پہاڑوں سے میدانوں کو واپسی

    انیسواں دن

الوداع ناران ۔۔ پہاڑ ہیں کہ مانتے نہیں

   
 ناران کی صبح بہت روشن تھی اور آسمان بالکل صاف۔جو تھوڑا بہت سامان ہوٹل کے کمرے میں لے گئے تھے ،جلدی جلدی گاڑی میں رکھا۔ ہوٹل  کی پارکنگ سے نکلے  ،بازار میں ناشتہ کیا اور 9 بجے کے بعد ناران کو الوداع کہہ کر روانہ ہوگئے۔ ناران سے نکلنے کے  فوراً بعدسڑک کنارے  اکا دکا گلیشیئرز سے مختصرسی سلام دعا ہوئی۔پرسوں بابوسر سے ناران  کے سفر کے دوران   ان سے خاصی طویل ملاقاتیں کرچکے تھے۔ایک گھنٹے سے قبل ہی کاغان کے قریب جا پہنچے کہ سڑک تو بہتر تھی ہی ،کوئی مشکل اور رکاوٹ بھی آج ہماری راہ میں حائل نہ تھی۔آخری بار کاغان کے قصبے سے 2004 میں  ناران جاتے ہوئے  گزرے  تھے، دس سال کے طویل عرصے بعد کاغان کو دیکھا تو بدلا بدلا لگا۔عمارتوں اور ہوٹلوں کی تعداد کچھ بڑھ گئی تھی، بازار بھی پہلے کی نسبت زیادہ بارونق تھا،پھر بھی کاغان ناران جتنی تیزی سے نہ پھیل پایا تھا۔




    کاغان کے انداز میں زیادہ تبدیلی نہ آنے کا بڑا سبب ناران  کی بھرپور کشش تھی  کہ وہ سیاحو ں کے قدم یہاں رکنے ہی نہیں دیتی،مسافر وینز ہو ں یا سیاحوں کی گاڑیاں ،تقریباً سب ہی کاغان کے قصبے  کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سیدھا ناران پہنچ کر ہی دم لیتی  ہیں۔میں بھی آج سے 31 سال قبل 1983 میں صرف   ایک بار ہی یہاں رکا تھا،جب اپنے دو دوستوں اورچھوٹے بھائی کے ساتھ 2   موٹر سائیکلوں پر ہم یہاں پہنچے تھے۔غالباً  مارچ کا آخر تھا یا اپریل کا آغاز، کاغان کے آگے ناران تک کا راستہ برف کے باعث بند تھا۔ناران تک پہنچنے کی راہ مسدود ہونے کے باعث ہم ایک رات یہاں  ہوٹل میں قیام  پر مجبور ہو گئے تھے۔دریائے کنہار کے دونوں طرف برف کی چادریں بچھی تھیں  ، ہم دریا کنارے ان سفید چادروں پر گھومتے پھرے تھے اور اگلے ہی روز یہاں سے واپس راولپنڈی روانہ ہوگئے تھے۔



    آج بھی ہم یہاں رکے بغیر مختصر سے بازار سے  ہوتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ 11 بجے کے بعد کیوائی پہنچے تو پہاڑوں سے اترتے شفاف پانی کے نالے میں بچھی چارپائیوں اور میز کرسیوں  کے حسین  نظارے نے  ہماری گاڑی کے بڑھتےقدم روک دئیے  ۔کیوائی سے گزریں اور نالے میں بہتےیخ پانی کے جھرنے اورگنگناتی آبشار سے نہ ملیں ،یہ ناممکن ہے۔ آدھا پون گھنٹہ کیوائی کے اس بارونق مقام پر رکے اور  چائے کا ایک ایک کپ پی کر یہاں سے روانہ ہوئے۔ 








اپنی تینوں بیٹیوں کے ساتھ 2004 کے سفر کے دوران ناران سے واپسی پر ہم شوگران اور سری پائے جانے کے لئے کیوائی پر اترگئے تھے ۔بالاکوٹ کی نسبتاً  نشیب میں واقع وادی سے بابوسر کی بلندیوں کا رخ کریں تواس  راہ پر پہلا بڑا جنکشن کیوائی کا ہی آتا ہے۔سخت گرمیوں کے موسم میں سیاح کیوائی کے اس نالے  میں بہتے یخ پانی  میں پائوں بھگو کر ہی   فرحت بخش وادی کاغان کی پہلی ٹھنڈک   کو چھو تے  اور سکون و راحت کو جسم وجاں میں اتارتے ہیں۔

کیوائی ۔۔۔ 2004 کی خوشگوار یاد ۔۔


آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد ہی ہم بالاکوٹ کی حدود کے قریب جا پہنچے۔سڑک آہستہ آہستہ اب  نیچے اترتی تھی۔ دائیں طرف نشیب میں  دریائے کنہار کے دونوں اطراف بالاکوٹ کی آبادی    دکھائی دینے لگی تھی۔ہم مسلسل  موڑ در موڑ بلندیوں سے نشیب کی طرف بڑھتے تھے ،ادھر دوپہر  کا وقت ہونے کے ساتھ ساتھ سورج کی تمازت  میں بھی  اضافہ ہوتا  تھا۔ساڑھے بارہ بجے کے قریب ہم  بالاکوٹ کے عین درمیان واقع دریائے کنہار کا پل عبور کرکے شہرکےپر رونق بازار میں داخل ہوگئے۔
اپنے2004 کے سفرمیں شوگران اور سری پائے سے واپسی پر کیوائی سے ہوتے ہوئے بالاکوٹ پہنچنے کے بعد ہم  دوپہر کے کھانے کے لئے  کچھ دیر ایک ہوٹل میں رکے تھے۔ہوٹل کے عقب سے اس کے بالکل قریب ہی نشیب میں بہتا  دریائے   کنہار نظر آتا تھا۔   تب با لاکوٹ سے  نکل کرمظفر آباد جانے کے لئے  ہم نے گڑھی حبیب اللہ کا رخ   کیا تھا۔آج ہم بازار میں کہیں ٹہرے بنا ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔2004 کا بالاکوٹ  آج کی بہ نسبت بہت مختلف تھا۔2005 کے تباہ کن زلزلے نے اس پورے شہر میں بے حد تباہی مچائی تھی۔بہت زیادہ جانی ومالی نقصان کے ساتھ ساتھ پورا شہر الٹ پلٹ کر رہ گیا تھا۔
سال 1988 میں ہم مری سے براستہ کوہالہ مظفر آباد پہنچےتھے۔بعد میں ہم نے مظفر آباد سے ناران کا رخ کیا تھا۔ مظفر آباد میں ہمارے مہربان  میزبانوں نے  اپنی گاڑی  کے ذریعے ہمیں بالاکوٹ پہنچوا دیا تھا۔ وہ  رات ہم نے  بالاکوٹ میں ہی گزاری تھی۔ اس زمانے میں بالاکوٹ سے نکل کر دریائے کنہار کا پل عبور کرنے کے فوراً بعد ایک تنگ سڑک  سامنے دکھائی دیتے بلند پہاڑ کی انتہائی سخت چڑھائی چڑھا کرتی تھی۔   1988 کے سفر کے دوران بالاکوٹ میں گزرنے والی وہ تاریک شب مجھے آج تک یاد ہے کہ جب میں اور ہمسفر ہوٹل کی بالکونی میں بیٹھے تھے۔اس زمانے میں بالاکوٹ اتنا پر رونق اور روشن نہیں ہوا کرتا تھا۔چاند کی بھی شروع یاآخرکی تاریخیں تھیں۔سیاہ آسمان اور قصبے کے سامنے موجود بلند پہاڑ باہم مدغم ہوکر ایک ہو گئے تھے۔ کچھ پتہ نہ چلتا تھا کہ پہاڑ کی چوٹی کہاں ختم ہوئی اور آسمان کہاں سے شروع ہوا۔کچھ ستارے آسمان کی بلندیوں میں جھلملاتے تھے۔لیکن اکادکا ستاروں کی جھلملاہٹ کچھ عجیب سی تھی ۔میں نے ہمسفر کو بتایا کہ وہ ستارے نہیں بلکہ پہاڑ پر موجود گھروں کی روشن بتیاں ہیں۔میں  چونکہ اس سے قبل بھی دو تین بار بالاکوٹ آچکا تھا اس لئے مجھے اس بات کا علم تھا،ہمسفر آسمان پر جھلملاتے ستاروں کی مانند  نظر آتی  ان بتیوں کو حیرت سے دیکھتی تھی۔کبھی کبھار پہاڑ پر چڑھتی سڑک پر کسی گاڑی کی لائیٹ بھی انتہائی بلندی پر گھومتی پھرتی دکھائی دے جاتی۔رات کے بعد صبح کی روشنی پھیلی تو پہاڑ کی بلندی پر واقع گھرننھے منے گھروندوں کی صورت نظر آنے لگے۔ 
اس  سے قبل میں 1983 میں اپنے دو دوستوں اور چھوٹے بھائی کے ہمراہ  موٹر سائیکلوں پر یہاں پہنچا تھا۔ کراچی سے ہم نے اپنی دو ہنڈا سیونٹیز  لاہور تک کے لئے ٹرین سےبک  کروائی تھیں اور پھر لاہور سے کاغان کے لئےہم موٹرسائیکلوں پر روانہ ہوئے تھے۔بالاکوٹ  پہنچے تویہاں سے آگے دکھائی دیتی کٹھن چڑھائی دیکھ کر ہم نے اپنے ایک ساتھی کو بذریعہ بس کاغان روانہ کیا تھا۔کاغان سے قبل مہانڈری کی بلند اور خطرناک چڑھائی پر سڑک   کی  حالت خراب ہونے کے باعث ہمیں بہت مشکل پیش آئی تھی۔ 
   بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سڑکیں اور شاہراہیں بہتر ہوتی چلی گئیں۔بالاکوٹ سے وادی کاغان کا رخ کرتی اس سڑک کی قسمت بھی جاگی۔ دریا پر نئے پختہ پل کی تعمیر کے ساتھ ساتھ  یکدم بلندی  اختیار کرنے والی اس سڑک   کوبھی   ذرا گھما پھرا کر پہاڑ پر چڑھایا گیا ،جس کے باعث اس کی  کٹھنائی  کافی  حد تک کم ہو گئی۔ سڑک بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ کشادہ بھی  ہوگئی۔ 






  بالاکوٹ کی حدود سے نکلے تو بلند وبالا پہاڑوں کے درمیان اونچی نیچی بل کھاتی راہ کا ساتھ چھوٹ گیا۔ گو کہ دریائے کنہار اب بھی سڑک کے ساتھ ساتھ بائیں جانب بہتا تھا لیکن  سڑک اور اس کے درمیان جا بجا آبادیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ شاندار سڑک پر ہم تیزرفتاری سے آگے بڑھتے تھے۔ وادی کاغان کی بلندیوں سے نیچے  تو اترے ہی تھے ، ادھردوپہر بھی اپنے شباب کو  پہنچ رہی تھی۔ایک جگہ سڑک  کے بالکل ساتھ ہی بائیں طرف کسی  ہوٹل کی چاردیواری دکھائی دی ۔ سوچا کہ کچھ دیر سستا نے کے ساتھ چائے بھی پی لی جائے۔ 
   میں گاڑی چاردیواری  کے کھلے گیٹ سے اندر لے گیا۔ نیچے اترے تو ہوٹل توموجود تھا لیکن بالکل ویران، اندر نہ کوئی  آدم نہ آدم زاد۔ ایک طرف برآمدے نما کھلی  جگہ پر میز کرسیاں  موجود، قریب ہی  واش بیسن لگا ہوا اورواش روم بھی کھلا ۔ سوچا کہ  ہمیں ہوٹل میں داخل ہوتا دیکھ کر ہوٹل کا کوئی نہ کوئی  رکھوالا جلد یا بدیر ادھر کا رخ کر ہی لے گا۔ ہم ہاتھ منہ دھو کر کچھ تازہ دم بھی ہولئے لیکن ہوٹل کا عالم ہو جیسا تھا ویسا ہی رہا۔ ادھر ادھر نظریں گھمائیں ، جھانکا تانکا بھی لیکن  بھری دوپہر میں عین سڑک کنارے واقع ہوٹل کے اس  سناٹے کا بھید نہ کھل سکا۔ زیادہ تجسس میں پڑنے کے بجائے ہم نے مزید وقت ضائع کئے بغیر یہاں سے رخصت ہونا ہی بہتر جانا۔
   ۔تقریباً ایک بجے بسیان موڑ پہنچے۔ مانسہرہ جانے کے لئے ہم یہاں سے دائیں طرف  کا رخ کرتی سڑک پر مڑ گئے  کیونکہ دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ جانے والی سیدھی راہ گڑھی حبیب اللہ کے قصبے کو جاتی تھی۔ 80 کی دہائی میں جب بھی میں مانسہرہ سے بالاکوٹ آیا تھا تو مانسہرہ سے نکل کر کچھ فاصلہ طے کر کے سڑک چیڑ اور دیودار کے لمبے لمبے درختوں کے گھنے جنگل سے مزین پہاڑی دروں میں چڑھتی اور گھومتی   پھرتی پہلے گڑھی حبیب اللہ کے قریب پہنچتی تھی  جہاں سے ایک راستہ مظفر آباد جانے کے لئے دریائے کنہار کو پار کر کے دائیں طرف مڑ جاتا تھا  جبکہ بالاکوٹ کے لئے دریا کے بائیں کنارے کے ساتھ ساتھ جاتی راہ پر سفر کرنا ہوتا تھا۔ 
   بسیان موڑ سے دائیں طرف کا رخ کرتا یہ راستہ غالباً 90 کی دہائی میں  تعمیر ہوا تھا۔ یہ راستہ بھی پہاڑی دروں میں چڑھتا اور گھومتا آگے بڑھتا تھا لیکن یہ درے زیادہ بلند اور دشوار نہ تھے۔ چیڑ اور دیودار کے درخت ان  سرسبز پہاڑوں پر بھی  تھے لیکن یہ کسی  گھنے جنگل کی طرح پھیلے ہوئے نہ تھے ۔ راستہ بہر حال  خوبصورت تھا ، ہم ایک بار پھر کچھ بلندیوں پر پہنچ کر ہرے بھرے درختوں کے ساتھ ساتھ گھومتے پھرتے آگے بڑھنا شروع ہوئے تو سورج کی تمازت میں بھی کچھ کمی سی محسوس ہونے لگی۔
    سڑک بہترین تھی ، ہم تیزرفتاری سے سفر کرتے ہوئے جابہ،عطر شیشہ  ، چٹہ بٹہ اور دیگر آبادیوں کے درمیان  سے  گزرتے ہوئےآگے بڑھتے  رہے۔ پونے دو بجے کے قریب ہم مانسہرہ  کی حدود کے قریب پہنچ گئے۔ سڑک ابھی بلندی سے ہی گزر رہی تھی کہ ہمیں نشیب میں  دور دور تک پھیلے مانسہرہ شہر کی آبادی دکھائی دینے لگی۔




   شمال کے پہاڑی  علاقوں سے جنوب کے میدانوں کی طرف واپسی کا سفر ہمیں  رفتہ رفتہ بلندیوں سے نشیب میں لے جارہا تھا۔  وادی کاغان کی بلندیوں سے اترے  تو کچھ نشیب میں جاکر بالاکوٹ پہنچے ۔ وہاں سے چلے تو اب نگاہوں کے سامنے مزید نشیب میں نظر آتا مانسہرہ  ہمارا منتظر تھا۔ سڑک آہستہ آہستہ نیچے اترنا شروع ہوئی۔ مانسہرہ کی مضافاتی بستیوں کا آغاز ہوا۔ اب تک کے سفر کے دوران بار بار سڑک کو اپنی ٹھنڈی چھائوں میں پناہ دیتےدرختوں اور سرسبز پہاڑوں کی قربت دوری میں بدلی تو دوپہر کی برستی دھوپ  دھڑلے سے ستانے لگی۔
    سفر کا منصوبہ بناتے وقت گوگل میپ پر غور و خوض کرکے   یہ پتہ چلا لیا تھا کہ شہر کے رش سے  بچ بچا کر مانسہرہ کی حدودکے باہر ہی باہر سے گھومتا بائی پاس ہمیں  ایبٹ آباد کا رخ کرتی شاہراہ قراقرم پر پہنچا سکتا ہے۔ اس بائی پاس پر سفر کا میرا یہ پہلا اتفاق تھا  ۔مانسہرہ کی حدود میں داخل ہوتے ہی ایک سی این جی  پمپ پر نظر پڑی ۔ گاڑی میں گیس بھروانے کے ساتھ ہی میں نے  اپنی تسلی کے لئےپمپ والے سے بائی پاس کی بابت  بھی  معلوم کیا۔ اطمینان ہوگیاکہ ہم  بالکل درست راہ پر گامزن تھے۔ میری نظریں پمپ کے قریب ہی کسی مکینک کو بھی ڈھونڈتی تھیں کہ  کسی طرح سائلنسر کے گلے کی خرابی کے باعث نکلنے والی ہلکی ہلکی بے سری آوازوں کا علاج کرا سکوں ۔ یہاں تو اریب قریب کوئی معالج نہ مل سکا،البتہ بائی پاس کے اختتام  کے پاس ایک کلینک نظر آگیا۔ اچھی بات یہ تھی کہ قریب ہی سڑک کنارے ایک چھوٹا سا درخت  موجود تھا۔ ہمسفر نےاس کی چھائوں تلے رکھی کرسی سنبھال لی۔
  بابوسر سے لولوسر تک کی راہ کی  گلیشیائی ندیوں کے پتھروں نےسائلنسر کے پائپ کو بھی ہلکی پھلکی زک پہنچائی تھی۔ ناران کے مکینک نے پائپ میں ہوجانے والے اکا دکا سوراخوں کو بند نہیں کیا تھا۔ آدھا گھنٹہ سائلنسر کی مرمت میں لگ گیا۔ ڈھائی بجے کےبعد  یہاں سے چلے۔ ہم  اب شاہراہ قراقرم پرایبٹ آباد کی سمت رواں دواں تھے۔ شاہراہ قراقرم پر چلنے والے مال بردار ٹرکوں اور ٹرالروں کے ساتھ  ساتھ مانسہرہ اور ایبٹ آباد  کے درمیان سفر کرتی گاڑیاں بھی اب ہماری ہمراہ تھیں۔ بڑھتے ہوئے رش کی بنا پرہماری رفتار کچھ کم ہوئی  تو گرمی نے بھی مزید زور دکھانا شروع کر دیا۔ 
   قلندرآباد  کے بازار کے درمیان سے گزرے تو سڑک کے دونوں اطراف چپلی کبابوں کی کڑھائیوں سے اٹھنے والی اشتہا انگیز خوشبو سیدھی ہمارے بھوکے پیٹ تک جا پہنچی۔ پیٹ کی التجا سننے کا فائدہ یہ ہوا کہ وقتی طور پرہی سہی ٹریفک کے رش سے جان تو بچی ہی، کھانے کے ساتھ ساتھ کچھ دیر ایک چھوٹے سے ہوٹل  کے پیڈسٹل فین  کے سامنے بیٹھ کر سستانے کا موقع  بھی مل گیا۔
   تین بجے کے بعد قلندرآباد کے بازار سے نکل کر ایک بار پھر انہی  مشکلات میں گھرے آگے کی طرف بڑھے۔ سڑک کے دونوں اطراف خاصے فاصلے پر دکھائی دیتے سرسبز پہاڑ ہمیں دیکھتے تھے لیکن اتنی دور سے ہماری کوئی مدد نہ کر سکتے تھے۔ میری نظر ان پر پڑی توان کی صدا  کانوں میں  پہنچی۔
"کیوں پریشان ہوتے ہو ،لوٹ آئو ہماری طرف''
میں نے انہیں سمجھایا۔ 
''ہماری بہت سی  مجبوریاں ہیں ،ہم زنجیروں سے بندھے ہیں ، ہمیں جنوب کی سمت لوٹنا ہی ہوگا۔ تمہاری محبت بھری پکار اپنی جگہ لیکن اب اس پکار پر لبیک کہنا اور تمہاری بات ماننا ہمارے اختیار میں نہیں''
 ہمسفر کو کچھ پتہ نہ تھا کہ میں کھڑکی سے باہر دور کسے تکتا ہوں ، کس کی پکار میرے کانوں تک پہنچتی ہے  اورمیں کسے اپنی مجبوری سے آگاہ کرنے کی کوشش میں لگا ہوں۔ادھر پہاڑ تھے کہ مانتے ہی نہ تھے۔
  ایبٹ آباد قریب آیا تو ایک چوک کے سگنل کے پاس میں گاڑی روک کر اترا۔قریب سے گزرتے راہگیر سے دریافت کیاکہ نتھیاگلی جانے والا راستہ کہاں سے مڑے گا۔ 
جواب ملا ۔۔۔ اگلے چوک سے ۔۔۔
ہم اپنے مرتب کردہ  پلان سے دو تین  دن قبل ہی واپسی  کا سفر طے کر رہے تھے۔ دل نےاچانک ہی  پہاڑوں کی پکار پر لبیک کہنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ دل کی بات کچھ اتنی بے جا بھی نہ تھی۔ اسلام آباد تو جانا ہی تھا تو کیوں نہ  براستہ حویلیاں ،ہزارہ اور حسن ابدال والے گرم راستے پرسفر کےبجائے نتھیاگلی اور مری والی ٹھنڈی راہ  اختیار کی جائے۔
ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تو ہمسفر نے اچھنبے سے پوچھا۔
'' کیا ہوا ؟''
''راستے کے بارے میں معلوم کر رہا تھا کہ کہیں کسی غلط راہ پر نہ نکل جائیں۔''
میں نے فوری طور پر اسے اس تبدیلی راہ کی نیت سے آگاہ کرنا مناسب نہ سمجھا کہ بابوسر سے لولوسر کے خطرناک ترین  سفر کے بعد میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ آگے کے سفر کے حوالے سے پھر کسی تشویش یا خدشے میں  مبتلا ہو۔
اگلا چوک  آیا اور میں خاموشی سے  بائیں طرف مڑ گیا۔
یہ راہ جلد ہی ہمیں ایبٹ آباد کی حدود سے باہر لیتی چلی گئی۔جوں جوں آگے بڑھتے گئے ، پہاڑ پھر سے قریب آتے گئے۔اپنی بات مان لینے پر وہ  مجھے محبت پاش نظروں سے دیکھتے تھے۔ بلندیوں کی طرف بڑھتی بل کھاتی راہ کا آغاز ہوا تو ہمسفر نے مجھے بار بار حیرت سے دیکھنا شروع کیا۔ میرے پاس اب اسے پہاڑوں کی طرف سے آنے والا تازہ ترین محبت نامہ  تھما دینے کے علاوہ کوئی اورچارہ نہ تھا ۔ خلاف توقع اس کا رد عمل بہتر ہی رہا، کچھ تشویش تھی بھی تو صرف گاڑی کی کیفیت کے حوالے سے تھی، جو میرے اطمینان دلانے کے بعد بآسانی رفع ہو گئی۔

