سڑک بائیں طرف مڑ کر پہاڑ کے ساتھ گھومتی ہوئی بلند ی کا رخ کرتی نظر آئی۔ہم شاہراہ سے بچھڑنے والے اس شفاف نالے کو الوداع کہنے کیلئے کچھ دیر کیلئے اس مقام پر رکے اور پھر بلندی کی طرف جاتی شاہراہ قراقرم پر روانہ ہو گئے۔

    خنجراب ابھی  یہاں سے تقریباً 17 کلومیٹر کی دوری پر تھا۔درہ خنجراب کی اصل بلندیوں کا آغاز اسی مقام سے ہوتا تھا۔شاہراہ  درے میں گھومتی اور موڑ مڑتی اوپر چڑھتی تھی ، ہم بلند یوں کی سمت رواں دواں تھے  اور برفانی چوٹیوں سے سفید برفیں نیچے اتر کر شاہراہ کے اطراف بکھری ہمارا استقبال کرتی تھیں۔ہوائیں سرد سے سرد تر ہوتی جاتی تھیں۔چٹیل پہاڑوں اور وادیوں سے نکل کر ہم پر سکوت اور پرسکون برف کی دنیا کی طرف بڑھتے جاتے تھے۔برف پوش چوٹیوں سے یخ پانی کے بجائےچاندی کی طرح چمکتے دودھیا گلیشئرز نیچے کی طرف اترتے دکھائی دیتے تھے۔








     جوں جوں ہم بلندی کی طرف بڑھتے تھے برفیلی وادیاں وسیع ہوتی جاتی تھیں۔دور دور تک دکھائی دیتے وسیع و عریض میدانوں میں چمکتی برف بڑی بڑی صاف ستھری چاندنیوں کی طرح بچھی دکھائی دیتی تھی۔خنجراب سے کچھ اور قریب ہوئے توبرف پوش پہاڑوں کے درمیان واقع کشادہ وادی کے درمیان سے گزرتے ایک برفانی نالے کے پل کے اطراف بکھرے دلکش مناظر نے ہمیں رکنے پر مجبور کر دیا۔چاروں طرف پہاڑوں کی حسین برفانی چوٹیاں ، بائیں طرف دورنظر آتے پہاڑوں کی  بلندیوں سے شاہراہ تک پھیلا ہوا کھلا میدان  وسط سے گزرتی شاہراہ قراقرم تک بچھا تھا جس کے بیچوں بیچ یخ پانی کے بجائے چاندی کی طرح چمکتی برف بہتی تھی۔نالے کے پل کے پاس کھڑے ہم اس گلیشائی ندی کو دیکھتے تھے۔









     کہیں کہیں سے برف کی یہ  دبیز تہہ ٹوٹی دکھائی دیتی تو شیشے جیسی برف کی  شفاف پرتوں کے ساتھ ساتھ ان برفوں سے پگھل کر بہتا پانی بھی نالے میں  نظر آتا۔یہ برف کی وادی تھی جہاں صرف اسی کا راج تھا۔کشادہ میدان کے درمیان گھومتی  پھرتی شاہراہ قراقرم کا حسن بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ قدرت کے ان مبہوت کر دینے والے نظاروں میں گم ہماری زبان و دل سبحان اللہ کا ورد کرتے تھے تو ساتھ ہی ہم داد دیتے تھے ان عظیم معماروں کو کہ جنہوں نے اتنی بلندی پر ان برفانی وادیوں  میں  ایسی شاندار شاہراہ کی تعمیر کا کارنامہ انجام دیا۔ 






