نانگا پربت کے قریب ترشنگ ۔۔۔ اسکردو میں جھیلوں کے سنگ

ساتواں دن
نانگا پربت کے پاس ۔۔۔ حیرت انگیز تبدیلی ۔۔۔ پر رونق گلگت
   
میں صبح سویرے اٹھ کر بازار کی طرف نکل گیا۔ ابھی ساڑھے چھ ہی بجے تھے۔ آسمان پر بادل کم تھے۔ بازار میں زیادہ چہل پہل نہیں تھی۔ ہمارے ہوٹل کے قریب ہی ایک چھوٹے سے کیفے سے اٹھنے والی پراٹھوں کی خوشبو نے میرےقدم اپنی طرف کھینچ لئے۔ گرم گرم چوکور پراٹھے توے پر تلے جا رہے تھے۔ میں نے ایک نظر پھربازار کی طرف ڈالی ابھی دور دور تک کوئی جیپ نظر نہیں آ رہی تھی۔ واپس ہوٹل آ کر ہمسفر کو ساتھ لیا اور ہم دونوں اس چھوٹے سےکیفے کے اندر بچھی بنچ پر جا بیٹھے۔ ناشتے سے فارغ ہوئے تو سات بجنے والے تھے۔ ہم سفر کو تیار ہونے کا کہہ کرمیں ہوٹل کے باہر ہی کھڑا ہو کر اس شخص کا انتظار کرنے لگا جسے حسب وعدہ سات بجے کسی جیپ والے کے ہمارےہوٹل پہنچنا تھا۔ سات بجے اور پھر سوا سات بھی، میری نظریں مسلسل سامنے نظر آتے بازار پر جمی تھیں لیکن ابھی تک وہاں کسی جیپ کا نام و نشان نہیں تھا۔ ترشنگ کیلئے صبح جلدی نکلنے کا پروگرام ناکام ہوتا نظر آرہا تھا۔ 
  ہمارے ہوٹل سے متصل ناردرن ایریا ٹرانسپورٹ کمپنی( نیٹکو ) کا اڈہ تھا۔ اڈہ کیا تھا ، بس ایک خالی کچا پلاٹ تھا، جس کی ایک دیوار پر نیٹکو آفس لکھا ہوا تھا۔ بازار کی دوسری سمت سے چند مسافروں کو لئے ہوئے ایک بڑی سی جیپ اس خالی پلاٹ میں داخل ہوئی- جیپ پر نیٹکو کے بجائے روپال اینڈ نانگا پربت سروس لکھا دیکھ کر میں چونکا۔ روپال تو ترشنگ کے پاس ہی ہے اور یہ دونوں وادیاں نانگا پربت کے ساتھ ہی واقع ہیں۔ مسافر جیپ سے اتر کر بازار کا رخ کررہے تھے۔میں نیٹکو اڈے کے پلاٹ میں کھڑی اس جیپ کی طرف بڑھ گیا۔ ایک مسافر سے معلوم ہوا کہ جیپ ترشنگ سے ہی آئی ہے۔ یہ ایک بڑی مسافر جیپ تھی جس میں آٹھ دس لوگ بآسانی سفر کر سکتے تھے۔ صبح سات بجے جیپ سمیت ہمارے ہوٹل پہنچنے کا وعدہ کرنے والے استور کے مکین کا کچھ پتہ نہ تھا، نہ ہی بازار میں دور دور تک کوئی جیپ ہی نظر آتی تھی۔ ترشنگ سے آنے والی اس مسافر جیپ کے ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ وہ یہاں سے سہ پہر کے وقت استورسے مسافروں کو لے کر ترشنگ کے لئے روانہ ہو گا۔میں نے اس سے ترشنگ جانے کیلئے اس وقت کسی جیپ کے مل سکنے کی بابت دریافت کیا لیکن اس نے اس ضمن میں لا علمی کا اظہار کیا تاہم اس کے اگلے جملے سے اس لاعلمی کی اصل وجہ بھی آشکار ہو گئی۔
’’ اگر آپ میری جیپ کی بکنگ کرا لیتے ہیں تو میں اسی وقت ترشنگ چل سکتا ہوں۔‘‘
’’لیکن پھر تمہارے وہ مسافر جنہیں سہ پہر کو واپس جانا ہو گا ؟‘‘
’’ ان کی خیر ہے ، وہ کسی دوسری گاڑی کا بندوبست کر لیں گے۔‘‘
اس نے جو ریٹ مجھے بتائے وہ بھی ہمارے ہوٹل والے جیپ ڈرائیورکے بتائے گئے ریٹ سے خاصے کم تھے۔میں نے استور میں مزید وقت ضائع کیے بغیر فوری طور پر اسی مسافر جیپ سے ترشنگ جانے کا فیصلہ کر لیا۔صبح کے ساڑھے سات بج چکے تھےجب میں اور ہم سفر اس بڑی سی جیپ کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ترشنگ کے لئے روانہ ہوتے تھے۔
  گوری کوٹ کےقصبے تک سڑک خاصی بہتر حالت میں تھی۔ گوری کوٹ کے قصبے سے نکل کر چلم چوکی ،شیوسر اور دیوسائی جانےکے لئے ایک سڑک سیدھی چلی جاتی ہے جبکہ ترشنگ کے لئے ہمیں دائیں طرف موجود پہاڑوں کے ساتھ ساتھ چلتی سڑک پرنانگا پربت کی طرف جانا ہوتا ہے۔ اس سڑک کی حالت زیادہ اچھی نہ تھی۔ چونکہ یہ ایک مسافر ویگن نما جیپ تھی اس لئے زیادہ آرام دہ نہ تھی۔گو کہ ہم فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے لیکن ٹوٹی پھوٹی سڑک پر اچھلتی جیپ کے جھٹکے کبھی کبھی ہماری چولیں بھی ہلا ڈالتے تھے۔ ڈرائیور کا تو یہ روز کا معمول تھا سو وہ نسبتاً تیز رفتاری سے جیپ چلا رہا تھا۔سڑک خراب تو تھی لیکن اتنی خطرناک نہ تھی کہ ہم اس کی اس تیزرفتاری کی بنا پر کسی خوف میں مبتلا ہوتے۔بس جیپ اچھلتی کودتی تھی ، ہم جھٹکے برداشت کرتے تھے۔ راستے میں آنے والے ایک دو چھوٹے قصبوں سے گزرتی ہوئی جیپ ترشنگ کی طرف بڑھتی رہی۔
   ایک جگہ بلندی پر سڑک کا ایک موڑ مڑتے ہی سفید بادلوں میں گھری ،دھوپ میں چاندی کی طرح چمکتی نانگا پربت کی خوبصورت برفیلی چوٹیوں کا دلکش منظر ہمارے سامنے آ گیا۔اس پہاڑی درے سے نیچے اترے تو یہ منظر ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ترشنگ سے کچھ پہلے سڑک پر ہمارا سامناایک بہت بڑے گلیشئر سے ہوا۔سڑک گلیشئر تلے دبی ہوئی تھی اور ہمیں اس گلیشئر پر سے گزر کر اسے پار کرنا تھا۔گلیشئر کی چوڑائی ایک چوتھائی کلومیٹر کے قریب تھی۔ برف کی اس اونچی نیچی رہگزر سے گزرتے ہوئے ہم جیپ کےساتھ ادھر ادھر ڈولتے تھے۔ ڈولنے کے ساتھ ساتھ کبھی اچھلتے اور ایک دوسرے پر لڑھکتے بھی تھے۔ اچھی بات صرف یہ تھی کہ گلیشئر کے نشیب کی طرف کوئی گہری کھائی نہیں تھی ، اس لئے گلیشئر سے پھسل کر جیپ کے کہیں اوربھٹک نکلنے کا ڈر نہ تھا۔ خدا خدا کرکے ہم اس گلیشئر کے شیکر سے نکل کر دوبارہ سڑک پر پہنچے۔

استور سے ترشنگ کےسفر کے دوران کچھ مناظر ۔۔۔


نانگا پربت پر ہماری پہلی نظر ۔۔۔
یہاں نانگا پربت کا برف پوش مکھڑا ہمیں نظر آیا لیکن ہمارے ترشنگ پہنچنے پر اس نے چہرہ نقاب میں چھپا لیا۔



ترشنگ جانے والی راہ پر ملنے والا بڑا گلیشئر ۔۔۔






  تھوڑا سا فاصلہ طےکرنے کے بعد جوں ہی ایک موڑ مڑےتو ہمیں سامنے ہی ترشنگ کی سرسبز کشادہ وادی نظر آنے لگی، بادلوں میں لپٹی نانگا پربت کی برف پوش چوٹیاں بھی ہمیں دکھائی دینے لگیں۔ ترشنگ کی وادی اور اس کے سامنے سجی سنوری ان چوٹیوں کا منظر اتنا خوبصورت تھا کہ ہم جوں جوں ترشنگ کی اس وادی کی طرف اترتے جاتے تھے، سفر کے دوران اچھل کود کی سب کلفتوں کو فراموش کرتے جاتے تھے۔ صبح نو بجے کے بعد ہم ترشنگ کی حسین وادی میں داخل ہو چکے تھے۔ چھوٹی سی آبادی کے درمیان سے گزرتی سڑک پر مجھے ایک دو ہوٹل بھی نظر آئے۔ ڈرائیور نےاس آبادی کے اختتام کے قریب سڑک کنارے موجود ایک چھوٹے سے درخت کے پاس بنی پارکنگ کی جگہ پر جیپ روک دی۔جیپ سے اترے توہمارے دائیں طرف ایک سرسبز میدان تھا جس کے ارد گرد قصبے کے مکینوں کے کچے مکانوں کےساتھ ساتھ ان کے ہرے بھرے کھیت بھی لہلہاتے تھے۔ میدان کے دوسری جانب دور پرے نانگا پربت کی برف پوش چوٹیاںسفید بادلوں کا نقاب اوڑھے نظر آتی تھیں۔ 
  ڈرائیور نے ہمیں بتایا کہ جب وہ صبح ترشنگ سے استور کیلئے روانہ ہوا تھا توان چوٹیوں پر بادل نہیں تھے۔ میں سوچتا تھا کہ ڈرائیور تو ان برف پوش چوٹیوں کے دامن میں ہی رہتا تھا سو اس سے کیاپردہ ؟ ہم ہزاروں میل دور سے ان چوٹیوں کے عشق میں گرفتار ہو کر یہاں پہنچے تھے، شاید اسی لئے نانگا پربت کی یہ حسین چوٹیاں ہم سے شرماتی تھیں۔ اپنا خوبصورت مکھڑا سفید بادلوں کے نقاب میں چھپاتی تھیں۔ہماری طرف دیکھتی ضرور تھیں لیکن نقابوں کے پردے سے چھپ چھپ کر۔ ہم بھی سچے عاشق تھے سو ان کے یہ ناز نخرے اور ادائیں بھی ہمارا دل لبھاتی تھیں۔ ہم انہیں تکتے تھے لیکن نہ انہوں نے رخ سے پردہ ہٹایا اور نہ ہم نے ان سے بے نقاب ہونے پر اصرار کیا۔

خوبصورت ترشنگ ۔۔۔







  جس جگہ ہم جیپ سے اترے تھے اس سے  آگے ایک پتھریلا راستہ کچھ فاصلے پر نظر آتی ایک پہاڑی کی طرف جاتا تھا۔ ڈرائیور نے ہمیں بتایا کہ اس پہاڑی کے دوسری طرف نانگا پربت سے اترتا روپال گلیشئر ہے۔ گلیشئر کو پار کر کے ایک راستہ روپال کی وادی کی طرف جاتا ہے۔ پہاڑی پر سے روپال اور گلیشئردونوں دکھائی دیتے ہیں۔ پہاڑی زیادہ دور نہ تھی، ہم نے اوپر جا کر گلیشئر اور وادی روپال کی کی ایک جھلک دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ راستہ نہ صرف پتھریلا تھا بلکہ مسلسل چڑھتا بھی تھا۔ راستے کے دونوں کناروں پر کھیتوں کی حفاظت کیلئے بنائی گئی پتھروں کی منڈیریں موجود تھیں۔ پتھریلا راستہ اور دونوں طرف پتھر کی منڈیریں۔ مجھے ایسا لگا جیسے روپال کی وادی ہمیں کہتی ہو انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو۔صرف پتھروں پرچلنا ہی ہوتا تو اتنا کٹھن نہ ہوتا لیکن یہاں تو چلنے کے ساتھ ساتھ اوپرچڑھنے کی مشکل بھی درپیش تھی۔گویا معاملہ یوں تھا کہ انہی پتھروں پہ چڑھ کر اگر آسکو تو آئو ۔ بہرحال اس کٹھن امتحان میں تو ہم کسی طور کامیاب ہو ہی گئے لیکن اگلا مرحلہ زیادہ دشوار گزار تھا۔
  پہاڑی پر ایک پگڈنڈی اوپر کی طرف جاتی تھی اور ہمسفر کے لئے اس اوپر جاتی پگڈنڈی پر چڑھنا اتنا آسان نہ تھا۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے ہی ہماری سانسیں بے ترتیب ہو چلی تھیں۔ پتھریلے راستے کے اختتام پر موجود ایک درخت کی چھائوں تلے رک کر ہم نے اپنےسانس بحال کئے۔سطح سمندر سے خاصی بلندی پر واقع ان پہاڑی علاقوں میں آکسیجن کی کمی کے باعث تھوڑی سی چڑھائی چڑھنے سے ہی سانس پھولنے لگتا ہے۔ ہمسفر نے اوپر جاتی پگڈنڈی پر نظر ڈالی ، میرے چہرے سے عیاں وادی روپال کے دیدار کی خواہش اور بے تابی کا اندازہ لگالیا۔
’’میں یہیں درخت کی چھائوں میں بیٹھتی ہوں ، آپ اوپر سے ہو کر آ جائیں‘‘
  میں ڈرائیور کے ہمراہ اوپر روانہ ہو گیا۔ پہاڑی بہت زیادہ بلند نہ تھی لیکن پھر بھی اپنی سانسوں کو قابو میں رکھنے کیلئے مجھے راستے میں ایک دو جگہ ایک آدھ منٹ کیلئے ٹہرنا پڑا۔ اوپر پہنچا تو دائیں طرف دور نانگا پربت کی بلندیوں سے اترتا بڑا سا روپال گلیشئر نظر آیا جو پہاڑی کے دوسری طرف نشیب میں اترتے اترتےبرف کے بجائے صرف پتھروں کی ندی کی صورت نظر آ تا تھا۔انسانوں کے کرتوتوں  کے باعث پوری دنیا میں آنے والی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے سرد ترین خطوں میں رفتہ رفتہ گرمی کے بڑھنے کا عمل جاری ہے، گلیشئرز کا پگھلنا اور آہستہ آہستہ ان کی طوالت کا گھٹتے جانے کی وجہ بھی یہ گلوبل وارمنگ ہی بن رہی ہے۔جس پگڈنڈی پر پہنچ کر ہم اوپر پہنچے تھے ،وہ پہاڑی کے دوسری طرف اترکر نشیب میں واقع گلیشئر کو پار کر کے روپال کی سرسبز وادی میں واقع مختصر سی آبادی کی طرف جاتی تھی۔ یہاں سے روپال بمشکل   ایک ڈیڑھ کلومیٹر کی دوری پر تھا اور آگے کی طرف جانے والا راستہ بھی زیادہ دشوار دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اکیلا ہوتا تو ضرور روپال کی وادی میں جا پہنچتا لیکن عقب میں واقع ترشنگ کی آبادی کے اختتام پر میری ہمسفر درخت کی چھائوں تلے پتھرکی منڈیر پر بیٹھی میرا انتظار کرتی تھی۔
   یہاں سے ترشنگ کی سرسبز وادی کا نظارہ بھی بہت خوبصورت تھا۔میں نے ہاتھ ہلا کر دور نظر آتی روپال کی وادی سے اس تک نہ پہنچ پانے پر معذرت کی۔ کچھ دیر تک نانگا پربت سے اترتے دودھیا گلیشئر کے حسن میں کھویا رہا اور پھر واپسی کی راہ لی۔ ہم واپسی کیلئے مڑے تو ہمیں ایک جگہ اپنی پیٹھ پر اناج کی بوری لادے اسی پتلی سی پگڈنڈی پر اوپر چڑھنے والے  ایک گدھےکو  راستہ دینا پڑا۔گدھے کو راستہ بتانے اور ہانکنے والا کوئی نہ تھا۔وہ پہاڑی پر چڑھ کردوسری طرف  روپال کیلئے اترتی راہ پر روانہ ہو گیا۔میں نے  ترشنگ کی طرف نشیب میں نظریں گھمائیں لیکن  دور دور تک کوئی شخص نہ دکھائی دیا۔ڈرائیور میرے چہرے پر ابھرتی حیرت اور الجھن کو دیکھ کر مسکرایا۔
’’یہ اکیلا ہی روپال تک جائیگا، ان کو راستے کاپتہ ہوتا ہے،کبھی کوئی ساتھ جانے والا نہ بھی ہو تو یہ سامان لاد کر اپنی منزل تک اکیلے ہی پہنچ جاتےہیں‘‘
  نیچے اترتے وقت ڈرائیور نے  یہ بھی بتایاکہ ترشنگ کے راستے میں آنے والابڑا گلیشئر سورج کے بلند ہونے کے ساتھ ساتھ پگھل کر نرم ہونا شروع ہو جاتا ہے اورایسی صورت میں جیپ کے پہئے اس میں دھنسنے اور پھنسنے لگتے ہیں، بہتر یہ ہو گا کہ ہم یہاں سے 11 بجے تک واپس روانہ ہو جائیں۔ میں نے گھڑی کی طرف نظر ڈالی ، پونے دس بچ چکے تھے۔ مجھے اس کی سنائی گئی یہ خبر کچھ بھائی نہیں۔ ابھی تو ہم ترشنگ پہنچے ہی تھے اور وہ صرف ایک گھنٹے بعد ہی یہاں سے واپسی کی بات کررہا تھا جبکہ میرا ارادہ یہاں سے سہ پہرکے بعد واپسی کا تھا۔
’’یہ بات تم نے استور سے چلتے وقت تو نہیں بتائی تھی بلکہ جب میں نے تم سے پوچھا تھا کہ تمہارےساتھ سہ پہر کو جانے والے مسافر کیا کرینگے تو تم نے کہا تھا کہ وہ کسی دوسری جیپ کا بندوبست کر لیں گے۔اب تم اتنی جلدی واپسی کی بات کر رہے ہو ۔ اگر دوپہر کے وقت جیپ کا گزرنا مشکل ہوتا ہے تو تم سہ پہر کے بعدکس طرح استور سے ترشنگ واپس آتے ہو؟‘‘
میری اس بات کا تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا کہ ہمیں اس مشکل سے اس نے پہلے کیوں نہ آگاہ کیا البتہ مجھےگلیشئر کے خوف میں مزید مبتلا کرنے کی بھرپور کوشش ضرور کی۔
’’سہ پہر کو واپسی پرمسافر گلیشئر پار کرتے وقت جیپ سے اتر جاتے ہیں، اور جیپ کہیں پھنستی ہےتو سب مل کر اس کو دھکا دیتے ہیں۔اس طرح ہمیں ترشنگ واپسی میں اس گلیشئر سے گزرتے وقت بہت دقت پیش آتی ہے‘‘
اس کو ویسے بھی اندازہ ہو گیا  تھا کہ روپال تو ہم جا نہ سکے اور ترشنگ میں نانگا پربت کے نظارے کے علاوہ ایساکچھ خاص ہے نہیں کہ ہم یہاں اتنا طویل وقت گزاریں چنانچہ اس کے لئے بہترین موقع تھا کہ وہ دوپہر تک واپس استور پہنچ کر روز مرہ کے معمول کے مطابق اپنی سواریوں کو واپس ترشنگ لا سکے۔ اس لحاظ سے اس کے ایسا سوچنے میں کوئی خاص قباحت بھی نہ تھی۔ مجھے صرف اس بات پر اعتراض تھا کہ بالفرض اگر ہم روپال کی سیر کو چلے جاتے اور سہ پہر کو ترشنگ سے واپس روانہ ہوتے تو اس صورت میں بھی گلیشئرتو پار کرنا ہی تھا۔ بہر کیف مِیں نے اس معاملے پر اس سے مزید بحث کرنا مناسب نہ سمجھا۔
’’اچھا نیچے اتر کر فیصلہ کرینگے کہ ہم کب ترشنگ سے واپس روانہ ہوں‘‘ 