   سرسبز پہاڑوں کے بیچ راہ اوپر چڑھتی تو تھی لیکن گرمی کی شدت تھی کہ کسی طور کم نہ ہوتی تھی۔ سہ پہر آہستہ آہستہ ڈھلنے لگی اور ہم بلند سے بلند تر ہوئے تو ہوا میں گرمی کا تاثر زائل ہونا شروع ہوا۔ساڑھے 4 بجے کے قریب ایک جگہ بائیں طرف کے بلندسرسبز پہاڑ کے ساتھ ہی ایک نالہ بہتا دکھائی دیا تو میں نے پہاڑ کی ٹھنڈی چھائوں میں گاڑی روک دی کہ کچھ پل یہاں رک کر ہم بھی سستالیں اورشدید گرمی میں مسلسل چڑھائی چڑھتی گاڑی کا انجن بھی کچھ ٹھنڈا ہوسکے۔ پہاڑ پر موجود درختوں میں ایک دو بندر بھی ادھر سے ادھر چھلانگیں لگاتے نظر آئے لیکن ہمیں گاڑی سے اترتا دیکھ کر گھنے درختوں میں غائب ہوگئے۔ سرسبز پہاڑ کی ٹھنڈی چھائوں، گرمی کی شدت میں کمی  اور بندروں کے ہلکے  پھلکے تماشے نے ماحول کو کم ازکم اتنا خوشگوار ضرور بنادیا کہ صرف آدھا گھنٹہ قبل  گرمی سے بوکھلائی  ہوئی ہم سفرکے چہرے پر مسکان بکھر گئی۔





    ہم نے کچھ اور بلندیاں طے کیں ،سہ پہر کچھ اور ڈھلی ،ادھرسورج نے بھی رفتہ رفتہ پہاڑوں پر سجے چیڑ اور دیودار کے لمبے لمبے درختوں کی چلمن میں اپنا مکھڑا چھپانا شروع کیا تو ہوا کی حدت دم توڑنے لگی۔ دس پندرہ منٹ بعد ہی ہم ایک اور خوبصورت موڑ پر جا پہنچے۔سڑک کنارے ایک ہوٹل اور اس سے متصل مسجد بنی تھی۔ ہوٹل کے قریب سڑک کے ساتھ ہی لگا سائن بورڈ بتاتا تھا کہ یہ مقام باڑہ گلی میں واقع ہے۔سڑک ہماری نظروں کے عین سامنے بائیں طرف مڑ رہی تھی ۔میں نے گاڑی دائیں جانب پہاڑ کی چھائوں میں بنی کھلی جگہ پر روک دی جہاں کچھ میز کرسیاں بھی رکھی تھیں۔گرمی تو ختم ہوہی چلی تھی ،نتھیاگلی کی راہ کے اس حسین موڑ پر چائے کا ایک ایک کپ پی کر دن بھر کے سفر کی سب تکان بھی رخصت ہو گئی۔






    یہاں سے نکل کر بمشکل 10 منٹ بعد ہی ہم کالاباغ کے پی اے ایف ائر بیس کے قریب سے گزرے ۔بند گیٹ کے اوپر سے اندر موجود سبزہ زار پر رکھے گئے ہوائی جہاز کاصرف اوپری حصہ ہمیں دکھائی دیا۔ سن 1996 میں بھی ہم اپنی بیٹیوں کے ہمراہ ناران سے واپسی پر اسی راہ سے ہوکر اسلام آباد پہنچے تھے، تب یہ گیٹ کھلا ہوا تھا ۔ہم نےاس جہاز کے بالکل قریب ہی چھوٹے سے سرسبزمیدان میں کچھ وقت گزارا تھا۔آج وہ سبزہ زار قید تھا،بلند آہنی گیٹ پر سے جہاز کی ذرا سی جھلک دیکھتے ہوئے ہم آگے بڑھ گئے۔




کالاباغ  نزد نتھیا گلی ۔۔ سن 1996 ۔۔ ہمسفر اور پیاری بیٹیاں


     جب ہم ساڑھے 5 بجے کے قریب نتھیا گلی کی حدود میں داخل ہوئے تو سہ پہر شام میں ڈھلتی تھی، پہاڑ وں کی چوٹیوں سے جوق در جوق ڈھلانوں کی طرف اترتے چیڑ اور دیودار کے درختوں سے دھوپ غائب ہوتی تھی اوردرختوں کے سبز رنگ رفتہ رفتہ گہرے ہوتے جاتے تھے ۔ سڑک گھومتی پھرتی آگے بڑھتی تھی، اس کے دونوں اطراف دکانوں اور ہوٹلوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔
    آج سے قبل چار پانچ بار نتھیاگلی آنا ہوا تھا۔ آخری بارسن 1996 میں آئے تھے ، آج نہ جانے کیوں مجھے اس کے بازار کی صفائی ستھرائی میں خاصی کمی لگی، ایسا بھی محسوس ہوا کہ درمیان سے گزرتی سڑک کا حسن بھی کچھ ماند پڑ گیا ہو۔ نتھیاگلی کا مخصوص خوابناک ماحول ، شام ہوتے ہی فضا میں رچ بسنے والی ٹھنڈک کے ساتھ درختوں کو اپنی سفید چادر اوڑھاتی ہلکی ہلکی دھند آج ہمیں کہیں دکھائی نہ دی۔ایسا لگا کہ بدلتے موسموں کے سخت تیور دیکھ کر نتھیا گلی کچھ سہم سی گئی ہو۔
   ہم ایک کے بعد دوسرے ہوٹل کا رخ کرکے جائزہ لیتے رہے کہ مناسب ریٹ میں کمرہ مل جائے، لیکن آج ہفتے کا دن ہونے کی وجہ سے کرائے زمین سے بلند ہو کر آسمان کا رخ کرتے تھے۔ یہ تو غنیمت تھا کہ ہم سر شام ہی یہاں آ وارد ہوئے تھے۔ اتوار کی چھٹی یہاں گزارنے کے لئے ایبٹ آباد ،پنڈی اور اسلام آباد سےنتھیاگلی کا رخ کرنے والے تو شام ڈھلے یا رات کے اریب قریب ہی یہاں پہنچ پاتے ہونگے۔ ایک ہوٹل مالک نے اسی صورتحال کے پیش نظر ہمیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریٹ کے مزید بڑھتے جانے کے خدشے سے آگاہ کیا تو ہم نہ صرف اس کے شکر گزار ہوئے بلکہ جھٹ سے اس کے ہوٹل میں کمرہ بھی لے لیا۔ ہمارا کمرہ دوسری منزل پر تھا جس کی بالکونی سے سے نتھیاگلی کے پر رونق بازار کا نظارہ بہت دلکش تھا۔





   تقریباً نصف صدی پہلے کا قصہ ، سال 1967 کہ جب ہم پنجاب کےضلع رحیم یار خان کے چھوٹے سے گائوں ماچھی گوٹھ میں مقیم تھے ۔ پرائمری تک ایک کمرے کے مختصر سے اسکول میں پڑھا، نہ صرف گائوں میں اسکول ایک ،بلکہ سب مضمون پڑھانےکیلئے استاد بھی ایک۔ چھٹی جماعت کے لئے گائوں سے 5 کلومیٹر کی دوری پر واقع صادق آباد شہر کے اسکول میں داخلہ لینا پڑا،صبح صبح ایک پسنجر ٹرین سکھر سے خانپور کیلئے جایا کرتی تھی۔اس کا ماہانہ پاس بنوا لیا گیا۔صادق آباد سے واپسی کوئٹہ پسنجر سے ہوا کرتی تھی،اکثر ایسا ہوتا، ادھر اسکول کی چھٹی کی گھنٹی بجتی ،ادھر ٹرین ریلوے اسٹیشن پر پہنچ جایا کرتی۔ غنیمت تھا کہ اسکول اسٹیشن سے چند فرلانگ کی دوری پر تھا۔ میرے ہمراہ ہمارے گائوں کے مزید ایک دو لڑکے بھی اسی اسکول میں پڑھتے تھے۔ چھٹی کی گھنٹی بجتے ہی بھاری بستے اپنی اپنی پیٹھوں پر لادے چلچلاتی دھوپ میں ہم اسٹیشن کی طرف دوڑ لگاتے،پلیٹ فارم پر داخلے کا مین گیٹ کچھ دوری پر تھا ، وہاں کا رخ کرتے تو ٹرین کبھی نہ پکڑ پاتے، سو پلیٹ فارم کے ساتھ لگی اونچی ریلنگ کو پھلانگنے کا مشکل مرحلہ بھی کسی نہ کسی طور طے کر تے۔ ٹرین کا گارڈ اکثر ہمیں  ریلنگ  پر چڑھ کر کودتے دیکھتا تو انجن ڈرائیور کوسبز جھنڈی دکھاتے دکھاتے نیچے کر لیتا اورہمیں پسینے میں شرابور ہانپتا کانپتا دیکھ کر سرخ جھنڈی ہلانے لگتا، اس طرح ہم دوڑ کر ٹر ین میں چڑھ پاتے۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ  ریلنگ سے کودتے وقت ہم میں سے کسی کے بستے سے کتابیں اور کاپیاں نکل کر پلیٹ فارم پر بکھر جاتیں۔جو ٹرین میں چڑھ گیا سو چڑھ گیا۔ لہراتی ہوئی سرخ جھنڈی دوبارہ سبز میں بدل جاتی۔ ٹرین روانہ ہوجاتی ، پلیٹ فارم پر حسرت سے ٹرین کو روانہ ہوتے  دیکھنے والا بچہ کتابیں سمیٹ کر بستے میں رکھتا اور پھر ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ ہی پیدل گائوں کے لئے روانہ ہوجاتا۔ میں سب سے کم عمر تھا اس لئے پلیٹ فارم کو پیچھےچھوڑ کر اسٹیشن کی حدود سے دور جاتی ٹرین کو حسرت سے تکنے والا وہ بچہ عموماً میں ہی ہوا کرتا تھا۔ 
اس وقت ہماری انگریزی کی کتاب میں ایک سبق نتھیاگلی کے حوالے سے ہوا کرتا تھا۔ علی اور نسیمہ نام کے دو بہن بھائی گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے گھروالوں کے ساتھ نتھیاگلی کی سیر کوگئے تھے۔سبق والے صفحے پر نتھیاگلی کی ایک دو تصویریں بھی بنی تھیں۔ رحیم یار خان کے ریگستانی علاقے کی قیامت خیز گرمیوں کے دوران میں جب بھی وہ سبق پڑھتا اور تصویریں دیکھتا ، نتھیاگلی کےہرے بھرے بلندپہاڑوں پر بکھرے چیڑ کے لمبے لمبے سرسبز درختوں سے پھوٹتی ٹھنڈک میرے دل و دماغ میں سرایت کر جاتی۔تصور ہی تصور میں خود کو علی سمجھ کر نتھیاگلی پہنچ جایا کرتا،اس وقت نتھیاگلی کے بارے میں سوچنا بھی مجھے ایک خواب کی مانند لگتا تھا۔
    بچپن کا خواب تھا ، اس لئے دماغ میں چپک کر رہ گیا تھا۔1984 میں جولائی کی آخری تاریخوں میں شادی ہوئی اور اگست کے پہلے ہی ہفتے میں ہم سفر کے ساتھ سب سے پہلے سیدھا نتھیا گلی کا رخ کیا۔بچپن میں نتھیا گلی کا جو تصور ذہن نے تراشا تھا ، اسے ویسا ہی خوبصورت پایا۔وہی رگ و پے میں اترتی ٹھنڈک ، سر شام سرسبز پہاڑوں پر پھیلے درختوں پر چپکے چپکے اترتی سفید دھند۔ مین روڈ سے کچھ مزید بلندی پر ہرے بھرے گھاس کے میدانوں کے بیچ گھومتی پھرتی حسین راہگزر، کہیں نشیب کی طرف اترتے دیدہ زیب کاٹیجز،ایک طرف دکھائی دیتی چرچ کی خوبصورت عمارت ، پھر اس خنک اور خوابناک ماحول میں انتہائی یادگار اور ناقابل فراموش گھڑسواری کا پر لطف تجربہ۔
پھر سن 1996 کا نتھیاگلی ، جب ہم اپنی تینوں بیٹیوں کے ہمراہ یہاں پہنچے ، تب بھی ہم نتھیاگلی کی حسین راہگزر پر گھومتے پھرتے تھے۔ وہی خنک موسم اور اپنے سحر میں جکڑتے خوبصورت اور مسحور کن نظارے۔








    ہوٹل کے کمرے میں نہا دھو کر تازہ دم ہوئے  تونتھیاگلی کی  پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لئے عصر  اور مغرب کے درمیان کا  انتہائی  مختصر سا    وقت  ہمارے پاس بچا تھا۔کیونکہ اگلے روز صبح سویرے  ہی  ہمیں آگے کے سفر پر روانہ ہوجانا تھا۔ سورج بلند پہاڑوں کے پیچھے غائب ہواتو ہر سو بکھرے سبزہ زاروں اور درختوں میں چھپی ہوئی خنکی نے نتھیاگلی کو لپیٹ میں لینا شروع کردیا۔ بالاکوٹ پہنچنے کے بعد سے مانسہرہ اور ایبٹ آباد سے گزرنے کے دوران تک ہم بار بار اپنے پسینے خشک کرتے تھے ،  یہاں نتھیاگلی  پہنچنے کے  بعدہوٹل سے   نکل کر باہر جانے کا ارادہ کیا تو بیگ سے گرم ٹوپیاں نکالنی پڑیں۔
    نیچے اترے تو مین روڈ کے ساتھ ساتھ بنی پارکنگ میں سیاحوں کی گاڑیوں کی لمبی  لائن لگ چکی تھی۔ کچھ لوگوں کو تو پارکنگ  کے لئے جگہ  تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا  بھی درپیش تھا۔14 سال کے طویل عرصے کے دوران نتھیاگلی کے مین  بازار کے درمیان سے گزرنے والی تنگ سڑک کے دونوں اطراف ہوٹلوں کی بھرمار ہو گئی تھی۔دکانوں کی تعدادمیں بھی خاصا اضافہ ہو گیا تھا۔بازار کے درمیان میں گاڑیوں کی پارکنگ کی غرض سے سڑک کے ساتھ ہی نیچے  اترتی ڈھلانوں سے متصل ایک چوتھائی کلومیٹر کے قریب جگہ چھوڑ دی گئی تھی ۔ اس کھلی جگہ  کی موجودگی کے باعث بازار سے نشیب کی طرف پھیلی پہاڑوں کی ڈھلانوں اور سرسبز درختوں کا سلسلہ    دکھائی دیتا تھا ۔اس طرح  بازار میں چہل قدمی کے دوران کم از کم اتنا یقین  ضرورہوجاتا تھا کہ ہم میدانی علاقے کے قصبے کے بجائے کسی ہل اسٹیشن کے بازار میں موجود ہیں۔ہوٹل اور دکانوں  کی تعداد میں ہونے والے اضافے کے باعث ہمیں   بازار میں صفائی کا وہ معیار دکھائی نہ دیا  جو اپنے  گزشتہ سفروں کے دوران نظر آیا تھا۔سڑک کے اطراف تعمیرات بڑھ جانے کی وجہ سے ہم اوپرموجود سبزہ زار ،چرچ اور کاٹیجز کو جانے والے راستے  تک بھی راہگیروں سے پوچھتے پچھاتے ہی پہنچ پائے۔
     بازار کے رش سے نکل  کرایک پارک کے اندر سے ہوتے ہوئے اچھی خاصی سیڑھیاں چڑھ کر ہم  نتھیاگلی کی مخصوص کھلی  اور آزاد مہکتی فضا میں پہنچے تو شام کے 7  بج چکے تھے۔ مغرب میں بمشکل نصف گھنٹہ باقی تھا۔شام کے سائے تیزی سے گہرے ہوتے جاتے تھے۔غنیمت تھا کہ نتھیاگلی کے اس دلکش  مقام کی خوبصورتی ابھی تک نہیں گہنائی تھی۔ چرچ کی عمارت کا حسن بھی اسی طرح   قائم و دائم ،البتہ  اس نے اپنا چولا بدل لیا تھا۔لمبے لمبے درختوں کے قریب گھومتے پھرتے خوبصور ت گھوڑے بھی اسی آن و شان سے  موجود، حسین راہگزر کے ساتھ ساتھ بنے ہوئے دیدہ زیب کاٹیجز بھی اسی  طرح درختوں تلے سجے ہوئے۔








    ناران سے روانہ ہونے کے بعد کیوائی کے ٹھنڈے جھرنوں میں گزارے گئے حسین لمحوں کے بعد نتھیاگلی کے  بلند سبزہ زار میں تیزی سے بڑھتی خنکی اور چاروں طرف بکھرے نظاروں  کا حسن بلاشبہ بہت سحر انگیز تھا۔ہم مغرب تک  یہاں گھوم پھر کراپنی پرانی یادوں کو تازہ  کرتے رہے۔ یہیں موجود ایک ہوٹل کی پہلی منزل پر بنے خوبصورت سے  ٹیرس میں مغرب کی نماز ادا کی ۔شام کی ڈوبتی روشنی تاریکی میں بدلنا شروع ہوئی تو  یہاں سے واپسی کا قصد کیا۔ابھی پارک کی سیڑھیوں سے نیچے  نہیں اترے تھے کہ نشیب میں دکھائی دیتے بازار میں ایک چھوٹے سے خوبصورت چائنیز ہوٹل کی عمارت دکھائی دی۔ فیصلہ ہوگیا کہ رات کا کھانا یہیں کھائیں گے۔




  نیچے پہنچے تو سیاحوں کی بڑھتی تعداد کے باعث بازار کی  رونق عروج  پر تھی۔ کچھ دیر کے لئے   اپنےہوٹل کے کمرے  کا رخ کیا اورمختصر سے آرام  کے بعد دوبارہ بازار  میں آگئے۔ ایسا لگا کہ ہم مری کی مال روڈ یا ناران کے بازار  میں گھومتے پھرتے ہوں۔ ہلکی ہلکی خنکی میں کون آئسکریم کھانے کو دل نہ چاہے یہ تو ممکن ہی نہیں۔اطراف کے پہاڑ وں میں تاریکی بڑھی تو سردی کی شدت میں بھی اضافہ ہوا،خنکی کا کچھ احساس آئسکریم نے بھی جگایا،میرے پاس صرف مفلر تھا، کوئی جیکٹ اور سوئیٹر نہیں پہنا تھا ،سردی زیادہ محسوس ہوئی تو سوچا کہ دوبارہ ہوٹل  کا رخ کیا جائے  لیکن اچانک  نظرگرم کپڑوں کی   ایک دکان کے باہر لٹکتی جیکٹ  پر جا پڑی ،چنانچہ وہی جیکٹ  خرید  لی گئی۔




    کچھ دیر تک  مزید بازار میں ٹہلتے پھرنے کے بعد چائنیز ریسٹورنٹ کے گرم اور پرسکون ہال میں جا بیٹھے۔ریسٹورنٹ بھی خوبصورت تھا اور کھانا بھی پر ذائقہ۔ساڑھے 9 بجے کے بعد ریسٹورنٹ سے نکل کر ہوٹل کی راہ لی۔رات بڑھنے کے ساتھ ساتھ بازار کی رونق  بھی دو چند ہوتی تھی۔ ہفتے کی شب  تھی ، اتوار کی چھٹی یہاں بتانے کیلئے قریبی شہروں  کی رہائشی   فیملیز ایک تسلسل سے نتھیاگلی  میں وارد ہو رہی تھیں۔بازار کی جگمگاتی دکانوں میں گاہکوں کی تعداد بڑھتی جاتی تھی ۔ہمارے کمرے کی بالکنی سے ہوٹل کے عین سامنے دکھائی دیتا ریسٹورنٹ ڈنر میں مگن سیاحوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ سونے سے پہلے کافی  دیر تک ہم  بالکنی میں کھڑے نتھیاگلی کے بازار کی بھرپور رونق  او ر لمحہ بہ لمحہ بڑھتی خنکی سےلطف اندوز ہوتے رہے ۔