    برف کی اس سحر انگیز وادی سے نکلے تو تقریباً ایک کلومیٹر کافاصلہ طے کرنے کے بعد ایک اور وسیع وعریض میدان ہمارے سامنے تھا۔ دور  تک نظر آتی شاہراہ آخر میں بائیں طرف مڑتی دکھائی دی جہاں ہمارے سفر کی آخری حد باب خنجراب نظر آرہا تھا۔11بجے سے کچھ پہلے ہی ہم خنجراب سیکورٹی فورس کی چیک پوسٹ تک پہنچ گئے۔ شاہراہ پر ایک بیریئر لگا تھاجس کے آگے گاڑی لے جانے کی اجازت نہ تھی۔ بیریئر کے آگے جو منظر دکھائی دیا اس کو دیکھ کر لگتا تھا کہ شاید ہم انسانوں کی دنیا یہاں اختتام کو پہنچی۔ بیریئر سے باب خنجراب تک شاہراہ کے اطراف موجود میدان اور برف زاروں میں بہت سےیاک مٹر گشت کررہے تھے۔مختلف رنگوں کے چھوٹے بڑے بے شمار یاک کھلے میدانوں میں خودرو  جھاڑیوں کو چرتے  تو کہیں ان برف زاروں کی نشیبی جگہوں پر موجود گڑھوں میں جمع پگھلی ہوئی برف پیتے تھے۔ہمیں اپنی گاڑی کے علاوہ یہاں ایک اور گاڑی اور بائیک بھی نظر آئی۔قدرت کے ان حسین نظاروں کے متوالے چند اورسیاح بھی یہاں موجود تھے۔باب خنجراب کی دوسری طرف کچھ فاصلے پر چین کی سرحدی چوکی بھی دکھائی دے رہی تھی۔چاروں طرف حسین اور دلکش برف پوش پہاڑ اور ان کے درمیان انتہائی کشادہ برف زار اور میدان۔









    گاڑی سے نکل کر شاہراہ پر باب خنجراب کی طرف روانہ ہوئے تو ایسا محسوس ہوا کہ ڈیپ فریزر میں ٹہلنے نکلے ہوں۔ایک طرف سردی رگ وپے میں سرایت کرتی تھی تو دوسری جانب خنجراب تک پہنچنے کی خوشی اور برف کی دنیا  کے حسن وجمال کا سحر خون گرماتا تھا۔یاکو ں کا جم غفیر ہم کو اپنے قریب دیکھ کر شاہراہ سے کچھ دور کھسکتا جاتا تھا۔ہم باب خنجراب سے گزرتے ہوئے چین کی سرحدی چوکی تک جا پہنچے۔پاکستان کی حدود کے اختتام پر ہماری تاروں کی باڑھ اس چوکی کے ساتھ سے دور تک جاتی دکھائی دیتی تھی۔ درمیان میں چند گزوں کی دوری کے بعد چین کی سرحدی حدود کے آہنی جنگلے نصب تھے ۔ہم ان دونوں سرحدوں کے درمیانی مقام تک گئے۔