پہاڑی کی بلندی سے نانگا پربت ، روپال گلیشئر، وادی روپال اور ترشنگ کے خوبصورت مناظر ۔۔۔
پہاڑی پر سے دکھائی دیتا ترشنگ ۔۔۔




دور دکھائی دیتی روپال کی سرسبز وادی ۔۔۔




انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آئو ۔۔۔
پتھریلی راہ سے واپس اترتے ہوئے ۔۔۔


  پتھریلے راستے سے نیچے اتر کر ہم دوبارہ سرسبز میدان میں جا پہنچے۔ کچھ وقت وہاں مزید گزارا۔ٹکٹکی باندھے ہمیں اپنی طرف تکتا دیکھ کر نانگا پربت کی برف پوش چوٹیاں مزید شرما تی تھیں اور اپنے حسین مکھڑے پر بادلوں کے مزیددبیز نقابوں کا اضافہ کرتی تھیں۔ ہم نے بھی ان کو زیادہ دیر تک ستانا بہتر نہ جانا۔ نظریں جھکائیں،سرسبز میدان سے نکلے ،جیپ میں بیٹھےاور ترشنگ کی آبادی سے گزرتی سڑک کنارے موجود ایک ہوٹل میں چائے پینے کےارادے سےرک گئے۔ گھاس کے لان میں درختوں کی چھائوں تلے رکھی میز کرسیوں پر بیٹھ کر چائے پینے کالطف دوبالا ہو گیا۔

ترشنگ کے سبزہ زار میں کچھ تصویریں  اور ہوٹل  میں درختوں کی چھائوں تلے مزیدار چائے ۔۔۔







تقریباً پونے گیارہ بجے ہم نے ترشنگ کی وادی اور نانگا پربت کی شرمیلی برفیلی چوٹیوں کو الوداع کہا اوراستور کے لئے واپس روانہ ہو گئے۔ گلیشئر میں جیپ کے پھنسنے کے خدشے کے پیش نظر ڈرائیور نے اپنے ایک دوست کو بھی ہمراہ لے لیا تھا۔ دس پندرہ منٹ بعد ہم سڑک پر موجود گلیشئر تک پہنچ گئے۔ ڈرائیور کی بات درست تھی۔ دھوپ کے باعث گلیشئر کی برف کچھ نرم ہو چلی تھی اور جیپ کے ٹائر کبھی کبھی نرم برف میں دھنسنے لگتے تھے۔ ایک دو جگہ ٹائر پھنسے بھی، ڈرائیور اور اس کے دوست نے ٹائر کے نیچےپتھر رکھ کر بمشکل ان کو باہر نکالا۔ گلیشئر کے ساتھ ساتھ ہی ہمارے دائیں طرف ایک نالہ بہتا تھا ۔واپسی کے اس سفر میں طویل گلیشئر کو پار کرنے میں ہمیں کچھ دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ 
  گلیشئرکے اختتام پر ہماری نظر اپنے بائیں طرف موجود پہاڑی پر بیٹھی ایک خاتون پر پڑی جو ایک خشک جھاڑی سے لکڑیاں توڑنے میں مصروف تھی۔ شمالی علاقوں کے ہر پل بدلتے شدید موسموں اور انتہائی پر مشقت زندگی گزارنے والی ان مقامی عورتوں کی ہمت اور حوصلے کی جتنی داد نہ دی جائے وہ کم ہے۔ ہم اس خاتون کی جفاکشی پر انگشت بدنداں تھے جبکہ اس کے لئے یہ کام یقیناً روزمرہ کا معمول رہا ہوگا۔ ڈرائیور جلداز جلد استور پہنچنا چاہتا تھا اس لئے جیپ ان ٹوٹی پھوٹی اونچی نیچی راہوں پر تیزی سے دوڑتی تو اسی شدت سے اچھلتی بھی۔ کبھی بہت زیادہ اچھلتی تو ہم ڈرائیور سے رحم کی اپیل کرتے ۔ وہ مسکرا کرچند لمحوں کے لئے رفتار کچھ دھیمی کر لیتا۔ گوری کوٹ کے قصبے سے گزرتے ہوئے ہم ساڑھے بارہ بجے کےقریب دوبارہ استور میں داخل ہو کر اپنے ہوٹل پہنچ گئے۔

ترشنگ سے استور واپسی کے دوران سڑک پر موجود  گلیشئر اور گوری کوٹ کے قصبے سمیت چند خوبصورت مناظر ۔۔۔ 











  راما دیکھ چکے تھے، ترشنگ کی سیر بھی کر آئے، شیوسر جھیل تک جانا ممکن نہ تھا، منی مرگ جانے کا ارادہ ترک کر دیا تھا،سو استور میں ہمارا مزید ٹہرنا لاحاصل تھا ، ہم نے کچھ آرام، نماز ظہر اور لنچکے بعد یہاں سے کوچ کرنے کا پروگرام بنا لیا۔ ہماری اگلی منزل اسکردو تھی۔ سہ پہر کے وقت یہاںسے روانہ ہونے کے بعد پلان یہ تھا کہ رات شاہراہ قراقرم پر واقع جگلوٹ کے قصبے میں گزارکر اگلی صبح جگلوٹ سے کچھ ہی آگے اسکردو کے لئے مڑتی سڑک پر اپنے سفر کو جاری رکھا جائے۔ 
  دوپہر کا کھانا ہم نے ہوٹل میں ہی کھایا۔ کچھ دیر آرام کیا ، ہمسفر نے کمرے میں بکھرے سامان کی پیکنگ اور میں نے نیچے جا کر گاڑی کے پہیوں کی ہوا اور تیل پانی کی چیکنگ کا فریضہ انجام دیا۔ دوپہر ڈھائی بجے کے بعد ہم استور کی وادی سے رخصت ہوئے۔ موسم خوشگوار تھا ،آسمان پرزیادہ بادل نہ تھے کہ بارش کا کوئی امکان ہوتا۔ واپسی کا سفر بلندیوں سے نشیب کی طرف تھا اس لئے زیادہ آسانی اور تیزی سے طے ہو رہا تھا۔ تین بجے سہ پہر کے بعد ہم ہرچو کے چھوٹے سے قصبے سے گزرے۔ کچھ دیر بعد ہم دریائے استور کاپل عبور کر کے اس حفاظتی چوکی کی عمارت کے پاس پہنچے جہاں ہم نے استور کی طرف آتے ہوئے رک کرعصر کی نماز ادا کی تھی۔ میں یہاں موجود دونوں افراد کو سلام کرنے کیلئے رکا۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی سے ہمیں اللہ حافظ کہا۔
  یہاں سے آگے ہمیں پھر ان خطرناک اور دشوار گزار پہاڑی دروں سے گزرنا تھا کہ جو استور آتے وقت ہمارا خون خشک کرتے تھے۔ وہی سڑک، بلند و بالا سنگلاخ چٹانیں، تنگ پہاڑی درے لیکن حیرت انگیز طورپر نہ کوئی وحشت ،نہ کسی قسم کی دہشت، انتہائی سکون ،آرام اور خوش اسلوبی سے ہمارا سفرجاری تھا، آتے وقت کے سفر اور واپسی کے سفر میں ایسی حیرت انگیز تبدیلی، خوشگوار حیرت کا ایک سمندرتھا کہ جس میں ہم غوطہ زن تھے۔ اس حیرت انگیز تبدیلی کی پہلی بڑی وجہ تو یہ کہ سڑک چڑھتی نہ تھی اترتیتھی، دوسری یہ کہ آسمان پر بادل اتنے گہرے نہ تھے کہ طوفانی بارش کا خطرہ سر پر منڈلاتا ہو، تیسری یہ کہسورج کی روشنی بکھری تھی ، شام کے سائے تیزی سے گہرے نہ ہوتے تھے، چوتھی اور سب سے اہم وجہ کہ یہ راستہ اب ہمارے لئے اجنبی نہ تھا، ہم اس کے سب نشیب و فراز سے آشنا ہو چکے تھے۔ اقبال نے بالکلسچ کہا کہ عجب چیز ہے لذت آشنائی۔ سو دو عالم سے اپنے دل کو بے گانہ کرتے آشنائی کی لذت سے سرشار ہم ان پہاڑی دروں میں سفر کرتے تھے۔
  راستے میں سڑک کے کنارے ایک چھوٹے سے ہوٹل پر ٹہر کر ہم نےچائے پی۔ چاروں طرف سنگلاخ پہاڑ ،دور دور تک کسی آبادی کا نام و نشاں نہیں ، ایک تنگ پہاڑی درےمیں واقع یہ چھوٹا سا ہوٹل ہمیں ایک پرسکون محل کی مانند محسوس ہوتا تھا۔ ہوٹل کے دائیں طرف خاصی گہرائی میں دریائے استور بہتا تھا۔ لکڑی کے تختوں سے بنے ہوٹل کے کمرے کے سامنے چھوٹے سے برآمدے میں ایک تخت میز اور کچھ بنچیں رکھی ہوئی تھیں۔ اس بلند پہاڑی درے میں تیز ہوائیں چلتی تھیں جوسڑک کی مٹی کو بھی اڑا کر ساتھ لاتی تھیں۔ ہم ان تیز گردآلود ہوائوں سے بچنے کیلئے کمرے میں جا بیٹھے۔ پانی کو ٹھنڈا رکھنے کی غرض سے پکی مٹی کے دو گھڑے کمرے کے کچے فرش میں گڑے ہوئے تھے۔مٹی کے چولھے اور کوئلوں کی آنچ پر تیار کی گئی چائے بہت مزیدار تھی۔

استورسے شاہراہ قراقرم تک واپسی کے سفر کے دوران ان پہاڑی دروں کی کچھ تصاویر کہاستور آتے وقت ہم تیزی سے خراب ہوتے موسم ، گہری ہوتی شام، اور دروں کی دہشت کےسبب ان کی تصویریں نہ لے سکے تھے۔











ہوٹل سے روانہ ہوئے تو سوا چار بجنے والے تھے۔ ہم اس پہاڑی درے سے مسلسل نشیب کی طرف جاتی سڑک پر اترتے رہے۔ ساڑھے چار بجے کے قریب سڑک کے ایک موڑ سے ہمیں دور چمکتا ہوا دریائے سندھ نظر آگیا۔ ہم اپنے دائیں ہاتھ بہتے دریائے استور کے شفاف پانی کو دریائے سندھ کے مٹیالے پانی میں اترتا دیکھتے تھے۔ کچھ اور نیچے اترے تو اس تنگ پہاڑی درے کا اختتام ہو گیا ، دریائے سندھ کے دوسرے کنارے پر پہاڑ کے ساتھ ساتھ ذرا بلندی پر موجود شاہراہ قراقرم بھی ہمیں نظر آنے لگی۔ استور سے شاہراہ قراقرم تک واپسی کا یہ سفراتنی آسانی سے اور بلاخوف و خطر طے ہوجانے پر ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ سہ پہر شام میں ڈھلتی تھی اور شام ہونے کے ساتھ ہی ان علاقوں کا موسم بھی تیزی سے بدلتا تھا۔ شاہراہ قراقرم پر پہنچ کر جگلوٹ کے لئے ہمیں دائیں طرف مڑنا تھا اور اس سمت آسمان گھنے سیاہ بادلوں سے ڈھکا نظر آ رہا تھا۔ بادلوں کی وسیع و عریض سیاہ چادر دور نظر آتے پہاڑوں کی برف پوش چوٹیوں کے اوپر تک پھیلی دکھائی دیتی تھی۔ بادلوں کی سیاہ چادراوڑھے ان پہاڑوں کا یہ منظر انتہائی خوبصورت اور دلکش تھا۔ دریائے سندھ پر واقع تھیلیچی کا پل عبور کر کے بلندی کی طرف جاتی سڑک پر چڑھتے ہوئے ہم پونے پانچ بجے سے قبل ہی شاہراہ قراقرم پر پہنچ گئے۔

استور سے واپسی پر شاہراہ قراقرم تک کے سفر کی کچھ اور تصویریں ۔۔۔


دریائے استور اورسامنے دکھائی دیتے دریائے سندھ  کا ملاپ ۔۔۔








وادی استور کے درے سے اترتے وقت دریائے استور ہمارے دائیں طرف بہتا تھا۔ اب شاہراہ قراقرم پر سفر کرتےتھے تو دریائے سندھ دائیں ہاتھ ہمارے ساتھ ساتھ تھا۔شاہراہ قراقرم پر سفر کا آغاز ہی ہوا تھا کہ سڑک کے دائیں طرف نانگا پربت کی برف پوش چوٹیوں کی طرف اشارہ کرتا بورڈ نظر آیا۔ ہم لمحہ بھر کو رکے لیکن نانگا پربت بدستور بادلوں کا سیاہ نقاب اوڑھے ہوئے تھی۔ موٹر وے جیسی شاندار شاہراہ پر ہماری گاڑی فراٹےبھرتی تھی۔ آسمان پر چھائے سیاہ بادل ،پہاڑوں کے بیچ بچھی سیاہ شاہراہ قراقرم ،شمالی علاقوں کے اس حسین اور یادگار سفر میں آج کی یہ شام بہت خوبصورت تھی۔ دو دن قبل استور جاتے وقت تنگ پہاڑی درےمیں سفر کرتے ہوئے بھی آسمان ایسے ہی سیاہ بادلوں سے ڈھکا تھا لیکن ہم ڈرتے تھے کہ کہیں یہ برس نہ پڑیں۔ آج دل مچلتا تھا کہ کسی طور برسیں اور شاہراہ قراقرم پر اترنے والی اس خوبصورت شام کی رنگینی میں اضافہ کریں۔راستے میں ہم ایک پختہ پر نالے کے چھوٹے سے پل کے نیچے سے گزرے۔یہ پختہ پر نالہ بارش ہونے کی صورت میں سڑک کے بائیں طرف موجود بلند سنگلاخ چٹانوں سے بہ کر نیچے آنے والے پانی کی بالا ہی بالا دریائے سندھ کی طرف نکاسی کر سکتا تھا۔ اس طرح سڑک پانی کے تیز بہائو کے باعث برباد  ہونےسے محفوظ ہو گئی تھی۔ اگر یہ سیاہ بادل برس رہے ہوتے تو ہم یقیناً اس پرنالے سے ہو کر دریائے سندھ کی طرف گرتے بارش کے پانی کا مشاہدہ بھی کر پاتے۔
  اس بہترین شاہراہ پر فاصلے اتنی تیزی سے سمٹے کہ تھیلچی کے مقام سے جگلوٹ کی حدود میں داخل ہونے میں ہمیں صرف پندرہ منٹ لگے۔ شاہراہ قراقرم پر واقع جگلوٹ کے بازار میں تھوڑی بہت چہل پہل بھی تھی اور اچھی خاصی گاڑیاں بھی موجود تھیں۔میں بازار میں گھوم پھر کر رات گزارنے کے لئے کوئی ہوٹل تلاش کرتا تھا۔ ایک دو ہوٹل تھے تو سہی لیکن ہمسفر کے ہمراہ رات گزارنے کیلئے مناسب نہ تھے۔ ایک پٹرولپمپ والے نے مشورہ دیا کہ رات یہاں ٹہرنے کےبجائے ہم گلگت چلے جائیں جو یہاں سے ایک گھنٹے سے بھی کم مسافت پر تھا۔ میں جگلوٹ کی خاموش اورکھلی فضا میں یہ شام اور رات بتانے کی خواہش رکھتا تھا لیکن تلاش بسیار کے باوجود کوئی بہتر ہوٹل نہ ملا تو ہمیں سوئے گلگت روانگی پر مجبور ہونا پڑا۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد ہم اس سہ راہے پر پہنچے جہاں سےاسکردو کے لئے سڑک دائیں طرف نیچے اترتی تھی۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو چکی تھی جو اس شام کو مزید خوشگوار بناتی تھی۔ سڑک کے بائیں طرف پہاڑ کے دامن میں واقع ایک نسبتاً کشادہ وادی میں ہمیں ایک چھوٹی سی مسجد نظر آئی جہاں ہم نے نماز عصر ادا کی۔