    بیسواں دن

خنک فضاؤں سے گرم ہواؤں  تک


    ناشتے سے قبل صبح ساڑھے آٹھ بجے کے قریب نتھیاگلی سے نکلے،آسمان صاف اور دھوپ نکلی ہوئی تھی، صبح کی خوشگوار ٹھنڈک فضا میں رچی بسی تھی، ابھی دس پندرہ منٹ کا فاصلہ ہی طے کیا تھاکہ ہمیں گاڑی روکنی پڑی ، سڑک کے بیچوں بیچ  بندرو ں کا ایک غول چیڑ کے درختوں کی چھائوں میں بیٹھا ناشتہ کررہا تھا۔ ہمیں سڑک کے بیچ ٹہرا دیکھ کر ہمارے پیچھے آنے والی دو گاڑیاں بھی رک گئیں، کچھ بڑی عمر کے سمجھدار بندروں نے احتیاطاً سڑک کے کنارے بیٹھنے کو ترجیح دی تھی ۔ جبکہ نوجوان اور کم عمر اپنی ترنگ میں تھے، ایک ساتھ تین گاڑیاں دیکھنے کے باوجود انہوں نے سڑک کے بیچوں بیچ اپنا کھانا پینا اور اچھل کود جاری رکھی۔ایک بندر کو بھوک زیادہ لگی تھی یا شاید کھانے کو کم ملا تھا ، اس نے ہمارے پیچھے والی گاڑی کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کرہاتھ باندھے اور ناشتے کیلئے باقاعدہ کچھ طلب کرنے لگا۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے صاحب نے گھبرا کر فوراً شیشہ چڑھا لیا۔ میں کیمرے کو انتہائی مضبوطی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں جکڑے سڑک پر ٹہلتا پھرتا تھا کہ مبادا تصویر کشی کا شوقین کوئی بندر کہیں کیمرہ جھپٹ کر درخت پر نہ جا چڑھے۔ بچپن سے سنتے آئے قصے میں تو ٹوپیوں کے مالک کو ٹوپیاں واپس مل بھی گئی تھیں کہ اس نے اپنی ٹوپی سر سے اتار پھینکی تھی ، ادھر تو ہمارے پاس دوسرا کوئی کیمرہ تھا ہی نہیں ،اور اگر ہوتا بھی تو ٹوپی والے کی ترکیب کا یہاں کارگر ہو نا ممکن نہ تھا کہ پختہ سڑک کی وجہ سے مجھے دونوں کیمروں سے ہی ہاتھ دھونے پڑتے، پھر یہ بھی عین ممکن تھا کہ بندروں کا نقل کرنے کا فن انسانوں میں منتقل ہوجانے کے بعد یہ نئے دور کے بندراس فنکاری سے دستبردار ہی ہوگئے ہوں۔
   







     یہاں سے چلے تو چند منٹ بعد ہی ایک حسین ترین موڑ پر پہنچ گئے۔سفر خوبصورت ہو اورہمسفر بھی ہم مزاج تو ہر موڑ حسین ہی ہوتا ہے ، یہ حسین ترین یوں لگا کہ بندروں کو ناشتہ کرتے دیکھ کر ہمارا جذبہ بھوک بیدار ہوگیا تھا اورقبل اس کے کہ یہ جذبہ چوہوں کا روپ دھار کر پیٹ میں دوڑنے لگتا، اس موڑ پر ایک چھوٹا سا ہوٹل ہمارے سامنے موجود تھا۔کھلی جگہ پر رکھی میز کرسیوں پر بیٹھے تو اس حسین ترین موڑ پر موجود ہوٹل کا بھی ایک حسن آشکارا ہوا۔چھوٹے سے ہوٹل کے مالک کے پاس کوئی ملازم نہ تھا بلکہ صرف اس کی ایک معصوم کم سن بیٹی باپ کی مدد کررہی تھی ۔ ہم ابھی بیٹھے ہی تھے کہ ایک اور گاڑی بھی یہاں آکر رکی۔ ہوٹل کا مالک ناشتہ تیار کرتا رہا ، اس کی پیاری بیٹی گاہکوں کو انڈے ، پراٹھے اور چائے پروسنے کا فرض انجام دیتی رہی۔



   ہوٹل سے اٹھے تو  ایوبیہ پہنچ کر رکے۔ ایوبیہ جانے کا واحد مقصد ایک قدیم ترین خلش بلکہ خلش در خلش کو دور کرنا تھا۔ 1984 میں اپنے ہنی مون ٹرپ میں بھی ایوبیہ آئے تھے، چیئر لفٹ کی سیر کا شوق درحقیقت ہمیں ایوبیہ کھینچ لایا تھا، لیکن اس روزکسی تکنیکی خرابی کی بنا پر وہ بند تھی۔اس سفر میں یہ خلش لے کر واپس پلٹے تھے ، پھر 12 سال بعد سن 1996 میں تینوں بیٹیوں کے ہمراہ یہاں پہنچے تو شام ڈھل چکی تھی ، تاخیر سے پہنچنے کی بنا پر چیئر لفٹ بند ہو چکی تھی اور ہم ایک بار پھر خلش در خلش لے کر واپس ہوئے تھے۔ آج ایک بار پھر ہم ایوبیہ میں تھے۔ میں نے چیئر لفٹ کے قریب بنی پارکنگ میں پہنچ کر ہی بریک لگائی۔
گھڑی سوا نو بجا چکی تھی ،ٹکٹ گھر ابھی بند تھا، پتہ چلا کہ ساڑھے نو بجے کھلے گا، جس کا مطلب تھا کہ لفٹ چیئر بھی چلے گی۔ یقیناً ہمارے لئے یہ  خبربہت خوش کن تھی۔ آج اتوار تھا، چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے ٹکٹ گھر کے پاس کچھ لوگ پہلے سے موجود تھے۔ ایوبیہ میں جلدی وارد ہونے کا یہ فائدہ ہوا کہ زیادہ رش ہونے سے پہلے ہی ہم لائن میں لگ گئے۔
    دس پندرہ منٹ بعد ہی ہمارا 30 سالہ انتظار ختم ہوا ۔ اور لفٹ چیئر پر جھولتے ہوئے ہم سرسبز بلندیوں کی سمت رواں دواں ہوگئے۔ ہم دونوں اطراف موجود چیڑ اور چنار کے لمبے لمبے درختوں کے درمیان ہوا میں تیرتے تھے، کبھی کبھی ہم ان طویل قامت درختوں کی پھننگوں سے بھی بلند ہوجاتے۔ جس جانب آگے بڑھ رہے تھے ہمیں اچانک دور سے سبزے کی چادر پر سفید چاندنی سی بچھی دکھائی دی، بالکل ایسا لگا کہ شاید رات کے کسی پہربرف پڑی ہو۔ قریب پہنچے تو انتہائی حسین منظر ہمارے سامنے تھا ، سبزہ زار پر سفید پھول ہی پھول کھلے ہوئے تھے۔ بلندی سے نشیب میں دکھائی دیتے سفید پھولوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ آسمان سے ستاروں کی کہکشاں سبزہ زار پر اتر آئی ہو۔ گویا آسماں زمیں بن گیا ہواور زمیں ستاروں بھرا آسماں ۔ہمارا یہ ہوائی سفر پتریاٹہ کی لفٹ چیئر جتنا طویل نہ تھا، نہ یہاں پتریاٹہ کی طرح لفٹ چیئر سے اتر کر مزید بلندیاں طے کرنے کے لئے کیبل کار میں سوار ہو نا پڑا۔ صرف کچھ دیر کیلئے ہم اس چھوٹے سے اسٹیشن پر اترےجہاں سے لفٹ چیئر گھوم کر واپس اترتی تھی۔

 واپسی کے سفر کا لطف الگ ہی تھا، نشیب میں نظر آتے جدید ہوٹل اور ان کے کشادہ لان دیکھ کر اندازہ ہوا کہ سن 1984 اور 1996 کے ایوبیہ کی نسبت آج کا ایوبیہ خاصی وسعت اختیار کر گیا ہے۔ تقریباً نصف گھنٹے کی سیر کے بعد نیچے آئے تو پارکنگ ایریا سے متصل بازار کی رونق اور چہل پہل بھی بڑھ چکی تھی۔ اس بار ایوبیہ سے روانہ ہوئے تو ہم اپنی دیرینہ خواہش کے پورا ہونے پر بہت خوش تھے۔














نتھیاگلی سے چلے تھے تو بندروں نے گاڑی روکنے پر مجبور کر دیا تھا ، ایوبیہ سے نکل کر کچھ ہی آگے بڑھے تو ایک موڑ پرپہاڑوں کی چٹانوں میں بسیرا کرنے والے شاہین کی کشش نے مجھے روک لیا۔ شاہین کی خوبصورتی اور شان دیکھ کر خوشی کے ساتھ ساتھ کچھ دکھ بھی ہوا کہ آسمان کی اونچائیوں پر پرواز کرنے والے کے پیر میں غلامی کی زنجیر تھی ، چٹانوں کی کسی اونچی کگر پر ٹھکانہ بنانے والے کا بسیرا فی الوقت ایک شخص کا کاندھا تھا۔سڑک پر سفر کرنےوالے گاڑی والوں میں سے کوئی یہاں کچھ دیر کیلئے رکتا، کچھ پیسے اس کے آقا کے ہاتھ میں رکھتا اور شاہین کو اپنے ہاتھ پر بٹھا کر ایک تصویر بنا لیتا۔آج سے قبل ان شکاری پرندوں کو صرف شہرکے چڑیاگھروں کے پنجروں میں قید ہی دیکھا تھا، یہاں دیکھا تو فرق صرف اتنا تھا کہ قفس کی اسیری کے بجائے پا بہ زنجیر دیکھا ، البتہ یہاں وہ سرسبز پہاڑوں کی قربت میں ضرور تھا۔ 

اپنی کلائی پر بٹھا کر قریب سے اس کی آنکھوں میں جھانکا تو ایسا لگا کہ گردوپیش کے بلند پہاڑوں اور کھلی فضا کو دیکھ کر ان میں آزادی کی لو بھڑکتی ہو اور پھر عالم بےبسی میں بجھنے لگتی ہو ،چونچ کچھ ایسے کھلی تھی جیسے شکوہ کرتا ہو کہ ہائے میری بےچارگی، لب دریائے محبت ہو کر بھی میں کتنا پیاسا ہوں ۔



   ایوبیہ سے اسلام آباد کی طرف بڑھیں تو درمیان میں مری تو آتا ہی ہے۔ ہم راہ میں جابجا قدم روکتے خوبصورت نظاروں کے پاس رکتے رکاتے باڑیاں کے قصبے سے گزرکر دوپہر ہونےسے قبل ہی مری کے قریب واقع معروف کلدانہ چوک پہنچ گئے۔ چوک سے کئی راستے مختلف سمتوں کو نکلتے تھے ، میں نے کچھ دیر کیلئے گاڑی ایک کنارے روک دی۔

   صبح نتھیاگلی سے نکلتے وقت ذہن میں تھا کہ دن کا زیادہ سے زیادہ وقت اسلام آباد پہنچنے سے پہلے پہلے ان سرسبز پہاڑوں کی سنگت میں ہی گھومتے پھرتے گزاریں گے۔ کلدانہ چوک پر رکے تو خیال آیا کہ مری میں پنڈی پوائنٹ، کشمیر پوائنٹ ، مال روڈ کی مخصوص چہل قدمی سمیت پتریاٹہ کی لفٹ چیئرز تک کی سیر تو ہم ایک عرصے سے کرتے ہی چلے آئے ہیں ، بھوربن کبھی نہیں گئے تھے لیکن اس کےحسن کے چرچے بہت سن رکھے تھے ، سو کیوں نہ آج وہیں کا رخ کیا جائے۔ کلدانہ چوک سے گاڑی کوہالہ اور مظفر آباد جانے والی راہ پر موڑ دی۔درختوں سے گھری خوبصورت سڑک پر لگے نیلے سائن بورڈ کے مطابق بھوربن محض 7 کلومیٹر کی دوری پر تھا۔










    وادی اسکردو میں کچورا جھیل کا رخ کریں تو شنگریلا ریزورٹ کا بلاخیز حسن سیاح کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے،جس طرح اپر کچورا کے خالص قدرتی جمال تک پہنچنے سے قبل شنگریلا کی تراشیدہ زلفوں کی چھائوں اپنی طرف کھینچ لیتی ہے،بھوربن کے بارے میں بھی یہی سن رکھا تھا کہ اس علاقے کی خوبصورتی کے ایک بڑےخزانے کی حفاظت کی ذمے داری پی سی بھوربن نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ 
   اسکردو میں ہمارے اس سفر کے ابتدائی دن تھے ، بالکل تازہ دم بھی تھے ، شنگریلا کی جنت سے نکل کر اپر کچورا جھیل جاتے وقت ہمیں قدرت کے بےحد خالص حسن کا قرب نصیب ہوا کہ جہاں ہم سرسبز کھیتوں کے بیچ بہتے نالے کنارے بنی پگڈنڈیوں پر سنبھلتے ہوئے چلتے،کہیں ہمیں ان کھیتوں اور کھلیانوں کے بیچ چندکچے گھر نظر آتے تو کہیں بلند درختوں کی شاخوں پر کھڑے شہتوت توڑتے معصوم بچے دکھائی دیتے۔جھیل کے عین کنارے تک پہنچنے کیلئے درختوں کے جھنڈ کے بیچ سے نشیب کا رخ کرتی تنگ سی رہگزر پر کبھی ہم پھسلتے یا لڑکھڑاتے تو گھبرا کر کسی درخت کی ٹہنیوں کی طرف ہاتھ بڑھا دیتے، درخت مسکر ا کر ہمارا ہاتھ تھام لیتے،وہ جو کہ صرف ایک جنگل تھا، اسے ہم سے اور ہمیں اس سے بہت محبت تھی ، گھنے درختوں کی ہری بھری شاخوں کے خوبصورت دریچوں سے نیچے جھانکتے تو اپر کچورا جھیل کا زمردیں پانی یوں جھلملاتا دکھائی دیتا کہ گویا ہماری چاہ اور انتظار میں مچلتا ہو۔جہاں جمال قدرت کی نیرنگیاں کمال کی تھیں۔
    کئی دنوں کی سیاحت اورطویل سفرکے بعد بھوربن پہنچے تھے ، وقت کی کمی بھی مانع تھی کہ شام تک اسلام آباد پہنچ کر راول جھیل سے بھی ملنا تھا ،اس لئے یہاں جمال قدرت سے سجی کسی فردوس کو تلاش کرنے کے بجائے ہم صرف پی سی کی حدود میں ہی مختصرسیر پر مجبور تھے۔ 
     گیٹ پر پہنچے تو پتہ چلا ہم کسی ہوٹل میں وارد نہیں ہورہے بلکہ بھوربن انٹرنیشنل ائرپورٹ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے ہوں۔ گاڑی کی عقبی نشست پر لدے سوٹ کیس اور دیگر بیگزکو باقاعدہ اسکیننگ مشین سے گزارا گیا، یہ غنیمت تھا کہ ہم امریکا کے کسی ائر پورٹ پر نہ تھے ورنہ یقیناً کپڑے اور جوتے اتار کر سرتاپا تلاشی کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا۔شنگریلا کی طرح بھوربن کی جنت میں بھی داخلے کیلئے فیس مقرر تھی۔شنگریلادوردراز کے علاقے کی جنت تھی اس لئے فیس زیادہ نہ تھی ، یہاں عوام کی کثیر تعداد کی بآسانی رسائی ممکن تھی ، اس لئے اس جنت کے حسن کی حفاظت کے پیش نظر فیس کا کچھ بھاری بھرکم ہونا ضروری تھا۔ اچھی بات یہ تھی کہ ادا کردہ فیس کا ٹوکن ہوٹل کی حدود میں واقع کسی بھی ریسٹورنٹ میں کھانے پینے کا بل دینے کے لئے استعمال کیا جاسکتا تھا۔یہ الگ بات کہ پی سی کے کسی ریسٹورنٹ میں ہلکا پھلکا کھانے پینے سے ہی بل خاصا بھاری بھرکم ہوجایا کرتا ہے۔ 




    دوپہر کے 12 بجے تھے ، ہمیں نہ ابھی اتنی بھوک تھی کہ کسی ریسٹورنٹ کو تلاش کرتے ،نہ ہی ہوٹل کی عمارت اور اس کی زیبائش سےکوئی سروکار تھا، چنانچہ جھٹ سے اس کے عقبی حصے میں پوشیدہ گوشہ جنت میں جا پہنچے ۔بھوربن کی اس سرسبزوادی میں گو کہ ہم خاصی بلندی پر تھے لیکن سورج کی تمازت ہمیں ستاتی تھی۔ آج سے دس پندرہ سال قبل گلیات مری کی بھرپور دوپہریں بھی بہت خنک ہوا کرتی تھیں، مگر اب گلوبل وارمنگ نے موسموں کے انداز بالکل بدل کر رکھ دئیے ہیں ۔ دور بہت دور مشرق کی سمت ہمیں وادی کشمیر کے پہاڑ نظر آتے تھے ۔ شنگریلا اسکردو کا عکس پی سی بھوربن کی صورت ہمارے سامنے تھا۔





   سبزہ زاروں میں ترتیب سے لگےدرختوں اور پودوں کی قرینے سے تراشیدہ زلفیں اور ان کے انتہائی نفیس رنگارنگ پیراہن ، نت نئے اور دلربا انداز کی باڑھیں ، انواع و اقسام کے خوش رنگ پھولوں سی مہکتی اداؤں کی حامل کیاریاں اور زمین میں سلیقے سے جڑے پتھروں سے سجی ہموار روشیں -

   ہم ان خوبصورت رہگزروں میں ٹہلتے اور گھومتے پھرتے تھے لیکن بہت احتیاط کے ساتھ کہ کسی درخت یا پودے کو چھو نہ بیٹھیں ، کسی کے شفاف پیرہن پر کوئی داغ نہ لگ جائے ، بڑی کاوشوں سے سلجھا کر سنواری گئی کوئی زلف کہیں الجھ نہ جائے۔ بلاشبہ یہ بھوربن کی ماڈرن جنت تھی جہاں موجود ہر پودے اور شجرکی آرائش و زیبائش کیلئے باقاعدہ بیوٹی پارلراور بوتیک کی سہولتیں موجود تھیں۔









  دوپہر اپنے جوبن پرپہنچی تو گرمی کے ساتھ ساتھ ہماری بھوک بھی بڑھی۔ اتنے دنوں کے سفر کے دوران کہیں کسی بھی کچے سے ہوٹل یا ڈھابے پررک کر دوپہر کا کھانا کھا لیتے تھے ،آج چونکہ بمع داخلہ فیس ٹوکن پی سی بھوربن میں تھے ، سو ہم نے باقاعدہ لنچ کیا۔ ڈائننگ ہال کے بڑے بڑے شفاف شیشوں اور اس سے متصل ٹیرس سے پی سی کی ماڈرن جنت کا نظارہ بہت دلکش تھا۔ کچھ دکھ تھا تو یہ کہ یہاں صرف خواص کا ہی بآسانی آنا ممکن تھا ، عوام کی رسائی بہت مشکل تھی، ایک احساس دل مسوستا تھا کہ بھوربن کی اس ماڈرن جنت کا حسن کمال کا تو ضرور ہے لیکن آزاد نہیں۔
سنوارتی ہو ہوا جسے اور تراشتا ہو آب
وہ سنگ بےمول بڑھ کر ہے ہیرے سے
چلو کہ قید ہیں منظر یہا ں تو سارے ہی
کہا جنوں نے اچانک مجھے یہ دھیرے سے

    گو کہ آج کی یہ تپتی دوپہر پی سی بھوربن کے ائر کنڈیشنڈ ڈائننگ ہال میں بہت خوشگوار لگتی تھی لیکن میرےجنوں کی اس سرگوشی کے بعد ہم فوری طور پر یہاں سے روانہ ہوگئے۔









   کلدانہ چوک پر پہنچے تو مری کا رخ کرنے کے بجائے کشمیر روڈ پر مڑ کر اسلام آباد کی طرف روانہ ہوگئے۔ابھی بمشکل آدھا  پون گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ سڑک کنارے ایک کار الٹی پڑی دیکھی۔ حادثہ دیکھ کر رکے بغیر نکل جاتے تو حادثے سے بڑا سانحہ ہوجاتا کہ بقول شاعر
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا 
لوگ ٹہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

   گاڑی سے اتر کر الٹی پڑی کار کے قریب پہنچے تو ایسا چکرائے کہ ہم ہی  الٹ کے رہ گئے،مری پوائنٹ نامی خوبصورت ریسٹورنٹ کے کشادہ احاطے میں عین سڑک کے کنارے یہ کار کسی حادثے کے نتیجے میں نہیں الٹی تھی  بلکہ سیاحوں کو سرپرائز دے کر یہاں روکنے کی غرض سے بڑے پیار سے اسےالٹا لٹادیا گیا تھا۔ہمیں  ایسا لگا کہ یہ سارا میلہ اس لئے سجایا گیا ہو کہ ہم مری سے ملے بغیر نکل بھاگنے  میں کامیاب نہ ہوپائیں۔عالم حیرت سے نکل کر ہم سیدھے ہوئے تو اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ محض ڈرامہ تھا کوئی حادثہ نہ تھا۔  مری پوائنٹ کا یہ ڈرامہ دیکھنے   اور کچھ پل مری کی قربت میں  گزارنے کیلئے  ہم تقریباً آدھا  گھنٹہ یہاں ٹہرے۔ ظہر کی نماز بھی   ہم نےیہیں ادا کی۔