    میں سوچتا تھا کاش یہ سرحدیں اور باڑھیں ختم ہو جائیں ۔اللہ کی زمین اور اس پر پھیلے قدرت کے یہ دلکش اور حسین مناظر جہاں جہاں جائیں ہم وہاں جانے میں مکمل آزاد ہوں۔دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے۔انسان بھی چرند و پرند کی طرح پرامن جاندار بن جائیں کہ وہ کسی سرحد کے محتاج نہیں ہوتے۔مناظر کے حسن نے خون گرمایا تھا لیکن تاروں کی باڑھ اور آہنی جنگلے  کے پاس کھڑے ہو کر انسانوں کی حرص و ہوس،دہشت ،درندگی اور قتل و غارت گری کا تصور پرمژدہ کرتا تھا۔رگوں میں دوڑتا گرم لہو منجمد سا ہوتا محسوس ہوا۔ قدرت کے ان وسیع وعریض میدانوں اور وادیوں کے بیچ آگے جانے والی راہ مسدود تھی۔ ایک قید کا احساس تھا جو ہمارےشوق سیاحت کے پر کترتا تھا۔ہم اڑان بھر نے  کا عزم اور حوصلہ رکھتے ہوئے بھی مجبور تھے۔ اس مجبوری نے گرم لہو کو ٹھنڈی سانسوں میں تبدیل کیا تو ہم نے واپس پلٹنے کا فیصلہ کیا۔میں شاہراہ کے اطراف گھومتے پھرتے ہشاش بشاش یاکوں کی خوش نصیبی پر رشک کرتا تھا کہ وہ حرص و ہوس ،دہشت ،درندگی اور قتل و غارت گری جیسی وحشتوں سے بچے ہوئے تھے۔قدرت کے یہ حسین نظارے ان یاکوں کا خون سدا گرمائے رکھتے تھے۔برفزاروں کی یخ فضائوں میں یہ گرم سانسیں لیتے تھے،سنسناتی سرد ہوائوں میں برف زاروں کے جوہڑوں میں اتر کرپگھلی ہوئی برف  پیتے تھے جبکہ ہم اپنے آپ کو سکیڑتے ،سمیٹتے،کانپتے  اورٹھٹھرتے اپنی گاڑی کی طرف قدم بڑھاتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ خنجراب کا اصل نام خن ژراف تھا جو رفتہ رفتہ بدل کر خنجراب ہو گیا۔مقامی زبان میں خن ژراف کا مطلب خون کی گلیشیائی ندی تھا ،کسی کاہن نے اس علاقے کی بابت یہ پیشگوئی کی تھی اس وادی میں ایسی خونریز جنگ لڑی جائیگی کہ بہنے والا خون  گھڑسواروں کے رکابوں تک  پہنچتا ہو گا۔گاڑی کی طرف قدم بڑھاتا میں سوچتا تھا کہ اگر واقعی خدا نخواستہ ایسا ہوا بھی تواس صاف ستھری چمکیلی سفید برف کا لبادہ اوڑھے پاکیزہ وادی میں  کہ جہاں معصوم یاکوں کے غول کے غول چہل قدمی کرتے پھرتے ہوں ، اتنی وحشیانہ خون ریزی اور قتل و غارت گری کرنے والے یہ معصوم یاک تو ہر گز نہیں ہو نگے۔بلکہ حرص و ہوس ، جنگ ،قتل و غارت گری  اور خون کی ہولی کھیلنے والے یہ دو ٹنگے انسان ہی ہونگےکہ جن کو میرے رب نے احسن تقویم پیدا کیا لیکن وہ اسفل سافلین کے پست ترین درجے تک پہنچ گیا۔گاڑی میں بیٹھ کر واپسی کا سفر شروع کیا تو دل سے یہی دعا نکلتی تھی کہ اے میرے رب تیری اس حسین  اور بلند وادی کا نام تاقیامت خنجراب ہی رہے اور یہ کبھی خن ژراف نہ بن سکے۔ 
















   دوپہر کا وقت تھا جب ہم خنجراب سے واپس روانہ ہوئے۔یاکوں کے غول کو پیچھے چھوڑتے ہوئے کچھ آگے بڑھے تو شاہراہ کے بائیں طرف پھیلے پتھریلے میدان میں چند مارموٹ دکھائی دئیے جو دور سے اپنے مخصوص انداز میں دو ٹانگوں پر کھڑے ہمیں تکتے  ،جوں ہی ہماری گاڑی ان کے قریب تر ہوتی تیزی سے دوڑتے ہوئے پتھروں کی اوٹ یا کسی کھوہ میں غائب ہوجاتے۔بسیار کوشش کے باوجود ہمسفر بمشکل ایک مارموٹ کی  دھندلی سی تصویر لینے میں کامیاب ہوپائی۔