جگلوٹ سے گزرنے کے دوران  ۔۔۔







نمازعصر پڑھ کر یہاں سے چلے، تقریباً پانچ منٹ بعد ہم شاہراہ قراقرم پر واقع پاک چائنا پری سرنگ سے گزرے۔گلگت کی طرف نظر آتے سیاہ بادل اب کچھ چھٹتے دکھائی دیتے تھے۔ بوندا باندی رک چکی تھی اور کبھی کبھار سیاہ بادلوں کے دریچوں سے جھانکتا سورج بھی ہمیں ان پہاڑوں کا سینہ چیرتی شاہراہ پر سفر کرتا دیکھتا تھا۔ اسکردو کی طرف اترتی سڑک والے مقام سے شاہراہ قراقرم کے دائیں طرف بہتے دریائے سندھ کی جگہ دریائے گلگت نے لے لی تھی۔ جوں جوں ہم گلگت کی وسیع و عریض وادی کے میدانوں کے قریب ہوتے جاتےتھے دریائے گلگت ہم سے دور ہوتا چلا جاتا تھا۔ گلگت کے مضافاتی علاقوں کا آغاز ہو چلا تھا۔ شاہراہ اب پہاڑوں سے اتر کر میدانی علاقے میں چلی آئی تھی۔
  ساڑھے چھ بجے کے بعد ہم دنیور چوک پر پہنچے۔ یہاں سے ہم گلگت شہر کے لئے سیدھی جانے والی سڑک پر چلتے گئے، شاہراہ قراقرم ہنزہ اور خنجراب کی طرف جانے کے لئےاس چوک سے دائیں طرف مڑ گئی۔ ہم دس سال بعد گلگت آئے تھے ۔ شہر بہت بدل چکا تھا۔ سڑک کے دونوں اطراف نئی نئی عمارتیں اور بڑے بڑے پٹرول پمپ بن گئے تھے لیکن شہر کی طرف جاتی اس سڑک کی حالت اتنی اچھی نہ تھی۔ کچھ ہی دیر بعد گلگت شہر کے بڑے سے داخلی گیٹ نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ گیٹ کے قریب سڑک کشادہ  تو بہت تھی لیکن ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ سڑک تعمیر کرنے کے لئے پتھر بچھا دئے گئے تھے لیکن کیفیت بتاتی تھی کہ پتھر ڈالے خاصا وقت گزر چکا ہے اور بوجوہ اگلا مرحلہ کسی طور شروع نہیں ہو پا رہا۔ اس کشادہ لیکن پتھریلی سڑک سے ہوتے ہوئے ہم خوش آمدید کہتے باب گلگت سے گزر کر شاہراہ قائد اعظم پر آ گئے۔ اس شاہراہ کی حالت خاصی بہتر تھی۔
   دس سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باعث یہ شہر بھی کافی وسعت اختیارکر چکا تھا۔ دس سال قبل شہر سے خاصی دور اس سڑک پر نہ اتنی عمارتیں تھیں اور نہ اس قدر رونق۔ میری نظریں سڑک کے دائیں طرف جنرل بس سٹینڈ کو تلاش کرتی تھیں جو کہ دس سال پہلے گلگت میں داخل ہونے کے بعد پہلی بڑی عمارت اور بارونق  مقام ہوا کرتا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف نئی تعمیر کردہ عمارتوں کاسلسلہ چلتا رہا ۔کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد بالآخر جنرل بس اسٹینڈ ہمیں کم و بیش اسی حالت میں نظر آ گیاجیسا ہم نے اسے 2004 میں دیکھا تھا، بس اسٹینڈ پر کھڑی نیٹکو کی بسوں نے ہماری پرانی اور خوشگوار یادوں کو تازہ کر دیا۔ دس سال قبل ہم بس اسٹینڈ سے کچھ ہی آگے سڑک کے دائیں ہاتھ پر واقع ہنزہ گیسٹ ہائوس میں ٹہرے تھے۔ نئی نئی عمارتیں بن جانے کی وجہ سے مجھے وہ گیسٹ ہائوس دکھائی نہ دیا۔ چونکہ ہمیں کل صبح سویرےاسکردو کے لئے نکلنا تھا اس لئے میں شاہراہ قراقرم سے قریب تر ہی کسی ہوٹل میں ٹہرنا چاہتا تھا۔ سڑک کنارےگاڑی روک کر میں نے اس گیسٹ ہاوس کا پتہ چلانےکی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ معلوم ہوا کہ اسی شاہراہ پرکچھ آگے ایک اچھا ہوٹل موجود ہے۔آگے بڑھے تو بائیں ہاتھ پر وہ اچھا ہوٹل نظر آ گیا ۔ ہوٹل واقعی اچھا تھا اورگاڑی کیلئے سڑک کے ساتھ ہی پختہ پارکنگ بھی موجود تھی۔ پہلی منزل پر کمرہ لیا جو بہترین اور آرام دہ تھا۔انٹرنیٹ اور وائی فائی کی سہولت بھی میسر تھی۔

جگلوٹ اور  گلگت تک کے سفر اور ہوٹل کی کچھ تصویریں ۔۔۔









مغرب کی نماز کے بعد میں نے انٹر نیٹ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے دفتر کے ساتھی کو وہ ضروری میل کی جو بجلی کی عدم موجودگی کے باعث استور کے انٹر نیٹ کیفے سے نہ کر پایا تھا۔ تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے کے آرام اور تازہ دم ہونے کے بعد ہم گلگت کی اس شاہراہ کی سیر اور رات کا کھانا کھانے کی غرض سے ہوٹل سے باہرنکلے، پارکنگ سے گاڑی نکالی اور شاہراہ قائد اعظم پر آگے بڑھتے چلے گئے۔ نئی نئی عمارتیں اور بڑے بڑےسپر اسٹورز دیکھ کر اندازہ ہوا کہ شہر خاصی ترقی کر چکا ہے۔دس سال پہلے اسی شہر کی رونقیں مغرب کے فوراً بعد ماند پڑ جاتی تھیں اور عشاء کے بعد تو یہ نیند کی آغوش میں چلا جاتا تھا۔ آج عشاء کے کافی دیربعد بھی بازار کی رونقیں بحال تھیں اور ہوٹل جاگتے تھے۔ ہم بھی ایسے ہی ایک جاگتے ہوٹل میں جا بیٹھے ۔کھانا بھی بہت لذیذ تھا اور چائے بھی مزیدار۔دس سال قبل آئے تھے تو گلگت رات میں بھی  کچھ گرم تھالیکن آج جون کے اس پہلے ہفتے میں موسم خاصا خوشگوار تھا۔ یہاں سے صبح جلدی نکلنا تھا اس لئے ہم رات کو زیادہ دیر تک آوارہ گردی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ سو جلد ہی اپنے ہوٹل کا رخ کیا۔

گلگت کی کچھ اور تصویریں ۔۔۔۔







آٹھواں دن
سوئے اسکردو ۔۔۔ دلکش نظارے ۔۔۔ خوفناک منظر
  صبح ساڑھے چھ بجے گلگت کے ہوٹل سے سوئے اسکردو روانہ ہوئے۔ موسم بہتر تھا ، آسمان پر بادل بھی کم تھے۔اسکردو کے لئے مڑنے تک تقریباً 30 کلومیٹر کا سفر ہمیں شاہراہ قراقرم پر ہی طے کرنا تھا۔ اسکردو روڈ پر نہ جانےناشتے کیلئے کو ئی ہوٹل کتنا فاصلہ طے کرنے کے بعد ملے، اس خیال سے ہم سات بجے کے بعد شاہراہ قراقرم کے کنارے پر ہی واقع ایک چھوٹے سے ہوٹل کے پاس رک گئے۔ ہوٹل کے باہر موجود کچے سے لان میں بنچز اور میزیں رکھی تھیں۔ ناشتے کے بعد ساڑھے سات بجے ہم شاہراہ قراقرم چھوڑ کر بائیں طرف نشیب میں اسکردو کے لئے مڑتی سڑک پر اترتے ہوئے دریائے گلگت کے عالم پل تک پہنچ گئے۔ استور کی وادی کی طرف جانے کے لئے ہم نے اسی طرح شاہراہ سے اتر کر دریائے سندھ پر واقع تھیلیچی کا پل عبور کیا تھا۔ وہ پل بہت بہتر اور پختہ تھا جبکہ عالم پل آہنی رسوں سے معلق لکڑی کے تختوں سے بنا انتہائی قدیم پل تھا کہ جس پر سے ایک وقت میں ایک ہی سمت سے آنے والی ایک ہی گاڑی گزر سکتی تھی۔ صبح سویرے یہاں پہنچ جانے کے باعث گاڑیوں کی تعداد زیادہ نہ تھی اس لئے ہم نے انتظار کی زحمت اٹھائے بغیر بلا رکے ہی یہ پل عبور کر لیا۔
  پل کے بعد سڑک پہلے بائیں طرف مڑ کر دریا کے ساتھ ساتھ چلی اور پھر جلد ہی ایک یو ٹرن لیتے ہوئے کچھ چڑھائی چڑھ کردوبارہ دائیں طرف بہتے دریائے گلگت کے ساتھ آگے بڑھتی رہی۔ دریا کے دوسری طرف موجود پہاڑوں کےساتھ چلتی شاہراہ قراقرم بھی ہمیں نظر آ رہی تھی۔ کچھ دیر تک سڑک یونہی دریا کے ساتھ ہمارے بائیں ہاتھ موجود پہاڑوں کے دامن کی اس کشادہ وادی کے میدان میں سیدھی چلتی رہی اور پھر بائیں طرف مڑ کر اس نےاسکردو کی طرف جانے والے پہاڑی دروں کا رخ کرلیا۔ کچھ بلندی پر پہنچے تو ہمیں اپنے دائیں طرف ان پہاڑی دروں سے نکل کرشاہراہ قراقرم کی طرف جاتا دریائے سندھ نظر آ گیا۔ شاہراہ قراقرم کے قریب پہنچ کریہ عظیم دریا دریائے گلگت سے جا ملتا ہے لیکن دریائوں کے سنگم کے اس مقام پر دریائے گلگت اپنے نام سے دستبردارہو جاتا ہے اور تھاکوٹ کے پل تک کی لمبی مسافت میں شاہراہ قراقرم کا ساتھ دریائے سندھ ہی دیتا ہے۔ 
  پہاڑی دروں میں داخل ہونے کے لئے سڑک آہستہ آہستہ پتھریلے میدانی راستے سے نکل کر بلند ہوتی جاتی تھی۔ لیکن یہ درے وادی استور میں داخل ہونے والے درے کی طرح نہ تو ایک دم سے تنگ ہوتے جاتے تھے اور نہ ہی مسلسل بلندی کی طرف چڑھتے تھے، البتہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے تھے سڑک کی حالت ابتر ہوتی جاتی تھی۔ابھی صبح کا سہانا وقت تھا اور ہم بالکل تازہ دم تھے اس لئے ہنستے کھیلتے سڑک کی اس تباہ حالی کے مضراثرات کو برداشت کرتے تھے۔سوا آٹھ بجے ہم ان چٹیل پہاڑی دروں میں واقع ہراموش کی وادی کے چھوٹے سےلیکن سرسبز ہنوچل کےقصبے سےگزرے۔

گلگت سے ہنوچل کے قصبے تک ۔۔۔








اسکردو روڈ پر واقع عالم پل ۔۔۔  







ہنوچل کے قصبے کے درمیان سے گزرتی سڑک کے دونوں اطراف درختوں،کھیتوں اورگھروں کا سلسلہ بہت مختصروقت ہی جاری رہا ۔ ہنوچل سے نکل کر دریائے سندھ اور اس کے ساتھ ساتھ چلتی یہ سڑک دائیں طرف کے پہاڑی سلسلے کے گرد ایک بڑا موڑ مڑتے ہوئے جنوب کا رخ اختیار کر لیتی ہے۔ سورج کی چمکیلی دھوپ میں اس موڑ مڑتےپہاڑی درے سے گزرتے دریائے سندھ کا جھلملاتا پانی نشیب میں بہتا بہت خوبصورت نظر آتا تھا۔ شمالی علاقوں کے اس سفر میں ہنوچل کے قصبے کے فوراً بعد کا یہ موڑ ایشیا کے اس عظیم دریا کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جواس کے ہزاروں میل لمبے سفر میں ایک زبردست جغرافیائی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ یہاں سے سیکڑوں میل کےفاصلے پر واقع تبت کی مانسرور جھِیل سے نکلنے والا یہ دریا چین اور بھارتی علاقے لداخ سے گزر کرہمارے بلتستان میں ہمالیہ کے پہاڑی دروں میں گھومتا پھرتا اس موڑ تک اپنا پورا سفر جنوب مشرق سے شمال مغرب تک طےکرتا چلا آتا ہے۔یہ موڑ اس کے شمال کی سمت سفرکی انتہا ہے۔ اس کے بعد ہنوچل کے قصبے سے بحیرہ عرب میں جاگرنے تک یہ عظیم دریا مسلسل شمال سے جنوب مغرب کی طرف سفر کرتا ہے۔
  اس پورے موڑ کے دوران سڑک دریا سےزیادہ بلندی پر نہ تھی اس لئے ہم پہاڑوں کے گرد گھومتی سڑک سے  دریا کا بہترین نظارہ کر پا رہے تھے۔ اپنے شمالی علاقوں کے اس سفر میں ہمیں اب دریا کے ساتھ ساتھ اسکردو تک جنوب مشرق کی سمت سفر کرنا تھا۔ ہم شمال سے جنوب کوجاتے تھے جبکہ ہمالیہ کے ان پہاڑی دروں میں دریائے سندھ جنوب سے شمال کو بہتا تھا۔ جغرافیائی اہمیت کا حامل یہ عظیم موڑ مڑنے کے بعد تھوڑا سا فاصلہ طے کرکے ساڑھے نو بجے کے بعد ہم سسی کے قصبے میں واقع ایک ہوٹل پرکچھ دیر آرام اور چائے پینے کے لئے رک گئے۔
  ہوٹل دریا کنارے تھا لیکن اس کے چھوٹے سے سرسبزباغیچے کے عقب میں دریا کافی نشیب میں بہتا دکھائی دیتا تھا۔ باغیچے میں موجود گھاس کے مختصر سے لان میں درختوں کی چھائوں تلے ایک میز اور بینچ رکھی تھی۔ باغیچے میں انار اور سیب کے درختوں کے ساتھ ساتھ انگور کی بیلیں بھی تھیں۔انگوروں کے گچھوں تک ہماری رسائی تو تھی لیکن وہ ابھی بالکل کھٹے اورکچے تھے۔ میں نے شدت شوق میں ایک چھوٹا سا گچھا توڑ بھی لیا لیکن بعد میں اپنی اس بے وقوفی پر بہت افسوس ہوا۔ سیب اور اناربھی ابھی پکے نہ تھے۔ جون کا آغازتھا اوران سرد علاقوں میں گرمیوں کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا۔ سونے کو کندن ہونے کے لئے بھٹی کی سلگتی آگ اورپھلوں کو پکنے کے لئے تپتی دھوپ کی گرمی تو جھیلنا ہی پڑتی ہے۔ اگست سے پہلے ان پھلوں میں مٹھاس اترنے کا کوئی امکان نہ تھا ، ہمارے لئے اس مقام پر دو مہینے تک رک کر ان کے پکنے کا انتظار آسان نہ تھا، اس لئے کچھ دیر یہاں گزارنےکے بعدہم  آگے روانہ ہوگئے۔


ہنوچل سے سسی کے قصبے تک ۔۔۔



شمال سے جنوب کی طرف مڑتا دریائے سندھ ۔۔۔

دریائے سندھ کے شمال تک کے سفر کی انتہا ۔۔۔


سسی کے قصبے میں ہوٹل کا وہ باغیچہ کہ جہاں کچھ دیر کیلئے ٹہرے ۔۔۔








2004 کے سفر کے دوران اسکردو روڈ پر ایک جگہ ہماری کوسٹر کچھ دیر  کیلئے رکی  ،، اس وقت کی یادگار تصویر ۔۔