      مری پوائنٹ سے چلے تو گھڑی 3 بجا چکی تھی، دوپہر سہ پہر میں بدلتی تھی جب ہم  دونوں اطراف موجود درختوں سے گھری  حسین شاہراہ پر موڑ در موڑ سرسبز پہاڑوں کی بلندیوں سے نیچے اترتے چلے جاتے تھے۔پہاڑوں کی بلندیاں کم ہونے کے ساتھ ہی  درختوں کی اونچائیاں بھی گھٹنا شروع ہوگئیں۔ کچھ اور آگے بڑھے تو پہاڑ،ان کی بلندیوں پر پائی جانے والی خنکی،دونوں اطراف ساتھ ساتھ چلنے والے درختوں کا سلسلہ اورسڑک کومسلسل اپنی آغوش میں تھپکتی  درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں بھی   ساتھ چھوڑ گئی۔ 

   سرسبز پہاڑوں کی بلندیاں ،درخت اور سڑک پر ان کی گھنی چھائوں کا ساتھ تھا تو    بھری دوپہر میں بھی گاڑی میں درآتی ہوا خوشگوار محسوس ہوتی تھی،اب گو کہ سہ پہر بھی ڈھلنا  شروع ہوگئی تھی   لیکن  ہوا میں برائے نام بھی ٹھنڈک  نہ تھی۔ سڑک کے اطراف موجود جھاڑیوں اور پودوں کا سکوت بتاتا تھا کہ میدانی علاقے میں پہنچتے ہی ہوا ئیں بھی ناپید ہوگئی ہیں۔غنیمت تھا کہ سڑک کے اتار چڑھاؤ اور موڑ ختم ہوتے ہی ہماری رفتار میں تیزی آجانے  کے باعث ہوا کے  ہلکے پھلکے جھونکے  ہمارے چہروں کو چھو لیتے تھے۔سفر جاری تھا کہ اچانک میری نظر  لیک ویو پوائنٹ کی نشاندہی کرتے سائن بورڈ پر پڑی جو محض نصف کلومیٹر  کی دوری پر تھا۔ ہم اسلام آباد کی حدود میں وارد ہوگئے تھے،  گھڑی 4 کو کراس کر چکی تھی ۔ میں نے گاڑی کی رفتار کچھ آہستہ کی کہ ہمیں لیک ویو پوائنٹ کیلئے بائیں طرف مڑنا تھا جہاں راول جھیل ہماری منتظر تھی۔






   ہم ابھی  لیک ویوپوائنٹ کےداخلی گیٹ  تک نہیں پہنچے تھےکہ موبائل کی گھنٹی بجی۔میں نے گاڑی کی رفتار مزید آہستہ کردی۔
"وحید بھائی آپ کہاں ہیں ؟"
میرے دفتر کے ساتھی  اور عزیز دوست نسیم اخترکا فون تھا۔وہ جانتے تھےکہ ہم شمالی علاقوں کی آوارہ گردی کیلئے نکلے ہوئے ہیں۔
"ابھی ابھی اسلام آباد پہنچے ہیں۔ خیریت ؟ "
"ارے واہ ! ہم بھی اسلام آباد میں ہی ہیں ۔آپ کہاں  ٹہرے  ہوئےہیں؟"
"بھائی ہم تو صبح نتھیاگلی سے چلے تھے ،ابھی تو اسلام آباد میں داخل ہی ہوئے ہیں،لیک ویوپوائنٹ کے قریب ہیں ،راول جھیل کی طرف جارہے ہیں۔ تم کہا ں ہو ؟"
"ہم بھارہ کہو میں ٹہرے ہوئے ہیں۔"
"کچھ ہی دیر پہلے ہم بھارہ کہو کے پاس سے  ہی گزر رہے تھے۔"  میں نے جواب دیا 
"بالکل !بھارہ کہو سے لیک ویو پارک زیادہ دور نہیں، آپ وہیں  انتظار کیجئے گا، ہم بھی تھوڑی دیر تک پہنچتے ہیں۔"
     میں ان کے اسلام آباد میں وارد ہونے سے  بالکل بےخبر تھا۔انہوں  نے ایک آدھ بار ذکرتو کیا تھا کہ اس موسم گرما میں  فیملی کے ساتھ اسلام آباد اور مری جانے کاارادہ ہے، لیکن کراچی کے اکثر دوست صرف منصوبے بنانے اور پھر ان کا ذکر کرنے تک ہی محدود رہتے ہیں۔ کچھ کو  عین وقت پرکسی اہم ذمے داری کابوجھ رو ک لیتاہےتو کچھ گوناگوں  مصروفیات کی زنجیروں میں جکڑ ے جاتے ہیں، بعض زیادہ طویل  سفر  کا سوچ کرہی ہمت  نہیں کرپاتے،  اور بعض  کو   ہمالیہ ،قراقرم اور ہندوکش کے سلسلہ کوہ  میں   ہزاروں فٹ گہری کھائیوں  کے ساتھ ساتھ   گھومتی اوراترتی چڑھتی راہ کا تصورہی اتنا لرزا دیتا ہے کہ ان کے سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔ اسلام آباد پہنچتے ہی  اپنے دوست کے یوں اچانک  فون  آنے  اور پھر  فوراًملاقات  بھی طے پاجانے پر مجھے حیرت بھی تھی اور خوشی بھی۔
    کچھ ہی دیر میں ہم لیک ویو پوائنٹ  کی پارکنگ  میں پہنچ گئے۔ گاڑی سے اترے تو لگا کہ شاید  آج دارالحکومت میں ہوائوں کے داخلے پرمکمل پابندی عائد ہے۔ کسی بھی سمت سے کوئی بھولا بھٹکا جھونکا بھی ادھر کا رخ نہیں کرتا تھا۔سہ پہر کے شام کی طرف بڑھنے کے باوجودسورج  کی آب وتاب بھرپور  اوردھوپ کی تمازت  زوروں پرتھی۔راول جھیل پارکنگ سے کچھ فاصلے پر تھی۔تیز چمکتی دھوپ سے بچنے کیلئے جھیل کی طرف جاتی راہ کے ساتھ ساتھ موجودسبزہ زاروں میں لگے درختوں کی چھائوں کے سہارے ہم پیدل  آگے بڑھتے رہے۔گرمی کی شدت نے جلد ہی  ہمارےحلق میں کانٹے  بودئیے۔راستے میں ایک اسٹال سے کولڈ ڈرنک لے کر پی تو  ہماری حالت کچھ سنبھلی۔ قدم دوبارہ آگے بڑھائے تو کچھ ہی دیر میں یہ خود رو کانٹے پھرحلق میں اگ آئے۔
     اچانک سامنے کچھ فاصلے پر دکھائی دیتی جھیل کے  نیلگوں پانی پر نظر پڑی تو آنکھوں کے راستے کچھ تراوٹ سی روح میں اترتی محسوس ہوئی۔وسیع و عریض پرسکون جھیل  کو دیکھتے ہی ہمارے قدم  اس امید میں تیزی سے اس کی سمت  بڑھے کہ پانی کے قرب میں کچھ ٹھنڈک ضرور مل پائیگی، یہ بھی ممکن تھا کہ دارالحکومت کے محافظوں کو چکمہ دے کر ہو ا کا کوئی ایک آدھ جھونکا بھی  جھیل کی لہروں  کی سیر کرتا  اس کنارے تک پہنچ گیا ہو۔یہی آس دل میں لئے ہم جھیل کے عین کنارے لگی ریلنگ سے جاٹکے ۔۔لیکن  بے سود۔جھیل کو  اپنےبالکل قریب دیکھ کر ہمارے  چہرے  جوخوشی سے تمتمانا شروع  ہی ہوئے تھے، فوراً ہی دھوپ کی تپش سے تپتپانے لگے۔دور دور تک پانی ہی پانی دکھائی دیتا تھا لیکن اس میں سے  نہ تو برائے نام ٹھنڈک اوپر کا رخ کرتی تھی، نہ ہی  ہوا کا  کچھ اتا پتہ تھا کہ سطح آب سے کچھ ٹھنڈک چرا  کرہی ہمارے لئے لے آتی۔



    گرمی کی شدت کے باوجود لیک ویوپوائنٹ میں موجود خوبصورت پودوں  ، درخت اور جھیل کےحسن کی کشش بہرحال اپنی جگہ بھرپورتھی۔جھیل کنارے موجود رنگ برنگی کشتیاں اور خاص طور پر ٹرائی سائیکل بوٹس بہت پیاری لگیں – میں زیادہ گرمی محسوس کرتا تھا  جس کی ایک بڑی وجہ میری بےوقوفی تھی کہ نتھیاگلی سے خریدی گئی جیکٹ ابھی تک پہن رکھی تھی۔نئے مناظر سے لطف اندوز ہونے کاجنون    کہاں  ہوش  قائم رہنے دیتا ہے۔ اس سے قبل جب بھی اسلام آباد آئے ،صرف  راول ڈیم ہی کی طرف جانا ہوا تھا ۔یہ نئے نظارے تھے سو باوجود شدید گرمی کےمیرے ہوش لے اڑے تھے ۔ہمسفر نے اس عظیم بے وقوفی کی طرف توجہ دلائی تو میں نے فوراً جیکٹ اتاردی ۔بہت زیادہ فرق تو نہ پڑا  لیکن کچھ نہ کچھ سکون ضرور ملا۔









   پانچ  بج چکے تھے،لیکن اتوار ہونے کے باوجودلیک ویو پوائنٹ میں  زیادہ رونق نہ تھی۔شاید اس کی وجہ یہی تھی کہ آج موسم بھی گرم تھا اور شام ہونے میں بھی ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ ٹھنڈک کی تلاش میں جھیل کی قربت سے نکل کر ہم نے ایک گوشے میں  دکھائی دیتے گھنے درختوں کا رخ کیا کہ کم ازکم وہاں کچھ چھاؤں تو دستیاب تھی۔ قریب ہی موجود اسٹال سے اس بار ہم نے  مرنڈا کی ڈیڑھ لیٹروالی بوتل خریدی ۔ایک شخص  پلاسٹک کے چھوٹے  چھوٹےجھلنے والے پنکھے بیچتا دکھائی دیا۔حلق کی ٹھنڈک کیلئے کولڈ ڈرنک لی تھی ، ہواکے ہلکے پھلکے جھونکوں  کے لئے ہم نے یہ پنکھا بھی خرید لیا اوردرختوں کی چھائوں میں بیٹھ کر ہم اسلام آباد کی اس شدید گرمی کا کچھ نہ کچھ توڑ کرتے رہے۔اگر اپنے دوست نسیم کا انتظار نہ کرنا ہوتا تو فوری طور پر یہاں سے نکل کر کسی ہوٹل کا رخ کرچکے ہوتے ۔گھڑی ساڑھے 5 بجا چکی تھی ، راول جھیل ویو پوائنٹ پر اب باقاعدہ شام اتر آئی تھی ، یہاں پھول بھی کھلے تھے ،درخت بھی تھے اور سبزہ زار بھی ، کچھ نہ تھا تو ہوا نہ تھی ، اتنا شدید حبس کہ سانس لینا بھی محال ، بقول جوش
اب بوئے گل نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ

   چھ بجے سے کچھ قبل ہمارے دوست نے اپنے پہنچنے کی اطلاع دی ۔ ہم اس نسبتاً پرسکون   گوشے سے اٹھ گئے۔ ان سے ملاقات ہوئی ، اب چونکہ باقاعدہ شام ہوچکی تھی، اس لئے لیک ویو پوائنٹ کی رونق میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا تھا، دھوپ کی تیزی ضرور کچھ تھمی تھی لیکن حبس کی گھمس جوں کی توں تھی۔اپنے دوست کے ہمراہ ایک بار پھر جھیل کے قریب پہنچے ۔ لوگ ٹرائی سائیکل بوٹس میں جھیل  کے پرسکون پانی میں سیر کرتے دکھائی دئیے۔شدید حبس میں  ایک ڈیڑھ گھنٹہ طویل انتظار نے ہمیں کچھ ایسا بے حال کردیا تھا کہ خود میں کشتی کی سیر کی بھی تاب  نہ پاتے تھے۔کچھ دیر  تک گھاس کے میدان میں بیٹھ کر اپنے  دوست اور ان کی فیملی کے ساتھ  گپ شپ کی ۔اسی دوران یہ  پروگرام طے پاگیا کہ یہاں سے نکل کر شکرپڑیاں میں واقع پاکستان مونومنٹ  کی سیر کو چلتے ہیں۔







     ہمارے دوست نسیم نے  لیک ویو پوائنٹ کی سیر کی غرض سے بھارہ کہو سے روانہ ہوتے وقت  واپسی تک کے لئے ٹیکسی کر رکھی تھی ، سو وہ  اپنی فیملی کے  ہمراہ اسی میں پاکستان مونومنٹ کیلئے روانہ ہوئے۔ہم اپنی گاڑی میں چلے  لیکن اجنبی راہ پر  کچھ گڑبڑا جانے کی وجہ سے  ذرا تاخیر سے پہنچے۔ اسی دوران مغرب کا وقت  ہوجانے کی وجہ سے اندھیرا بھی ہوچلا تھا۔ خوبصورت مونومنٹ ہمارے سامنے تھا لیکن  دوست کی فیملی کا کچھ اتا پتہ نہ تھا۔ ستم بالائے ستم   یہ کہ بیٹری کےنڈھال ہو جانے کے باعث موبائل نے بھی  چپکے سےآنکھیں موند لیں۔ادھرسورج کے منہ چھپاتے ہی اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں کے باسیوں کی اچھی خاصی تعداد بھی یادگار کی تفریح کیلئے پہنچنا شروع ہوگئی تھی۔  

     ہم پہلی مرتبہ   یہاں آئے تھے اس لئے راستوں سے بھی زیادہ واقف نہ تھے۔پارکنگ ایریا اور اس کے قریبی اطراف میں اپنے دوست کو تلاش کرتے پھرتے تھے، سورج غروب ہونے سے گرمی کی شدت تو ضرور کم ہوئی تھی لیکن حبس بدستور زوروں پر تھا۔ تسلسل کے ساتھ  تلاش دوست کے عمل کے دوران  پیاس نے ستانا شروع کیا تو ٹھنڈا ٹھنڈا لمکا پی کر کچھ سکون ملا۔نسیم اور ان کی فیملی کا کوئی سراغ نہ ملا  تو ہم نے میوزیم  کا رخ کیا۔ٹکٹ گھر کے سامنے لگی لمبی لائن میں بھی  وہ نظر نہ آئے۔



    میوزیم کی ائر کنڈیشنڈ عمارت میں داخل ہوئے تو سامنے ہی ایک شاندار بگھی میں قائد اعظم اور دختر قائد فاطمہ جناح بیٹھے  دکھائی دیئے۔ہم تقریبا ً آدھے پون گھنٹے تک شاندار میوزیم میں گھومتے پھرے۔جس میں  قیام پاکستان  کی جدوجہد کرنے والے رہنمائوں  کو مومی مجسموں کی صورت  مختلف  تاریخی حوالوں  ،واقعات اور مواقع کی مطابقت  کے ساتھ اس خوبصورتی  اور مہارت سے پیش کیا گیا تھا کہ ان  قدیم اور  تاریخی مناظرکو دیکھ کر بالکل حقیقت کا گماں ہوتا تھا ۔کہیں قیام پاکستان کے وقت ہجرت   کرنے والوں کی مشکلات اور مصائب کی کچھ جھلکیاں دل کو بوجھل کرتی  تھیں تو کہیں  انگریز سامراج کے خلاف تحریک آزادی اوربرصغیر پاک و ہند کےقدیم   ادوارکی تہذیب و ثقافت  اور روایات کے یادگار نمونے ہمارے سامنے سج جاتے تھے۔













     ماضی قریب  و بعید کے تاریخی مناظر کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ  ہم  حال میں لاپتہ ہوجانے والے دوست اور ان کی فیملی  کو  بھی ڈھونڈتے پھرتےتھے۔قدیم مناظر میں گم ہو کر ہم کبھی  تاریخ کے اوراق میں کھو جاتے تو کبھی چہار اطراف دیدے گھما گھما کر  گمشدہ دوست  اور ان کی فیملی کا سراغ لگانے کی کوشش کرتے۔میوزیم میں زمانہ قدیم  کے دلکش مناظر سے لطف اندوز ہونے کی مسرت کے ساتھ ساتھ خوشی اس بات کی بھی تھی کہ میوزیم  نےہمیں اسلام آباد میں  زمانہ حال کے شدید حبس    سے بچاؤ کے لئے ائر کنڈیشنڈ کے ہلکے پھلکے ٹھنڈے جھونکوں کی   ڈھال فراہم کردی تھی۔











    میوزیم سے نکل کر ہم مونومنٹ کی طرف بڑھ گئے۔قریب پہنچے تو نسیم اور ان کی فیملی بھی وہیں  مٹرگشت کرتی پائی گئی۔ یادگار کی تعمیر منفرد  ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بامعنی بھی تھی ،انتہائی کشادہ چبوترے کے بیچوں بیچ ہلال اور ستارے کے ماڈل بڑی خوبصورتی سے تعمیر کئے گئے تھے جو قومی پرچم پر موجود چاند ستارے کی نشاندہی کرتے تھے۔ہلال کے ماڈل پراس کے عقب میں بنی ہوئی  پھول کی چار پتیاں جھک کر سایہ فگن تھیں  جو کہ ملک کے چاروں صوبوں کو ظاہر کرتی تھیں ، ان چار پتیوں کے درمیان تین چھوٹی پتیاں  بھی تھیں جو آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور ملک کے قبائلی علاقہ جات کی علامت تھیں ،ان چھوٹی پتیوں کی موجودگی نہ صرف پھول کے حسن کو دوبالا کرتی تھی بلکہ اس حسین یادگار کی شان بھی بڑھاتی تھی۔آسمان پر رات کی تاریکی بڑھتی تھی  ، ایسے میں یادگار کے درمیان میں لگی لائیٹوں کی روشنی میں چمکتی پھول کی پتیاں بہت دلکش دکھائی دے رہی تھیں۔پاکستان کی عکاسی کرتی حسین یادگار کو دیکھ کر دل سے بے ساختہ دعا نکلتی تھی کہ اے ہمارے  رب !ہمارے پیارے وطن کو سدا یونہی روشن اور جگمگاتا رکھنا۔
   اپنے دوست نسیم کے ہمراہ یادگار کی سیر نے آج کی اس سیر کو مزید یادگار بنادیا۔رات کے گہرے ہونے کے ساتھ ہی گرمی  کچھ کم ہوگئی البتہ حبس  کا استقلال برقرار رہا ۔ساڑھے 8 بجے کے قریب  ہم یہاں سے نکلے ، ہمارے دوست بھارہ کہو روانہ ہوگئے ، ہم  نےرات گزارنے کے لئے کسی ہوٹل کی تلاش میں سڑکیں ناپنا شروع کردیں    ، اجنبی شہر کے اجنبی راستے ، نہ کوئی مخصوص  منزل  نہ  کوئی دیکھی بھالی اور جانی پہچانی رہگزر، سیاہ آسمان اور روشن سڑکیں، دن بھر کے سفر کی تکان جسم و جاں میں اترتی ہوئی اور ہماری نگاہیں سڑکوں کے اطراف کسی ہوٹل کو ڈھونڈتی ہوئی۔

    نہ جانے کتنی راہوں سے گزرے ، کتنے موڑ مڑے ،بالآخر ایک سڑک کنارے اکا دکا ہوٹلوں کے چمکتے بورڈ دکھائی دے ہی گئے۔ سو مزید بھٹکتے پھرنے کے بجائے ہم نےفوری طور پر ایک ہوٹل میں  جا گھسنا ہی بہتر جانا۔ہوٹل مناسب تھا اور کمرہ بھی آرام دہ۔ منیجر سے استفسار پر پتہ چلا کہ ہم راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کے اریب قریب کسی علاقے میں آپہنچے تھے۔کچھ تازہ دم ہوئے تو زوروں کی بھوک محسوس ہوئی۔ معلوم ہوا کہ کچھ ہی دوری پر اسٹیڈیم کے قریب راولپنڈی کی کوئی معروف فوڈ اسٹریٹ   واقع ہے،سو وہاں جاپہنچے۔واقعی وہاں اچھے خاصے بڑے بڑے اور بارونق ریسٹورنٹس  موجود تھے۔ کھانا بھی عمدہ تھا ، شکر کہ  اونچی دکان اور پھیکا پکوان والا معاملہ نہ تھا۔کھانا کھا کر ہم نے فوراً ہی واپس  اپنے ہوٹل کا رخ کیا۔



    اکیسواں دن

سوئے لاہور ۔۔ ایک گرم دن
   
    کچھ توگزشتہ روز کے سفرکی تکان  نے سانسوں کو مضمحل کیا تھا ، پھر اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوتے ہی گرم موسم اورشدید حبس  نےتو سانسیں بند کرنے میں ہی کوئی کسر نہ چھوڑی تھی  ، چنانچہ اپنی توانائیاں بحال کرنے کیلئے ہوٹل کے آرام دہ کمرے میں ہم  صبح دیر تک سکون کی گہری سانسیں   لیتے رہے ۔اگر نتھیاگلی سے سیدھا اسلام آباد آنا ہو تو بآسانی 3  سے 4گھنٹے میں یہ فاصلہ طے ہو سکتا ہے، فاصلے کے لحاظ سے تو یہ سفر بالکل لمبا  نہ تھا لیکن اسے اتنا طویل بنانے میں سارا عمل دخل  ہماری آوارہ گردیوں کا تھا۔
     نتھیاگلی سے چلے تو پہلے بندروں سے  ملے ، ناشتے کے لئے رکے، ایوبیہ کی چیئر لفٹ سے لطف اندوز ہوئے،راستے میں  شاہین سے ملاقات کی،پھربھوربن  پی سی میں جاگھسے، مری پوائنٹ پر کچھ وقت گزارا،پہاڑوں سے اترکر میدانوں میں پہنچےتو گرم موسم میں آپھنسے،راول جھیل کنارے ہوا کے جھونکوں کو ترسے  ،ایسے میں دوست کے انتظار کے کٹھن لمحات سے بھی نمٹے،پاکستان مونومنٹ میں ان سے بچھڑ جانے کا بھی  کچھ دکھ سہا،دن بھر کے سفر کے بعد وہاں بھی تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے تک  پیدل ہی گھومے پھرے،دن رات میں بدل گیا   لیکن ہمارا سفر جاری رہا کہ اسلام آباد سے راولپنڈی تک  کسی ہوٹل کی تلاش میں سڑکوں پر بھٹکتے پھرے۔