    خنجراب کے وسیع برف زاروں سے نکلنے کے بعدبلندی سے گھوم کر اترتی شاہراہ کا پہلا موڑ ہی مڑا تھا کہ گاڑی کے ونڈ اسکرین پر برف کے سفید موتی سے گرتے اور بکھرتے دکھائی دئیے۔بےاختیار سامنے آسمان پر نگاہ ڈالی تو صرف نیلے آسمان پر تیرتے بادلوں کے چند آوارہ ٹکڑے ہی دکھائی دئیے ۔سڑک کنارے گاڑی کھڑی کرکے نیچے اترےتو گاڑی کے عقب میں جس موڑ سے ہم مڑے تھے پورا آسمان سفید بادلوں سے ڈھکا تھا، بادلوں سے ایک گہری دھند خنجراب کے برف زاروں پر اترتی تھی اوربلندوبالا برف پوش چوٹیوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی تھی۔اس سمت سے چلنے والی تیزبرفانی ہوااپنے ساتھ یہ ننھے منے ہلکے پھلکے سفید موتی اپنے ساتھ لاتی تھی جو ہمارے چہروں اور اور کپڑوں سے ٹکراتے تھے۔کچھ دیر موتیوں کی اس پھوار سے لطف اٹھانے کے بعد ہم آگے روانہ ہوئے لیکن ابھی برائے نام ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ برف کے ان موتیوں نے سفید پھولوں کی نرم وملائم پنکھڑیوں کا روپ دھار لیا۔ہم ایک بار پھر رکے۔ہمیں ایسا  لگاکہ خنجراب کے  ان بلند برفیلے میدانوں نے ہمیں الوداع کہنے کا یہ حسین انداز اپنایا ہو   اوربرف کے سفید پھولوں کی پتیاں ہم پر نچھاور کرتے ہوں۔میں اب سے 22سال قبل جاپان میں اپنے قیام کے دوران برفیلی ہوائوں کی ان ادائوں سے محظوظ ہوچکا تھا ،ہمسفر کیلئے یہ پہلا اتفاق تھا اس لئے اس کی خوشی دوبالا تھی۔ماہ جون کی اس دوپہر خنجراب کے قریب شاہراہ قراقرم پر برفباری کا یہ منظر بلاشبہ انتہائی دلکش اور ناقابل فراموش تھا۔برف باری کے ساتھ ساتھ شاہراہ پر چلنے والی تیز سرد ہوا نے ہمیں جلد ہی دوبارہ گاڑی میں بیٹھنے پر مجبور کردیا ۔بلندیوں سے اتار کا سلسلہ شروع ہوا تو برف باری کا یہ سلسلہ بھی تھم گیا۔






    2بجے سے قبل ہی ہم سست پہنچ گئے۔یہاں سے خنجراب روانہ ہوتے وقت ہمارا ارادہ واپس آکر یہیں رات بسر کرنے کا تھا۔ اندازہ  نہ تھا کہ ہم 2بجے سے قبل ہی سست واپس پہنچ جائینگے۔شاہراہ قراقرم پر بازار میں اس وقت خاصی رونق اور چہل پہل تھی۔کچھ دیر بازار میں گھومنے کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ہوٹل   کوچھوڑ کر اپناسامان گاڑی میں منتقل کریں،بازار میں ہی کسی ریستوراں میں دوپہر کا کھانا کھائیں اور ہنزہ کی راہ لیں۔ہوٹل کے کمرے میں کچھ دیر آرام کے بعد تازہ دم ہوئے۔گاڑی میں سامان رکھ کر بازار کارخ کیا،کھانے اور چائے سے فارغ ہوئے ۔ سہ پہر کے سواتین بجے تھےجب ہم سست کے بارونق بازار کو الوداع کہہ کر رخصت ہوتے تھے۔









    موسم صاف اور خوشگوار،شاندار شاہراہ قراقرم، چڑھائیوں کے بجائے رفتہ رفتہ ڈھلوانوں کواترتی راہ اور سب سے بڑھ کر انتہائی محفوظ سفر۔ہم تیزرفتاری سے سفر کرتے ہوئے گھنٹہ بھر میں ہی پاسو سے گزرکر آگے بڑھتے جاتے تھے۔کچھ ہی دیر میں  دور سے دکھائی دیتےسر سبز کھیت اور ان کے درمیان سر اٹھائےکھڑےہرے بھرے درختوں نے خوبصورت حسینی گائوں کی آمد کا پتہ دیا۔شاہراہ کے بائیں جانب  حسینی گائوں کے ساتھ ہی نشیب میں بہتے دریائے گوجال کے چوڑے پاٹ کا نظارہ بہت دلکش تھا۔