سسی کے قصبے سے نکلے تو کچھ ہی فاصلہ طے کر کے شاٹوٹ کی چھوٹی سی آبادی کے درمیان سے گزرے، اس کےبعد پہاڑی دروں کا مخصوص سفر، بائیں ہاتھ بلند سنگلاخ پہاڑ، دائیں طرف نشیب میں بہتا دریائے سندھ۔ سڑک بل کھاتی اوپر چڑھتی، کبھی کبھی سیدھی ہونے کی کوشش بھی کرتی، کہیں کسی چھوٹی سی آبادی کے درمیان سے گزرنے کے لئے کچھ نشیب میں اترتی۔ پہاڑی دروں کے بیچ گزرتی سڑک کے ساتھ چھوٹی چھوٹی آبادیوں کا سلسلہ ان چٹیل چٹانوں سے اترتے ندی نالوں اور چشموں کے سبب ہی قائم تھا۔ ندی نالوں اور چشموں کے پانی کی بدولت ہی ان آبادیوں کی مختصر وادیوں میں سبزہ اور درخت اگتے تھے، فصلیں اور باغات پھلتے پھولتے تھے۔ پہاڑوں سے لپٹی، بل کھاتی سڑک پر سفر کرتے ہوئے اچانک کہیں بلند موڑ سے دور نشیب میں نظر آتے سرسبز درختوں کے جھنڈ ہمیں کسی آبادی کی آمد کا پتہ دیتے تو ہماری آنکھیں چمک اٹھتیں، آبادی کے درمیان سے گزرتے تو سڑک کے دونوں اطراف درختوں ،کھیتوں اور خوبصورت باغیچوں کی ٹھنڈک سے سانسیں مہک اٹھتیں۔ دریائے سندھ اور سڑک کے درمیان یہ درخت، کھیت اور باغیچے وارد ہو کر منظر کی رونق توبڑھاتے ہی، سڑک بھی سیدھی ہو کر کچھ سکون کا سانس لیتی، لیکن یہ سلسلہ بہت مختصر لمحوں تک ہمارا ساتھ دیتا، آبادی کے اختتام کے ساتھ ہی سبزہ غائب اور سب سبزہ زار ناپید، چٹیل پہاڑوں کے بیچ چڑھتی، اترتی پر پیچ راہ اور دائیں طرف سیکڑوں فٹ نشیب میں بہتا دریائے سندھ۔راستے میں ہم نے اس طویل اور دشوار گزار سڑک کی تعمیر کے عظیم کام کے دوران شہید ہونے والے ہمارے فوجی جوانوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر بنائی گئی ایک دو یادگاریں بھی دیکھیں۔ اس سے پہلےکے سفروں کے دوران جب بھی گزرے  تو کسی مسافر کوچ یا وین میں ہونے کی وجہ سے رک نہ پاتے تھے۔ اس بار موقع بھی تھا اور وقت بھی، گاڑی کچھ دیر کے لئے روکتے، شہید ہونے والے بہادر، باہمت اور بلند حوصلہ فوجی جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ،فاتحہ پڑھتے اوران کو سلام کرتے اس عظیم کارنامے پر کہ ان سنگلاخ چٹانوں کو تراش کر نہ صرف ان علاقوں کے مکینوں کیلئے آمدورفت اور ملک کے دیگر حصوں سے رابطے بلکہ ہم جیسے آوارہ گرد سیاحوں اور قدرتی مناظر کے دلدادہ عاشقوں کو ان جنت نظیر وادیوں تک رسائی کی سہولت بھی فراہم کی۔ شنگس کے سرسبز قصبے سے گزرتے، بلندی کی طرف بل کھاتے ، چڑھتے دروں سے ہوتے ہم آگے بڑھتے جاتےتھے۔ اچانک ہماری نظر اپنے بائیں طرف پہاڑ کی بلندی سے کسی چشمے کا شفاف پانی آبشار کی صورت سڑک پر گرتا نظر آیا۔ ہم نے اس حسین منظر اور شفاف ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز ہونے کے لئے سڑک کنارے گاڑی روک دی۔ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے نہ صرف ہاتھ منہ دھویا بلکہ اب تک کے سفر کی صعوبت اور تکان کو بھی دھوڈالا۔کچھ وقت یہاں بتایا اور پھر سے تازہ دم ہوگئے۔

سسی سے شاٹوٹ ،شنگس اور خوبصورت آبشار تک کے سفر کے دوران ۔۔



















آبشار کے خوبصورت مقام سے روانہ ہوئےتو کچھ ہی دیر بعد سڑک ایک دشوار گزار پہاڑی درے کی بلندیاں طےکرنےلگی۔ہمارے بائیں طرف کے انتہائی سنگلاخ پہاڑ کو تراش کر بنائی گئی سڑک تسلسل سے بل کھاتی ، پہاڑسے لپٹتی اوپر کو چڑھتی اور دائیں طرف دریا کی سمت کھائی بالکل عمودی اور گہری ہوتی جاتی تھی۔ میں سوچتا تھاکہ ہم نے بہت ہی اچھا کیا کہ آبشار کے پاس کچھ دیر ٹہر کر خود کو تازہ دم کر لیا کیونکہ اس دشوار گزار پہاڑی درے سے گزرنے کے لئے ہمارا تازہ دم ہونا بہت ضروری تھا۔ درے کے موڑ بھی نسبتاً تنگ اور خطرناک تھے جو زیادہ احتیاط اور مہارت سے ڈرائیونگ کے متقاضی تھے۔ بلندی کی طرف جاتا ایک ایسا ہی خطرناک موڑ مڑتے ہی ہماری نظر سامنے دکھائی دیتے ایک اور پیچیدہ موڑ پر مڑی۔ سامنے نظر آتے موڑ سے زیادہ خطرناک وہ منظر تھا جو ہمیں کافی فاصلہ ہونے کے باوجود خاصا واضح دکھائی دیا- حادثے کا شکار ایک ٹرک اورآئل ٹینکر وہاں ایک دوجے میں گھسے نظر آ رہے تھے۔ ٹکر آمنے سامنے سے ہوئی تھی۔ حادثے کا یہ منظر اتنا خوفناک تھا کہ دیکھتے ہی رونگٹے کھڑےہوتے تھے۔ ٹرک سے ٹکرانے کے بعد آئل ٹینکر کا تقریباً اگلا نصف حصہ دریا کی طرف گہری عمودی کھائی کے اوپرہوا میں معلق تھا۔ ایسے ہی کسی ممکنہ حادثے کے پیش نظر موڑ پر تعمیر کردہ چھوٹی سی پختہ منڈیر کے باعث آئل ٹینکر کا پچھلا حصہ کھائی کی طرف جانے کے بجائے سڑک پر ہی رک گیا تھا کیونکہ وہ منڈیر آئل ٹینکر کےنچلے حصے میں پھنس کر اس کے دریا کی طرف لڑھکنے میں رکاوٹ بن گئی تھی۔ حادثے کے مقام کے بالکل قریب پہنچے تو اندازہ ہوا کہ تصادم کس قدر خوفناک رہا ہوگا۔ ٹکر کی شدت بتاتی تھی کہ خدا نخواستہ ٹرک اور آئل ٹینکر کے ڈرائیور کہیں اپنی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے ہوں۔ میں سوچتا تھا کہ بالفرض  ا ٓئل ٹینکر کے ڈرائیور کی جان بچ بھی گئی ہو اور خدا کرے کہ ایسا ہی ہوا ہو تو پھر بھی وہ کس طرح گہری کھائی کی طرف ہوا میں معلق  اپنے ڈرائیونگ کیبن سے نکل سڑک تک پہنچا ہوگا۔ حادثے کی جگہ کے قریب ہی ایک اور ٹرک بھی سڑک کنارے کھڑا تھا۔ دو تین لوگ بائیں طرف عمودی چٹان کے سائے میں اس کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ حادثےکے ہولناک منظر کو دیکھنے کے بعد ہماری ہمت نہ تھی کہ رک کر واقعے کی تفصیل معلوم کرتے۔ بس دل ہی دل میں دعا کرتے تھے کہ جس طرح اللہ نے آئل ٹینکر کو گہری کھائی میں گرنے سے محفوظ رکھا اسی طرح دونوں گاڑیوں کے ڈرائیوروں اور کلینروں کی جانیں بھی بچ گئی ہوں۔ اسی موڑ پر حادثے کے مقام کےساتھ ہی ایک پختہ سائن بورڈ کے سفید سلیب پر یا اللہ مدد لکھا ہوا تھا۔ یہ بورڈ ایسی جگہ واقع تھا کہ اس حادثے کے وقوع پذیر ہونے سے قبل آئل ٹینکر کے ڈرائیور کی نظر یقینی طور پر اس پر پڑی ہو گی۔ اور پھروہی ہوا جو اس نے پڑھا تھا ورنہ اس کے دریا میں جاگرنے میں ذرہ بھر کی کسر بھی باقی نہ رہ گئی تھی۔ اس حادثے اور یا اللہ مدد کے اس بورڈ نے ہمارے ذہن میں اپنے 2004 کے سفر کے دوران اسی سڑک پر پیش آنے والے ایک ناقابل فراموش اور ہولناک واقعے کی یاد تازہ کر دی۔ اس ناقابل فراموش دن صبح کے دس یا گیارہ بج رہے تھے جب ہم بذریعہ کوسٹر راولپنڈی سے اسکردو جا رہے تھے۔ ڈرائیور کی عقبی سیٹ پر میں اور میرے پیچھے والی دو سیٹوں پر بالترتیب میرِی ہم سفر اور تین بیٹیاں بیٹھی تھیں۔ ہماری کوسٹر ایک مقام پر رکی ہوئی تھی سڑک کے دائیں طرف خاصا نشیب میں بہتا دریائے سندھ ہمیں نظر آرہا تھا جس پر دریا کے دوسری جانب کسی آبادی کو اس سڑک سے ملانے والا آہنی رسوں کا معلق پل موجود تھا۔ ہمارے بالکل سامنے بل کھاتی سڑک بلندی کی طرف جاتی دکھائی دے رہی تھی۔ اچانک ڈرائیور کے منہ سے یا اللہ خیر کا نعرہ بلند ہوا۔ بے اختیار نظر سامنے کی طرف اٹھی تو دور بلندی سے اترتی ایک مسافر وین انتہائی تیز رفتاری سے نیچے اترتی دکھائی دی۔ذہن میں آیا کہ وین ڈرائیور کو اس قدر تیزرفتار اور غیر محتاط ڈرائیونگ کرتا دیکھ کر اس نے یا اللہ خیر کا نعرہ بلند کیا ہو لیکن اگلے ہی لمحے میں نے جو منظر دیکھا وہ میرے ہوش اڑانے، چہرے کا رنگ فق اور خون خشک کرنےکے لئے کافی تھا۔ وین کے بالکل پیچھے پیچھے ایک ٹائر بھی اچھلتا کودتا اس کے ساتھ ساتھ سڑک پر نظر آیا جودیکھتے ہی دیکھتے سڑک کے کنارے کے پتھروں پر زور سے اچھلتا اور جمپ لگاتا دریا کی طرف والی کھائی میں جا گرا۔ دور سے صرف اتنا ہی نظر آیا کہ وہ وین کا اگلا ٹائر نہ تھا ، ویسے بھی بلندی سے نشیب کی طرف آتےہوئے اگلا ٹائر نکل جانے کی صورت میں وین کا سڑک پر چلنا ناممکن تھا۔ ہمارے ڈرائیور کے پاس صرف اتنا ہی وقت تھا کہ اس نے کوسٹر کو انتہائی ممکنہ حد تک بائیں طرف موجود پہاڑ کی جڑ میں کھڑا کر دیا تاکہ وین کے گزرنے کے لئے سڑک پر زیادہ سے زیادہ کشادہ جگہ موجود ہو ۔ وین برق رفتاری سے فراٹے بھرتی سڑک سے اترتی ہماری طرف آ رہی تھی۔ جوں جوں وہ قریب آ رہی تھی اس کی رفتار اور انداز کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ وہ ڈرائیور کے قابو سے نکلتی جا رہی ہے۔ ذہن میں یہ خدشہ مسلسل دھماکے کر رہا تھا کہ اس قدربرق رفتار اور بے قابو وین اگر نیچے اتر کر کوسٹر سے آ ٹکرائی تو ہمارے ڈرائیور کے ساتھ ساتھ ہمارے بچنے کاامکان بھی بہت کم تھا۔ دوسری بھیانک صورتحال یہ بھی ممکن تھی کہ وہ ہم سے ٹکرانے کے بجائے مزیدبےقابو ہو کر دریا میں جا گرے۔ ان دونوں ممکنہ خدشات کے درست یا غلط ثابت ہونے میں محض چند لمحے باقی تھے۔ اتنے مختصر لمحوں میں ہمارا کوسٹر سے اتر کر کسی محفوظ مقام کی طرف دوڑ لگانا ممکن نہ تھا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ باوجود کوشش کے ہم اپنی سیٹوں سے اٹھ ہی نہ پاتے کہ ہمارے پھولے ہوئے ہاتھ پائوں اور مائوف ہوتا ذہن ہمارا ساتھ ہی نہ دیتا۔ ایک لمحے کو پلٹ کر میں نے اپنے عقب میں بیٹھی ہم سفر اوربیٹیوں کو دیکھا جن کے چہرے خوف سے سفید پڑچکے تھے۔ کوسٹر میں یا اللہ خیر اور یا علی مدد کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ تیزرفتاری سے دھول اڑاتی اور لانچر سے نکلے ہوئے کسی راکٹ کی طرح ہماری طرف بڑھتی وین کو اپنے تئیں میں نے آخری بار دیکھا کہ اب اگلے لمحے ایک زوردار دھماکہ اور پھر شاید زندگی بھر کے تمام جھمیلوں اور دھماکوں سے ہمیشہ کے لئے نجات۔ خوف سے لرزتی پلکوں کے بیچ بند ہوتی آنکھوں کی ہلکی سی جھری نے دیکھا کہ برق رفتار وین ہم سے نہ ٹکرائی اور زن کی آواز کے ساتھ ہمارے برابر سے گزر گئی۔ بندہوتی آنکھیں پھر سے کھلیں اور وین سے چپکی چپکی ہی اس کے ساتھ ساتھ پیچھے کی طرف گھومتی گئیں۔ذہن میں ایک جھماکے کے ساتھ اگلے لمحے کا ممکنہ منظر تبدیل ہوا کیونکہ بےقابو وین کے دریا میں جا گرنےکا خدشہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ کوسٹر کے برابر سے گزرنے کے فوراً بعد اس کا پیچھا کرتی میری نظروں نے گولی کی رفتار سے اڑتی وین کو سڑک پر اچانک ایسے رکتے دیکھا کہ کہ جیسے سڑک کے اندر سے دو مضبوط ہاتھوں نے نکل کر اسے یکدم اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہو ۔ یا اللہ خیر کی آوازیں یااللہ تیرا شکر میں تبدیل ہوئیں، حلق میں اٹکی سانسیں بحال ہوئیں، رگوں میں منجمد خون رواں ہونا شروع ہوا، چہرے پر چھائی خوف کی لہرباقاعدہ اترتی محسوس ہوئی، زبان یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر کا ورد کرتی تھی، دل کہتا تھا سچ ہے کہ جسےاللہ رکھے اسے کون چکھے۔ مسافر ایک ایک کر کے نیچے اترتے تھے، میں اپنی ہمسفر اور بیٹیوں کے خطاہوئے اوسان بحال کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ وین کی طرف نظر ڈالی تو اس کا بائیں طرف کا پچھلاٹائر غائب تھا۔ وین کیسے بلندی سے بل کھاتی سڑک سے بخیر و خوبی اترتی یہاں تک پہنچی، کس طرح اورکیونکر رک پائی، ذہن کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر تھا۔ یقین تھا تو صرف اس پر کہ میرے رحیم وکریم رب نے اسے پکڑا بھی، تھاما بھی اور روکا بھی۔


حادثے کاشکار آئل ٹینکراور ٹرک ، قریب ہی سڑک پر یااللہ مدد کا بورڈ ۔۔





  ہمارا سفر جائے حادثہ کے بعد بھی اسی دشوار گزار پہاڑی درے میں جاری تھا۔ غنیمت تھا کہ سڑک کی حالت بہتر تھی اور یہ نسبتاً کشادہ بھی تھی۔ تھوڑا سا ہی فاصلہ طے کر کے ہم اسکردو کی طرف جانے والی اس سڑک کی پہچان ،سڑک پر سایہ فگن چھجے نما چٹان کے نیچے سے گزرے۔ بائیں طرف کے سنگلاخ اور عمودی پہاڑ کو انتہائی مہارت سے تراش کر نکالی جانے والی سڑک اورچھجے نما چٹان کو دیکھ کر ہم اپنے2004 کے سفرکے دوران بھی انگشت بدنداں رہ گئے تھے اور آج ایک بار پھر اسے اپنے سامنے دیکھ کر حیران ہوتے تھے۔ دائیں طرف دریائے سندھ انتہائی نشیب میں بہتا تھا۔ یہاں سے گزرنے کے بعد سڑک رفتہ رفتہ نشیب میں اترتی چلی گئی اور جلد ہی اس خطرناک پہاڑی درے کا اختتام ہوا۔اس پورے سفر کے دوران دریا کے دوسرے کنارے پر بھی ہمیں وقتاً فوقتاً سرسبز درختوں میں گھری آبادیاں نظر آتی تھیں جن تک رسائی کے لئے دریا پر معلق پل بنےتھے۔