صبح ساڑھے 9 بجے کے قریب ہم نے  دوبارہ پنڈی اسٹیڈیم کے قریب ایک ریسٹورنٹ میں ناشتہ کیا۔ آسمان بالکل صاف تھا ، اتنی صبح پائی جانے والی سورج کی تپش آج پھر  ایک گرم دن کی آمد کا پتہ دیتی تھی۔ہمیں آج صرف لاہور تک کا ہی سفر کرنا تھا  اور وہ بھی موٹروے سے  ، اس لئے کوئی جلدبازی اور پریشانی نہ تھی۔ 
      ناشتہ کرکے دوبارہ ہوٹل پہنچے ، تھوڑی دیر آرام کرکے  کچھ مزید  تازہ دم  ہوئے اور تقریباً  ساڑھے 11بجے راولپنڈی کے ہوٹل   سے روانہ ہوئے۔ایک بجے کے بعد کلر کہار ریسٹ ایریا پہنچ گئے، گرمی زور پکڑ چکی تھی ، ایک ایک کپ آئس کریم کھا کر اس کا کچھ توڑ کیا۔ظہر کی نماز یہیں ادا کی  اور 2 بجے سے قبل ہی آگے روانہ ہوگئے۔









ہم شمال کےپہاڑوں اور وادیوں سےاتر کر جنوب کے میدانوں اور ریگزاروں کی طرف رواں دواں تھے اور کلر کہار سے نکلنے کے بعد وسطی پنجاب کے میدانوں تک پہنچنے کے لئے پوٹھوہار کی بلند سطح مرتفع کے آخری سلسلہ کوہ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ موٹروے ان پہاڑوں کے درمیان گھومتی نشیب میں اترتی چلی جاتی ہے۔ شمالی علاقوں کے سفر سےواپسی میں کلر کہار کو پیچھے چھوڑنے کے بعد جوں جوں گاڑی آگے بڑھتی ہے ، اداسی کی ایک دھند چپکے چپکے ہمارے دل کو اپنی لپیٹ میں لینے لگتی ہے۔ 
   موٹروے کے بائیں طرف مشرقی سمت میں کوہستان نمک اور دائیں طرف مغرب میں وادی سون سکیسر کے پہاڑ پہلے دور سے اپنی جھلک دکھاتے ہیں ، پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے قریب آ کر ہمیں اپنی محبتوں کے حصار میں لے لیتے ہیں۔









    موٹروے آہستہ آہستہ نیچے اترکر دور دکھائی دیتے میدانوں میں بہتے دریائے جہلم کی طرف بڑھتی ہے تو یہ پہاڑ بڑے پیار سے ہمیں اپنی گود سے اتار کر الوداع کہتے ہیں، شمال سے واپسی کے سفر میں اس آخری سلسلہ کوہ سے جدائی کے یہ لمحے مجھے ہمیشہ بہت کٹھن لگتے ہیں۔ پندرہ بیس منٹ بعد ہی ہم ان پہاڑوں کے چاہت بھرے حصار سےنکل کر دریائے جہلم کی طرف بڑھتے تھے ، میں گاڑی ڈرائیو کررہا تھا اس لئے اپنے عقب میں اوجھل ہوتے اور دور سے الوداع کہتے پہاڑوں کوصرف بیک مرر میں ہی دیکھنے پر مجبور تھا۔









   ڈھائی بجے کے قریب پہلے ہم دائیں طرف وادی سون سکیسر اور بائیں سمت پنڈدادن خان اور کھیوڑہ کی طرف جانے والی راہوں کیلئے بنائے گئے انٹرچینج کے ساتھ سے گزرے ، پھر کچھ ہی دیر میں دریائے جہلم کے پل کو بھی عبور کر گئے۔ تھوڑا مزید آگے بڑھے تو شاہراہ کے دونوں اطراف سرو قامت درختوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ دریائے جہلم اور چناب کے درمیان زرخیزمیدانی علاقے میں لہلہاتے ہرے بھرےکھیت اورکھلیان گردوپیش بکھرے مناظرمیں سبز رنگ بھرتے چلے گئے۔ ساڑھے 3 بجےسہ پہرتک ہم دریائے چناب کو پار کرکے فیصل آباد کی طرف مڑنے والے پنڈی بھٹیاں انٹرچینج کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔






   راولپنڈی سے  دریائے چناب  تک  ایم 2 نامی  یہ موٹروے زیادہ تر جنوب کی سمت اترتی چلی آتی ہے ۔ لیکن دریائے چناب عبور کرنے کے بعد لاہور جانے کے لئے یہ مشرق کا رخ کرلیتی ہے  جبکہ  پنڈی بھٹیاں انٹرچینج سے ایم 3  نامی ایک اورموٹروےدائیں جانب  جنوب کی طرف مڑ کر فیصل آباد چلی جاتی ہے۔ اگر لاہور نہ جانا ہو تو ملک کے انتہائی جنوب میں واقع کراچی تک   پہنچنے کے لئے    فیصل آباد  ،جھنگ ،کبیروالا اور ملتان  سے ہوکر جانے والا راستہ نسبتاً مختصر پڑتاہے۔اسی لئے اس سفر کے آغاز میں کراچی سے روانہ ہوکر ہم نے یہی مختصر  راستہ اختیار کیا تھا بلکہ اس سے قبل گزشتہ سال کے سفر میں بھی ہم اسی راہ سے  ہوتے ہوئےکھیوڑہ  گئے تھے۔یہ راستہ بہ لحاظ طوالت توضرور مختصر ہوتا ہے لیکن اس پر موٹروے یا این 5 کی طرح   زیادہ بہتر رفتار سے سفر کرنا ممکن نہیں  ہوپاتا۔یوں بحیثیت مجموعی راہ کے اختصار کے باوجود اپنی منزل تک پہنچنے میں وقت کی برائے نام ہی بچت ہوپاتی ہے۔
    پنڈی بھٹیاں سے فیصل آباد کا رخ کرتی ایم 3 کے بعد موٹروے کےحوالے سے مستقبل کے توسیعی منصوبوں میں فیصل آباد سے ملتان تک ایم 4 ، پھر ملتان سے سکھر تک ایم 5 اور سکھر سے حیدرآباد تک ایم 6 کے علاوہ حیدرآباد تا کراچی والی موجودہ سپرہائی وے کو اپ گریڈ کرکےموٹروے کا درجہ دینا بھی شامل ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ یہ سب منصوبے کب  تک پایہ تکمیل  کو پہنچتے ہیں کہ ہم کراچی سے نکلیں تو کم ازکم وقت میں اور بآسانی شمال کے بلند پہاڑوں کی قربت میں پہنچ پانے کے قابل ہوسکیں، کیونکہ  اس میں  توکوئی  دو رائے نہیں کہ موٹروے طویل فاصلوں کو بہت تیزی سے پاٹ دیتی ہے۔
    ساڑھے 3 بجے ہم پنڈی بھٹیاں انٹرچینج کے پاس سے گزرے اور صرف 20 منٹ بعد ہی ہم سکھیکی کے ریسٹ ایریا میں جا پہنچے۔ آج کی سہ پہر خاصی گرم تھی ، دھوپ  میں تیزی بھی بہت زیادہ تھی لیکن موٹروے پر  گاڑی  کی تیزرفتارکے باعث گردوپیش پھیلےسرسبز کھیتوں میں گھوم پھر کر آتی ہوا کے تیز جھونکے زیادہ گرم محسوس نہ ہوتے تھے۔پارکنگ ایریا کے شیڈ سے نکلے تو تیز چمکتی دھوپ کی تپش نے ہماراحال پوچھا۔ہلکے پھلکے بےحال تو پہلے ہی تھے ، مزید بدحال ہوئے تو جلدی سے ریسٹورنٹ میں جا گھسے۔ہلکا پھلکا لنچ کیا اور پھر یہاں بھی فوراً ہی آئس کریم منگوالی۔لاہور اب زیادہ دور نہ تھا اس لئے سہ پہر کے ڈھلنے تک ریسٹورنٹ میں ہی بیٹھے رہے۔5 بجے سے کچھ قبل یہاں سے روانہ ہوئے۔








   گرمی کی شدت میں کچھ کمی ہوئی اور سفر کا دوبارہ آغاز ہوا تو ہوا کے جھونکے پہلے کی نسبت کچھ سکون بخش محسوس ہوئے ۔ ہمارا سفر اب دریائے چناب اور راوی کے درمیان جاری تھا۔ موٹروے راستے میں ایک دو جگہ چند نہروں کے پلوں پر سے بھی گزری،فاصلے ایک بار پھر تیزی سے سمٹے ،ابھی پونے 6 ہی بجے تھے کہ ہم لاہور کی آمد سے مطلع کرتےراوی ٹول پلازہ پر پہنچ گئے ، اس سے کچھ ہی آگے موجود دریائے راوی کا پل عبور کیا۔






    شہر کی حدود میں داخل ہونے والے انٹر چینجز کے بارے میں زیادہ چھان بین نہیں کی تھی اس لئے گزشتہ سال کے سفر کی طرح سیدھے آگے بڑھتے چلے گئے۔ ٹھوکر نیاز بیگ کے قریب نیچے اترے ، شہر کے رش میں طویل فاصلہ طے کرکے چوبرجی کے پاس سے ہوتے ہوئے انارکلی بازار کے چوک پر پہنچے تو گھڑی 7 کو کراس کر چکی تھی۔



    لاہور شہر بھی ہمارے لئے ہمیشہ سے اجنبی ہی رہا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں اپنے دوست شاہد کی فیملی کے ہمراہ کئے گئے سفر میں انارکلی چوک کے پاس ہی ایک ہوٹل میں قیام کیا تھا۔ شہر کی اسی ایک راہ سے واقف تھے سو اسی پر چلتے ہوئے دوبارہ اسی چوک پر آ پہنچے۔ تب 2013 کا آخری دن تھا ۔ 2014 کی آمد انارکلی بازار کے اسی چوک پر ہوئی تھی جہاں نصف سال گزرنے سے قبل ہی ہم 16 جون کو دوبارہ وارد ہوگئے تھے۔گزشتہ سفر کی یاد تازہ کرنے کیلئے اسی ہوٹل میں قیام کی خواہش تھی لیکن وہاں کمرہ نہ مل سکا،چنانچہ چوک کے قریب ہی ایک اور چھوٹے سے ہوٹل میں ٹہر گئے۔

   ایک ڈیڑھ گھنٹہ آرام کے بعد فوڈ اسٹریٹ پہنچے۔ کھانے کے بعد جگمگاتے ہوئے پر رونق انارکلی بازار میں گھومے پھرے۔ گزشتہ سفرموسم سرما میں کیا تھا ، تب ہم لاہور کی خنک فضاؤں میں لمبی چہل قدمی کا لطف اٹھاتے ہوئے بازار کے دوسرے سرے کے چوک تک جا پہنچے تھے جہاں  رات کی بڑھتی ٹھنڈک میں کشمیری چائے کے اسٹال نے ہمارے قدم روک لئے تھے۔ تب شدید سردی میں سانسیں بھاپ کی صورت منہ سے نکلتی تھیں ، آج بازار میں نصف فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ ہمارے پسینے چھوٹنے لگے۔ گرمی سے گھبرائے تو ٹھنڈی ٹھنڈی لسی کے اسٹال پر جارکے۔ صبح سویرے لاہور سےنکلنا تھا اور گرمی بھی کچھ ستاتی تھی ،اس لئے بازار میں مزید آگے کا رخ کرنے کے بجائےجلد سونے کے ارادے سے واپس ہوٹل پلٹ آئے۔
  بائیسواں دن


لاہور کے ہنگاموں سے بےخبر ۔  بہاولپور میں برستی آگ

    صبح سوا 6 بجے کےقریب ہوٹل سے نکلے ، ابھی لاہور شہر کی حدود میں ہی تھے کہ ایک جگہ پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کرکے سڑک بند کر رکھی تھی۔ ہمیں ایک متبادل راستہ اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی۔ ہم حیران تھے کہ شہر میں اتنی صبح سویرے کیا افتاد آن پڑی۔ میرے استفسار پر ایک پولیس والے نے بتایا کہ ایک سیاسی جماعت کی جانب سے آج احتجاجی مظاہرے کے اعلان کے باعث یہ سڑک بند کی گئی ہے۔ بہر طور شہر کی سڑکوں پر رش ہونے سے پہلے پہلے ہی ہم لاہور شہر کی حدود سے نکل کر این 5 پر رواں دواں ہوگئے-
   ابھی تو این 5 پر پہنچے ہی تھے کہ ہمسفر کے موبائل فون کی گھنٹی بجی ۔ہمسفر کے بھائی لائن پر تھے۔
"تم لوگ کہاں ہو ؟نیوز چینلز پر پٹیاں چل رہی ہیں کہ لاہور تو ہنگاموں کی زدمیں ہے"
بہن نے بھائی کو اطمینان دلایا کہ ہم لاہور کی حدود سے نکل آئے ہیں۔
    ہم چونکہ سفر میں تھے اس لئے ہر خبر سے بے خبر تھے۔ ویسے بھی اس قسم کی ٹینشن سے لتھڑی خبروں سے آگاہی کے بجائے شاہراہ کنارے لہلاتے درختوں کی قربت اور گاڑی کی کھڑکیوں سے در آتے باد صبا کے ٹھنڈے جھونکوں کی چاہت ہزار گنا بہتر تھی۔ دنیا کے رنگ ڈھنگ اتنے بدل گئے ہیں کہ کہیں سےکسی اچھی خبرکا ملنا بمشکل ہی نصیب ہوپاتا ہے۔ ہم خوش قسمت تھے کہ اپنے سفر کے سب خوشگوار دنوں کے دوران زیادہ تربے خبر ہی رہے۔

   تقریباً ساڑھے 7 بجے پتوکی بائی پاس سے چند کلومیٹر قبل ایک ہوٹل پر ناشتے کے لئے رکے۔ ابھی صبح کےساڑھے 8 ہی بجے تھے کہ ہم پتوکی ٹول پلازہ تک پہنچ گئے۔ 











    پتوکی بائی پاس کے اختتام پر لاہور سے روانہ ہونے کے بعد  ریلوے لائن  پہلی بار  ہمارے بائیں طرف این 5 کے قریب آکر ساتھ ساتھ چلنا شروع ہوگئی تھی۔پتوکی ٹول پلازہ سے گزر کر کچھ ہی آگے بڑھے توحبیب آباد بائی پاس سے ذرا قبل   ہم ریلوے لائن    پر بنے پل کو عبور کر گئے۔اس طرح  اب ریلوے لائن این 5 کے دائیں طرف  آگئی ۔ پتوکی بائی پاس  کے بعد سڑک اور ریلوے لائن ایک ساتھ ہی آگے بڑھتے ہیں۔ جب بھی کوئی بڑاقصبہ یا شہر قریب آتاہے، این 5   آبادی سے پرے ہوکر اسے بائی پاس کرجاتی ہے جبکہ ریلوے لائن شہر کے وسط کا رخ کرلیتی ہے، آبادی کے اختتام پر این 5 بائی پاس سے گھومتی ہوئی دوبارہ ریلوے لائن کے قریب پہنچ جاتی ہے۔
   ریلوے لائن دکھائی دیتی ہو تو نگاہیں کسی ٹرین کی تلاش میں بےساختہ بار بار   اس کی جانب اٹھتی ہیں،این 5 پر اپنے گزشتہ سفروں  کے دوران کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا تھا کہ کوئی  ٹرین دکھائی دی ہو، اس بارحبیب آباد بائی پاس سے گزر کر ریلوے لائن  سے قریب ہوئے تو ہماری یہ حسرت بھی بالآخر پوری ہوئی۔ ہمسفر نے اس یاد گار لمحے کو جلدی سے کیمرے میں محفوظ کرلیا۔






    کچھ ہی دیر میں ہم رینالہ خورد بائی پاس سے گزرے اور پھر اوکاڑہ شہر سے بچ بچا کرگزرتےبائی پاس  سے ہوتے ہوئےاپنے بائیں طرف واقع چھائونی کے ایریا کو پیچھے چھوڑکر اوکاڑہ ٹول پلازہ پر پہنچ گئے۔ شاندار سڑک کے باعث فاصلے تیزی سے طے ہورہے تھے۔ گو کہ گھڑی نے  ابھی صبح کے سوا 9 کو ہی کراس کیا تھا لیکن  ہوا کی  خالص ٹھنڈک میں گرمی  کی ہلکی پھلکی ملاوٹ شروع ہوگئی تھی۔







جلد ہی ساہیوال بائی پاس جا پہنچے۔جتنی تیزی سے سفر طےہورہا تھا ، اتنی ہی تیزی سے گرمی بھی بڑھ رہی تھی۔شاہراہ کنارے دکھائی دیتے ایک ریسٹورنٹ کے وسیع اور صاف ستھرے نکھرے نکھرےسبزہ زار کو دیکھ کر بریک لگادی کہ کچھ دیر یہاں سستا کر آگے بڑھیں۔نیچے اترے تو لگا کہ گاڑی کے رکنے کے ساتھ ہی ہوا کے ہلکے پھلکے جھونکوں نے بھی یکدم بریک لگادی ہو۔کچھ دیر ایک درخت کے سائےمیں جا بیٹھے ،گرمی کی حدت نے چھائوں کو بھی گرمانا شروع کیا تو سوچا ریسٹورنٹ کے اندر ہی چلا جائے۔عمارت کے قریب پہنچے تو پتہ چلا کہ ریسٹورنٹ بند ہے۔ تیزی سے گاڑی کی طرف پلٹے۔ تھوڑا سا فاصلہ طے کرکے بائی پاس پر ہی واقع ایک اور ریسٹورنٹ میں جا گھسے۔ٹھنڈی ٹھنڈی لسی پی اور کچھ دیرآرام کیا۔
ہڑپہ ٹول پلازہ آیا تو گزشتہ سفر کی یا د آگئی کہ موسم سرما کی خوشگوار صبح یہاں سے گزرتے ہوئے میرا دل مچل کر رہ گیا تھا کہ ہڑپہ کے تاریخی کھنڈرات اور عجائب گھر کی سیر کرتے ہوئے آگے بڑھیں ، لیکن اپنے ہمسفروں کی عدم دلچسپی کو بھانپ کر دل کی خواہش لب تک نہ آپائی تھی۔آج ایسی کوئی مجبوری نہ تھی لیکن بڑھتی ہوئی گرمی ڈراتی تھی کہ ہڑپہ کے کھنڈرات کہیں ہمیں ہی نہ کھنڈر بنا ڈالیں۔ گاڑی دوڑ تی تھی تو ہوا بھی کچھ نہ کچھ سکون پہنچاتی تھی۔ نہ جانے کھنڈرات کی تلاش میں کتنی دور جانا پڑے، گاڑی روک کر بھری دوپہر میں کھنڈرات میں گھومنے سے بہتر یہی تھا کہ ہمارا یہ سفر ہی جاری رہے چنانچہ دل میں آج ایسی کسی خواہش نے جنم ہی نہیں لیا۔





گیارہ بجے کے قریب چیچہ وطنی بائی پاس پہنچے۔ بائی پاس کے عین درمیان ایک چوک پرپہنچ کر ہمیں رکنا پڑا۔آج صبح صبح لاہور شہر کی حدود میں لاہور پولیس نے روکا تھا ، یہاں چیچہ وطنی کی پولیس نے ہماری راہ مسدود کر رکھی تھی۔
"آگے بائی پاس پر عوامی تحریک والوں نے احتجاجی دھرنا دے رکھاہے۔ ملتان جانے کیلئے بورے والا اور وہاڑی سے ہوکر جانے والے راستے سے چلے جائیں"
ایک پولیس والے نے ہمارے قریب آکر چوک سے بائیں سمت مڑتی تنگ سڑک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
خبر لاہور کی تھی، ابتدائی اطلاع لاہور پولیس نے ہی دے دی تھی، خبرکی مزید کچھ تفصیل کراچی سے موصول ہونے والی کال سے ملی ،اس کے بعد سے ہم مسلسل بے خبر تھے اور اپنی بےخبری پرابھی تک خاصے شاداں بھی تھے۔ دوپہر سر پر آئی تو چیچہ وطنی کی پولیس نے ہماری خبر لی کہ اتنی بےخبری اور اس پر اتنی بےفکری کچھ ٹھیک نہیں۔
میں نے ایک نظر بائیں طرف مڑتی سڑک پر ڈالی،آنے جانے والی ٹریفک نسبتاً کم کشادہ راستے پر رواں دواں ۔یہ تو سوچا بھی نہ تھا لاہور کی خبر دوپہر تک اتنا رنگ دکھا دے گی کہ این 5 پر فراٹے بھرتے ہوئے آگے بڑھنے کے بجائے ہم چیچہ وطنی بائی پاس سے بورے والا جانے والی اجنبی راہ کے مسافر بننے پر مجبور ہوجائیں گے۔