   حسینی گائوں کوپیچھے چھوڑنے کے فوراً بعد شاہراہ نےگلمت کی طرف جانے کیلئے کچھ نشیب کا رخ کیا۔ اس مقام سے گلمت کے قصبے  اور پھراس سے آگے عطاآباد جھیل تک شاہراہ انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ہم کہیں پہاڑ کی بلندی سے اترتے کسی نالے کے درمیان سے جاتی مشکل پتھریلی راہ سے گزرتے تو کہیں دریا کے قریب تر ہوتے ہوئے مزید نشیب کی طرف جاتے اونچے نیچے کچے اور ریتیلےراستوں پر سفر کرتے۔چند کلومیٹر کا یہ فاصلہ طے کرنے میں ہمیں نصف گھنٹے سے زیادہ وقت لگ گیا۔گلمت کے درمیان سے نکل کر تقریباً 5بجے ہم عطا آباد  جھیل کے قریب پہنچ گئے۔خیال تھا کہ اگر ساڑھے 5 بجے تک بھی کشتی پر سوار ہوگئے تو مغرب سے پہلے پہلے دوسرے کنارے پر پہنچ جائینگے اور پھر اندھیراگہرا ہونے سے پہلے ہی دوسری طرف کا کچا اور کٹھن چڑھائی والاراستہ طے کرکے دوبارہ شاہراہ قراقرم تک پہنچ جائینگے۔لیکن ہمیں دور جھیل کنارے نظر آتی کشتیوں کی طرف جانے والی راہگزرسے پہلے ہی رکنا پڑا۔چینی انجینئرزبائیں طرف دریا اور دائیں طرف  کےبلند پہاڑ کے  بیچ  تنگ راہ پر مٹی اور پتھروں کی بھرائی کرکے اسے ہموار اور مضبوط کرنے کے کام میں مصروف تھے۔چونکہ یہ تنگ راستہ دریا کی سطح کے بالکل ساتھ ساتھ جھیل تک جاتا تھا اس لئے دریا کے پانی کا تیزبہائو مسلسل اس کا کٹائو  کرتا رہتا تھا۔ہماری گاڑی کے ساتھ ہی چند ٹرک اور گاڑیاں  بھی جھیل کنارے جانےکے انتظار میں کھڑی تھیں۔ ایک مقامی شخص نے بتایا کہ تقریباً دس پندرہ منٹ بعد راستہ کھل جائیگا۔جھیل کنارے تک پہنچانے والی اس  راہگزر کی مرمت اور اس مقام پر رک کر چینی انجینئرز کی اپنے کام سے فراغت تک کا انتظار غالباًجھیل پار جانے والوں کا روز کا معمول تھا اور یقیناً اسی غرض سے دائیں طرف موجود پہاڑ کے ساتھ ہی مقامی دکانداروں نے انتظار کرنے والے مسافروں اور ٹرک ڈرائیوروں کے کھانےپینے  اور چائے  کیلئے لکڑی کے کچھ کیبن بنا رکھے تھے۔آج ہم بھی اس مقام پر کھڑے جھیل کنارے جانے والی رہگزر کے کھلنے کا انتظار کرتے تھے اس لئے گاڑی سے اتر کر ایک چھوٹے سے کیبن کے ساتھ رکھی بنچ پر جا بیٹھے۔گرماگرم چائے کے ایک کپ نے انتظار کی کوفت کو کچھ کم  کیا۔ 



    سورج تیزی سےڈھلتا تھا ، آدھا گھنٹہ گزرنے کے باوجودراستے کی مرمت کا کام ابھی جاری تھا۔گھڑی ساڑھے 5  بجا چکی تھی ،میں  نہایت فکر مندی سے دور سے دکھائی دیتے اس ڈمپر کو دیکھتا تھا کہ جو اس راہگزر کے  عین درمیان مٹی کا ڈھیر الٹ رہاتھا۔غالباً مٹی ڈالنے والا یہ آخری ڈمپر تھا کیونکہ اب اس راستے کی بھرائی کا کام ختم ہوتا دکھائی دیتا تھا لیکن ابھی اس مٹی کے اونچے ڈھیر کو ہموار کرنے کامرحلہ باقی تھا۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ راستہ کھلنے میں ابھی کم ازکم آدھا گھنٹہ  مزیدلگ جائے گا،جھیل کے دوسری طرف سے آنے والی گاڑیاں اور  کنارے پر موجودکشتیوں کے پاس  موجودسامان اتار کر واپسی کے منتظر خالی ٹرک پہلے ادھر کا رخ کرینگے تاکہ ہماری گاڑیوں کیلئے وہاں جگہ  بن سکے اور ہم کشتیوں تک پہنچ پائیں۔گو کہ ابھی عصر کا وقت شروع ہی ہوا تھا لیکن سورج بلند پہاڑوں کی اوٹ میں چھپ چکا تھا ۔اب یہ بات یقینی تھی کہ ہم بمشکل مغرب تک ہی اپنی گاڑی سمیت کسی کشتی میں سوار ہوپائینگے ۔دوسری طرف پہنچتے پہنچتے تاریکی اتنی بڑھ جائیگی کہ وہاں سے خاصی بلندی پر واقع شاہراہ تک چڑھنے والی کٹھن کچی راہ پر ہم کسی مشکل میں بھی پڑ سکتے تھے۔ان تمام خدشات کے پیش نظرمیں نے اس مقام سے گلمت کے قصبے کی طرف واپس پلٹناہی بہتر جانا۔