  درے کے اختتام پر پہاڑوں نے اپنی ہیئت بدلی اور ہم استک کے قصبے میں داخل ہوئے۔ دائیں طرف بہتا دریائےسندھ سڑک سے کچھ دور ہوا، وادی کچھ کشادہ ہوئی ،درخت ، سبزہ اور مکان دکھائی دئے۔ دائیں طرف سڑک کے ساتھ ہی نشیب میں بنے پی ٹی ڈی سی موٹل کی خوبصورت چھت نظر آئی۔ قصبے کے درمیان سے گزرتی سڑک پر موجود پولیس چیک پوسٹ کے قریب درختوں کی چھائوں میں کچھ دیر کے لئے ٹہرے، اپنی یہاں آمد کا اند راج کرایا، حیرت اور خوشی اس بات پر ہوئی کہ چیک پوسٹ میں موجود پولیس افسر بھی اتفاق سے کراچی کے اسی تعلیمی ادارے میں پڑھتا رہا تھا جہاں میں بھی زیر تعلیم رہا تھا۔استک سے نکلے تو کچھ دیر تک سڑک نے دریا سے زیادہ بلندی کا رخ نہ کیا۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ چڑھائی کا سلسلہ شروع ہو گیا البتہ یہ پہاڑی درےزیادہ خطرناک اور دشوار گزار نہ تھے اور نہ اب سڑک دریا سے بہت زیادہ بلند ہوتی چلی جاتی تھی۔



  پونے بارہ بجے کے قریب ہم تریکو کے چھوٹے سے قصبے میں ایک ہوٹل کے پاس کچھ دیر کیلئے رکے۔ ہوٹل کے باغیچے میں لگےدرخت سے انتہائی شیریں اور لذیذ سیاہ شہتوت توڑ کر کھائے۔ ہاتھ منہ دھو کر پھر کچھ تازہ دم ہوئے کہ جوں جوں دوپہر ہوتی تھی ان علاقوں کے یہ سنگلاخ پہاڑ سورج کی گرمی سے تپتے تھے۔ ہوٹل کے باغیچے میں گلاب کے بڑے بڑے پودے بھی لگے تھے جن پر کھلے ہوئے خوبصورت پھول انتہائی دلکش دکھائی دیتے تھے۔ 



  یہاں سےچلے تو کچھ ہی دیر بعد ڈمبو داس کے قصبے کی حدود میں داخل ہو گئے۔ یہاں بائیں طرف کے پہاڑ کے دامن میں بچھی وادی مزید کشادہ ہو تی تھی۔ جس میں قطار در قطار لگے درختوں کے جھنڈ کو دیکھ کر ایسا لگتا تھاکہ کسی میدانی علاقے میں آ نکلے ہوں۔ یہ کشادہ  وادی کافی وسیع وعریض تھی اور ہم اس کے درمیان سفر کرتےتھے، کہیں کسی پہاڑی پر تہ در تہ کھیت بھی دکھائی دیتے تھے۔ کچھ اور آگے بڑھے تو دائیں طرف سڑک کنارےدو گھنے درخت پوری سڑک کو اپنی ٹھنڈی اور گہری چھائوں کی آغوش میں لیتے نظر آئے۔ بائیں ہاتھ سڑک سے متصل ہی ذرا بلندی پر لہلہاتے سر سبز کھیتوں سے شفاف پانی کا پرنالہ سڑک پر گرتا تھا۔ درختوں کی ٹھنڈی چھائوں اور شفاف پانی کے پرنالے نے ہماری بڑھتے قدموں کو کچھ دیر کے لئے پھر روک دیا۔












  جسم و جاں نے درختوں کی چھائوں اور پرنالے کے شفاف پانی کی ٹھنڈک اور تازگی کا جام نوش کر لیا تو ہم یہاں سے چلے، ہمارے ساتھ ساتھ ہرے بھرے درختوں کےدرمیان آرام کرتی سڑک بھی آگے بڑھی۔ دوپہر عروج پرتھی ، چٹیل پہاڑوں کے فولادی پتھر صاف آسمان سے برستی دھوپ میں تپتے تھے لیکن آدھا گھنٹہ گزرنے سےقبل ہی ہم ایک بار پھر باغیچے کے سر سبز قصبے میں داخل ہو گئے۔ اسکردو ابھی بھی تقریباً 53 کلومیٹر کی دوری پر تھا۔ ناشتہ بہت صبح سویرے کر لیا تھا اس لئے ہماری بھوک شدت اختیار کرچکی تھی۔ سڑک کنارے درختوں کی چھائوں میں گاڑی کھڑی کر کے ہم ایک ہوٹل کے باغیچے میں جا گھسے۔ یہ ہوٹل کچھ بڑا بھی تھا اور بہتر بھی۔ اسی مناسبت سے اس سے متصل باغیچہ اور اس کا سرسبز لان بھی خاصا بڑا تھا۔ درختوں کےجھنڈ تلے کافی میز کرسیاں رکھی تھیں ہمارے یہاں پہنچنے سے کچھ ہی قبل اسکردو کی طرف سے آنے والی ہائی روف سے ایک فیملی بھی باغیچے کے سبزہ زار میں کھانا کھانے کی غرض سے موجود تھی۔ ہوٹل کا اکلوتا ویٹر درختوں کی چھائوں تلے ان کے لئے میز کرسیوں کی سیٹنگ میں مصروف تھا۔ باغیچے کی حدود میں ہی نماز پڑھنے کیلئے ایک چھوٹا سا کمرہ بھی بنا تھا ۔ ویٹر نے ہمارے لئے بھی ایک درخت تلے چھوٹی سی میز اور دوکرسیاں لگا دیں۔ کھانا کھانے کے بعد ہم اس باغیچے کی مزید سیر کے لئے ہوٹل کے عقبی حصے کی طرف بڑھ گئے۔
  ایک سرسبز میدان میں لمبے لمبے درخت جھنڈ کی شکل میں ترتیب سے لگے انتہائی خوبصورت دکھائی دیتےتھے۔شہتوت کے بڑے بڑے درختوں پر انگور کی بیلیں چڑھتی تھیں لیکن یہاں ہمیں ان پر انگور نظر نہ آئے۔ ہوٹل کی دیوار کے ساتھ ایک بڑا سا قدیم طرز کا ترازو موجود تھا جس میں لوہے کے باٹوں کے متبادل کے طور پربڑے بڑے پتھر دھرے تھے۔ درختوں کے گھنے جھنڈ تلے سرسبز لان میں کچھ وقت بتانے کے بعد ہم پھر سے تر و تازہ ہو گئے۔ اور ڈیڑھ بجے کے قریب آگے کا رخ کیا۔


ڈمبوداس  سے باغیچے تک کے سفر اور ہوٹل کے باغیچے کی کچھ تصویریں ۔۔۔










  سر سبز باغیچے سے نکل کر پھر سے بے آب و گیاہ پہاڑوں کے ویرانوں میں آوارہ گردی کرتی سڑک پر محو سفرہوئے۔ دریائے سندھ کی صورت آب ہمارے ساتھ ساتھ تھا لیکن اتنا نشیب میں کہ ہم صرف اس کی صورت ہی دیکھ سکتے تھے ،اس تک رسائی ممکن نہ تھی، ہم قرب آب کے باوجود بے آب تھے۔ وہ ہمارے ساتھ تو تھا   پرپاس نہ تھا۔ راستے میں کچھ آبادیاں ، درخت اور سبزہ زار نظر آئے بھی تو دریا کے دوسری جانب لیکن حسن خواہ قریب ہو یا دور اس کی کشش میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ ہاتھ کی انگوٹھی میں جڑا نگینہ ہو یا دور آسمان پر چمکتا چودھویں کا چاند، خوش رنگ پھولوں سے مہکتا کوئی گلشن ہو یا دور دھوپ میں چمکتی برف پوش چوٹیاں، قدرتی مناظر اپنی جگہ، کوچہ جاناں سے لے کر پس نقاب وچلمن یا پھر دور کسی دریچےسے دکھائی دیتے حسن کی ایک جھلک، اس کی سحر انگیزی نظروں کو بے اختیار اپنی طرف کھینچتی  ہی ہے قطع نظر اس کے کہ کہیں ان بے اختیار اٹھتی نظروں کو کچھ حدود و قیود کا پابند ہونا پڑتا ہے ، ہم فی الوقت صرف قدرتی مناظر کے حسن کی کھوج میں نکلے تھے سو ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد تھے۔ میں ان پر پیچ خطرناک راستوں پر ڈرائیونگ کرتا تھا اس لئے ان پابندیوں سے آزاد ہونے کے باوجود دریا پار کے ان دلکش مناظرپر ایک سرسری اور اچٹتی سی نظر ڈالنے پر مجبور تھا۔
  ہم ایک بے آب و گیاہ چٹیل پہاڑ کے ساتھ چلتی سڑک پرسفر کرتے تھے۔ پہاڑ کے ساتھ ہی بڑے بڑے پتھر سڑک کنارے تیز دھوپ میں تپتے تھے جبکہ دائیں طرف دریا کےدوسرے کنارے سرسبز درختوں کا سلسلہ نگاہوں کو تراوٹ بخشتا تھا۔ جوں جوں داہنی طرف کے ان نظاروں کا حسن بڑھتا تھا ،ہماری گاڑی کی رفتار میں کمی ہوتی تھی۔ گاڑی کی رفتار انتہائی دھیمی ہوتی گئی اوربالآخر ایک منظر کی دلکشی نے مجھے سڑک کنارے گاڑی روکنے پر مجبور کر دیا۔ دریا پار کی سرسبز وادی میں بنے گھروں کی خوبصورت چمکتی چھتیں، اور بلندی سے دریائے سندھ میں گرتی حسین آبشار، اس مسحورکن نظارے پر سرسری نظر ڈالتے ہوئے گزر جانا میرے لئے ممکن نہ تھا، ویسے بھی میرا یہ عمل نہ صرف حسن کی توہین کے زمرے میں آتا بلکہ یقینی طور پرخوبصورت آبشار کی دل شکنی کا باعث بھی بنتا۔



  ہم دریا کے اس کنارےدشت میں کھڑے سامنے دکھائی دیتی جنت کو تکتے تھے۔ ہماری نظروں کے سامنے کھلے دریچے میں حسن اپنےجلوے بکھیرتا تھا، ہم اپنی حس بصارت سے انہیں اپنی روح میں سمیٹتے تھے۔ کچھ دیر اس دلکش منظر سےلطف اندوز ہونے کے بعد ہم آگے بڑھے۔ پندرہ بیس منٹ کا سفر ہی طے کیا تھا کہ ہماری طرف کے ویرانے میں بھی چپکےسے بہار آگئی ، ہم کچورا کے ہرے بھرے قصبے کی حدود میں داخل ہوئے۔ ایک دفعہ پھر چیک پوسٹ پر اپنی آمدکے اندراج کے عمل سے گزرے۔





  کچورا کے قصبے نے ہمیں آگاہ کر دیا تھا کہ اسکردو اب زیادہ دور نہیں۔ قصبےسے نکل کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ ہمیں دور سے ہی اسکردو کی وادی میں داخلے کیلئے دریا پر بنا معلق پل نظر آگیا۔ پل کے قریب پہنچے تو اسکردو کی وادی ہمیں خوش آمدید کہتی تھی۔ پل کے پاس کچھ دیر رک کر ہمیں دوسری طرف سے آتے ایک دو ٹرکوں کے گزرنے کا انتظار کرنا پڑا۔ سیاحت کیلئے بین الاقوامی شہرت اور اہمیت کے حامل بلتستان کے اس عظیم شہر کو شاہراہ قراقرم سے ملانے والی اہم سڑک پر واقع دونوں قدیم معلق پلوں کی جگہ تاحال نئے اور پختہ پلوں کی عدم تعمیر پر ہم حیرت سے کہیں زیادہ افسوس کرتے تھے۔





  وادی اسکردو میں داخلے کیلئے دریائے سندھ کا پل عبور کرنے کے بعد دریا ہمارے بائیں ہاتھ پرآ گیا۔ دریا کے پار دوسری جانب کے پہاڑ تیزی سے دور ہوتے جاتے تھے اور دریا کا پاٹ ان دور ہوتے پہاڑوں کے باعث مسلسل چوڑا ہوتا جاتا تھا۔ سہ پہر کے پونے تین بجے تھے جب ہم اس سہ راہے پر پہنچے جہاں سے شنگریلا اور اپر کچوراجھیل کیلئے ایک راستہ دائیں طرف مڑتا تھا۔ یہ ایک سر سبز وادی تھی۔ ہم اسکردو کیلئے بائیں ہاتھ کی طرف مڑگئے۔ سڑک کے بائیں طرف کچھ مکان جبکہ داہنے ہاتھ پر واقع کشادہ وادی میں سبزہ زار ،درختوں کے جھنڈ اور ہرے بھرے کھیت موجود تھے۔ سڑک کنارے ایک چھوٹی سی مسجد بھی بنی تھی۔ ہم نے ابھی تک نماز ظہر ادانہیں کی تھی اس لئے میں نے مسجد کے قریب گاڑی روک دی۔ ایک مقامی شخص نے مسجد سے کچھ ہی فاصلےپر سبزہ زار کے بیچ بہتے چشمے تک ہماری رہنمائی کی جس کے ٹھنڈے اور شفاف پانی سے وضو کر کےہمارے جسم و جاں میں تازگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ کچھ وقت اس سبزہ زار میں گزار کر اورنماز ادا کرکےہم یہاں سے روانہ ہوئے۔
  آبادی سے نکلے تو دریائے سندھ کا کشادہ ریتیلا پاٹ سڑک کے بائیں ہاتھ ہمارے ساتھ ساتھ تھا۔دریا کی رہگزرکا سفید ریت کا میدان دھوپ میں چمکتا تھا۔ لگتا تھا کہ دریا پہاڑوں کے بجائے کسی صحرا میں آ نکلا ہو ۔سفید ریت کے وسیع و عریض میدان میں دریا اپنی مرضی سے جدھر دل چاہتا بل کھاتا انتہائی سکون اور خاموشی سے بہتا تھا۔ پہاڑ اور برف پوش چوٹیاں سفید ریتیلے میدان  اور دریا سے خاصے فاصلے پر نظر آتی تھیں۔ نیلےآسمان پر اکا دکا آوارہ بادل گھومتے تھے۔ وادی اسکردو کی اس سفید ریت کے سمندر میں خاموشی سے بہتےدریائے سندھ کا یہ منظر بہت سحر انگیز تھا۔ ہم کچھ دیر کیلئے سڑک کنارے ٹہر کر اس پر کشش منظر کے حسن میں کھو گئے۔ یہاں سے چلے تو کچھ دیر بعد ہی ہوتو کے قصبے میں داخل ہوئے۔ یہاں سے اسکردو کی مضافاتی آبادیوں کا باقاعدہ آغاز ہوتا تھا۔
  ہوتو میں داخل ہوتے ہی سڑک کنارے موجود ایک بچے نے ہمیں ہاتھ سے اشارہ کیا،گاڑی روکی تو پتہ چلا کہ وہ تازہ اور سرخ چیریوں کی لذیذ سوغات ہماری نذر کرنا چاہتا ہے۔ اسکردو میں داخلےکا اتناخوبصورت اور یادگار آغاز ہمارے تصور میں بھی نہ تھا۔ ڈھیر ساری چیریاں اور انتہائی سستے دام، اللہ کی نعمت اور اس کا عطا کردہ یہ یادگار تحفہ قبول کر کے ہم آگے بڑھے۔ ہوتو سے نکل کر کچھ ہی فاصلہ طےکر کے ہم سڑک کے دائیں طرف کیڈٹ کالج اسکردو کی خوبصورت عمارت اور وسیع و عریض چار دیواری کےپاس سے گزرے۔ کچھ اور آگے بڑھے تو گمبا کے قصبے کی حدود کا آغاز ہو گیا۔ بائیں طرف اسکردو ائر پورٹ کی چار دیواری۔1988 میں پہلی بار ہم ہوائی جہاز سے اسکردو آئے تھے تو ائر پورٹ سے اسکردو شہرتک کے درمیان آبادی کا کوئی نام و نشان نہ تھا، دوسری بار 2004 میں جب ہم راولپنڈی سے بذریعہ کوسٹر یہاں سے گزرے تھے تو ائر پورٹ کے آگے گمبا کے قصبے کی مختصر سی آبادی موجود تھی اور گمبا سے اسکردو تک دورویہ کشادہ شاہراہ کا تعمیراتی کام جاری تھا۔ سڑک پر پتھر بچھے ہوئے تھے اور ہمیں اس وقت سڑک کےزیر تعمیر ہونے کے باعث ائرپورٹ سے اسکردو تک پہنچنے میں خاصا وقت لگ گیا تھا۔
  آج ائر پورٹ سے آگے نکلےتو گمبا کا چھوٹا سا قصبہ ایک چھوٹے سے شہر میں بدلا نظر آیا۔ سڑک مکمل طور پر بننے کے بعد دوبارہ کچھ خراب بھی ہو چکی تھی۔ گمبا کے قصبے میں نہ صرف بازار موجود تھا بلکہ یہ خاصا بارونق بھی تھا۔ یہاں سے سڑک کے دونوں اطراف آبادی کا سلسلہ اسکردو شہر تک پھیل چکا تھا۔ ہم وقت کے ساتھ ساتھ وقوع پذیرہو نے والی ان تبدیلیوں اور ترقی کرتی وادی اسکردو کو دیکھ کر خوش ہوتےتھے۔