  چیچہ وطنی سے بورے والا جانے والی سڑک پر دوطرفہ ٹریفک کے باعث ہمیں اپنی رفتار کم کرنی پڑی۔ تیز رفتار مسافر وینزآہستہ چلنے والی گاڑیوں کو خطرناک انداز سے سڑک کے انتہائی کنارےاتر کراوور ٹیک کرتیں تومٹی کے مرغولوں سے بچنے کے لئے ہم فوراً شیشے چڑھاتے۔رفتار میں کمی کے ساتھ ساتھ باربار شیشے بھی چڑھانے پڑے تو گرمی نے کچھ زیادہ ہی ستانا شروع کردیا۔ سوہم جلد ہی گاڑی کے کمزور اے سی کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئے۔
  شیخ فاضل کے قصبے سے گزرتے ہوئے تقریباً پونے بارہ بجے بورے والا شہر کے ایک چوک تک پہنچ گئے۔گو کہ اس شہر میں ہم بالکل اجنبیوں کی طرح وارد ہوئے تھے لیکن بورے والا ایکسپریس کے نام سے معروف ہماری قومی کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز فاسٹ بولر وقار یونس کا آبائی قصبہ ہونے کی بنا پر اس شہر سے ہمارا غائبانہ تعارف کافی عرصہ پہلے ہی ہوچکا تھا ۔ گرمی اب زوروں پر تھی ، یہاں سے وہاڑی کی طرف جانے والی راہ کا پتہ کرنے گاڑی سے اترا تو وقار یونس کے بورے والا میں چند پل گزارنےکی خوشی نے دھوپ کی شدید تمازت کو خاصا کم کردیا۔






  چوک کے بائیں سمت مشرق کو جانے والا راستہ ایک اور مشہور فاسٹ بولر طویل القامت محمد عرفان کے چھوٹے سے آبائی قصبے گگومنڈی جاتا تھا۔ وہاڑی یہاں سے مغربی سمت واقع تھا ، اس لئے ہم محمد عرفان کی گگومنڈی کے بجائے چوک کے دائیں طرف مڑتی راہ پر روانہ ہوئے اورسوا بارہ بجےتک وہاڑی پہنچ گئے۔ بورے والا کی نسبت وہاڑی کے درمیان سے گزرنے والی شاہراہ ہمیں زیادہ کشادہ اور صاف ستھری لگی ۔
  یہاں بھی ایک خوبصورت چورنگی کے قریب میں آگے جانے والے راستے کا پتہ کرنے کی غرض سے رکا۔معلوم ہوا کہ یہاں سے سیدھا آگے کا رخ کرتی راہ تو ملتان چلی جاتی ہے جبکہ لودھراں پہنچنے کیلئے اسی راہ پر تھوڑا سا فاصلہ طے کرکے بائیں طرف مڑنے والی سڑک سے براستہ میلسی جایا جاسکتا ہے۔ براستہ ملتان لودھراں جانا خاصا طویل ہوجاتا اس لئے ہم نے میلسی جانے والی راہ اختیار کرنے کا ہی فیصلہ کیا۔





   ہم نسبتاً کم رفتار سے آگے بڑھے کہ کہیں تیزی میں میلسی کی طرف مڑنے والے راستے کو پیچھے ہی نہ چھوڑ جائیں۔ بائیں طرف مڑنے والےہر موڑ پر لمحہ بھر ٹہر کر راہگیروں سے پوچھتے پچھاتے جلد ہی ایک چوک سے بائیں طرف مڑ گئے ۔قریب ہی موجودایک ریلوے پھاٹک سے گزر کر کچھ آگے بڑھے تو فاصلے کا پتہ بتانے والے پتھر نے آگاہ کیا کہ میلسی 40 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔




    وہاڑی سے ملتان جانے والی سڑک کی نسبت یہ سڑک کچھ تنگ اور ٹریفک بھی کم تھا۔دس  بارہ کلومیٹر بعد ہم ایک چوک پر پہنچے۔راہ بھٹکنے کے خوف نے مجھے پھر گاڑی سے اتر کر میلسی کا پتہ پوچھنےپر مجبور کردیا۔یہ چوک سورو موڑ کہلاتا تھا۔پتہ چلا کہ ہمارے دائیں  ، بائیں اور سامنے دکھائی دینے والے تینوں راستوں سے میلسی پہنچا جاسکتا ہے ،لیکن سب سے مختصر سامنے سیدھا اسلام کوٹ نامی قصبے کی طرف جانے والا راستہ ہے۔سو ہم اسی راہ پر ہولئے۔یہ سڑک مزید تنگ تھی۔ایسا لگتا تھا کہ ہم  کسی  بڑے قصبے سے نکل  کر کسی چھوٹے سے دیہات کا رخ کرتی راہ پر چل دئیے ہوں ۔سڑک پختہ تو تھی لیکن اس کی حالت زیادہ بہتر نہ تھی ۔ذہن میں یہ خدشہ  بھی سر ابھارتا تھا کہ کہیں پتہ  بتانے والا غلطی نہ کر بیٹھا ہو ۔
تھوڑا سا فاصلہ طے کر کے  ایک نہر کا پل عبورکیا تو سڑک کنارے چھوٹا سا ہوٹل دکھائی دیا۔ مزید آگے بڑھنے سے پہلے لئےمیں نے ایک بار پھر رک کر درست راہ کی تصدیق کرنا بہتر جانا۔تصدیق ہوئی تو اطمینان ہوگیا۔دوپہر اب جوبن پر تھی ۔اچانک میری نظر ہوٹل میں آئس کریم بنانے والی مخصوص مشین  پر پڑی تو دل مچل گیا۔گاؤ ں کے خالص دودھ کی بنی آئس کریم کی کیا ہی بات تھی،سڑک بے شک بہتر نہ تھی لیکن اس سڑک کنارے موجود چھوٹے سے ہوٹل کی یہ ٹھنڈی ٹھنڈی لذیذ سوغات بلاشبہ بہترین تھی۔
اسلام کوٹ کے چھوٹے سے قصبے سے  گزرتے ہوئے ہم ڈیڑھ بجے کے قریب میلسی شہر کے بارونق چوک پر پہنچ گئے۔یہاں ایک بار پھر مجھے لودھراں اور بہاولپور جانے والی راہ کا پتہ کرنے کیلئے رکنا پڑا۔  میں جب بھی گاڑی سے نکلتا تھا، دھوپ کی تیز تپش  چند لمحوں میں بےحال کرنے لگتی تھی ، گاڑی کا اے سی کمزور ضرور تھا  لیکن ڈوبتے کو تنکے کا سہارا  بھی کافی ہوتا ہے چنانچہ  انتہائی تیزی سے واپس گاڑی کی طرف لپکتا تھا  ۔معلوم ہوا کہ ہمیں چوک سے سیدھا ہی آگے بڑھنا ہے۔لودھراں تک پہنچنے کے لئےبراستہ کہروڑپکا ہمیں ابھی  تقریباً 60 کلومیٹر کا  مزیدفاصلہ طے کرنا تھا۔





 یہ سڑک خاصی بہتر تھی ، اس لئے ہم نسبتاً تیزرفتاری سے سفر کرتے ہوئےآدھے گھنٹے بعد ہی کہروڑ پکاکے چوک پر موجود تھے۔ چوک کی سنسانی بتاتی تھی کی گرمی اب کس قدر زوروں پر ہے۔اجنبی راستوں پرمجھےتو بہرحال گاڑی سے اتر کر اپنی ذمے داری نبھانی تھی تاکہ ہمارا سفر  بالکل درست سمت میں جاری  رہے۔اس چوک سے بھی ہمیں کہیں بھی ادھر ادھر مڑنے کے بجائے سیدھا ہی آگے کا رخ کرنا تھا۔بالآخر ڈھائی بجے کےقریب ہم لودھراں کی حدود میں داخل ہوکر دوبارہ این 5 سے جاملے۔ستلج ٹول پلازہ سے گزر کر پونے تین بجے ہم  دریائے ستلج کےپل  پر جاپہنچے۔






   پل پار کیا تو سامنے سڑک پر بائیں جانب بہاولپورشہر کی سمت اشارہ کرتا سائن بورڈ دکھائی دیا۔یکدم ذہن میں اپنے سردیوں کے سفر کی یاد تازہ ہوگئی کہ جب کراچی سے روانہ ہوکر ہم نے اپنا پہلا پڑائو بہاولپور شہر میں ہی ڈالا تھا۔ چیچہ وطنی بائی پاس پر این 5 سے جدا ہو کر لودھراں میں دوبارہ این 5 تک پہنچنے تک کا پوراطویل سفر تپتی دوپہر میں طے ہوا تھا۔ سائن بورڈ پر بہاولپور شہر کا نام چمکتا دیکھ کر گزشتہ سفر کی خوشگوار یاد نے مجھے یکایک ایسا گرفت میں لیا کہ بےساختہ این 5 سے شہر کی طرف جانے والی راہ پر گاڑی موڑ دی۔ جس ہوٹل میں پہلے ٹہرے تھے وہیں جا پہنچے۔ 



   تب ہم بہاولپور پہنچے تھے تو رات ہوچکی تھی۔دسمبر کا مہینہ تھا اور چولستان کی کڑاکے کی سردی ۔ ہم گاڑی کے گرم ماحول سے اترتے ہی یخ بستہ ہوائوں سے ٹھٹھرتے تھے۔ آج گاڑی کے ٹھنڈے ماحول سے نکلے تو بہاولپور میں آگ برستی تھی۔ کمرے میں پہنچے تو اس بری طرح تپ رہا تھا کہ لمحہ بھر بیٹھنا محال۔ سردیوں کے سفر میں سرپر گرم ٹوپی اور کانوں کو اچھی طرح مفلر سے لپیٹنے کے باوجود بھی میں کمرے میں بستر پر بیٹھا ککڑتا تھا، آج اسی ہوٹل کےکمرے کی کھلی کھڑکی سے پردہ سرکا کرشدید گرمی میں پریشان ہوا کے ایک ہلکے سے جھونکے کو ترستا تھا۔ 



   منیجر سے بات کرکے ہم فوراً اے سی والے کمرے میں شفٹ ہوئے۔ وہاں پہنچے تو کھڑکیاں بند ہونے کے باعث وہ کمرہ تنور کی طرح پھنک رہا تھا۔ اے سی چلا کر فوراً باہر لاؤنج میں آکھڑے ہوئے کہ کمرے کا بھڑکتا تنور کچھ ٹھنڈا ہو تو اندر کا رخ کریں ۔شدید حبس کے باعث لائونج کی کھڑکیوں سے بھی ہوا کا ایک جھونکا اندر نہیں آتا تھا۔ کچھ ہی دیر میں گھبرا کر دوبارہ کمرے میں جا گھسےکہ شاید پنکھے اور اے سی کی ہوائیں مل کر ہی کچھ سکون دے پائیں لیکن ابھی بمشکل چند منٹ ہی گزرے تھے کہ بجلی چلی گئی۔ پنکھا اور اے سی دونوں بند ہو گئے۔ پتہ چلا کہ بتی کم ازکم دو گھنٹے بعد آئے گی اور اے سی تب ہی چل پائے گا۔ کمرے کا تنور ابھی ٹھنڈا ہونا شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ دوبارہ بھڑک اٹھا۔ میں سیدھا منیجر کے پاس گیا۔
" بھائی! اگردن کی ایسی شدید گرمی میں بھی اے سی نہ چل پائے تو پھر اے سی کمرے کا کیا فائدہ ؟ جنریٹر نہیں ہے کیا ؟"
اس نے نفی میں گردن ہلا دی۔
" پھر تم ہمیں بنا اے سی والا کمرہ ہی دے دو ، اس میں کم ازکم کھڑکیاں تو کھلی ہیں۔"

ہم دوبارہ اپنے پہلے والے کمرے میں شفٹ ہوئے۔غنیمت تھا کہ باتھ روم میں نلوں سے برآمد ہوتے پانی میں برائے نام ٹھنڈک موجود تھی، چنانچہ نہا دھو کرہم بھی برائے نام تازہ دم ہولئے۔ابھی سہ پہر کےساڑھے 4 ہی بجے تھے۔سوچا کہ فوری طور پر ہوٹل سے نکل کر کسی اے سی ریسٹورنٹ کا رخ کرکے مغرب تک کا گرم ترین وقت وہیں گزارا جائے۔
   گاڑی  کسی شیڈ تلے نہ تھی  اس لئے اتنی دیر میں  وہ بھی تنور بن چکی تھی۔کچھ دیر شہر کی سڑکوں پر بھٹکنے کے بعد  ہمیں جلد ایک ایسا ریسٹورنٹ مل ہی گیا۔ ڈائننگ ہال کےایک کونے میں کھڑے ٹاور اے سی کے بالکل سامنے والی میز پر براجمان ہو کر اطمینان سے  لنچ کیا اور جسم وجاں میں سرایت کر جانے والی حدت  کے حالت سکون میں ڈھلنے تک وہیں  بیٹھے رہے۔ سورج آسمان سے رخصت ہوا تو ہم بھی ریسٹورنٹ سے رخصت ہوئے۔




    باہر نکلے تو دھوپ کے خاتمے سے گرمی کی شدت   میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور ہوئی تھی لیکن حبس کی وحشت بدستور قائم تھی۔موسم کی کیفیت بتاتی تھی کہ ہوٹل کا کمرہ ا بھی  بھی کس حال میں ہوگا۔فیصلہ کیا کہ ہوٹل کے بجائے بہاولپور کے مشہور تاریخی مقام نورمحل  کی سیر کو چلیں کہ شاید وہاں    کی کھلی فضا  اورسبزہ زار ہی اس وحشت کا کچھ توڑ کرسکیں۔
   پوچھتے پچھاتےمحل کے قریب تو پہنچ گئےلیکن بآسانی اندر داخل نہ ہو پائے۔ معلوم ہوا کہ  عباسی خاندان کے نوابوں  کےاس تاریخی محل کی نگرانی   اب  پاک فوج کے ذمے ہے۔ میں نےمحل کی حدود سے کچھ فاصلے پر بنی فوجی چوکی اور بیریئر کے پاس گاڑی روکی تو ڈیوٹی پر موجود اہلکاریکدم الرٹ ہوگئے۔ شکل سے تو بے شک ہم  بالکل دہشت گرد دکھائی نہیں دیتے تھے ، لیکن ریسٹورنٹ کے ٹھنڈے ماحول میں دو ڈھائی گھنٹے گزارنے کے باوجود   دن بھر کی  شدیدگرمی اور حبس کی دہشت کی کچھ نہ کچھ چھاپ  ہمارے چہروں پر ابھی تک موجود تھی ، پھر گرد سے اٹی ہماری گاڑی اور اس کی عقبی سیٹ پر لداسامان بھی ہمیں کچھ مشکوک بناتا تھا۔ مزید برآں  ہم محل کی سیر کے لئے متعین وقت  کے بھی ختم ہونے کے بعد یہاں پہنچے تھے  ۔ طویل مسافت کا حوالہ  ،میرے بالوں کی سفیدی  اورہمسفر کی ہمراہی  ہمارے کام آئی، بالآخرہمیں محل کی حدود میں داخلے کی اجازت مل ہی گئی البتہتصویریں کھینچنے کی ممانعت کے باعث ہمارے کیمرے کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت نہ مل سکی۔
    نور محل کی پرشکوہ عمارت ہمارے سامنے تھی، سبزہ زار بھی تھے اور کھلی فضا بھی ، کچھ نہ تھا تو ہوا نہ تھی۔بہاولپور کی فضاؤں کا شدید حبس ہمارے اندر کے موسم کو بھی حبس زدہ کرتا تھا۔محل کی عمارت کےقریب پہنچے توباقاعدہ سوٹ بوٹ میں ملبوس ایک گائیڈ ہمیں خوش آمدید کہنے وہاں موجود تھا۔ اس کی معیت میں اندر داخل ہوئے۔
   اطالوی طرزتعمیر کا یہ شاندار محل تقریباً ڈیڑھ صدی قبل ریاست بہاولپور کے نواب نے اپنی ملکہ نور کیلئے بنایا تھا۔محل کی عمارت کے وسط میں اونچی چھت والا ایک وسیع وعریض ہال ، انتہائی دلکش نقش و نگار سے مزین چھت،اوپر کی منزلوں کی راہداریوں میں بنی خوبصورت محرابیں، مختلف کمروں میں رکھا قدیم فرنیچر ، دیواروں پر سجی نوابوں کی تصویریں اور دیگر نوادرات۔گائیڈ عمارت کے مختلف حصوں کی سیر کرانے کے ساتھ ساتھ محل کی تاریخ سے بھی ہمیں آگاہ کرتا رہا۔
    آخر میں وہ ہمیں محل کی بنیادوں کی طرف لے گیا کہ جہاں بہت سی سرنگیں موجود تھیں۔اس نے ہمیں بتایا کہ زمانہ قدیم میں ان سرنگوں میں پانی بہا کرتا تھا اور محل کے جس سمت سے بھی ہوا چلتی وہ ان سرنگوں میں بہتے پانی کی ٹھنڈک کو اپنے ساتھ لے کر محل کی عمارت کے فرش میں بنائی گئی جالیوں سے ہوکر اندر پہنچتی اور پورے محل کی فضا کو خوشگوار کر دیتی۔گائیڈ نے یہ قصہ سنایا تو ماضی کی داستان صرف تصور کی حد تک ہی خوشگوار محسوس ہوئی ، حال کی کیفیت یہ تھی کہ سرنگیں بالکل خشک ، کسی سمت سے ہوا کا ہلکا سا جھونکا بھی اندر داخل نہ ہوتا تھا۔ دن بھر کی گرمی کی تپش سرنگوں میں بہتی تھی،ایسا شدید حبس کہ محل کی بنیادوں میں موجود ان سرنگوں میں ہمارا دم  گھٹنے  لگا۔
ایک طرف گائیڈ کی بے چارگی کہ اپنی ڈیوٹی نبھانے کے لئے سوٹ بوٹ کی قید بھگتنے اورادھر ہم کہ محل کی سیر کے شوق میں گھومنے پھرنے پر مجبور۔گائیڈ کے چہرے پر نظر پڑی تو پسینے میں شرابور، ہمسفر کو دیکھا تو بجائے اس کے کہ محل کی سیرکی خوشی صورت سے عیاں ہو،پریشانی اور الجھن چہرے پر بکھری ہوئی۔ یہ کیفیت دیکھی تو اپنا شوق بھی جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ماند تو ہوہی رہا تھا یکدم سے دم توڑ گیا۔ گائیڈ کی سیر حاصل گفتگو کے دوران میں اب تک زیادہ تر خاموش ہی تھا یا ہلکی پھلکی ہوں ہاں سے ہی کام چلا رہا تھا، دم  گھٹنے  سے گھبرایا تو بے اختیاربول پڑا۔
"بھائی ،سرنگوں میں پانی بہنے اورٹھنڈی ہواؤں کے قصے توخواب ہوئے ، یہ بتاؤ کہ فی الوقت  سانس لینے کے لئے ہوا کہاں سے دستیاب ہوگی ؟ "
میری کیفیت دیکھ کر وہ صرف بے چارگی سے مسکرادیا۔ 
فوری طور پر سرنگوں سے نکل کر اوپر کا رخ کیا۔ سیر کا وقت ختم ہوجانے کے باوجود ہماری خاطرخود کو سوٹ بوٹ کی زنجیروں میں جکڑنے پر گائیڈ سے معذرت چاہی اوراس کے خصوصی شکر گزار ہو کر تیزی سے محل کی عمارت سے باہر نکل آئے ، سبزہ زار میں پہنچ کر زور زور سے ہوا کو کھینچ کھانچ کر پھیپھڑوں تک پہنچا نےکی کوشش کرنے لگے۔ 

جس نواب نے اپنی پیاری ملکہ نور کے لئے یہ محل بنایا تھا وہ صرف ایک رات یہاں گزارنے کے بعد اگلی صبح چھت پر سے محل کے قریب دکھائی دیتے قبرستان کو دیکھ کر اتنی گھبراگئی تھی کہ محل میں رہنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ اسی محل میں آج کی شب کے اس پہلے پہر حبس کی شدت  سےمیں اتنا گھبرایا کہ فوری طور پر اپنی ملکہ کے ہمراہ محل سے نکل کر ہوٹل کا رخ کرنے میں ہی عافیت جانی۔



   مغرب تک ریسٹورنٹ میں آرام کے دوران لنچ کے بعد بھی ہلکا پھلکا کھاتے پیتے اور چگتے رہے تھے، بھوک برائے نام ہی تھی جوکہ ہوٹل کے قریب ہی بازار سے مزیدار قلفی کھاتے ہی ختم ہوگئی۔رات کچھ بھیگی اور چولستان کے ریگزاروں کی تپش ذرا ماند پڑی تو کمرے کے پنکھے کی ہوا میں ہمارے لئے سانس لینا بھی کچھ آسان ہوا۔