۔۔۔جس مقام پر ہم جھیل کنارے جانے کیلئے انتظار کرتے تھے، دریا اور دریا کے عقب میں دکھائی دیتا ششکٹ کا قصبہ چھائوں میں ۔۔ پہاڑوں پر دھوپ ۔۔۔

    پونے 6 بجے کے قریب ہم گلمت کے درمیان سے گزرتی شاہراہ کے ساتھ ہی واقع ایک ہوٹل تک پہنچ گئے۔ہوٹل بھی بہتر تھا اور کائونٹر  پر موجود منیجر بھی انتہائی خوش اخلاق۔لائونج کی دیواروں پر آویزاں چند تصویروں نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔تصویریں اسی ہوٹل کے بیرونی گیٹ اور لان کی تھیں ۔ایک تصویر میں شاہراہ سے متصل جس بیرونی گیٹ سے ہم اندر داخل ہوئے تھے وہ پانی میں ڈوبا ہواتھا ،ایک اور تصویر میں پانی ہوٹل کی عمارت کی دیواروں کو چھورہاتھا جبکہ ایک تصویر میں جن زینوں سے چڑھ کر اندرونی عمارت میں داخل ہوا جاتا ہے  اس کے ساتھ ہی ایک کشتی لگی کھڑی تھی۔میں نے منیجر کی طرف دیکھا ،وہ میری آنکھوں میں چھپا سوال سمجھ چکا تھا۔
"یہ تصویریں عطاآباد جھیل کے دوسرے کنارے پر اسپل وے کے بننے سے پہلے کی ہیں ،جھیل تیزی سے پھیلتی جارہی تھی ،ہمارے ہوٹل کا پورا لان ،گلمت سے گزرنے والی شاہراہ قراقرم اور اس سے متصل ہمارا گیٹ پانی میں ڈوب چکا تھا۔دوسری طرف سے آنے والی کچھ کشتیاں ہمارے ہوٹل کی اندرونی عمارت کے زینوں کے پاس ہی آکر ٹہرتی تھیں۔"
تصویریں  اسپل وے بننے سے پہلے کے گلمت کی  کچھ جھلکیاں  دکھاتی  تھیں۔میں نے ان تصویروں کے عکس کیمرے میں محفوظ کرلئے۔
۔۔۔ہوٹل کے لائونج میں لگی اسپل وے بننے سے پہلے کی کچھ تصویریں ۔۔۔


     اپنےکمرے میں عصر کی نماز پڑھنے کے بعد ہم ہوٹل سے نکلےاور چہل قدمی کرتے ہوئےکچھ ہی فاصلے پر شاہراہ کے دوسری جانب ذرا نشیب میں بہتے دریا کے چوڑے ریتیلے پاٹ  پر جا پہنچے۔خوبصورت وادی گوجال میں شام ڈھلتی تھی اور ہم گلمت کے چھوٹے سے قصبے میں رفتہ رفتہ بڑھتی خنکی میں ننگے پائوں دریاکےکنارے ٹھنڈی  ریت پر گھومتے پھرتے تھے۔دور کہیں مغربی سمت کے بلند پہاڑ کی اوٹ میں چھپے ہوئے سورج کی کرنیں پسو کونز کی چوٹیوں پرسنہری اور نارنجی رنگ  بکھیرتی تھیں۔نظریں پسو کونز کی نارنجی چوٹیوں سے گھومتی ہوئی ایک طرف دکھائی دیتےبلند پہاڑ پر جاٹکیں کہ اس پر پڑنے والی دھوپ کا نظارہ اتنا دلکش تھا کہ گویا پہاڑ کی برفانی چوٹی  دھوپ کی تپش سے سلگ اٹھی ہو اور بلندی پر چمکتی برف سے سفید آگ کی لپٹیں  اور دھواں آسمان کی طرف اٹھتا ہو۔ہمارے عین سامنے دریا دوسری طرف کے بلند پہاڑ کے پہلو کے ساتھ لگا بہتا تھا۔شام کے 7 بجے  تھے ، گلمت کے حسین قصبے کی شام سرمئی  ہوتی تھی۔پسو کونز اور بلند برفانی چوٹی پر سے سورج کی سنہری کرنیں رخصت ہوئیں ،ساحل کی ریت کی ٹھنڈک بڑھی اور شام کے گہرے ہوتے سائے نے دریا کے پانی میں اترنا شروع کیا تو ہم نے واپس ہوٹل کی طرف قدم بڑھا دئیے۔