وادی اسکردو میں داخلے کے پل سے اسکردو تک کے سفر کے دوران ۔۔










اسکردو کی راہ میں اسی مقام پر 2004 میں ہمسفر کے ہمراہ ۔۔




سہ پہر شام میں ڈھلتی تھی جب ہم 4 بجے کے بعد اسکردو شہر کے بازار میں داخل ہو رہے تھے۔ یادگار چوک ابھی خاصا دور تھا۔ سڑک کے دونوں اطراف گھروں ، دکانوں، ہوٹلوں اور بڑے بڑے پٹرولپمپس کا سلسلہ جاری تھا۔ جوں جوں ہم دور سے دکھائی دیتے یادگار چوک کی طرف بڑھتے تھے ،بازار کی چہل پہل اور سڑک پرگاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ یادگار چوک پر تو ٹریفک اس قدر زیادہ تھا کہ باقاعدہ ٹریفک جام کی سی کیفیت تھی۔ 1988 اور آج کے اسکردو میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ چوک کے درمیان نصب یادگاروہی تھی،گردوپیش میں بہت کچھ بدل گیا تھا البتہ اکا دکا پرانے ہوٹل اور بیکریاں ہمیں اب بھی اسی حالت میں نظرآئیں جیسا ہم نے انہیں ایک چوتھائی صدی قبل دیکھا تھا۔ انہیں دیکھ کر ہم رفتار آہستہ کر کے پرانی یادوں میں گم ہونا شروع ہی ہوتے تھے کہ عقب میں آنے والی کسی گاڑی کا ہارن اعلان کرتا تھا کہ یہ سڑک اور بازار اب وہ نہیں رہا کہ جہاں سر شام سناٹا چھا جاتا ہو ، سڑک کے اطراف سے نکلنے والے تنگ راستوں سے بھی گاڑیوں کی آمدورفت مسلسل جاری تھی جنہیں کنٹرول کرنے کیلئے ان چھوٹے چھوٹے چوکوں پر بھی ٹریفک پولیس اہلکار ڈیوٹی  انجام دے رہے تھے، وقتاً فوقتاً ان کی سیٹیوں کی آوازیں بھی ہمیں اپنے ذہن میں بنتی ماضی کےاسکردو کی تصویر کو مکمل ہونے سے پہلے ہی مٹا دیتی تھیں۔ جا بجا نئی نئی مارکیٹیں اور بڑے بڑے  اسٹورز موجود تھے۔
  یادگار چوک سے گزر کر آگے بڑھتے ہوئے میری نظریں بائیں ہاتھ پر اپنے 26 سال پرانے شناساقاسم نسیم کی کتابوں کی دکان کو ڈھونڈتی تھیں کہ ان سے ملاقات کے ساتھ ساتھ رہائش کے لئے کسی بہتر ہوٹل کے بارے میں معلومات بھی حاصل کی جا سکیں۔1988 میں ان کی کتابوں کی دکان اس بازار میں موجود گنتی کی چند بہترین دکانوں میں سے ایک تھی۔10سال پہلے دوبارہ اسکردو آئے تو بازار میں خاصی تبدیلی آجانے کےباوجود میں ان کی دکان تک بآسانی پہنچ گیا تھا۔ آج معاملہ کچھ دگر گوں تھا۔ کسی بڑے شہر کے بازار کی طرح بے شمار گاڑیاں، لوگوں کا رش اور بڑی بڑی جدید دکانوں کی اچھی خاصی تعداد۔سڑک کنارے اس قدر گاڑیاں پارک تھیں کہ مجھے گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہیں مل پا رہی تھی۔ بمشکل ایک جگہ گاڑی پارک کر کےمیں قریب ہی موجود ان کی دکان کا پتہ چلانے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ دس سال کے عرصے میں آنے والی تبدیلیاں اسکردو کے بازار تک ہی محدود نہیں رہی تھیں، دکان کے اندر بھی پرانے شناسا چہروں کی جگہ ان کی نوجوان نسل نے لے لی تھی۔ قاسم نسیم صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور ایک مقامی اخبار نکالنے کے ساتھ ساتھ اسکردومیں پی ٹی وی کے نمائندے کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ کسی اہم نوعیت کی سرکاری پریس بریفنگ میں مصروف ہونے کی بنا پر ان سے رابطہ ممکن نہ ہو سکا چنانچہ میں نے ان کی فراغت کا انتظار کرنے کے بجائےخود ہی کسی ہوٹل کی تلاش کا ارادہ کیا، اسی سڑک پر مزید آگے بڑھنے کے بجائے ہم اسی سمت میں واپس مڑگئےجہاں سے آئے تھے۔
  یادگار چوک کے قریب ہمسفر کو گاڑی میں ہی بیٹھا چھوڑ کر میں اس ہوٹل میں گیا کہ جہاںہم نے اپنے پچھلے دونوں سفروں کے دوران قیام کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ ہوٹل کی انتظامیہ تبدیل ہو گئی ہے۔ ہوٹل کی حالت بھی زیادہ بہتر نہ تھی۔ یادگار چوک سے گزر کر مزید آگے بڑھے، راستے میں ٹہر کر ایک اور ہوٹل کاجائزہ لیا لیکن وہ بھی اتنا اچھا نہ تھا۔ کچھ اور آگے بڑھ کر بالآخر ہم ایک بہتر ہوٹل ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے۔ کمرہ اچھا تھا اورمزید اچھی بات یہ کہ نیچے والی منزل پر ہی تھا۔ ڈائننگ ہال بھی بہتر تھا جبکہ ہوٹل کے ساتھ ہی گاڑی پارک کرنے کی پختہ جگہ بھی موجود تھی۔نہا دھو کرتازہ دم ہوئے ، تازہ اورخوش ذائقہ چیریاں کھائیں ،کمرے میں ہی گرماگرم لذیذ چائے منگوا کر پی۔لمبے سفر کی لمبی تکان کو لمبا آرام کرکے دور کیا۔
  عشاء کے وقت اسکردو کے بازار کی سیر اور رات کےکھانے کے ارادے سے دوبارہ گاڑی میں بازار کی طرف روانہ ہوئے۔ گلگت کی طرح اسکردو کے بازار میں بھی ابھی تک خاصی رونق تھی۔ موسم خوشگوار تھا ،فضا میں رچی ہلکی ہلکی خنکی ہمیں مزید تازگی بخشتی تھی۔ یادگارچوک سے گزر کر ہم بازار میں آگے بڑھتے گئے۔ راستے میں ڈنر کے حوالے سے کسی بہتر ہوٹل کی معلومات حاصل کرتے رکتے رکاتے بالآخر ہم اسکردو کے ایک معروف ہوٹل میں جا پہنچے، ڈائننگ ہال اور کھانا دونوں لاجواب تھے۔ کھانےکے بعد واپس اپنے ہوٹل کا رخ کیا، بازار کی رونق اب کچھ ماند پڑ گئی تھی۔ ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں ایک جاپانی خاتون اور مرد لیپ ٹاپ میں موجود میسنجر کے ذریعے کسی سے مصروف گفتگوتھے۔ ہوٹل میں وائی فائی کی سہولت موجود تھی ، ہمارا کمرہ راہداری کے بالکل آخر میں تھا اس لئے وہاں تک پہنچتے پہنچتے وائی فائی کے سگنل دم توڑنے لگتے تھے، واٹس ایپ پر بچوں سے کچھ گپ شپ کی ۔ نیند کی وجہ سےآنکھیں کچھ بوجھل ہونے لگیں تو بسترپر دراز ہو گئے۔


اسکردو کے ہوٹل کا کمرہ جہاں ہم ٹہرے اور وہ ہوٹل جہاں ہم نے ڈنر کیا ۔۔۔



نواں دن
اسکردو کی پرانی یادیں ۔۔۔ سد پارہ جھیل اور چشمے کے کنارے
  ہم سفر کو ہوٹل کے کمرے میں ہی چھوڑ کر میں صبح آٹھ بجے کے بعد قاسم نسیم سے ملاقات اور گاڑی کو نہلانےدھلانے کی غرض سے بازار کی طرف نکل گیا۔ راستے میں ایک قدیم ہوٹل کو دیکھ کر 1988 کے اسکردو کی یاد تازہ ہو گئی۔ یادگار چوک کے پاس رک کر پھر اسی پرانے ہوٹل نے قدم روک لئے کہ جہاں 1988 اور 2004 کےٹورز کے دوران قیام کیا تھا، گاڑی سے اتر کر ہوٹل میں پہنچ گیا، کچھ تصویریں بنائیں، پہلی منزل پر بنی ہوٹل کی بالکونی میں کھڑے ہو کر اسکردو کے بازار کا نظارہ کرتے ہوئے ماضی کی ناقابل فراموش اور حسین یادوںمیں کھو گیا۔ خصوصاً اس بالکونی کے بالکل سامنے نظر آتی پنجاب ہزارہ بیکری ہو بہو اپنی 26 سال پرانی حالت میں ہی نظر آئی جب میں اپنی ڈھائی سالہ بڑی بیٹی اور ہم سفر کے ساتھ اسی بالکونی میں کھڑے ہو کراسکردو کے مختصر سے بازار کانظارہ کرتا تھا اور پھر آج سے دس سال پہلے ہم دونوں اپنی تینوں بیٹیوں کے ساتھ اسی ہوٹل کی اسی بالکونی میں بچھی میز کرسیوں پر صبح کا ناشتہ کرتے اور شام کی چائے پیتے تھے۔بالکونی کے بالکل سامنے نظر آتی پنجاب ہزارہ بیکری ، چوک پر بنی یادگار اور دور نظر آتے اسکردو کے پہاڑ بالکل اسی حالت میں قائم تھے۔ میں بالکونی میں کھڑا سوچتا تھا کہ اس طویل عرصے کے دوران اسکردو کا چھوٹاسا بازار جوان ہو گیا، چوتھائی صدی قبل میں جوان تھا، آج اپنے سر کے بالوں میں دور نظر آتی برف پوش چوٹیوں کا عکس بنا کھڑا ہوں۔ 1988 میں میرے ساتھ بالکونی  میں کھڑی میری ڈھائی سالہ بیٹی ماشاءاللہ خود ایک بیٹی کی ماں بن چکی۔وقت کا پہیہ چلتا رہتا ہے ، اس کے چلنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدلتا چلا جاتا ہے۔ ایک نسل کی جگہ دوسری نسل لے لیتی ہے، چھوٹے چھوٹے شہر جوان ہوتے چلے جاتے ہیں ، شہروں کی آبادیوں میں ذی روح جنم لیتے ہیں،پھر بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے کے مراحل طے کر کے ان آبادیوں سے رخصت ہو جاتے ہیں۔شہر، آبادیاں اور نظام قدرت  یونہی قائم رہتا ہے لیکن اس بقا کی بھی ایک حد ہے، فنا تو ان سب کو بھی ہونا ہے،سب کچھ قائم ہے تو بس روز قیامت تک۔ بقا ہے تو صرف اس ذات کو کہ جس نے اس پوری کائنات اور نظام کوتخلیق کیا۔
  ہوٹل سے نکلا تو قاسم نسیم کی دکان پر گیا ، ان کی مصروفیات کا سلسسلہ ہنوز جاری تھا، صحافت کے پیشے کی ان مجبوریوں سے میں بخوبی واقف تھا ، ان کی دکان میں موجود ایک صاحب گاڑی کے سروس سینٹرتک میرے ہمراہ گئے۔ اور گاڑی کو نہلانے ،دھلانے کے اس عمل کے دوران میرے ساتھ ہی رہے۔ ساڑھے نوبجے کے قریب ان کو دکان کے سامنے اتار کر میں دوبارہ اپنے ہوٹل پہنچ گیا۔


ہوٹل کی کھڑکی سے وادی اسکردو کا منظر ۔۔۔


بازار میں موجود روندو ہوٹل اور پنجاب ہزارہ بیکری اپنی قدیم حالت میں  ۔۔



یادگار چوک کے قریب وہ ہوٹل کہ جہاں ہم 1988 اور 2004 میں ٹہرے تھے ۔۔
 ہوٹل کی چھت سے پنجاب بیکری  ہوبہو اسی طرح دکھائی دیتی تھی ۔۔
 اسکردو کا یہی ہوٹل 1988 میں ۔۔ وہی چھت ۔۔ہماری بڑی بیٹی ہمسفر اور میرے ہمراہ ۔۔۔

اسکردو 2014 ۔۔ سروس اسٹیشن میں گاڑی غسل کرتے ہوئے ۔۔

اسکردو 2014 ۔۔ یادگارچوک ۔۔
 اسکردو 2014 ۔۔ جس ہوٹل میں اس بار ٹہرے ۔۔

  تقریباً دس بجے ہم بازار میں ہی کسی جگہ ناشتہ کرنے اور پھر وہیں سے سدپارہ جھیل جانے کے لئے ہوٹل سے نکلے۔مین بازار کے اختتام پر واقع پولو گرائونڈ سے متصل ایک ہوٹل میں ناشتہ کر کے جھیل کی طرف روانہ ہوئے۔ اسکردوسے خپلو کی طرف جاتی ہوئی اس سڑک کے دونوں اطراف دکانوں اور مختلف سرکاری اور نجی عمارتوں کاسلسلہ ساتھ ساتھ چلتا تھا۔ 1988 میں تو اس پولو گرائونڈ کے آگے خال خال ہی کوئی بڑی عمارت نظر آتی تھی۔ اس سڑک پرتھوڑا سا ہی فاصلہ طے کر کے ہم ایک چوک سے سدپارہ جھیل کی طرف جانے والی سڑک پر دائیں طرف مڑ گئے۔تقریباً دو ڈھائی کلومیٹرتک ہم اسکردو کی آبادی کے درمیان کے ایک دو چوکوں سے گزرتے ہوئے سامنے نظر آتے پہاڑوں کی جانب بڑھتے رہے۔