  تیئیسواں اور آخری دن

خداحافظ پنجاب ۔۔ تپتا سندھ۔۔بخیر واپسی

   ہوٹل والوں کا حساب کتاب رات کو ہی چکتا کرانہیں خصوصی تاکید کی تھی کہ ہمیں صبح فجر کے بعد ہی نکلنا ہے اس لئے پارکنگ میں ہماری گاڑی کے پیچھے کسی اورکو گاڑی کھڑی نہ کرنے دینا، تاکہ ہم کسی کے آ رام میں مخل ہوئے بغیر منہ اندھیرے یہاں سے روانہ ہوسکیں۔ ہمارے ہوٹل کے عین سامنے موجود چھوٹے سے ہوٹل کی کھلی چھت پر بچھی چارپائیوں پر لوگ ابھی نیند کی گہری آغوش میں ہی تھے کہ ہم فجر کے فوراً بعد پارکنگ میں جا پہنچے ۔ جس خدشے کا اظہار میں نے ہوٹل والوں سے رات کو کیا تھا وہ ان کی مکمل یقین دہانی کے باوجود بالکل درست ثابت ہوا تھا۔ ایک گاڑی ہماری گاڑی کے عین عقب میں راستہ مکمل طور پر بلاک کیے کھڑی تھی۔ مجبوراً ہمیں ہوٹل والوں کو نیند سے بیدار کرنا پڑا۔پتہ چلا کہ ان کے سونے کے بعد رات دیر گئے کوئی شخص وارد ہوا ہوگا۔رات کو ڈیوٹی پر مامور چوکیدارکو جگاکربمشکل گاڑی کے مالک کا سراغ لگایا گیا، یوں ہم اپنے طے شدہ پلان سے تقریباً نصف گھنٹہ تاخیر سے بہاولپور سے نکل پائے۔



   چولستان کے ریگزاروں میں رات کے آخری پہر اترنے والی ہلکی سی ٹھنڈک کا اثر ابھی قائم تھا۔ارادہ یہی تھا کہ جنوبی پنجاب کے اس گرم خطے میں سورج کے اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ نزول سے قبل ہی ہم زیادہ سے زیادہ فاصلہ طے کرکے سندھ کی حدود کے قریب تر پہنچ جائیں۔ سڑکوں پر ابھی سناٹا تھا ، غالباً گزشتہ روز کی شدید گرمی کے ستائے بہاولپور کے باسی ریت کے ٹیلوں کے تپنے سے پہلے پہلے اپنے اپنے گھروں میں صبح کی مختصرسی ٹھنڈک کا لطف اٹھا رہے تھے۔

    این 5 پر پہنچ کر ہماری رفتار میں خاصی تیزی آگئی۔چولستان کے قریب سے گزرتی شاہراہ پر ریگستان کے جہازوں سے بھی ملاقات ہوئی ۔کہیں کہیں سڑک کے اطراف آم کے باغات کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا تو درختوں پر لگی کیریاں بھی دکھائی دیتیں۔خانقاہ شریف اور دیگر چھوٹے چھوٹے قصبوں سے ہوتے ہوئے ہم احمدپور شرقیہ کے قریب سے گزرے۔پھرچنی گوٹھ اور ترنڈا محمد پناہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 7 بجے کے قریب خان بیلہ پہنچ گئے۔آبادیاں اب جاگنا شروع ہوگئی تھیں اس لئےشاہراہ پر آہستہ آہستہ رونق بڑھ رہی تھی۔ تقریباً سوا سات بجے ہم خان بیلہ ٹول پلازہ پر پہنچ گئے۔








    سورج طلوع ہوچکا تھا لیکن ابھی صبح کی ٹھنڈک برقرار تھی۔فتح پور کمال اور ظاہر پیر چوک سے گزر کر8 بجے کے قریب ہم شاہراہ کنارے بنے ایک ہوٹل پر ناشتے کیلئے رکے۔ہوٹل کے کمروں کا رخ کرنے کے بجائے ہم پارکنگ ایریا کے ساتھ ہی پیپل کے بڑے سے درخت کی گھنی چھاؤں تلے رکھی میزکرسیوں پر جابیٹھے۔قریب ہی نصب نلکے کے ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منہ دھو کر فرحت کا احساس تو ہوا ہی ،ذہن میں اپنے بچپن کے دنوں کی یاد بھی تازہ ہوگئی کہ جب ہم رحیم یار خان میں رہتے تھے اور اسی طرح ہر صبح صحن میں موجود نلکے کو ہاتھ سے گیڑ کر ہاتھ منہ دھویا کرتے تھے۔ویسے بھی ہم اس وقت پنجاب کے آخری ضلع رحیم یارخان کی حدود میں ہی تھے اورمیرےبچپن کا شہر یہاں سے زیادہ دور نہ تھا۔








   صبح کا سفرخاصا خوشگوار تھا اور ہم بھی ابھی خاصے تازہ دم تھے اس لئے لمبا آرام کرنے کے بجائےجلدی سے ناشتہ کرکے یہاں سے روانہ ہوگئے۔ چوک بہادرپور پہنچے تو ذہن میں ایک بار پھر لڑکپن کے دنوں کی فلم چل پڑی۔ میری ایک خالہ صادق آباد میں رہا کرتی تھیں۔ان کے گھر جانے کیلئے ہم رحیم یارخان سے بس میں سوار ہوتے تو موجودہ این 5 جو پہلے جی ٹی روڈ کہلاتی تھی تک پہنچنے کیلئے ہمیں چند کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے اسی چو ک بہادر پور پر پہنچنا ہوتا تھا ، پھر جی ٹی روڈ پر تقریباً دس بارہ کلومیٹر کا مزید فاصلہ طے کرکے ہم صادق آباد پہنچ جاتے تھے۔رحیم یار خان جی ٹی روڈ سے مشرق کی طرف چند کلومیٹر کی دوری پر تھا جبکہ صادق آباد کا شہر جی ٹی روڈ سے بالکل متصل ہی تھا۔ بعد ازاں جب جی ٹی روڈ نے اپنا نام بدل کر این 5 رکھ لیا تو شہروں کی آبادی اور رش سے بچنے کے لئے سڑک کو شہر کے باہر ہی باہر سے گھما کر بائی پاس بنادئیے گئے۔صادق آباد کے قریب سے گزرنے والی جی ٹی روڈ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ 








  چوک بہادر پور سے گزر کر ہم کچھ ہی فاصلہ طے کر کے صادق آباد شہر سے بچ کر گزرنے والے بائی پاس پررواں دواں ہو گئے۔ ابھی صبح کے ساڑھے 9 ہی بجے تھے کہ ہماری گاڑی پنجاب کے آخری ضلع رحیم یار خان کی حدود کے اختتام پر واقع چیک پوسٹ تک پہنچ گئی۔ 





   سندھ میں داخل ہوتے ہی این 5 کا مزاج بگڑتا چلا گیا۔ جابجا متبادل راستوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک ہی طرف کی راہ پر دوطرفہ ٹریفک چلنے کے باعث بار بار ہماری رفتار انتہائی آہستہ ہوجاتی  ۔ مجھے اب  گردوپیش کے مناظر سے زیادہ توجہ سڑک اور ڈرائیونگ پر دینی پڑ رہی تھی۔تقریباً10 بجے ہم سندھ کے  پہلے بڑے قصبے اوباڑو کے قریب  پہنچے۔این 5 قصبے کی آبادی کے بائیں طرف سے گھومتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ سست روی سے سفر کرتے ہوئےکچھ دیر بعدڈہرکی بائی پاس پہنچ گئے۔ بائی پاس شہری آبادی کے دائیں طرف سےہو کر گزرتا  چلا گیا۔ڈہرکی کے پاس سےگزرتے وقت  نظریں بے ساختہ یوریاکھاد بنانےوالی دنیاکی سب سے بڑی   فیکٹری اینگرو فرٹیلائزر اور اس کے125 میٹر بلند پریلنگ ٹاورکی جانب ضرور اٹھتی ہیں۔ این 5 سے کچھ ہی دوری پر  ریلوے لائن بھی ڈہرکی شہر کے درمیان سے گزرتی ہے۔ رات  کو یہاں سے گزرتے وقت سڑک اور ریل  دونوں ذرائع سے سفر کرنے والوں کو خاصی دور سے ہی  دکھائی دیتی اس عظیم الشان فیکٹری اور اس کے بلند ٹاوروں کی  جگمگاتی روشنیاں ڈہرکی کی آمد کی اطلاع دے دیتی ہیں۔سندھ کے اس چھوٹے سے شہر کی حدود میں داخل ہوتے ہی چہار اطراف پھیلی تاریکی یوں اچانک رنگ  و نور میں  ڈھلتی ہے کہ جنگل میں منگل کا سماں بندھ  جاتاہے۔







    ڈہرکی سے  نکل کر کچھ دیر بعد میرپور ماتھیلو   بائی پاس سے   گزرے،بائیں جانب ریلوے لائن این 5 کے  قریب آئی  تو ایک ٹرین بھی دکھائی دے گئی۔ میرپور ماتھیلوکی قربت اور ٹرین کو دیکھ  کر میرے ذہن میں1960 سے 1970 کی دہائی کی بچپن کی یادیں تازہ ہوگئیں۔1968 میں رحیم یارخان  شہر میں سکونت اختیار کرنے سے قبل ہم صادق آباد کے قریب ماچھی گوٹھ کے چھوٹے سے دیہات میں رہتے تھے۔تب  میری ایک خالہ میرپور ماتھیلو کے نواح میں واقع چھوٹے سے گاؤں سلیم آباد میں مقیم تھیں ۔سلیم میرے خالو کا نام تھا ،چونکہ یہ مختصر سا گاؤں ان کی زرعی اراضی کے بیچوں بیچ واقع تھا اس لئے  اسے میرے خالو کا نام ہی دےدیا گیا تھا۔ماچھی گوٹھ سے ہم کسی پسنجر ٹرین میں بیٹھ کر میرپور ماتھیلو پہنچتےتھے۔ ماچھی گوٹھ اور میرپور ماتھیلو کے درمیان کل چار ریلوے اسٹیشن آتےتھے۔ پہلااسٹیشن ولہار  اور دوسرا  ڈھانڈی  دونوں پنجاب میں تھے ۔ پھر سندھ کی حدود میں داخل ہوکر پہلاریتی نام کا اسٹیشن اوردوسرا ڈہرکی ۔ میرپور ماتھیلو کے اسٹیشن سے سلیم آباد تین چار کلومیٹر دور تھا۔ ہم ریل سے اتر کر ٹانگے میں جابیٹھتے تھے ۔ اس وقت این 5 تو ہوتی نہ تھی ، جی ٹی روڈ میرپور ماتھیلو کے قصبے کے درمیان سے گزرتی تھی اور ریلوے اسٹیشن سے زیادہ دور  نہ تھی۔ٹانگہ جی ٹی روڈ پر پہنچ کر سرحد نامی قصبے کو جاتی جی ٹی روڈ پر کم و بیش دو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے سڑک کے ساتھ ساتھ چلتی ریلوے لائن کے نیچے سے گزرنے والی گڑنگی نامی  خشک ندی کے پاٹ میں سے گزرتے کچے راستے سے ہو کر سلیم آباد پہنچتا تھا۔



     آج ہم میرپور ماتھیلو شہر کی حدود کے باہر سے ہی  بائی پاس سے ہوکر گزر گئے  تھے  ۔میرپور ماتھیلو سے اگلے قصبےسرحد تک پہنچنے سے قبل   ہمیں مزید  ایک   دو متبادل  راستوں سے نمٹنا پڑا۔   سرحد بائی پاس تک پہنچتے پہنچتے گھڑی 11 کو بھی کراس کر چکی تھی۔تیزرفتاری    تو سست روی میں بدلی ہی تھی ادھر  صبح بھی چپکے چپکے دوپہر میں ڈھلنا شروع ہوگئی تھی۔ایسا لگتا تھا کہ شہروں میں پائی جانے والی ٹریفک جام کی  و  حشتوں نے این 5 کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو۔گاڑی تیزرفتاری سے فراٹے بھرتی ہو ،نظریں مستقل سڑک پر مرکوز رہنے کے بجائے گردوپیش کے دلکش نظاروں کی سیربھی کرتی ہوں، گاڑی کے کھلے شیشوں سے ہوا کے فرحت بخش جھونکے چہروں کو تازگی بخشتے ہوں تو گھنٹوں طویل سفر بھی جسم وجاں میں تکان نہیں اترنے دیتا۔ٹریفک میں پھنس پھنس کر گرمی سے دوجتے ہوئے  رینگتے ہوئے آگے بڑھنے کی اذیت گھنٹوں کے بجائے  چند منٹوں میں ہی آپ کو تھکا ڈالتی ہے۔ بالآخر اس تھکاوٹ نے ہمیں اپنی جکڑ میں لے  ہی لیا۔سرحد بائی پاس سے گزرنے کے بعدہم  کچھ دیر سستانے اور ایک ایک کپ چائے پینے کیلئے ایک ریسٹورنٹ پر ٹہر گئے۔ 





   گھوٹکی اور پنوعاقل کے بائی پاسزسے ہو کر ہم پہلے پنوعاقل چھاؤنی کے قریب سے گزرے ،پھر مہیسر کے چھوٹے سے قصبے کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ٹھیک ساڑھے بارہ بجے روہڑی ٹول پلازہ پر پہنچ گئے۔تھوڑا سا فاصلہ طے کرکے ہم روہڑی شہر کو جانے والی سیدھی سڑک کے بجائے بائیں طرف روہڑی بائی پاس پر مڑ گئے۔ صبح سے اب تک این 5جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ کے زیادہ تر شہروں اور قصبوں کو بائیں طرف چھوڑ کر بائی پاس کرتی چلی آئی تھی۔اس لئے ریلوے لائن بھی ہمارے بائیں طرف ہی تھی۔ روہڑی شہر کے رش سے بچنے کے لئے این 5 بائیں طرف مڑی تو جلد ہی ایک پل پر چڑھ کر ریلوے لائن کو کراس کرگئی۔ 




     اپنے ہوش سنبھالنے کے وقت سے روہڑی میرے لئے نہ صرف انتہائی پرکشش بلکہ بہت اہمیت کا حامل بھی رہا ہے۔ دریائے سندھ کے عین کنارے بسا یہ شہر دریا کے دوسرے کنارے موجود سکھر شہر سے دو قدیم پلوں کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔ سکھر شہرسے گہری انسیت یوں کہ وہ میری جائے پیدائش ہے۔ اس وقت میری ایک پھوپھی سکھر میں رہائش پذیر تھیں۔ میری پیدائش سے لے کر1972 تک ہم ضلع رحیم یار خان میں ہی تین مختلف مقامات پر سکونت پذیر رہے۔ میری پیدائش کے وقت اہل خانہ صادق آباد میں رہا کرتے تھے لیکن صرف ایک سال بعد ہی والد محترم ماچھی گوٹھ کے چھوٹے سے دیہات کو نقل مکانی کر گئے۔ پھر 1968 میں ہم ماچھی گوٹھ سے رحیم یارخان منتقل ہوگئے تھے۔ میرے نانا حکیم تھے اور ان دنوں سندھ کے شہر شہدادپور میں رہا کرتے تھے جبکہ تین خالائیں کراچی میں مقیم تھیں ، اس لئے اپنےبچپن اور لڑکپن میں گھر والوں کے ہمراہ بذریعہ ٹرین میرپور ماتھیلو ، سکھر، شہدادپور اور کراچی کے بہت سفر کئے۔ سکھر جانا ہوتا تو ماچھی گوٹھ یا رحیم یارخان سے زیاد ہ تر کوئٹہ پسنجر پر سفر کرتے کہ جو روہڑی جنکشن کے بعد دریا پار کرکے ہمیں سکھر پہنچا دیتی تھی۔ پسنجر ٹرین روہڑی سے پہلے کے آخری اسٹیشن منڈوڈیرو پہنچتی تو والد ہمیں کھڑکی سے دور کھلونے کی طرح دکھائی دیتا اور چاندی کی طرح چمکتا روہڑی اور سکھر کے درمیان دریا پر بنا ایوب پل دکھاتے۔
    روہڑی اسٹیشن کے قریب تر ہوتے تو مختلف پلیٹ فارموں کا رخ کرتی ڈھیر سی پٹریاں نظر آنے لگتیں ، ٹرین مسلسل پٹریاں بدلتی آگے بڑھتی تو مجھے یہ تجسس ہوتا کہ ہماری ٹرین کس پلیٹ فارم پرجا ٹہرے گی۔سکھر جانے کیلئے کراچی جانے والی کسی ٹرین کے ذریعے آتے تو روہڑی کے اسٹیشن پر ہی اترنا ہوتا ، جہاں سے پھرٹانگے پر پھوپھی کے گھر جانا ہوتا۔ اسی طرح شہدادپور اور کراچی آنے جانے کے دوران بھی روہڑی ریلوے اسٹیشن پر خوب گھومنے پھرنے کا موقع مل جاتا۔ کراچی یا شہدادپور جانا ہوتا تو ایکسپریس ٹرین میں سفر کیلئے ہم عموماً صادق آباد کے اسٹیشن سے سوار ہوتے تھے ، کبھی کبھار پسنجر ٹرین سے روہڑی پہنچ کر وہاں سے کسی ایکسپریس میں سوار ہوتے۔ بہنیں اور والدہ کو ریلوے اسٹیشن کی انتظارگاہ میں بٹھا کر والد مجھے ساتھ لے کر پلیٹ فارمز کے اوپر بنائے گئے آہنی پلوں پرسے ہوتے ہوئے ٹکٹ گھر پہنچتے۔ میں ان کی انگلی تھامے ہوئے انتہائی حیرت اور مسرت سے روہڑی کے عظیم الشان ریلوے اسٹیشن کی عمارت کو دیکھا کرتا ، خصوصاً پلیٹ فارم پر لٹکتےہوئے بڑے بڑے گھڑیال، پھلوں ،چائے اور دیگر اشیائے خوردونوش کے اسٹالز، جگہ جگہ لگے ہوئے پانی کے نل اور پینے کےٹھنڈے پانی کیلئے تعمیر کردہ سبیلیں ۔ کوئی ٹرین آکر رکتی تو اسٹیشن کی چہل پہل بھاگ دوڑ میں بدل جاتی، کچھ مسافر ٹرین سے اتر کر ہاتھ منہ دھونے کیلئے پانی کے نلوں کا رخ کرتے ،دیکھتے ہی دیکھتے ہر نل پر ایک جم غفیر جمع ہوجاتا، کچھ جلدی جلدی سبیلوں سے اپنے برتنوں میں پینے کا پانی بھرتے دکھائی دیتے، چائے اور کھانے پینے کے اسٹالز پرخوب رش لگ جاتا۔ ٹرین کے چلے جانے کے بعد رونق آہستہ آہستہ ماند پڑجاتی اور پلیٹ فارم پر ٹہراؤ کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی۔
    انسان جب بچہ ہوتا ہے تو ہربڑی چیز اور عمارت اسے کچھ زیادہ ہی بڑی بڑی دکھائی دیتی ہے۔ روہڑی کا ریلوے اسٹیشن تو بڑا تھا ہی، اسٹیشن کے بالکل قریب ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ موجود پہاڑیاں بھی مجھے بلند پہاڑوں کی صورت نظر آتی تھیں جو اس عظیم الشان اسٹیشن کو دیومالائی روپ دے دیتی تھیں۔ ہوش سنبھالنے کے بعد یہ روہڑی اسٹیشن ہی تھا جہاں میری پہلی بار پہاڑوں سے آشنائی ہوئی تھی ۔ اسٹیشن کی حدود سے نکل کر ٹرین کراچی کیلئے روانہ ہوتی تو پہلے میں سکھر کی جانب مڑجانے والی ریل کی پٹری کو دور تک تکتا رہتا، سکھر کی طرف مڑتی پٹری نگاہوں سے اوجھل ہوتی تو کچھ دور تک ہماری ٹرین ریلوے لائن کے دونوں اطراف موجودبلند پہاڑیوں کے درمیان سے گزرتی اورمیں بڑے اشتیاق سے کھڑکی سے سر نکالے ان کے حسن میں کھوجاتا۔ بہت جلد یہ پہاڑیاں بھی ہمارا ساتھ چھوڑ جاتیں اور ٹرین پھر سے میدانی علاقوں میں دوڑنے لگتی۔

   تب مجھے ان پہاڑیوں کی بابت پتہ نہ تھا کہ یہ قدیم سندھ کے مشہور و معروف تاریخی خطے اروڑ کی پہاڑیاں ہیں۔ آج ہم روہڑی ریلوے اسٹیشن کا رخ کرنے کے بجائے ریلوے لائن کے اوپر بنے پل کو کراس کرکے این 5 پر رواں دواں بالائی سندھ کے میدانی علاقوں سے نکل کر اروڑ کےاس پہاڑی سلسلے کے درمیان سے گزررہے تھے کہ جس کے سینے میں ماضی کی بے شمار داستانیں دفن تھیں۔