 











   

 مغرب کی نماز کے بعد ہم ہوٹل کے لان میں بچھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔گلمت اس وقت بالکل پرسکوت تھا۔آسمان پر مغرب کے بعد ابھی ہلکی ہلکی روشنی موجود تھی جس میں دریا کے دوسری طرف  کابلند پہاڑ ابھی تک ہمیں نظر آتا تھا۔ہم اس  گہری خاموشی  اور سکون میں  گم تھے کہ دفعتاً چند عجیب وغریب آوازوں نے ہمیں چونکا دیا۔
غڑاپ ۔۔غڑاپ ۔۔ پہاڑوں کے بیچ وادی میں ان  آوازوں کی ابھرتی اور پھیلتی گونج اور پھرمکمل  سکوت، چند لمحوں کے بعد پھر اس سکوت کو توڑتی وہی پراسرار آوازاور گلمت کے قصبے میں لرزتی اس کی گونج۔ غڑاپ غڑاپ کی آواز یقیناً  دریا میں کسی پتھر کے گرنے کی ہی ہوسکتی تھی، زمین بالکل ساکت تھی اس لئے کسی زلزلے کے باعث ایسا ہونا ممکن نہ تھا ، میں نے کھڑے ہو کر غور سے دریا کی سمت والے پہاڑ پر نظریں گاڑ دیں۔اچانک بلندی سے ایک دو چھوٹے چھوٹے پتھرنیچے کی طرف لڑھکتے دکھائی دئیے۔یہ آوازیں انہی پتھروں کے دریا میں گرنےسے ابھرتی تھیں۔ممکن ہے پہاڑ کی بلندی پر کہیں کچھ مارخور مغرب کے بعد اپنے ٹھکانوں کا رخ کرتے ہوں یا پھر ہلکی پھلکی لینڈ سلائیڈنگ  ہورہی ہوکہ ان علاقوں میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہ تھی۔ کچھ دیر تک وقفے وقفے سے یہ آوازیں گلمت میں گونجتی رہیں اور پھر یہ سلسلہ تھم گیا۔
رات کی تیزی سے بڑھتی تاریکی نے  سامنے دکھائی دیتے پہاڑ اور آسمان سمیت  پوری وادی کواپنی سیاہ چادر میں لپیٹ لیا تو ہم نے ہوٹل کے روشن ڈائننگ ہال کا رخ کیا۔کھانا بہترین اور خوش ذائقہ تھا۔کھانے کے بعد میں نے قہوہ پیا اور ہمسفر نے چائے۔ایک بار پھر ہم ڈائننگ ہال سے نکل کرلان میں آبیٹھے۔مکمل تاریکی کا راج تھا اور ہم صرف دریا کی سمت سے آنے والی یخ   ہوا کے جھونکوں کو  محسوس کرتے تھے ۔گلمت میں تیزی سے بڑھتی اس ٹھنڈک نے جلد ہی ہمیں لان سے اٹھ کر اپنے کمرے  کی راہ لینے  پرمجبور کر دیا۔بنا کسی پروگرام کے گلمت کے حسین قصبے میں گزرنے والی یہ شام بلا شبہ بہت خوشگوار، یادگار اور ناقابل فراموش تھی۔