اسکردو کا پولوگرائونڈ ۔۔۔



جس ہوٹل میں ناشتہ کیا اس کے قریب واقع ایک تندور ۔۔

   جھیل کی طرف جانے والی یہ سڑک آگے جا کر جھیل کے ساتھ ساتھ ہوتی ہوئی اور پھر اسےپیچھے چھوڑ کر دیوسائی نیشنل پارک سے گزرتی، بلندیوں کی طرف چڑھتی دیوسائی کے مشہور و معروف بلند و بالااور وسیع و عریض میدانوں کا رخ کرتی ہے اور پھر ان میدانوں میں واقع حسین سبزہ زاروں ،شفاف چشموں ،دلکش جھیلوں کے پہلو بہ پہلو گھومتی پھرتی وادی استور کی مشہور جھیل شیوسر کے ساتھ ساتھ سفر کرتی چلم چوکی سے ہوتی استور پہنچ جاتی ہے۔ ہم 2004 میں جب دیوسائی کے میدان تک پہنچے تھے تو دیوسائی نیشنل پارک کی حدودمیں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد زیر تعمیر ہونے کی وجہ سے سڑک انتہائی خراب حالت میں تھی۔ پہاڑ کے ساتھ بل کھاتی اور اوپر چڑھتی اس سڑک پر صرف پتھر بچھے تھے اور جگہ جگہ سڑک کے کنارے آگ جلا کر ڈرموں میں تارکول کو پگھلانے کا عمل جاری تھا ، پتھریلی سڑک پر ہماری جیپ اچھلتی کودتی دیوسائی کے میدانوں کی طرف چڑھتی تھی۔ سڑک کی خراب حالت کے باعث آدھے راستے میں جیپ خراب بھی ہوگئی اور ہم ایک پک اپ والے سے لفٹ لے کر دیوسائی پہنچ پائے تھے۔ واپسی میں ہماری جیپ والے کو چار بجے سہ پہر تک اوپر پہنچنا تھا لیکن شام کے پانچ بجے تک بھی اس کا کوئی پتہ نہ تھا، دیوسائی کے سبزہ زار انتہائی یخ بستہ ہوائوں کے باعث برف زاروں میں بدلتے تھے، میدان میں واقع ایک چھوٹے سے ہوٹل کے اکلوتے کمرے میں بنے چولہے کے گرد دوتین مقامی لوگ بیٹھے تھے، ہم ہوٹل کے باہر دیوسائی کے کھلے میدانوں میں چلتی تیزہوائوں میں پھڑپھڑاتے چھوٹے سےبوسیدہ خیمے میں ایک دوسرے میں گھسے بری طرح ٹھر ٹھراتے اپنے جیپ والے کا انتظار کرتے تھے۔ ہمارا جیپ والا تو نہ آیا ،استور کی طرف سے ایف ڈبلیو او والوں کی ایک ڈبل کیبن پک اپ آئی، انہوں نے مہربانی کی ،ہم سفراوربیٹیوں نے کیبن میں بیٹھ کر سکون کا سانس لیا۔ کیبن میں بیٹھے ہوئے دو اہلکار میرے ساتھ پیچھے بنے کھلے حصےمیں آ بیٹھے اور ہم اس برف خانے سے سوئے اسکردو روانہ ہوئے۔ راستے میں چھ بجے کے قریب مجھے دور سے اپنی جیپ آتی نظر آئی۔ ہم نےایف ڈبلیو او کے اہلکاروں کا بے حد شکریہ ادا کیا اور اپنی جیپ میں سوار ہو کر سد پارہ جھیل پہنچے۔
  آج دس سال بعد ہم اپنی گاڑی میں سدپارہ جھیل کی طرف رواں دواں تھے، سڑک بہت بہتر حالت میں تھی۔اسکردو کی آبادی سے نکل کر سڑک آہستہ آہستہ بلند ہونا شروع ہو گئی اور پھر گھومتی بل کھاتی بائیں طرف کےپہاڑ کے قریب پہنچ کر اس کے ساتھ ساتھ چڑھتی آگے بڑھتی رہی۔ کچھ ہی دیر بعد ہمیں بلندی سے پانی کا بڑا ذخیرہ اپنے اندر سموئے ہوئے سدپارہ کی سبز جھیل دکھائی دینے لگی ، ہم دیکھتے ہی دیکھتے اس کے قریب ہوتے گئے۔ جھیل ہمارے دائیں طرف نشیب میں تھی جبکہ بائیں طرف بلند وبالا پہاڑوں کا سلسلہ سڑک کے ساتھ ساتھ جاری تھا۔ ہم جھیل کو چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ جھیل کے اختتام پر دیوسائی کے برف پوش پہاڑوں سے اترتی انتہائی کشادہ پاٹ کی ندی کا پانی خوبصورت ڈیلٹا بناتا  ہوا جھیل میں اترتا تھا۔ ندی کے دوسری طرف کے پہاڑ بھی بہت بلندتھے۔ دیوسائی کی طرف جاتی سڑک پر بائیں طرف کے پہاڑ ، دائیں طرف ندی کے چوڑے پتھریلے پاٹ کے بیچ مختلف چھوٹے چھوٹے شفاف نالوں کی صورت بہتا جھیل کی طرف بڑھتا پانی اور ندی کے دوسرے کنارے کے بلند پہاڑوں کایہ نظارہ بہت دلکش تھا۔
   میں ندی کے اس حسین کشادہ پتھریلے پاٹ میں اترنا چاہتا تھا۔ دس سال قبل میرا دل اس وقت بھی اس ندی کنارے اترنے کے لئے مچلتا تھا جب ہم جیپ میں دیوسائی کی طرف جاتے تھے۔ آج اللہ کے فضل وکرم سےوقت ہماری دسترس میں تھا اور اپنی مرضی سے کہیں بھی رکنے کا اختیار بھی۔ کچھ فاصلہ طے کر کےبالآخر مجھے ایک ایسی مناسب جگہ نظر آگئی کہ جہاں سے بآسانی نشیب میں اتر کر ہم ندی کے اس کشادہ پتھریلے پاٹ کے درمیان شفاف نالوں کی صورت بہتے پانی تک پہنچ سکتے تھے۔ گزشتہ روز اسکردو میں داخلے کے وقت ملنےوالی لذیذ چیریاں بھی ہم ساتھ لے آئے تھے۔ دیوسائی کے برف زاروں سے اترتے یخ شفاف پانی میں بھگو نے کے بعدچیریوں کی لذت بھی دوگنی ہو گئی تھی۔ جس طرف سے ندی بہتی آتی تھی دور سدپارہ کا چھوٹا سا گائوں نظرآتا تھا جس میں موجود سرسبز درختوں کے جھنڈ انتہائی دلکش دکھائی دیتے تھے۔ درختوں کے جھنڈ اور سد پارہ گائوں سے مزید پرے دکھائی دیتے دیوسائی کے پہاڑوں کی برف پوش چوٹیاں، دائیں طرف ندی کے کشادہ پاٹ کےدوسرے کنارے کے بلند پہاڑ ،بائیں سمت پہاڑ کے ساتھ ساتھ دیوسائی کے میدانوں کی طرف جاتی سڑک کہ جس کےکنارے کھڑی ہماری گاڑی ایک چھوٹے سے سفید پتھر کی مانند نظر آتی تھی۔ جس طرف ندی کا یہ شفاف پانی بہتا جاتاتھا اس کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہماری نظرِیں دور دکھائی دیتی سدپارہ جھیل کے سبز جھلملاتے پانی کے خوبصورت منظر تک پہنچتی تھیں۔ اوپر نیلے آسمان میں تیرتے اور اڑتے سفید بگلوں جیسے بادلوں کے ٹکڑے، ہمارے پیروں کےپاس بہتا، دیوسائی کے برفزاروں سے اترتی گنگناتی ندی کا یخ پانی اور سب سے بڑھ کر اس سحر انگیز منظر کے حسین کینوس پر صرف ہم  دونوں۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے خوشگوار جھونکے اس خوبصورت منظر کو مزید دلکش بناتے تھے۔


ندی سے دکھائی دیتی سدپارہ جھیل ۔۔۔
 بائیں طرف دیوسائی  کو جاتی سڑک ، سامنے نظر آتا سدپارہ کا گائوں اور دور پرے چمکتی دیوسائی کی برفانی چوٹیاں  ۔۔
 عظیم پہاڑوں سے لپٹ کر گزرتی  دیوسائی روڈ پر کھڑی ہماری ننھی منی سی گاڑی ۔۔





   اپنے ہاتھوں میں چیریاں لئے میں ایک بار پھر 2004 کی اس حسین یاد میں کھو گیا کہ جب میں چیریوں کا شاپر ہاتھ میں لئے دیوسائی کےمیدان میں  گلیشئر کے پگھلتے پانی میں انہیں ٹھنڈا کرتا تھا۔ آج ہم اس ندی کے شفاف پانی میں چیریاں ٹھنڈی کر کے کھاتے تھے، چیریوں کی لذت اوران حسین قدرتی مناظر کی خوبصورتی پر اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے اور شکر بجا لاتے تھے کہ اس نے ہمیں یہ موقع عطا فرمایا کہ تین دن قبل ہم راما میں گلیشئرز سے اترکر نیچے آتے نالے کے پاس کھڑے تھے اور آج سد پارہ کی اس سحر انگیز وادی کے درمیان بہتی شفاف ندی کنارے موجود تھے۔ اور اس وسیع و عریض جنت میں ہم  دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ 


پرانی یاد ۔۔ 2004 ۔۔ دیوسائی کا میدان اور ہاتھ میں چیریوں کا شاپر ۔۔
سفر 2014 ۔۔ دیوسائی کے میدان سے اترتی ندی ، میں اور چیریوں  کا شاپر ۔۔


پرانی یاد ۔ 2004 ۔ دیوسائی کا برفانی میدان ۔۔  بڑی بیٹی کے ہمراہ ۔۔
سفر 2014 ۔ ہمسفر کے ہمراہ








  ندی کنارے کے حسین نظاروں سے نکل کر سدپارہ جھیل کی طرف روانہ ہوئے۔ سڑک کے بائیں طرف بہنے والی ندی کا پانی خوبصورت ڈیلٹا میں تبدیل ہو کر جھیل میں داخل ہوتا تھا۔ کچھ ہی دیر میں بائیں طرف نشیب میں جھیل کا سبز جھلملاتا پانی ہماری نظروں کے سامنے تھا۔ پہاڑ کے ساتھ بل کھاتی سڑک کے چند موڑوں پر جھیل کے ان دلکش مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لئے میں نے گاڑی کی رفتار انتہائی آہستہ کی تو کہیں اس جھلملاتے پانی کی کشش نے ہمیں گاڑی روکنے پر بھی مجبورکر دیا۔










ہم جھیل کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے تھے اور میری نظریں جھیل کنارے بنے پی ٹی ڈی سی کے ان ہٹس کو تلاش کرتی تھیں کہ جہاں اپنے پچھلے سفر کے دوران دیوسائی سے واپسی پر  ہم کچھ دیر کے لئے رکے تھے۔ ان ہٹس کے درمیان سے ایک راستہ نیچے جھیل کے پانیوں تک اترتا چلا جا تا تھا۔نیچے عین جھیل کنارے بنے ہوٹل کے ساتھ ہیجھیل کے عین کنارے موجود  لکڑی کی چھوٹی چھوٹی کشتیاں سیاحوں کو جھیل کی سیر کراتی تھیں اور جھیل کے عین درمیان بنے ایک چھوٹے سے جزیرے تک بھی لے جاتی تھیں۔آج مجھے سب مناظر بدلے بدلے لگے۔سڑک بھی جھیل کی سطح سے کچھ زیادہ بلندی سے گزرتی محسوس ہوتی تھی۔ پی ٹی ڈی سی کے ان ہٹس اور ان کے ساتھ سے نیچے اترتے راستے کا بھی کوئی سراغ نہ ملتا تھا۔









  بائیں طرف ایک ہوٹل نظر آیا۔میں نے سڑک کنارے گاڑی روک دی۔ ہوٹل کے گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو اس اکلوتے  ہوٹل کی عمارت بھی جھیل سے خاصی بلندی پر ہی بنی نظر آئی۔سدپارہ جھیل کو ڈیم میں تبدیل کر دئیے جانے کی بنا پر نہ صرف جھیل کنارے بنے ہوئے ہوٹلوں کو ختم کر دیا گیا بلکہ ڈیم کی حفاظت کے پیش نظر عام لوگوں کے جھیل کے کنارے تک جانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
  ہم اس ہوٹل کے لان میں کھڑے تھے۔ہوٹل سے کچھ ہی نشیب میں موجود خاردار دار تاروں کی باڑھ ہمارے اور جھیل کے درمیان حائل تھی۔خوبصورت سدپارہ جھیل کو ڈیم کی جیل میں قید کر دیا گیا تھا۔ ہم خاردار تاروں کے دوسری جانب نشیب میں قید اس حسین جھیل کے جھلملاتے پانی کو چھو نہیں سکتے تھے اور دور سےہی اس کا دیدار کرنے پر مجبور تھے۔نیچے بنے ہوئے اکا دکا پرانے ہوٹلوں کی ویران عمارتیں اب بھی دور نشیب میں جھیل کنارے نظر آتی تھیں لیکن ان تک رسائی ممکن نہ تھی۔ہوٹل کی عمارت کے باہر لان میں بچھی میز کرسیوں پر بیٹھ کر ہم نے چائے پی۔ 
 2004 میں سدپارہ جھیل کنارے ۔۔۔
  2014 میں سدپارہ جھیل کنارے ۔۔۔






ظہر کی نماز ہم نے اسی ہوٹل میں ادا کی، لنچ بھی یہیں کرنے کا فیصلہ کیا۔ لان سے پوری سدپارہ جھیل کا منظربہت دلکش تھا جس سے ہم محظوظ ہوتے رہے۔ ایک چھوٹا سا خوبصورت میمنا لان میں اچھلتا کودتا پھرتا تھا۔کبھی ہرن کی طرح قلانچیں بھرتا ہمارے قریب آجاتا تو کبھی چھلانگیں لگاتا دور بھاگ جاتا۔ اس کی اٹھکیلیاں اس حسین ماحول کو مزید دلکش بنا رہی تھیں۔ لان میں رکھی فولڈنگ کرسیاں مجھے بہت پسند آئیں۔ہوٹل کے مالک کے مطابق چند سال قبل بلتستان کی مشہور و معروف بلند وبالا چوٹیوں کو سر کرنے کے لئے آنے والے غیرملکی کوہ پیمائوں کی کوئی ٹیم اپنی مہم سے واپسی پر یہ فولڈنگ کرسیاں تحفتاً انہیں دے گئی تھی۔ انتہائی ہلکی پھلکی ،مضبوط اور بآسانی فولڈ ہو جانے والی ان کرسیوں پر میں بری طرح فریفتہ ہو چکا تھا۔ بڑےچائو سے میں نے اس کی ایک تصویر بھی بنالی ۔ لنچ کے بعد دو بجے کے بعد جب ہم یہاں سے روانہ ہوئے تو ہمارے ہمراہ ان کرسیوں میں سے ایک عدد کرسی بھی گاڑی میں سوار ہوئی کہ میں نے دوپہر کے کھانے کے ساتھ ساتھ ہوٹل کے مالک کو اس کی قیمت بھی ادا کردی تھی،جس کیلئے وہ بخوشی رضامند ہوگیا تھا۔
  ہوٹل سے روانہ ہوتے وقت ہمیں لان میں ہی پہاڑی علاقوں کا خوبصورت سیاہ وسفید پرندہ کشپ بھی نظر آیا جس کی بابت یہاں یہ بات مشہور ہے کہ جس علاقے میں بھی یہ موجود ہو وہاں خوشحالی آتی ہے اور اس علاقے کےاجاڑ ہونے اور خاص طور پر زرعی لحاظ سے کسی بھی خراب صورتحال سے دوچار ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ میں نے ایک نظر جھیل پر ڈالی کہ جس نے اسکردو اوراس کےگرد ونواح میں بسی آبادیوں کی خوشحالی کی خاطر اس ڈیم کی پختہ اور اونچی دیواروں کے بیچ قید ہونا بخوشی قبول کر لیا تھا۔ شاید یہ خوبصورت کشپ بھی جھیل کنارے اس لان میں بیٹھا یہی نوید سناتا تھا۔ ہم نے سدپارہ جھیل کی اس عظیم قربانی پر اسے سلام کیا اور اسے الوداع کہہ کر یہاں سے رخصت ہوئے۔


 ہوٹل کے لائونج میں لگی ہوئی چند تصویریں ۔۔ دیوسائی میدان میں ریچھ۔۔
 جھیل کی  آزادی کے دنوں کی ایک تصویر ۔۔
 دیوسائی کامیدان اور مارموٹ ۔۔۔
 فولڈنگ کرسی جو میں نے ہوٹل مالک سے خریدی ۔۔




شمالی علاقوں میں خوش بختی کی علامت سیاہ وسفید پرندہ کشپ ۔۔

سڑک اسکردو کی طرف اترتی جاتی تھی، جھیل ہمارے بائیں طرف نشیب میں تھی ،ہم چونکہ بلندی پر تھے اس لئے جہاں جھیل کا اختتام ہوا وہاں ڈیم کی پتھریلی دیوار اور دیگر تعمیرات نظر آرہی تھیں۔ ڈیم کے دوسری طرف سے ایک کاریز  (پہاڑی علاقوں میں پانی کو کسی مطلوبہ مقام تک پہنچانے کیلئے تعمیر کردہ پختہ نالہ) پہاڑ کے ساتھ ساتھ بنی دکھائی دیتی تھی۔ سڑک بل کھاتی ایک موڑ سے گھومتی نیچے اتری تو سدپارہ جھیل سے نکلنے والا شفاف پانی کا حسین نالہ ہماری نظروں کے سامنے تھا۔ ہم کچھ دیر کے لئے اس نالے کے پاس رکے۔ یہاں سے آگے بڑھے تو تھوڑا سا فاصلہ طے کرکے سڑک پہاڑوں کا ساتھ چھوڑ کر اسکردو کے مضافاتی علاقوں میں داخل ہو گئی۔ بل کھاتی اور گھومتی سڑک کشادگی اختیارکرنے کے ساتھ ساتھ سیدھی بھی ہوئی۔ سڑک آہستہ آہستہ نشیب کی طرف اترتی تھی۔
  اسکردو کی پوری وادی کا خوبصورت منظر ہمارے سامنے تھا۔اسکردو شہر کی آبادی اور دریائے سندھ کے دوسری جانب کے پہاڑوں کی برف پوش چوٹیوں پر بادل سایہ فگن تھے۔ سڑک کے دائیں  ہاتھ پر شمسی توانائی(سولر انرجی) سے جلنے والی لائیٹوں کے لئے کھمبے لگائے گئے تھے۔ بہت خوشی ہوئی کہ اسکردو میں ترقی کا سفر تیزی سےجاری تھا۔ سڑک کے ساتھ ہی اسکردو کے گردونواح کے تمام علاقوں کے فاصلے بتانے والا ایک بڑا سا بورڈ نظر آیا تو میں نے گاڑی روک کر اس کی ایک تصویر کیمرے میں محفوظ کر لی۔ بورڈ سے کچھ ہی آگے ہمارے دائیں جانب پبلک اسکول اور کالج کی بڑی سی چار دیواری کا آغاز ہو گیا۔ جس میں لگے ہوئے لمبے لمبے درخت بہت حسین دکھائی دیتے تھے۔ مزید کچھ فاصلہ طے کر کے ہم اسکردو شہر کی آبادی میں داخل ہوگئے۔ ایک دو چوراہوں کے درمیاں لگے ہوئے پرانے مونومنٹس نے قدیم اسکردو کی یاد تازہ کردی۔ ان چوراہوں  سے گزر کر آگے بڑھتے ہم کالج روڈ کے چوک پر آپہنچے۔ اپنے ہوٹل کی طرف جانے کے لئے یہاں سے بائیں طرف مڑے تو کچھ ہی آگے سڑک کنارے موجود ایک بڑی سی بیکری کے پاس رک کر کچھ خریداری کی۔ یادگار چوک کے قریب بھی بازار سے کچھ ضروری چیزیں خریدیں اور سہ پہر 3 بجے کے بعد اپنے ہوٹل پہنچ گئے۔