    روہڑی بائی پاس شہر اور ریلوے اسٹیشن کے جنوب سے ہو کر نکلتا ہے۔ مڑنے کے بعد تھوڑا سا فاصلہ طے کرکے این 5 مزید جنوب میں محض چند کلومیٹر کی دوری پرواقع اروڑکے قصبےکوجانے کے بجائے مغرب کی طرف مڑکر آہستہ آہستہ ان پہاڑیوں کو خیر باد کہہ کر خیرپور کے نخلستانوں کا رخ کرلیتی ہے۔ بائی پاس سے ہی ایک اور سڑک سیدھی جنوب کی سمت مڑ کر دریائے سندھ سے نکلنے والی نارا نہر کے کنارے بسی اروڑ کی آبادی تک پہنچا دیتی ہے۔ اس وقت ہم جن پہاڑیوں کے درمیان سے گزر رہے تھے ، میں اپنے بچپن میں روہڑی ریلوے اسٹیشن کی جنوبی سمت ان ہی کی ایک جھلک دیکھا کرتا تھا۔ 
    ان پہاڑیوں کے بالکل عقب میں جنوب کی طرف واقع اروڑ صدیوں قبل قدیم سندھ کے ہندوراجاؤں کی حکمرانی کے دور میں طویل عرصے تک ان کا دارالحکومت رہ چکا تھا۔اس زمانے میں دریائے سندھ بھی اروڑ کے قریب سے ہوکر گزرتا تھا۔ محمد بن قاسم کے ہاتھوں راجہ داہر کی شکست کے بعد مسلمان اروڑ کو فتح کرکے سندھ کے حکمران بن گئے۔پھر ایک طویل عرصے بعد کسی بڑے زلزلے کے باعث یا قدرتی طور پر وقوع پذیر ہونے والی جغرافیائی تبدیلیوں کے زیر اثر دریائے سندھ اروڑ سے روٹھ کر کچھ دوری اختیار کر کے روہڑی کی طرف کھسک گیا۔ دریا کے راہ بدلنے کے ساتھ ہی اروڑ کے بیشتر مکینوں نے بھی روہڑی اور اس کے مضافات کا رخ کر لیا ،دریا نے تو رخ پھیرا ہی تھا آہستہ آہستہ مکین بھی یہاں سے رخصت ہونا شروع ہوئے تو دور قدیم کے سندھ کا عظیم الشان دارالحکومت یہ بے رخی برداشت نہ کرسکا ، ان صدموں کے باعث ایسا اجڑا کہ سنگلاخ پہاڑیوں کے بیچ سجی ماضی کی شاندار تعمیرات کھنڈرات میں بدلتی چلی گئیں۔ روہڑی اور اروڑ کے درمیان واقع اس پہاڑی سلسلے کا محل وقوع ایسا ہے کہ اسےشمال مشرق میں واقع جنوبی پنجاب کےصحرائے چولستان اور جنوب مشرق میں واقع سندھ کےعظیم صحرائے تھر کا سنگم بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان دونوں صحراؤں سے مزید مشرق کی طرف بڑھیں تو بھارت کی حدود میں واقع انتہائی وسیع وعریض صحرا  راجستھان موجود ہے۔
ہم نےان پہاڑیوں کے درمیان سے گزر کرکچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ ایک بار پھر ریلوے لائن پر بنے پل پر چڑھ گئے۔ ریلوے لائن تو وہی تھی لیکن یہاں وہ روہڑی اسٹیشن کو پیچھے چھوڑ کر خیرپور کی سمت   جا رہی تھی۔ کچھ اور آگے بڑھے تو دریائے سندھ سے نکلنے والی تین نہروں کو ایک ساتھ عبور کیا۔ 
    سب سے پہلی نہر نارا جو کہ اس پل سے کچھ آگے نکل کر پہلے مشرق کا رخ کر کے اروڑ کے قصبے پاس جانکلتی ہے ،پھر اروڑ کی پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ دائیں طرف  گھومتی ہوئی جنوب  کو روانہ ہو جاتی ہے ۔ اس طرح اروڑ کا پہاڑی سلسلہ نارا  نہر کے مغرب میں آجاتا ہے جبکہ جنوب کی طرف اس کے طویل سفر کے دوران مشرق سے اس کی طرف بڑھتا صحرائے تھر چپکے چپکےاس کی قربت اختیار کر لیتا ہے۔نہر کےمغرب میں واقع اروڑ کا پہاڑی سلسلہ جوں جوں جنوب کا رخ کرتا ہے صحرائے تھر اسے بھی اپنے رنگ میں رنگنے لگتا ہے،پہاڑیاں آہستہ آہستہ ریت کے بلند ٹیلوں میں بدلتی ہیں اور بالآخر یہ پہاڑی سلسلہ مزید جنوب میں پہنچ کر ریگزار کا روپ دھار لیتا ہے۔ مغرب اور مشرق میں واقع ان ریگزاروں کے درمیان جس راہ سے یہ نہر گزرتی ہے  وہ زمانہ قدیم میں کبھی دریائے نارا کی رہگزر ہوا کرتی تھی۔اسی دریا کی یاد میں اس نہر کو بھی نارا کا نام دیا گیا ہے۔نہر کے مغرب میں ساتھ ساتھ چلتے ریگزار کو بھی غالباً اسی دریا کے نام کی مناسبت سے ریگستان نارا کہا جاتا ہے۔اس طرح یہ نارا نہر وسطی سندھ کا اپنا پورا سفر ریگستان نارا اور صحرائے تھر کے درمیان طے کرتی ہوئی جنوب کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہے۔
درمیان والی کچھ پتلی نہرمیر واہ اور اس کے ساتھ والی چوڑی نہر روہڑی کینال کہلاتی ہے ، یہ دونوں نہریں کچھ آگے بڑھ کر فوراً ہی جنوب مغرب کا رخ کرکے خیرپور اور رانی پور کے میدانی علاقوں سے گزرتی ہوئی وسطی اور پھر جنوبی سندھ  کے قصبوں کی سمت بڑھ جاتی ہیں ۔

   گزشتہ روز بھری دوپہر میں ہم نے جنوبی پنجاب کے قصبے میلسی پہنچ کر چولستان کے دروازے پر دستک دی تھی، تپتی دوپہر، سلگتی شام اور گرم رات چولستان کی سنگت میں گزار کر صبح سویرے نکلے تو آج کی دوپہر ہم نارا کے ریگستان کی قربت میں تھے۔ روہڑی بائی پاس سے نکل کر سکھر کی طرف مڑنے والی راہ کا چوک کراس کیا۔ خیر پور کی طرف بڑھے تو شاہراہ کے دونوں اطراف کھجور کے باغات کاخوبصورت سلسلہ شروع ہو گیا۔ گھڑی دوپہر کا پون بجا رہی تھی۔ نخلستان کا حسن اپنی جگہ لیکن کھجور کے یہ باغات نخلستان کے مشرق میں واقع ریگزاروں کی گرم ہواؤں کے تھپیڑوں سے ہمیں نہیں بچا پا رہے تھے۔ 




    خیرپور تک پہنچنے سے پہلے ہی ہمیں ایک بار پھر اپنی مہران کے ناتواں اے سی کا سہارا لینا پڑا۔22 دن قبل اپنے اس سفر کے پہلے روز کراچی سے روانہ ہو کر دوپہر کو رانی پور کے قریب پہنچے تھے تو گرمی کی شدت آج کی نسبت  خاصی زیادہ تھی ،گاڑی کا اے سی بھی اسے جھیل نہیں  پایا تھا اور ہم  غروب آفتاب سے کچھ دیر قبل تک گمبٹ کے قریب ایک ائر کنڈیشنڈ ریسٹورنٹ میں وقت گزارنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ آج گرمی میں کمی ضرور تھی لیکن اے سی کی ہلکی پھلکی ٹھنڈک کے باوجود گاڑی کے شیشے تپتے تھے۔2 بجے کے بعد رانی پور آیا تو ہماری نظر بازار میں ایک نئے نویلے چمکتے دمکتے ریسٹورنٹ  پر پڑی۔ تپتے ہوئے شیشوں کے باعث بڑھتی ہوئی گرمی نے کچھ پریشان تو کر ہی رکھا تھا  ، ایسے میں ریسٹورنٹ کی  چمک دمک پر نظر پڑی تو مجھے بریک لگاتے ہی بنی۔





    روہڑی بائی پاس سے نکل کر حیدرآباد کی طرف بڑھیں تو این 5 دریائے سندھ کے مشرقی سمت واقع وسطی سندھ کے بیشتر معروف قصبوں اور شہروں کو بائیں طرف خاصا پرے چھوڑتی ہوئی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے،جیسا کہ ہم خیرپور شہر کو مشرقی سمت میں کچھ دوری پر چھوڑتے ہوئے رانی پور پہنچ گئے تھے۔

رانی پور کے بازارمیں واقع یہ نیا نویلا ائرکنڈیشنڈ ریسٹورنٹ بہت بہتر اور پرسکون تھا۔ ہم نےتقریباً ایک گھنٹے تک یہاں آرام کیا، لنچ کے ساتھ ساتھ نماز ظہر بھی یہیں ادا کی۔ کچھ تازہ دم ہوئے تو 3 بجے یہاں سے روانہ ہوگئے۔ شہر کی حدود سے نکل کر ہم کچھ ہی دیر میں رانی پور ٹول پلازہ پہنچ گئے۔




    گرمی خاصی شدید تھی۔ گاڑی کا اے سی اس کی شدت میں کچھ کمی ضرور کرتا تھا لیکن پھر بھی کبھی کبھار ہمارے ہلکے پھلکے پسینے چھوٹ ہی جاتے تھے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ گرمی کی شدت کے ساتھ ساتھ متبادل راستوں کی کوفت کا تسلسل بھی ہنوزبرقرار تھا۔ 
   روہڑی بائی پاس کے بعد ریلوے لائن بھی ہمارے بائیں طرف خاصی دوری اختیار کرکے خیرپور شہر کی طرف نکل گئی تھی ، ویسے بھی روہڑی بائی پاس سے نکلنے کے بعد این 5 اور ریلوے لائن کے درمیان روہڑی کینال وارد ہو گئی تھی۔ کبھی این 5 اور روہڑی کینال کے درمیان فاصلہ کچھ کم ہوجاتا تو ہمیں بائیں طرف نہر کا بلند پشتہ اور نہر کنارے لگے ترتیب سے لگے درخت دکھائی دے جاتے۔ شاہراہ کہیں کسی چھوٹےقصبے کی آبادی کے درمیان سے گزرتی تو کبھی حسب معمول کسی بڑے قصبے کی آبادی سے پرے ہو کراسے بائی پاس کر جاتی۔
    ہنگورجہ ،کوٹری محمد کبیر اور ہالانی کے قصبوں سے گزرتے ہوئے ہم کنڈیارو کے قریب پہنچے اورشہر کی آبادی کو دائیں طرف چھوڑ کر بائی پاس سے ہوتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ 

    جابجا متبادل راستوں اور پھر آنے جانے والے ٹریفک کو ایک ساتھ جھیلتی سڑک پر سست رفتاری سے سفر کرتے ٹرکوں اورٹرالروں کی لمبی لمبی لائنوں سے بچ بچا کر انہیں اوورٹیک کرنے کی مشکل صورتحال کے پیش نظر میں اپنی بھرپور توجہ سڑک اوراسٹیرنگ تک ہی محدود رکھنے پر مجبور تھا۔کبھی کبھار سڑک کے اطراف سرسبز کھیتوں اور درختوں کا سلسلہ کچھ دور تک ساتھ چلتا توآنکھوں کے سامنے بکھرے سبز رنگ کی ٹھنڈک ہماری بصارت کو تراوٹ اور ہمیں عارضی سکون بخش دیتی۔





    گو کہ سہ پہر آہستہ آہستہ ڈھل کر شام میں بدل رہی تھی لیکن گاڑی کے شیشوں کی تپش بتاتی تھی کہ سندھ کے ریگزار ابھی تک دہک رہے ہیں۔ شاہ پور جہانیاں ،دولت پور اور قاضی احمد سے ہوتے ہوئے ہم آگے بڑھے توپونے 6 بجے کے قریب سکرنڈ بائی پاس سے کچھ قبل سڑک کنارے موجود ریسٹورنٹ کے بالکل ساتھ بنی مسجد کے پاس میں نے نمازعصر کے لئے گاڑی روک دی۔ نیچے اترے تو دھوپ کی تمازت میں کچھ کمی ضرور محسوس ہوئی لیکن گرمی کی شدت جوں کی توں تھی۔ وضو کیا تو بہت فرحت ملی، پہلے سوچا کہ ایک ایک کپ چائے بھی پی لی جائے لیکن ایک تو گرمی نے اس خیال سے باز رکھا،دوسرا یہ کہ کراچی ابھی بھی یہاں سے خاصا دور تھا اور ہم متبادل راستوں کے باعث زیادہ تیزرفتاری سے سفر بھی نہیں کرپارہے تھے۔




     سکرنڈ کی آمد کا پتہ دیتا سائن بورڈ یہ بھی بتاتا تھاکہ آگےدکھائی دیتے چوک سے بائیں طرف مڑتی راہ شہیدبے نظیر آباد کی طرف جاتی ہے جو کہ سندھ کے مشہور شہر نواب شاہ کا نیا نام ہے۔ خیرپور اور رانی پور سے حیدرآباد کا رخ کرتی ریلوے لائن محراب پور اور پڈعیدن کے قصبوں سے گزرتی ہوئی نواب شاہ پہنچتی ہے۔ اروڑ کی پہاڑیوں کے جنوب میں خیرپور کے مشرق سے شروع ہوکر جنوب کی سمت آگے بڑھتے نارا کےریگستان کا نواب شاہ کے مشرق میں پہنچ کراختتام ہوجاتا ہے البتہ اس کے مزید مشرق میں واقع صحرائے تھر مسلسل جنوب کی طرف بڑھ کر سانگھڑ کے عقب سے ہوتا ہوا کھپرو ،عمر کوٹ اور نوکوٹ تک اور پھر مزید آگے پھیل کر بدین کی مشرقی حدود اور بھارتی سرحد کے ساتھ ساتھ ہوتا ہوا ننگرپارکر تک جا پہنچتا ہے۔ سکرنڈ سے آگے بڑھیں تو نارا کے ریگزار کے اختتام کے باعث این 5 اور سند ھ کے ریگزاروں کا درمیانی فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔7 بجے سے کچھ قبل ہم سعیدآباد ٹول پلازہ پہنچ گئے۔



   ریگزاروں سے دور ہونے کے ساتھ ساتھ شام کے سائے بھی گہرے ہوئے تو گرمی کا زور بھی کچھ ٹوٹنا شروع ہوا۔ ہالا کےقریب پہنچے تو سورج آسمان سے رخصت ہونے کی تیاری کرنے لگا۔ ہالا سے کچھ راہیں مشرق میں واقع شہدادپور اور ٹنڈوآدم کے شہروں کے لئے بائیں طرف نکل جاتی ہیں۔ہالا کی حدود سے نکل کر کچھ ہی آگے بڑھے تو سورج ہمارے دائیں طرف دور دریائے سندھ کے پرے مغرب میں ڈوبتا چلاگیا۔ سورج کےغائب ہوتے ہی گاڑی کے شیشوں کی تپش بھی دم توڑ گئی۔ شیشوں کی گرمی کم ہوئی تو اے سی کی جالیوں سے نکلتی ہوا کی ٹھنڈک کچھ بڑھ گئی۔ ایک اور اچھی بلکہ بہت ہی اچھی بات یہ ہوئی کہ متبادل راستوں کا ناہنجار سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔ 

    مغرب میں دکھائی دیتی آسمان پر پھیلی سرخی تیزی سے کم ہونا شروع ہوئی تو مٹیاری کے قریب سڑک کنارے ایک مسجد دیکھ کر میں نے گاڑی روک دی۔ گرمی کی شدت تو بہت حد تک کم ہو گئی تھی لیکن ہوا بالکل بند تھی۔ نماز پڑھ کر باہر نکلا تو شدید حبس مجھےجلد ہی پسینے میں شرابور کرگیا۔مسجد کے ساتھ ہی موجود درخت بالکل ساکت تھے ،آسمان کی سرخی مدھم ہوتے ہوتے سرمئی رنگت اختیا ر کر چکی تھی۔ ہم مٹیاری کی حدود سے نکل کر حیدرآباد کے طرف رواں دواں تھے ، آسمان پر رات اترتی تھی اور تاریکی کا راج بڑھتا تھا۔



   حیدرآباد کے قریب تر ہوئے تو ایسا لگا کہ سڑک کنارے لگے درخت کچھ جھومنے سے لگے ہوں۔ گاڑی کے شیشے ذرا نیچے سرکائے تو اندازہ ہوا کہ وہ ہوا چلنے کی خوشی میں جھومتے تھے ، اے سی بند کر کے فی الفور شیشے کھول دئیے گئے۔ ہوا تو چلنی ہی تھی کہ ہم ٹھنڈی ہواؤں کے شہر حیدرآباد کی قربت میں تھے ۔ ہوا گو زیادہ ٹھنڈی نہ تھی لیکن بہرحال تھی ضرور، بہت فرحت بخش نہ سہی پر ہمیں کچھ نہ کچھ سکون ضرور بہم پہنچارہی تھی۔
     کچھ ہی دیر بعد ہم ایک سہ راہے پر این 5 کو چھوڑ کرسپر ہائی وے پر جانے کے لئے دائیں طرف حیدرآباد بائی پاس پر مڑگئے۔این 5  اس سہ راہے سےآگے بڑھ کر پہلے  شہر کے درمیان پہنچتی ہے اور پھر وہاں سے نکل کر دریائے سندھ پار کرکے براستہ کوٹری   اور ٹھٹھہ کراچی جاتی ہے۔ درحقیقت لاہور سے شروع ہو نے والی انتہائی اہمیت کی حامل یہ قومی شاہراہ اس سہ راہے پر پہنچ کر اپنی آن بان اور اہمیت کھو دیتی ہے۔ملک کے بالائی علاقوں ،پنجاب  اور وسطی سندھ سے این 5 پرکراچی کی طرف جاتا سارا  ٹریفک   نسبتاً مختصر اور کشادہ سپرہائی وے کو اختیار  کرنےکے لئے   اس سہ راہے پر پہنچتے ہی این 5 کی طویل رفاقت چھوڑ کر حیدرآباد بائی پاس پر مڑ جاتا ہے۔این 5 یہاں سے صوبہ سندھ کی  ایک  لوکل سڑک کی صورت اختیار کرکے پہلے دریائے سندھ کنارے بسے حیدرآباد اور کوٹری کے جڑواں شہروں کے بے ہنگم رش میں پھنستی  پھنساتی   باہر نکلتی ہےاورپھرجنوبی سندھ کا لمبا چکر کاٹ کر ہانپتی کانپتی کراچی پہنچ پاتی ہے  ۔

    ہم نے حیدرآباد  بائی پاس سے گزرتے ہوئے  دریائے سندھ کا پل عبور کیا  ۔ساڑھے 8 بجے سے قبل  ہی  پہلےبائی پاس کےٹول پلازہ   پہنچے اور پھرجلد ہی سپرہائی وے کے ٹول پلازہ تک جاپہنچے  ۔



    سپر ہائی وے پر داخل ہوئے تو ہماری رفتار کے ساتھ ساتھ ہوا کی رفتار بھی تیز ترہوتی گئی۔ادھر رات  کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہوا میں   ٹھنڈک بھی بڑھی۔رگ وپے میں کچھ سکون  اترا تو بھوک بھی کسمسا کرجاگ اٹھی۔دل میں چائے کی خواہش بھی مچلنے لگی۔ٹول پلازہ سے گزر کر کچھ ہی آگے بڑھے تو شاہراہ کنارے ایک چھوٹے سے ہوٹل پر جا رکے۔ 

    ہوٹل پر ٹھیک ٹھاک رش تھا، قریب ہی اچھے خاصے ٹرک اور ٹرالر بھی کھڑے تھے۔زیادہ تر لوگ  ہوٹل کے سامنے کھلی جگہ پر بچھی چارپائیوں پر براجمان تھے۔ہم نے اس رش سے کچھ فاصلے پر کھڑی اپنی گاڑی کے قریب ہی ایک چارپائی منگوالی۔رانی پور کے ہوٹل میں لنچ کیلئے جو مزیدار چکن کڑھائی بنوائی تھی ،وہ اچھی خاصی بچ رہی تھی اس لئے  ہم اسے پیک کروا کر اپنےساتھ  لیتے آئے تھے- کھلے آسمان تلے  رات کی ہلکی ہلکی ٹھنڈک  میں چارپائی پر بیٹھ کر تنور کی گرما گرم روٹیوں  کے ساتھ رانی پور کے ہوٹل کی پر ذائقہ چکن کڑھائی نے کھانے کا لطف دوبالا کردیا۔بعد میں چائے کے ایک ایک بھرپور کپ نے آج کے طویل اور گرم دن کی تکان کا ازالہ کرنے کی  بھرپور کوشش بھی کی۔






    نو بجے کے بعد ہم یہاں سے روانہ ہوئے۔سپر ہائی وے کے دونوں اطراف لق ودق میدان گہری ہوتی شب کی اتھاہ تاریکی میں  ڈوبے ہوئے تھے۔ ہائی وے کے دائیں طرف پھیلے کیرتھر نیشنل پارک  سے گھوم پھرکر آتی   خوشگوارہوائیں   ہمارے چہروں  سے ٹکراکر سکون بخشتی تھیں۔ہماری تیز رفتاری کے باعث فاصلے بھی تیزی سے سمٹتے چلے گئے۔ نوری آباد کے قریب پہنچے تو  ہائی وے کے دونوں اطراف موجودپٹرول پمپس اور سی این جی   اسٹیشنوں کی روشنیاں جھلملاتی دکھائی دیں۔آگے بڑھے تو راستے میں کہیں کہیں  سڑک کنارےواقع کسی ہوٹل  کے جلتے بلبوں   کی  لائٹیں  سیاہ رات کے  دبیز پردے میں شگاف ڈالنے کی ناکام کوشش کرتی نظر آتیں۔کراچی سے کچھ نزدیک  ہوئے تو ہائی وے کے اطراف ہوٹلوں اور پٹرول پمپس کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔11بجے کے قریب ہم  کراچی ٹول پلازہ سے گزر ے۔کچھ مزید آگے بڑھے توبالکل سامنے دور افق میں روشنیوں کے شہر کی جگمگاہٹیں  تاریک آسمان میں ابھرتی اور چاندنی کی طرح پھیلتی دکھائی دینے لگیں۔سمندر کی مخصوص مرطوب ہواؤں نے بڑے پیار سے ہمارے چہرے تھپتھپا کر شہر کے دروازے وا کر دئیے۔

   تیئیس دنوں کے بعد شہر کی حدود میں داخل ہوئے تو سندھ کے ریگزاروں سے خنجراب کے برفزاروں تک  اور پھر دوبارہ ریگزاروں سے ہوتے ہوئے کراچی تک واپسی کے طویل لیکن انتہائی ناقابل فراموش سفر کی یادوں کے خزانے کا ایک ڈھیر ہمارے ساتھ  تھا۔