سدپارہ جھیل سے اسکردو میں اپنے ہوٹل تک ۔۔














اسکردو کے بازار میں وہ ہوٹل کہ جہاں 1988 اور 2004 میں ٹہرے تھے


 بازار میں موجود ایک مقامی بچہ ،، خوبصورتی اور معصومیت کا امتزاج

  سہ پہر کا وقت تھا اور ہم اپنے ہوٹل کے کمرے میں تھے۔ دس سال قبل بھی اسکردو کی ایک ایسی ہی سہ پہر کے وقت ہم قاسم نسیم کے دو بھائیوں کے ہمراہ ان کی گاڑی میں شنگریلا اور اپر کچورا جھیل کی سیر سے واپس آرہے تھے۔ائرپورٹ کے قریب سیدھے ہاتھ کی جانب جانے والے ایک کچے راستے پر انہوں نے گاڑی موڑ لی۔کچا راستہ گھومتا ہواکچھ ہی دیر میں دائیں طرف واقع بلند پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹی سی خوبصورت جھیل تک جا پہنچا۔ پہاڑ کےدامن میں موجود پتھروں کے بیچ سے شفاف ٹھنڈے پانی کا ایک چشمہ پھوٹتا تھا جو ایک چھوٹی سی جھیل کی صورت اختیار کرتا تھا۔ دس سال پہلے کی اس یادگار سہ پہر کو ہم نے چشمے کے شفاف پانی سے وجود میں آنے والی اس چھوٹی سی جھیل کنارے کچھ وقت بتایا تھا۔اس جھیل سے ٹریکٹر ٹنکیوں کے ذریعے اسکردو شہر کو بھی چشمے کے پانی کی فراہمی کی جاتی تھی۔ہمارے میزبان ان ٹریکٹر ٹنکیوں میں پانی بھرنے کے لئے لگائے گئے بڑے سے آہنی پائپ کے نیچے اپنی گاڑی دھونے میں مصروف تھے جبکہ میں اپنی تینوں بیٹیوں اور ہم سفر کے ہمراہ جھیل کے گردگھومتا اس کے عقب میں جا کر پہاڑ کے دامن میں موجود اس جگہ کو کھوجتا تھا کہ جہاں پتھروں کے بیچ سے یہ چشمہ پھوٹتا تھا اور بالآخر میں شفاف پانی کے اس منبع کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔ ہم پہاڑ کے عین دامن میں پتھروں کےبیچ سے پھوٹتے اس شفاف اور یخ پانی کو باری باری گلاس میں بھر بھر کر پیتے تھے۔
  10 سال بعد کی اس سہ پہر کو ہمارا ارادہ کچھ دیر آرام کے بعد اسی چشمے پر جا کر پرانی یادوں کو تازہ کرنے کا تھا۔ہم کمرے میں آرام کرتے تھے۔ کمرے کی کھڑکیوں سے در آتی ہوٹل کے عقب میں واقع اسکردو کی وادی میں چلتی ہوائوں میں جھومتے درختوں کے پتوں کی دھیمی دھیمی سرسراہٹ قدرت کی سریلی موسیقی کی صورت ہمارے کانوں میں رس گھولتی تھی۔ خود کو تازہ دم کرنے کے لئے منگوائی گئی گرم اور خوش ذائقہ چائے کے کپ ہمارے ہاتھوں میں تھے اور ہماری نظریں کھڑکی کی جالی کے باہر ہوائوں کی تال پر جھومتے اور رقص کرتے درختوں پرتھیں۔ایسا لگتا تھا کہ کھڑکی کی جالی سے ہماری محبت پاش نظروں کی آنچ ہوٹل کے عقب میں سجی محفل تک پہنچ رہی تھی۔ شریک محفل درختوں  کا رقص تیز ہوتاگیا۔ ہوائوں نے بھی شدت سے چلنا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ تیز ہوائیں جھکڑوں میں تبدیل ہوتی گئیں۔ جھومتے اور رقص کرتے درختوں کو تو گویا حال آ گیا، جھومنے کے ساتھ ساتھ اب یہ اونچے اونچے درخت بری طرح ڈولتے بھی تھے۔ ان جھکڑوں میں سرسراتے پتوں کی موسیقی کی دھن بھی تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ منظر اتنی تیزی سے بدلا کہ مجھے استور کی وہ سہ پہر یاد آگئی جب ہم راما کی سیر کے بعد اپنے ہوٹل لوٹے تھےتو وہاں بھی بالکونی میں کھڑے ہوٹل کے عقب میں موجود درختوں کا والہانہ رقص دیکھتے تھے اور سرد ہوائوں کے جھکڑ تیز سے تیز تر ہوتے جاتے تھے۔ آج اسکردو کی اس سہ پہر کو بھی ہوائیں تیز جھکڑوں کی صورت اختیارکرتی تھیں ،فرق صرف اتنا تھا کہ یہاں چلنے والے یہ جھکڑ اتنے سرد نہ تھے۔ ہمیں آج کی شام چشمے کنارے گزارنی تھی،سو کھڑکی کی جالی کے پاس کھڑے  تیز ہوائوں کے تھمنے اورلمبے لمبے درختوں کی محفل رقص وسرود کےخاتمے کا انتظار کرتے تھے۔
ہوٹل کے عقب میں محفل رقص و سرود
عصر کی نماز ہوٹل میں ہی پڑھ کر ہم ساڑھے چار بجے کے بعد چشمے کے لئے روانہ ہوئے تو ہوائوں کے تیز جھکڑتھم چکے تھے لیکن اسکردو کا آسمان سرمئی بادلوں سےڈھکا ہوا تھا۔ راستے میں کچھ بوندیں بھی پڑیں لیکن بادل اس نوعیت کے نہ تھے کہ باقاعدہ بارش کا کوئی امکان ہو۔ ہوائیں اب بھی چلتی تھیں اور بادل ان کے دوش پر آہستہ آہستہ اڑتے وادی سے دور ہوتے جاتے تھے۔ دس سال کا طویل عرصہ  گزر جانے اور سڑک کے دونوں اطراف نئی تعمیرکردہ عمارتوں کے باعث چشمے کی طرف جانے والا راستہ ذہن سے فراموش ہو چکا تھا۔ ائر پورٹ کو پیچھے چھوڑتےہوئے ہم آگے بڑھتے جاتے تھے۔ جب کیڈٹ کالج اسکردو کی چار دیواری ہمارے بائیں ہاتھ پر ساتھ ساتھ چلنا شروع ہوئی تو اندازہ ہوا کہ ہم شاید زیادہ آگے نکل آئے ہیں، کیڈٹ کالج کی خوبصورت عمارت کے قریب سڑک کے کنارے موجود ایک چیک پوسٹ کے قریب گاڑی روک کر ایک دو راہگیروں سے چشمے کا راستہ دریافت کیا۔ اندازہ درست تھا، ہم خاصاآگے نکل آئے تھے۔ واپس مڑے اور ان کی بتائی گئی نشانی کے مطابق ائرپورٹ سے کچھ قبل دائیں طرف جاتے ایک کچے راستے پر گاڑی موڑ دی۔ دس سال کا طویل عرصہ اس راستے کی قسمت نہ بدل سکا تھا بلکہ اس بار یہ کچھ زیادہ ہی کچا محسوس ہوتا تھا۔
  ایک پجیرو جیپ ہمیں پیچھے چھوڑتی ہوئی آگے نکلی تو اس کچی راہ پر جیپ کےپہیوں سے اڑنے والی دھول نے ہمیں شیشے چڑھانے پر مجبور کر دیا۔اگر ایسا نہ کرتے تو چشمے کنارے موجود لوگوں کو یہ یقین دلانا پڑ جاتا کہ ہم انہی میں سے ایک ہیں ،کوئی بھوت پریت نہیں۔ سڑک غیر ہموار تو تھی ہی ، ستم بالائے ستم یہ کہ کچی سڑک پر اسقدر مٹی تھی کہ راستہ دیکھنے کے لئے مجھے اپنی رفتار کچھ دھیمی کر کے آگے جانےوالی جیپ سے اپنا فاصلہ بڑھانا پڑا لیکن میں رفتار زیادہ دھیمی اس لئے نہ کرسکتا تھا کہ سڑک پر موجود مٹی کےڈھیر گاڑی کے پہیوں کو جکڑنے کی کوشش نہ شروع کر دیں۔ غنیمت تھا کہ ہم اس پریشان کن کیفیت سے زیادہ دیر تک دوچار نہ ہوئے، کچھ ہی فاصلہ طے کیا تو سڑک کی حالت کچھ بہتر ہو گئی۔ کچھ ہی دوری پر ہرے بھرےدرخت نظر آتے تھے اور ہم تیزی سے ان سے قریب تر ہوتے جاتے تھے۔ جلد ہی ہم چھوٹے سے سبزہ زار کے درمیان واقع جھیل تک پہنچ چکے تھے۔
  سامنے ہی وہ آہنی پائپ نظر آتا تھا جس سے پانی کی موٹی دھار سڑک کے درمیان گرتی تھی۔ سبزہ زار میں جگہ جگہ بڑے بڑے پتھر موجود تھے۔ ہم نے اس سبزہ زار کے ساتھ ہی گاڑی روک دی۔ چشمےکے پانی سے لبریز جھیل دیکھتے ہی سب پرانی یادیں تازہ ہو گئیں ، مجھے وہ جگہ بھی یاد آگئی کہ جہاں پتھروں کے بیچ سے یہ چشمہ پھوٹتا تھا۔ اس جگہ کے قریب ہی ایک بڑے سے چٹان نما پتھر پرکہو اللہ لکھا ہوا تھا۔ دل تھا کہ بے اختیارسبحان اللہ کا ورد کرتا تھا جبکہ ان چٹیل چٹانوں کے درمیان سے پھوٹتا ٹھنڈے اور شفاف پانی کا یہ چشمہ کن فیکون کی گواہی دیتا تھا۔ ہم سفر اور میں چشمے کے منبع تک جا پہنچے۔ دس سال قبل ہماری تینوں بیٹیاں بھی اس حسین مقام پر ہمارے ساتھ تھیں۔ ہم نے جی بھر کریہ ٹھنڈا اورشفاف پانی پیا بھی اور ساتھ لائی ہوئی بوتل میں بھرا بھی۔ پھر جھیل کنارےکنارے آگے چلتے گئے۔ جھیل کے ساتھ ہی فش فارم کی عمارت موجود تھی لیکن وہاں تالا لگا تھا۔ ٹہلتےہوئے کچھ اور آگے بڑھے تو درختوں کے جھنڈ تلے سبزہ زار کے درمیان جھیل سے نکلنے والا چھوٹا سا خوبصورت نالہ بہتا ہوا گزرتا تھا۔ ہمارے آگے آنے والی پجیرو جیپ ایک جانب کھڑی تھی۔یہ جگہ غالباً اہل اسکردو کیلئے ایک تفریح گاہ کی حیثیت رکھتی تھی کیونکہ جیپ میں آنے والی فیملی نالے کے ساتھ اس سبزہ زار میں موجود تھی۔ ان کےساتھ آئے ہوئے بچے ادھر ادھر دوڑتے پھرتے تھے ، نالے میں نہاتے اور اٹھکیلیاں کرتے تھے۔ درختوں کےنیچے ایک دو بچھڑے بندھے تھے۔ میں نے اس فیملی کے ساتھ آئے ہوئے شخص سے سلام دعا کے ساتھ ساتھ پیارے سے بچھڑوں سے بھی خیریت دریافت کی۔ نالے کو پار کرنے کے لئے درخت کا ایک سوکھا تنا پل کا کام انجام دے رہا تھا۔


اسکردو شہر سے چشمے تک ۔۔  کچھ تصاویر چشمے کی قربت میں ۔۔۔



 شفاف پانی  کا چشمہ ان پتھروں کے درمیان سے پھوٹتا تھا ۔۔

  چشمے کے پانی سے بننے والی چھوٹی سی حسین جھیل 








  کچھ وقت اس سبزہ زار میں گزار کر ہم فش فارم کی طرف واپس ہوئے۔ فارم کے گرد خار دار تاروں کی باڑھ لگی تھی ۔ ہم اس باڑھ کے ساتھ ساتھ بنے راستے پر جھیل کی طرف جارہے تھے۔ باڑھ کے دوسری طرف جھیل سے نکلنے والا نالا بہتا نظر آتا تھا۔ اچانک ہماری نظر نالے کے شفاف پانی میں تیرتی مچھلیوں پر پڑی ، ہم کچھ دیر کے لئے تاروں کی باڑھ کے پاس رک کر ان کو دیکھنے لگے۔ شرمیلی مچھلیاں ہمیں دیکھ کر نالے میں موجودپودوں اور پتھروں میں چھپنے لگیں،ان کے غائب ہونے سے پہلے پہلے میں نے جلدی جلدی ان کی کچھ تصویریں بنالیں۔ نالے کے ساتھ ساتھ چلتے ہم دوبارہ جھیل تک پہنچے اور پھر واپسی کی راہ لی۔
   آسمان پر ہلکے بادل چھائےہوئے تھے جس کے باعث موسم خاصا خوشگوار ہو گیا تھا۔ اسکردو کے چشمے اور جھیل کنارے گزاری گئی یہ شام انتہائی دلکش اور یادگار تھی۔ مغرب سے پہلے ہی ہم اپنے ہوٹل پہنچ گئے۔اسکردو کی وادی میں ہمارے پہلے دن کی سیر اپنے اختتام کو پہنچ گئی تھی۔ اگلے روز صبح ہمارا ارادہ یہاں کی مشہور و معروف مصنوعی جنت شنگریلا اور اپر کچورا جھیل کی سیر کا تھا۔ شنگریلا تک تو ہم اپنی گاڑی میں بھی بآسانی جا سکتے تھے لیکن شنگریلا کے آگے اپر کچورا جھیل تک جانا جیپ کے بغیر ممکن نہ تھا۔چشمے کی سیر کے بعد ہوٹل میں داخل ہوتے وقت میں نے پارکنگ میں ایک جیپ کھڑی دیکھی تھی۔ ہم سفر کوکمرے میں چھوڑ کر میں فوراً ہی دوبارہ ڈائننگ ہال میں آیا جہاں ہوٹل کے ایک ملازم کے ہمراہ جیپ ڈرائیوربھی موجود تھا۔ معلوم ہوا کہ جیپ ہوٹل والوں کی ہی ہے۔ اور وہ ہوٹل میں ٹہرنے والے سیاحوں کو بازار میں موجود دیگر جیپ والوں کی نسبت رعائتی ریٹ پر اسکردو کےگرد وپیش کے تفریحی مقامات کی سیر کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ میں بہت خوش تھا کہ جیپ کی تلاش میں بازار میں بھٹکتے پھرنے کی زحمت سے بچ گیا۔ جیپ ڈرائیور نے بتایا کہ وہ شنگریلا اور اپر کچورا جھیل کے ساتھ ساتھ مزید آگے کچھ فاصلے پر واقع ژوق نالے تک بھی ہمیں لے جائے گا۔ ان تینوں مقامات کی سیر کے لئے اس کے بتائے گئے ریٹ بھی مناسب تھے۔ اپنے پچھلے دونوں سفروں کے دوران ہم ژوق نالے تک نہیں گئے تھے۔ وادی اسکردو میں ہمارے لئے یہ ایک نئے تفریحی مقام کا اضافہ تھا۔
  ہم اپنے کمرے میں آرام کرتے تھے کہ مغرب کے کچھ دیر بعد ہوٹل کے ملازم نے اطلاع دی کہ کوئی صاحب آپ سےملنے آئے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ قاسم نسیم ہوں گے۔ ان کے ہمراہ ڈائننگ ہال میں چائے پی۔ ان کا مجھ سے اس قدر تاخیر سے رابطہ کرنے کا سبب بھی معلوم ہوا کہ ان کے ایک بھائی کو چند روز قبل ہی دل کی شدید تکلیف کے باعث اسکردو سے راولپنڈی روانہ کیا گیا تھا جن کا وہاں فوری طور پر آپریشن کیا گیا تھا لیکن آپریشن کےبعد ان کی طبیعت پھر خراب ہوجانے کے باعث انہیں تشویشناک حالت میں دوبارہ انتہائی نگہداشت کے شعبےمیں داخل کیا گیا تھا۔ قاسم نسیم اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں بھی بھاگ دوڑ میں لگے ہوئےتھے۔ ان کا پورا خاندان قاسم نسیم کے بھائی کی اس تشویشناک حالت کے باعث پریشانی کا شکار تھا۔انہوں نے اگلے روز اپنے گھر رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ میں کسی طور یہ مناسب نہیں سمجھتا تھا کہ ان حالات میں وہ ہمارے لئے کسی دعوت کا اہتمام کریں۔ میں مسلسل انہیں منع کرتا تھا اور وہ اصرار پر اصرارکرتے تھے۔ ان کے جذبہ مہمان نوازی کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ مجھے ان کی یہ دعوت قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان کے جانے کے بعد میں دوبارہ کمرے میں آ گیا۔عشاء تک ہم نے اپنے کمرے میں ہی آرام کیا۔ اس سفر کے دوران اپنے روزانہ کے معمول کے مطابق میں نے دن بھرکے دوران کیمرے سے لی گئی تصاویر کو لیپ ٹاپ میں منتقل کرنے کا کام بھی انجام دیا۔ بعد ازاں واٹس ایپ پربچوں سے گپ شپ کے لئے ہم ڈائننگ ہال میں آ بیٹھے کہ ہوٹل کے وائی فائی کے سگنل وہاں زیادہ بہتر موصول ہوتے تھے۔ رات کا کھانا بھی ہم نے ڈائننگ ہال میں ہی کھایا جو انتہائی معیاری اور لذیذ تھا۔ کھانے کے بعد گاڑی میں بازار کا ایک چکر لگا یا اور جلد ہی ہوٹل واپس آکر اپنے کمرے کا رخ کیا۔
چشمے کے شفاف پانی میں اٹھکیلیاں کرتی مچھلیاں


چشمے سے ہوٹل واپسی پر راستے میں سڑک کنارے لگا بورڈ

 ڈائننگ ہال میں رات کا کھانا







No comments:

Post a Comment